اسرائیل کا شکریہ - کالم از ودود ساجد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-07-16

اسرائیل کا شکریہ - کالم از ودود ساجد

quran-burning-sweden-israel-pm-condemn

دنیا کے کسی بھی انصاف پسند انسان سے پوچھا جائے کہ کیا وہ اسرائیل کی ستائش کرنا پسند کرے گا تو یقیناً اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ لیکن ایک عنصر ایسا ہے کہ جس کیلئے اسرائیل کی ستائش نہ کرنا مناسب نہ ہوگا۔


سویڈن کے اسٹاک ہوم میں اظہار رائے کی آزادی کے نام پر دنیا بھر کے مسلمانوں کو جو ناقابل بیان تکلیف پہنچائی گئی ہے اس کا ازالہ کسی بھی صورت ممکن نظر نہیں آتا۔ لیکن اسرائیل کے صدراسحاق ہرزوگ نے قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کرکے دل کے غم کوکچھ ہلکا کیاہے۔ ایک دشمن کی شیطانیت کے خلاف دوسرے دشمن کے منہ سے دو بول نکل جائیں تو اطمینان قلبی حاصل ہوتا ہے۔


میں اپنے اندر اس طرح کے واقعات کو بیان کرنے کی سکت نہیں پاتا۔ ان واقعات کے رونما ہونے سے جو تکلیف پہنچتی ہے اس سے زیادہ تکلیف ان واقعات کو بیان کرنے سے ہوتی ہے۔ عراق کے اس شیطان اور انتہاپسند عیسائی'سلوان مومک' نے جو حرکت سویڈن میں کی تھی غلطی سے اس کی ویڈیو کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھنے کے بعد کئی راتوں تک نیند نہیں آئی۔ اس حرکت میں اس کے ساتھ ایک شیطان اور تھا۔ یہ دونوں درجنوں مسلمانوں کے سامنے الله کے اس مقدس کلام کے ساتھ فٹ بال کا کھیل کھیل رہے تھے۔ اس سے زائد نہ دیکھنے کی ہمت اُس وقت ہوئی اور نہ اس سے زائدکچھ بیان کرنے کی ہمت اِس وقت ہے۔


سویڈن کے مسلمانوں نے جس مثالی احتجاج اورضبط کا مظاہرہ کیا اس نے پوری دنیا پرخوشگوار تاثر چھوڑا ہے۔خود سویڈن کے سینکڑوں عیسائی شہریوں نے سویڈن کے مسلمانوں کے ذریعہ قرآن ہاتھ میں لے کر عوامی طور پر تلاوت کرکے اپنے رنج کا اظہار کرنے کے طریقہ کی ستائش کی ہے۔ سوشل میڈیا پر سویڈن کے عیسائی شہریوں نے اس مظاہرہ کو مہذب دنیا کا سب سے خوبصورت ترین پُرامن مظاہرہ قرار دیتے ہوئے قرآن کی بے حرمتی پر شدید غصہ کا اظہار کیا ہے۔


سعودی فرماں روا شاہ سلمان نے کہا ہے کہ قرآن کی بے حرمتی کا کوئی بھی جواز ناقابل قبول ہے۔عالم اسلام نے بجا طور پر سویڈن حکومت کے خلاف سفارتی سطح پر اظہار ناگواری کیا۔ عراق، مصر، کویت، اردن اور یمن نے سخت مذمتی بیانات جاری کئے۔ مراکش اورمتحدہ عرب امارات نے سویڈن میں متعین اپنے سفیروں کو واپس بلالیا۔ خلیج تعاون کونسل اور مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے بھی سخت بیانات جاری کئے۔ایران نے اعلان کیا کہ وہ سویڈن میں اپنا نو منتخب سفیر نہیں بھیجے گا۔


یکم جولائی کو روس کے صدر پوتن نے بھی اس واقعہ کی سخت مذمت کی۔انہوں نے داغستان کا سفر کیا اور دورینت کی سب سے قدیم مسجد میں جاکر قرآن کو سینے سے لگایا۔انہوں نے کہا کہ اگر یہ واقعہ روس میں ہوا ہوتا تو مرتکبین کو سخت سزا دی جاتی۔ یوروپی یونین نے بھی اس واقعہ کی سخت مذمت کی۔


سویڈن میں اسرائیل کے سفیر 'زیو نیوو کلمین' نے 6 جولائی کو سخت بیان جاری کیا۔ انہوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ "مجھے مضطرب کردینے والی مایوسی ہے، میں سویڈن میں مقدس کتابوں کے مزید جلائے جانے کے امکان سے حیران اور خوفزدہ ہوں،چاہے وہ قرآن ہو، تورات ہو یا کوئی اور مقدس کتاب، یہ واضح طور پر نفرت انگیز کارروائی ہے اور اسے روکنا ضروری ہے۔"


واضح رہے کہ اس عراقی شیطان کے بعد سویڈن حکومت کو مزید کئی درخواستیں موصول ہوئی ہیں جن میں نہ صرف قرآن پاک بلکہ تورات اور انجیل وغیرہ کے تعلق سے بھی ایسا ہی مطالبہ کیا گیا ہے۔


اپنے سفیر کے بیان کے بعد اسرائیل کے صدر اسحاق ہرزوگ نے 9 جولائی کو ایک پروگرام میں تقریر کرتے ہوئے مذہبی اقلیتوں پر حملوں اور خاص طور پر سویڈن میں قرآن پاک کو جلانے کے واقعہ پر سخت تشویش کا اظہارکیا۔


اسرائیل کے کثیرالاشاعت انگریزی روزنامہ 'دی یروشلم پوسٹ' نے لکھا کہ صدر کے ذریعہ قرآن کی بے حرمتی کی شدید مذمت صورتحال کی سنگینی کی عکاسی کرتی ہے اور اس امر کی متقاضی ہے کہ مذہبی اقلیتوں اور ان کے مقدس صحیفوں کے تحفظ کیلئے فوری اقدام کئے جائیں۔ اخبار نے کہا کہ یہ صدر کی بہت 'پاورفل' تقریر تھی۔ اسرائیل کے صدر نے یہ تقریر دراصل سیاسی صہیونیت کی عالمی تحریک کے بانی 'تھیوڈور ہرزل' کی یاد میں منعقد ایک تقریب میں کی۔


انہوں نے قرآن کی بے حرمتی کی مذمت کرتے ہوئے مرتکبین کے خلاف سخت اور موثر ایکشن لینے کا بھی مطالبہ کیا۔انہوں نے واضح طور پر کہا کہ: "ہم سویڈن میں ہونے والے اس شرمناک عمل پر خاموش نہیں رہ سکتے۔ میں اس شرمناک عمل کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ قرآن ہمارے بہن بھائیوں، اور ابراہیم کی اس اولاد کیلئے انتہائی مقدس ہے جو ایک خدا پر ایمان رکھتی ہے۔"


اقوام متحدہ میں او آئی سی کی طرف سے پاکستان نے اسلاموفوبیا کے خلاف قرارداد پیش کی جسے اکثریت کے ساتھ منظور کرلیا گیا۔ سب سے بہتر، مضبوط اور واضح بیان اسرائیل کے صدر کا ہے۔ عام طور پر اسرائیل دوسرے ملکوں میں ہونے والے اس طرح کے واقعات پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کرتا۔ شاید اسرائیل کے سب سے بڑے عہدیدار کی طرف سے آنے والا اپنی نوعیت کا یہ پہلا بیان ہے۔


ان کے اس مختصربیان میں کئی عناصر موجود ہیں۔ اس واقعہ کی سخت مذمت بھی ہے اور مرتکبین کے خلاف سخت ایکشن کا مطالبہ بھی۔ اسی طرح انہوں نے واضح انداز میں یہ کہہ کر کہ'ہم سویڈن میں رونما ہونے والے اس واقعہ پر خاموش نہیں رہ سکتے' اس واقعہ کی سنگینی کے خلاف ایک بہت بڑا سفارتی پیغام دیا ہے۔ اس بیان کا چوتھا عنصر سب سے اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ "قرآن ہمارے بہن بھائیوں اور (حضرت) ابراہیم کی اس اولاد کیلئے انتہائی مقدس ہے جو ایک خدا پر ایمان رکھتی ہے۔


واقعہ یہ ہے کہ اسرائیل کے صدر کے بیان کا یہ آخری حصہ ہی وہ عنصرہے جس کا بالواسطہ ذکر قرآن میں بھی ہے۔ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 64 میں فرمایا گیا ہے کہ: اے الله کے رسول ﷺ آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب آؤایک ایسے کلمہ کی طرف جو تمہارے اور ہمارے درمیان برابر (مشترک) ہے، یہ کہ ہم الله کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں وغیرہ"۔
اسرائیل کے صدر کے اس بیان کی اہمیت ایک اور وجہ سے بھی ہے۔ انہوں نے یہ بیان ایک ایسے تاریخی شخص کی یاد میں منعقد پروگرام میں دیا جو فی الواقع اسرائیل کے غاصبانہ اور ظالمانہ وجود کے تصور کا بانی ہے۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں ہے لیکن اتنا جاننا ضروری ہے کہ 'تھیوڈور ہرزل' ہی نے اس وقت صہیونیت کی عالمی سیاسی تحریک کی داغ بیل ڈالی جب مورخین کے دعوے کے مطابق خود اسے 19ویں صدی کے اواخر میں پہلے بداپیسٹ، پھر ویانا اور پھر فرانس میں یہودی ہونے کے سبب امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔


جس شخصیت نے اسرائیل کے تصور کو سیاسی وجود بخشا اس کی یاد میں منعقد پروگرام میں اسرائیل کے موجودہ صدر کا ایسا بیان بذات خود اہمیت کا حامل ہے۔ یہ بیان اس لئے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ جون 2023 میں فلسطین کے شہر نابلوس کے ایک گاؤں میں ایک نوآبادکار بدمعاش یہودی نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی تھی۔


یہ ذہن نشین رہنا چاہئے کہ یہ بیان، فلسطینیوں پر برپا کئے جانے والے مظالم کی شدت کو ہلکا نہیں کرسکتا۔ وہ موضوع اپنی جگہ، فلسطینیوں کا درد ہمیں اس وقت تک ستاتا رہے گا جب تک ان کی اپنی خواہش کے مطابق مسئلہ کا حل نہیں نکل آئے گا۔ لیکن یہ کام عالم اسلام اور خاص طور پر عالم عرب کے سوا کوئی اور نہیں کرسکتا۔کیونکہ اس پر عرب ملکوں کی ہی ناراضی یاخوشی کا اثر پڑے گا۔


میرا یہ موقف بلا سبب نہیں ہے۔ عالمی اقتصادیات سے متعلق درجنوں تفصیلی رپورٹوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اسرائیل کی معاشیات کا بڑا حصہ بعض خلیجی ملکوں کے ساتھ تجارتی رشتوں پر ٹکا ہوا ہے۔ ماہرین اقتصادیات کا تجزیہ ہے کہ بیشتر عرب ممالک بالواسطہ طور پر اسرائیل کی مصنوعات سے فیض اٹھا رہے ہیں اور اس کے عوض اسرائیل کوبھاری رقم ادا کر رہے ہیں۔


2 جولائی 2022 کو کیمبرج، مشرق وسطی اور شمالی افریقہ فورم کے میگزین 'منارہ' میں'لدمیلا سمرسکیا' کی قیادت میں ایک ٹیم نے ایک تحقیقی مقالہ لکھا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ 15ستمبر 2020 کو اسرائیل اور خلیج کے درمیان ہونے والے 'معاہدہ ابراہیمی' سے اسرائیل کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے۔ معاہدہ سے پہلے بھی اسرائیل اور خلیج کے درمیان معاشی مراسم قائم تھے لیکن اس معاہدہ کے بعد تو انقلابی تبدیلی آئی ہے۔


اس تحقیقی مقالہ کا نچوڑ یہ ہے کہ اسرائیل کو صرف معاشی واقتصادی فائدہ ہی نہیں ہوا ہے بلکہ وہ متحدہ عرب امارات اور بحرین اور سوڈان میں اپنے خلاف انحرافی رویہ کو بھی بدلنے میں کامیاب ہوا ہے۔ ان تینوں ملکوں کی معرفت خلیج کے کم و بیش تمام ممالک اس معاہدہ کے ثمرات سے فیض اٹھارہے ہیں۔ اسرائیل کے ہتھیاراور دیگر مصنوعات متحدہ عرب امارات اور بحرین کو درآمد ہورہی ہیں اور ان ممالک کی مصنوعات اسرائیل کو برآمد ہورہی ہیں۔


اسرائیل میں چھوٹے پیمانے کی 90 فیصد انڈسٹری ہے اور اس انڈسٹری کو خلیج بڑے پیمانے پر زندگی بخش رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق اس معاہدہ کے بعد اسرائیل اور خلیج کے درمیان کئی گنا تجارت کا اضافہ ہوا ہے۔ 2020 میں اسرائیل نے خلیج کو 50.8 بلین ڈالر کا ایکسپورٹ کیا تھا جبکہ 2021 میں 60 بلین ڈالر کا ایکسپورٹ ہوا۔


اب اسرائیل کو عرب ممالک سے پہلے جیسے خطرات نہیں رہے۔ خانماں برباد فلسطینیوں کو اسرائیل نے حسب خواہش محصور کرکے رکھ دیاہے۔ ان کی زندگی کے پھیلاؤ کا دائرہ تنگ سے تنگ ہوگیا ہے جبکہ خلیج اور اسرائیل کے تجارتی، سفارتی اور ثقافتی مراسم کا دائرہ مزید وسیع ہوتا جارہا ہے۔یہاں تک کہ ترکی نے بھی سویڈن کو معاف کرکے ناٹو میں اس کی شمولیت کا راستہ صاف کردیا ہے۔اس کے بدلے میں کناڈا نے ترکی کو بہت سے فائدوں میں شامل کرلیا ہے۔
ہمیں فلسطینیوں کا دکھ تھا، ہے، اور مسئلہ کے حل تک رہے گا۔ لیکن قرآن کی بے حرمتی کے دکھ سے اس کا کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا اگر اسرائیل نے قرآن کی بے حرمتی پر دکھ اور غصہ ظاہر کیاہے تو اس کی ستائش کی جانی چاہئے۔عالم اسلام اس موقع کو فلسطینیوں کے مسئلہ کو ہمیشہ کیلئے حل کرانے کیلئے استعمال کرسکتا ہے۔


یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فلسطینیوں کو 'بائی پاس' کرکے اسرائیل سے سبھی نے اپنے رشتے اچھے کرلئے ہیں۔ سب اس کی شاندار زرعی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔ چونکہ ان سطور کا محور قرآن پاک کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ہے لہذا یہاں یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ اپنی تمام تر ہیبت ناکیوں کے باوجود اسرائیل نے سرکاری طور پر کبھی قرآن پاک کی بے حرمتی نہیں کی ہے۔


ایسی متعدد ویڈیوز موجود ہیں جب بیت المقدس میں کارروائی کے دوران احاطہ میں بیٹھا ہوا تنہا ایک شخص قرآن پڑھ رہا ہے مگر اسے پولیس نہیں ہٹا رہی ہے، اس کے اردگرد سیکیورٹی والے اس کے قرآن پڑھ کر اٹھ جانے کا انتظار کر رہے ہیں اور وہ انتہائی آرام سے بلند آواز میں قرآن پڑھ رہا ہے۔۔۔

***
(بشکریہ: کالم ردعمل / روزنامہ انقلاب / 16 جولائی 2023ء)
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد

Thanks to Israel. - Column: M. Wadood Sajid.
Israel's president Isaac Herzog condemns Quran burning in Sweden

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں