سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ 'اسرائیل کے ساتھ معاملات قائم کرنے میں فلسطین کے مسئلہ کو حل کیا جانا اہم ہے۔'
بظاہر یہ ایک امید افزا پیش رفت معلوم ہوتی ہے۔ انہوں نے مذکورہ خیال ایک امریکی ٹیلیویزن چینل 'فاکس نیوز' کو انٹرویو دیتے ہوئے ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمارے لئے مسئلہ فلسطین آج بھی سب سے اہم ہے۔
اس سلسلہ میں متعدد رپورٹوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مسئلہ فلسطین کے حل کو محور بنا کر اسرائیل سے رشتوں کی استواری کی کوششیں کافی آگے بڑھ چکی ہیں۔ خود محمد بن سلمان نے اپنے اس انٹرویو میں کہا ہے کہ 'سعودی عرب' اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف مستقل آگے بڑھ رہا ہے۔
اسی انٹرویو میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ 'ہم ہر روز ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔' گزشتہ روز ہی اقوام متحدہ میں اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو نے بھی کہا ہے کہ 'ہم سعودی عرب کے ساتھ امن معاہدے کے بالکل قریب ہیں'۔
اسرائیل سے مراسم قائم کرنے کا سعودی عرب کا فیصلہ کسی بھی دوسرے ملک کی طرح اس ملک کے اقتدار اعلی کا اپنا فیصلہ ہے۔ لیکن مسئلہ فلسطین کے تناظر میں دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ مراسم کی حساسیت اس لئے اہم ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان حرمین شریفین کے حوالہ سے سعودی عرب سے ایک خصوصی جذباتی تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے ماضی میں جب بھی اس طرح کی خبریں آئیں کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان خاموش اور خفیہ تعلقات ہیں تو دنیا بھر کے مسلمانوں نے اور خاص طور پر برصغیر کے مسلمانوں نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔
حکومت سعودی عرب کی طرف سے ایسی خبروں کی سرکاری طور پر کبھی نہ تصدیق کی گئی اور نہ تردید۔گزشتہ تین دہائیوں کی صحافت کے سفر کے دوران میں نے متعدد مرتبہ یہ جائزہ لینے کی کوشش کی کہ آخر وہ کون سے راستے یا پگڈنڈیاں ہیں جن پر سعودی عرب اور اسرائیل رات کی تاریکی میں خاموشی سے آکر ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ مجھے اس طرح کے مراسم کا کوئی سراغ بہر حال نہیں ملا۔ اس تناظر میں ولی عہد محمد بن سلمان کا متذکرہ بالا انکشاف انتہائی اہم ہوگیاہے۔
سعودی عرب ان مسلم ممالک کی صف اول میں سب سے اوپر رہا ہے جو اہل فلسطین کو نہ صرف اخلاقی بلکہ مادی تعاون بھی دیتے رہے ہیں۔ 2016 میں سعودی عرب نے اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے راحت رسانی (فلسطین) کی معرفت اہل فلسطین کو 148ملین ڈالر کی مدد دی تھی۔
عالمی پیمانے پر بھی اس سلسلہ میں سعوی عرب دوسرے نمبر پر ہے۔ پہلے نمبر پر امریکہ ہے جس نے 2016 میں 368 ملین ڈالر دئے تھے۔ 2016 میں ہی شاہ سلمان نے ایک طرف جہاں پوری دنیا سے ایک ہزار ممتاز افراد کو شاہی دعوت پر سفر حج کرایا تھا وہیں فلسطین سے بھی ایک ہزار عام فلسطینیوں کو شاہی دعوت پر حج کرایا تھا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
سعودی عرب میں ہزاروں فلسطینی کام کر رہے ہیں۔ جبکہ 16 جون 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق وہاں ایک لاکھ 29 ہزار 900 فلسطینی پناہ گزین پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ مئی 2023 کی اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر 59 لاکھ فلسطینی پناہ گزیں پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔
2021 میں فلسطین کو دی جانے والی سعودی امداد روک دی گئی تھی۔ وال اسٹریٹ جنرل کی ایک رپورٹ کے مطابق 19 مئی 2023 کو جدہ میں عرب سربراہ کانفرنس کے موقع پر محمد بن سلمان نے فلسطین اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے ملاقات کے دوران سعودی امداد دوبارہ شروع کرنے کی پیشکش کی ہے۔ لیکن یہ پیشکش غیر مشروط نہیں ہے۔
محمد بن سلمان کے کام کرنے کے طریقہ سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہوگا کہ وہ اپنے ان عزائم اور منصوبوں کو چھپاتے نہیں ہیں جنہیں روایتی طور پر ظاہر کرنے میں تکلف کیا جاتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر امریکی چینل 'فاکس نیوز' کو دیا گیا وہ انٹرویو پیش کیا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے اسرائیل سے روز افزوں قربت آمیز گفتگو کا ذکر کیا ہے۔ لیکن انہوں نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اسرائیل سے مراسم کی استواری، مسئلہ فلسطین کے خوشگوار حل سے مشروط ہے۔
یعنی اگر اہل فلسطین کیلئے کوئی باوقار زندگی گزارنے کا معقول اور قابل قبول حل نکلتا ہے تو سعودی عرب کو اسرائیل سے مراسم کی استواری میں کوئی تکلف نہیں ہے۔ اسی لئے انہوں نے فلسطین اتھارٹی کے صدر محمود عباس کو بھی مشروط مالی مدد کی پیشکش کی ہے۔ شرط یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرکے حالات کو معمول پر لانے کا کوئی معاہدہ کرلے۔ کہا جاتا ہے کہ فلسطینی حکام اب اس پیشکش پر سنجیدگی اور سرعت کے ساتھ غور و خوض کر رہے ہیں اور سینئر حکام اور وزراء پر مشتمل ایک فلسطینی وفد سعودی عرب کا دورہ بھی کرچکا ہے۔
مختلف رپورٹوں اور تجزیوں کا جائزہ بتاتا ہے کہ اپنے ملک کو ترقی کی بلندیوں پر لے جانے کیلئے محمد بن سلمان نے جو 'وژن 2030' ترتیب دیا ہے اس میں مسئلہ فلسطین کا حل بھی شامل ہے۔ اس وژن کے تحت پورے ملک میں،ہرشعبہ زندگی میں جنگی پیمانے پر کام ہورہا ہے۔
فاکس نیوزکے جس صحافی 'بریٹ بیئر' نے محمد بن سلمان کا مذکورہ بالا انٹرویو کیا ہے اس نے سعودی عرب میں رہ کر سرکاری حکام اور وزراء کے انٹرویو بھی کئے ہیں۔ اس نے اپنے چینل کو اپنے تجربات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ" میں نے سعودی عرب میں ایسی تیز رفتار، ایسی شدت اور بڑے پیمانے کی بنیادی مثبت تبدیلیاں دیکھی ہیں جو ماڈرن عہد کے کسی ملک نے نہیں دیکھی ہوں گی۔" بریٹ بیئر کا یہ تبصرہ یہ سمجھنے کیلئے کافی ہے کہ اس وقت سعوی عرب میں 'وژن 2030' کوحقیقت کا جامہ پہنانے کیلئے کس پیمانے پر کام ہورہا ہے۔
یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ ایک تھوڑے سے وقفہ کیلئے حکومت سعودی عرب نے فلسطین کی مالی مدد روک کر شکوک و شبہات قائم کردئے تھے۔ مبصرین نے اس سے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ سعودی عرب نے اپنی دہائیوں پرانی پالیسی کو تبدیل کرلیا ہے اور اس نے فلسطین کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔ اب شایدمحمد بن سلمان نے مذکورہ بیانات اور اقدامات سے ناقدین کو جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ 'اسرائیل کے ساتھ معاملات قائم کرنے میں فلسطین کے مسئلہ کو حل کیا جانا اہم ہے' بجائے خود بہت اہم ہے۔
ہمیں یہ نتیجہ نکالنے کی عجلت نہیں ہے کہ سعودی عرب، اسرائیل سے تعلقات کی استواری محض مسئلہ فلسطین کی وجہ سے کرنا چاہتا ہے، تاہم یہ نتیجہ نکالنا غیر مناسب نہیں ہوگا کہ اس سمت میں سعودی عرب کے اقدامات جرات مندانہ اور تاریخی ہیں۔ کوئی ان اقدامات سے متفق ہو یا نہ ہو لیکن یہ بات تو اہم ہے کہ مسئلہ فلسطین کے کسی پائیدار حل کیلئے کوئی ملک اپنی معتبریت کو دائو پر لگا رہا ہے۔
اس سلسلہ کی رپورٹوں کا مطالعہ یہ بھی بتاتا ہے کہ مذکورہ کوشش میں محمد بن سلمان یا سعودی عرب تنہا نہیں ہے۔ اس میں تین بڑے ممالک،امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل تو شامل ہیں ہی، خود فلسطین کو بھی اس میں شامل رکھا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی حل فلسطینی عوام کی خواہشات اور امنگوں کے خلاف جاکر نہیں کیا جاسکتا۔
سچی بات تو یہ ہے کہ فلسطینی عوام دوہرے ظلم کی چکی میں اتنے پس چکے ہیں کہ اب ان کے اندر خواہشوں اور امنگوں جیسے جذبات سلامت نہیں رہے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ حل کے نام پر انہیں اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ مکار اور شرپسند یہودی آبادکار اور شیطان صفت اسرائیلی فورسز مسلسل مظلوم فلسطینی عوام کی زندگی کو اجیرن بنائے ہوئے ہیں۔ فوری طور پر انہیں اس جبر و استبداد والی زندگی سے محفوظ کرنا ضروری ہے۔
اب شاید ان جذباتی اور غیر حقیقی نعروں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی ہے کہ 'اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹاکر ہی دم لیں گے۔' اسرائیل دہائیوں سے عربوں کے درمیان گھرا ہونے کے باوجود ہر میدان میں ترقی کرتا جارہا ہے اور اس کی دیوار سے ملے ہوئے فلسطین میں لوگ قابل رحم حالت میں پہنچ چکے ہیں۔ پچاس سے زائد عرب اور مسلم ممالک اسرائیل کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکے ہیں۔ دوسری طرف فلسطینیوں کو بھی وہ کوئی تحفظ فراہم نہیں کراسکے ہیں۔ ایسے میں سوال یہی ہے کہ آخر کب تک ان مظلوموں کی زندگی اسرائیل کے صفحہ ہستی سے مٹنے کا انتظار کرتی رہے گی؟
محمد بن سلمان کی اس کوشش میں جو بائیڈن بھی پوری دلچسپی لے رہے ہیں۔ خود اسرائیل کے انتہا پسند وزیر اعظم کا لہجہ نرمی کی طرف مائل ہے۔ اگست 2023 میں سیاشل سے تل ابیب جانے والے ایک اسرائیلی طیارہ میں اچانک خرابی آگئی تھی۔ اس میں 128 اسرائیلی سوار تھے۔پائلٹ نے رابطہ کیا تو اسے جدہ ایرپورٹ پر ہنگامی لینڈنگ کرنے کی اجازت دیدی گئی۔ اسرائیلی مسافروں نے پوری رات ایرپورٹ کے ہوٹل میں گزاری اور اگلی صبح وہ تل ابیب پہنچے۔
29 اگست 2023 کو اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو نے ہبرو (عبرانی) زبان میں ایک ویڈیو ریکارڈ کرکے حکومت سعودی عرب کی اس خیرسگالی کا شکریہ ادا کیا۔ اس ویڈیو کے سب ٹائٹل میں عربی میں بھی ترجمہ دیا گیا تھا۔ نتن یاہو نے کہاکہ 'ایسے وقت میں جب ان کا جہاز مشکل میں تھا میں اسرائیلی مسافروں کے ساتھ سعودی حکام کے گرم جوشی والے رویہ کی ستائش کرتا ہوں'۔انہوں نے اپنے پیچھے لٹکے ہوئے سعودی عرب کے نقشہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ 'ہمارا اچھا پڑوسی قابل ستائش ہے'۔
رپورٹوں کے مطابق سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ اس 'فضائی خیرسگالی' کی ابتدا در اصل جولائی 2022 میں اس وقت ہوگئی تھی جب جوبائیڈن کے دورہ سعودی عرب کے دوران حکومت سعودی عرب نے اپنی فضائوں سے اسرائیل کے مسافر بردار طیاروں کے گزرنے پر عاید پابندی کو اٹھالیا تھا۔
ان 128 مسافروں کا مجموعی ردعمل بھی اہم ہے جنہوں نے تل ابیب کے بن گورین انٹرنیشنل ایرپورٹ پر پہنچ کر کہاکہ 'جدہ میں ہمیں ایک خوشگوارخیر مقدم کا احساس ہوا' یہاں تک کہ 'بعض سعودیوں نے "ہبرو" زبان میں ہمارا استقبال کیا'۔ روزنامہ 'ٹائمز آف اسرائیل' نے ایمانوئیل اربل نامی ایک یہودی مسافر کا یہ ردعمل نقل کیا کہ "سعودیوں کی طرف سے ہمارا خیر مقدم حیران کن تھا، انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ کا خیر مقدم ہے، سچی بات یہ ہے کہ ہمیں ان سے اس شاندار رویہ کی امید نہیں تھی۔"
ان سطور میں اس موضوع کے دوسرے پہلوئوں کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ تاہم بیشتر عالمی مبصرین کی رائے ہے کہ سفارتی مراسم نہ ہونے کے باوجود اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان قربت بڑھنے کا سبب ان دونوں کی وہ مشترکہ تشویش ہے جو ایران کے اس خطہ میں روز افزوں اثر کے سبب پیدا ہوئی تھی۔
یہ محمد بن سلمان کی مقناطیسی شخصیت کا ہی اثر تھا کہ ایران کی ہی وجہ سے اسرائیل سے اتنی قربت کے باوجود سعودی عرب' ایران سے سفارتی اور تجارتی مراسم کی تجدید میں کامیاب رہا۔ اب دونوں ممالک نے تہران اور ریاض میں اپنے اپنے سفارتخانے کھول کر کام بھی شروع کردیا ہے۔ محمد بن سلمان نے اپنے مذکورہ انٹرویو میں یہ بھی کہا ہے کہ اگر ایران نے نیوکلیر قوت حاصل کی تو ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ اس عمل میں ان کا ساتھ جو بائیڈن بھی دے رہے ہیں اور شاید اب نتن یاہو بھی ان کا ساتھ دیں۔
بہرحال، ابھی تو ہماری دلچسپی مسئلہ فلسطین کے حل میں ہے۔ محمد بن سلمان نے اپنے طرز عمل سے ثابت کردیا ہے کہ وہ سیاسی قوت ارادی کے حامل مضبوط اعصاب والے حکمراں ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ ان کی یہ جرات مندی اہل فلسطین کو کرب و بلا سے آزاد کرانے میں کب کامیاب ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔
(بشکریہ: کالم ردعمل / روزنامہ انقلاب / 24 ستمبر 2023ء)
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں