حضرت خواجہ زین الدین شیرازی کی قرآن فہمی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-09-13

حضرت خواجہ زین الدین شیرازی کی قرآن فہمی

hazrat-khwaja-syed-zainuddin-shirazi

حضرت خواجہ زین الدین داؤد حسین شیرازی قدس اللہ سرہ العزیز، حضرت خواجہ برہان الدین غریب ہانسی قدس اللہ سرۂ وفات 13/صفر 738 مطابق 10/ ڈسمبر 1337ء کے جانشین رہے ہیں۔
دونوں کے مزار خلد آباد (اورنگ آباد) میں آمنے سامنے ہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر (وفات 28 / ذی قعدہ 1185 ھ مطابق 2/ مارچ 1707) کو ان کی وصییت کے مطابق حضرت زین الدین شیرازی کے قدموں میں دفن کیا گیا۔


حضرت خواجہ زین الدین شیرازی علم و فضل کے زیور سے آراستہ تھے، تفسیر حدیث، فقہ اور علوم معقول میں کامل دستگاہ رکھتے تھے اور اپنے زمانے کے ممتاز عالم دین تھے۔ زین الدین شیرازی کا اصل نام داؤد ہے۔ خواجہ برہان الدین غریب نے زین الدین کے لقب سے انہیں نوازا۔ یہ محمد تغلق کے زمانے میں دولت آباد آئے۔ آپ کے والد خواجہ حسینؒ اور چچا خواجہ عمرؒ بھی ان کے ساتھ دولت آباد آئے اور ان دونوں کا بھی یہیں انتقال ہوا۔
آپ کی ولادت باسعادت 701 ھ مطابق 1301ء میں شیراز ہی میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم آپ کے والد کی نگرانی میں شیرازی میں ہوئی پھر دہلی میں قیام کے دوران مولانا کمال الدین اور دوسرے علماء سے آپ نے علمی استفادہ کیا۔ علوم دینیہ سے فارغ ہونے پر ایک مسجد میں تفسیر ، حدیث ، فقہ وغیرہ کا درس دینے لگے۔


دولت آباد آنے پر خواجہ غریب سے بیعت ہوئے۔ محمد شاہ بہمنی (مدت حکومت 759ھ مطابق مطابق 1358ء تا 776ھ مطابق 1375ء) نے آپ کی تجویز پر دکن میں قوانین شریعت کا نفاذ کیا۔ اس نے اپنے دور میں شراب کشید، رہزنی ، جوا اور دوسرے جوائم پر سختی سے پابندی لگا دی تھی۔ آپ نے تجرد کی زندگی بسر کی اور 70/ سال کی عمر میں آپ نے انتقال فرمایا۔ اتوار کے دن 25/ ربیع الاول 771ھ مطابق 28 / اکتوبر 1669ء کو عصر کی نماز ادا کرتے ہوئے حالت سجدہ میں آپ کی روح قفصِ عنصری سے پرواز کرگئی۔
آپ نے ترکے میں دنیاوی ساز و سامان کچھ بھی نہ چھوڑ البتہ ایک کتب خانہ تھا جس کو اپنی زندگی ہی میں وقف کردیا تھا۔ امیر حسن دہلویِؒ نے آپ کی اجازت سے آپ کے ملفوظات جمع کئے تھے جس کا نام ہدایت القلوب رکھا جو کمیاب ہے البتہ اس کا اُردو ترجمہ رسالہ منادی میں کسی زمانے میں شائع ہوا تھا ان ملفوظات ،کے مطالعے سے آپ کے قرآن فہمی خاص ذوق کا اندازہ ہوتا ہے۔ اپنی مجلسوں میں وہ آیات قرآنی کا برمحل حوالہ دیتے تھے۔


حضرت زین الدین شیرازیؒ کی قرآن فہمی:

(1) ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ وقت کی قدر کرواسے ضائع نہ کرو آپ کے مرید امیر حسن نے عرض کیا کہ میں گھر بار چھوڑ کر کسی مسجد میں گوشہ نشین ہونا چاہتا ہوں۔ حضرت نے اسکی تائید نہیں کی اور فرمایا اصلِ کار یا دحق ہے کوئی مسجد میں رہ کر بھی ذکر اللہ سے غافل رہ سکتا ہے۔ اور کوئی تجارت کے دہندے میں رہتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کو نہیں بھولتا پھر آپ نے یہ آیت پڑھی۔
رجال لا تلھیھم تجاۃ ولا بیع عن ذکر اللہ، ( النور آیت 271)
ترجمہ :۔ یہ لوگ ایسے ہیں جنہیں تجارت اور خرید فروخت اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتی


(2) فرمایا اللہ نے انسان کو رنج اور سختی میں پیدا کیا ہے۔ لقد خلقنا الانسان فی کبد(البلد:4) ہم نے انسان کو رنج اور سختی میں پیدا کیا ہے۔ فرمایا جب تک آدمی عالم بشریت میں ہے خواہشوں میں گرفتار ہے۔ رنج اور سختی سے نجات ممکن نہیں ریاضت اور مجاہدے اُسے عالم بشریت سے نکال لیتے ہیں اور اسے رنج ومحنت سے نجات مل جاتی ہے۔


(3) ایک دن امیر حسن دہلویؒ نے کہا جب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں خود کو مسلمان پاتا ہوں یہاں سے باہر نکلتا ہوں اور کسی دوسرے شخص سے ملتا ہوں تو اس کے افعال اور اقوال کا اثر محسوس ہونے لگتا ہے اور دل دنیا کی طرف مائل ہونے لگتا ہے فرمایا وہ ابری نفسی ان الفنس لا مارۃ بالسوء ( یوسف :53) میں اپنے آپ کو گناہوں سے پاک رہوں گا ایسا نہیں سمجھتا کیونکہ نفس تو برائیوں پر اکسانے والا ہے۔ جب دو نفسِ امارہ ہوجائیں تو ایکدوسرے کی خواہش کی ابتاع کرنے لگتے ہیں۔ ارشاد خداوندی ہے۔
ان تطع اکثر من فی الارض، یضلوک عن سبیل اللہ( الانعام ، آیت 116) اگر تم روئے زمین پر بسنے والوں کی اکثریت کا کہنا ماننے لگو تو وہ سب تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکادیں گے۔
دوسر ں کے لئے بدرجہ اولیٰ امکان ہے کہ وہ اطاعت حق سے پھر جائیں۔


(4) ایک مجلس میں آپ نے یہ آیت پڑھی۔
لقد خلقنا الا نسان فی احسن تقویم۔ ثم رددنا ہ اسفل سافلین۔(التین آیت:5)
ہم نے انسان کی بہترین ساخت میں تخلیق کی ہے پھر اسے اسفل سافلین کی طرف لوٹا دیا۔ فرمایا : انسان کی روح کو اعلیٰ علیین سے اسفل سافلین کی طرف لایا گیا ہے اور اسے بشریت کے قفس میں بند کردیا گیا ہے۔ وہ روح ہر لحظہ تنگی محسوس کرتی ہے اور باہر نکلنا چاہتی ہے جیسے کوئی پرندہ پنجرے میں بند ہو اور چاروں ٹکر مار کر باہر نکلنے راہ تلاش کرتا ہو مگر راستہ نہ پاتا ہوا البتہ جس نے اسے پنجرے میں کیا ہے وہ نکلنے کا راستہ جانتا ہے۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ باہر نکال سکتا ہے۔


(5) فرمایا جو بھی آفت یہ تکلیف انسان کو پیش آتی ہے وہ آرزوؤں کے سبب سے ہوتی ہے۔ مثلاً کوئی اگر یہ آرزو کرے اچھا لباس پہنوں تو لا محالہ وہ حرام وحلال میں پڑے گا اور گدڑی پر قناعت نہیں کرے گا۔ اسی پر دوسری آرزوؤں کو قیاس کرنا چاہئے۔ شیطان کے لشکر میں شہوات ولذات شامل ہیں کوئی پیغمبر بھی اس کے ہاتھ سے بچ کر نکلا پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی۔
وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی الا اذا تمنی القی الشیطن فی امنیۃ :(الحج آیت 52)
اور اے محمد تم سے پہلے ہم نے کوئی رسول ایسا بھیجا نہ نبی جس کے ساتھ یہ معاملہ نہ پیش آیا ہو کہ جب اس نے تمنا کی شیطان اس کی تمنا میں خلل انداز ہو گیا اس طرح جو کچھ بھی شیطان خلل اندازیاں کرتا ہے اللہ انکو مٹا دیتا ہے اپنی آیات کو پختہ کردیتا ہے اللہ علیم اور حکیم ہے۔


(6) ایک محفل میں حضرت نے ارشاد فرمایا کہ ظاہری حسن تو یہ ہے کہ جسم کے سب اعضاء متناسب ہوں باطنی حسن میں اخلاق حمیدہ کا توازن دیکھا جاتا ہے۔
اب جو جمال باطن میں حصہ چاہتا ہو وہ پیغمبر ؐ کی پیروی کرے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرمایا ہے : قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ویغفرلکم ذنو بکم ( آل عمران آیت 31)
اے پیغمبر کہہ دیجے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہوتو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔


(7) فرمایا جب اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا علم حاصل ہوجائے وہ اللہ والا بن جاتا ہے اللہ کے علم سے جان لیتا ہے کہ کیا کرنا چاہئے اور ایسی باتیں کہتا ہے اور ایسے کام کرتا ہے کہ مخلوق حیران رہ جاتی ہے جب اس کے قول وفعل مخلوق کے علم وعقل میں نہیں سماتے تو وہ اسے گمراہ کہتے لگتے ہیں۔ کافر بتاتے ہیں جہالت اور حماقت سے منسوب کرتے ہیں اس بات تصدیق حضرت یعقوبؑ کے قصہ سے ہوتی ہے۔
ولما فصلت العیر قال ابوھم انی لا جدریع یوسف لولا ان تفندون( سورۂ یوسف آیت :94) " جب قافلہ ادھر سے روانہ ہوا تو ادھر ان کے ابا نے کہا مجھے یوسف کی مہک آرہی ہے اگر تم یہ نہ کہو کہ میں سٹھیا گیا ہوں، کارواں مصر سے باہر نکلا ہی تھا کہ حضرت یعقوب ؑ نے کنعان میں اسکی خبر دے دی۔ اس علم کا اللہ کی مخلوق کے علم اور عقل سے کیا تعلق ہے کسی بوڑھے آدمی سے یہ کیونکر ممکن ہے کہ اتنے فاصلے سے اس کی خوشبو سونگھ کر خبردے دے یہ بات ان کے علم اور عقل کے دائرے میں نہیں سماتی تو کہہ اٹھے : تا للہ انک فی ضلالک القدیم۔ خدا کی قسم آپ اپنی پرانی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔
"اور جب خوشخبری دینے والا آیا اور قمیص کو ان کے چہرے پر ڈالا تو ان کی بینائی واپس آگئی اور کہنے لگے کیا میں نہیں کہتا تھا کہ مجھے اللہ سے وہ علم ملا ہے جو تمہیں حاصل نہیں" (یوسف آیت :96)

***
Dr.Abdul Samad Nadvi
Head Dept of Arabic, Milliya Arts Science & Management Science College, Beed, M.S

Hazrat Khwaja Syed Zainuddin Shirazi. Essay: Dr. Abdul Samad Nadvi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں