فرانس انتشار کے دہانے پر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-07-13

فرانس انتشار کے دہانے پر

france-on-brink-of-anarchy

فرانس میں پرتشدد مظاہرےعام ہوچکے ہیں ،مستقبل قریب میں ان کے رکنے کا امکان بھی نہیں ہے۔خوف و ہراس کا ماحول ایک جگہ سے دوسری جگہ شکل بدل بدل کر نمودار ہورہا ہے۔ مظاہرین انصاف کا مطالبہ کر رہیں ہیں نہ کہ اس بات کا کہ ان کی مانگیں ٹھنڈے بستے میں ڈال دی جائیں۔ 2017 کے بعد سے، فرانسیسی پولیس کو عوام کی خدمت کے نام پر بہت زیادہ عسکری بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے سیکولر جمہوریت خوف و ہراس کی جمہوریت میں تبدیل ہو کر رہ گئی ہے، کم از کم غیر سفید فام لوگوں کے لئے۔ 17 سالہ سیاہ فام افریقی نوجوان ، نہال ایم کا تعلق پیرس کے مغرب میں نانترے قصبے سے تھا۔ وہ تنہا ماں اکلوتا بچہ رگبی کا شوقین تھا،اس کا ماضی ہر قسم کی مجرمانہ آلائش سے پاک تھا۔یہ واقعہ جارج فلائیڈ والے اس واقعے کے مثل ہے جس نے پورے امریکہ میں سیاہ فام شہریوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے ہنگامہ برپا کردیا تھا۔


لیکن بِھیڑ کے ذریعے سے پرتشدد مظاہروں کے واقعات کھانے پینے کی جگہوں کو لوٹنے سے لے کر یامہا موٹر سائیکلوں تک اور لائبریریوں کو جلانے تک کے واقعات نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کر لی ہے۔ جذباتیت سے قطع نظر ، یہ احتجاج کے اظہار کے معنی پر ایک اورحملہ ہےاجو اس طرح کے واقعات کے بار بار دہرائے جانے کے امکان پیدا کرتاہے۔ بعض اوقات، احتجاج عقل کی کسوٹی پر پورے نہیں اترتے اور اس کی مرکزی تشویش اس بار پر ہوتی ہے کہ نام نہاد مہذب دنیا میں مظاہرین کو انسانیت کے زمرے سے نکال دیا گیا ہے۔ فرانس یقینی طور پر ایک چوراہے پر ہے ، اس کا نوآبادیاتی ماضی اس کی موجودہ پالیسیوں کاشکار ہے اور اپنے ان شہریوں کو ضم کرنے میں ناکام رہا ہے جو تارکین وطن تھے اور کبھی فرانسیسی نوآبادیات کا شکار رہے تھے۔ احتجاج فرانسیسی جمہوریت کی ایک گہری خصوصیت رہی ہے اور دنیا بھر میں ہونے والی زیادہ تر سماجی تحریکیں اور مظاہروں کی نوعیت 1968 کی نئی سماجی تحریکوں سے اپنی فکراور اظہار کو کشید کرتی رہیں ہیں۔


احتجاج کا بنیادی سوال ریاست کو اس دائرہ میں لانا ہے جہاں لوگوں اہمیت رکھتے ہیں، چاہے وہ مطلق العنان حکومتوں کے تحت ہوں یا جمہوریتوں کے تحت۔ الزامات اور شکایتوں کی ثقافتی پیداوار مظاہروں کے اجتماعی معنی کی نشاندہی کرتی ہے اور فرانس اس طرح کے احتجاجی کلچر کی پہچان رہا ہے۔ فرق صرف بھیڑ کا ہے جس نے اپنے ہی ملک کی گلیوں میں انتشار برپا کیا ہے اور احتجاج سے منسلک قدر کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے بجائے یہ ساختیاتی مسئلے کو گہرا کرتا ہے اور نسل پرستی ، غیر انسانی اور انضمام کے لیے سیاسی عزم کی کمی کے سوال کو بے معنی کر دیتا ہے۔


حالیہ تاریخ میں فرانس نے اس طرح کے بے شمار واقعات دیکھے ہیں۔ حجاب کے مسئلہ ، چارلی ہیبدو کا واقعہ اور اس کے نتیجے ، لون ولوفز کے چاقو کے حملوں، اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مبینہ الزامات پر اساتذہ کے قتل نے اس سے قبل فرانسیسی حکومت اور اس کے جارحانہ سیکولر بیانیے کو چیلنج کیا ہے۔2005 میں ،اسی طرح کے واقعات نے فرانسیسی ریاست کو قومی ایمرجنسی کا مطالبہ کرنے پر مجبور کیا اور حالیہ واقعات میں ، چاہے وہ یَلو ویسٹ تحریک ہو یا یونینوں اور دیگر متعلقہ اداروں کی جانب سے پنشن سے متعلق بلوں کو ماورائے آئینی طریقہ کار کے ذریعے منظور کرنے پر ملک گیر ہڑتالیں ہوں۔ مختلف مظاہروں کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں اور بعض اوقات شدید پرتشدد ہونے کے باوجود ، سیاہ فام عوام کا کوریج اور ان کی عرب شناخت ایک فرقہ وارانہ لب و لہجہ عطا کرتی ہے جسے 'مسلم واقعہ' کہا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی مضحکہ خیز باتیں اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتیں کہ فرانس میں سماجی ، اقتصادی اور سیاسی یکجہتی کے سنگین مسائل دراصل پنپ رہیں ہیں۔


2017 میں فرانسیسی پولیس کو مسلح کرنے سے سڑکوں پر لوگوں کے تحفظ کی خلاف ورزی ہوئی ، بلکہ اس نے پولیس کو اپنے ہی جرم کے خلاف مکمل طور سے مستثنی کردیا، خاص طور پر جب سیاہ فام فرانسیسی شہریوں کو غیر انسانی بنانے کی بات آتی ہے۔ 2022میں اس طرح کے واقعات کئی مواقع پر پیش آئے لیکن فرانسیسی پولیس کو کبھی متنبہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی عوام کو انصاف دیا گیا۔ پولیس کو سیکولرائزیشن اور سیکیوریٹائزیشن کے نام پر اپنے ہی لوگوں پر تشدد کے عمل کی اجازت دی گئی۔اگر جرائم انصاف کے ترازو پر نہ تولے جائیں تو ردعمل اس وقت تک نہیں رکے گا جب تک کہ ملک خوف و ہراس کی مملکت نہ بن جائیں۔
فرانس کی بد نظمی بہت پیچیدہ ہے اور وہاں نسل پرستی کا سوال ایک ساختیاتی چیلنج رہا ہے۔ سڑکوں پر پرتشدد ردعمل کے باوجود جسے کسی بھی وجہ کے نام پر جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا، یہ نہیں رکے گا۔ ایک مہذب معاشرے میں انتشار ناقابل قبول ہے لیکن ریاست پہ تشدد کی اجارہ داری پر ہوبیسین نظریہ کی پابند کب تک رہے گی۔ یہ تشدد جلد ہی کسی بھی وجہ سے کسی بھی شکل میں فرانس کےمضافاتی علاقے کو اپنی گرفت میں لے لیگا۔ نہال کے واقعات کے بعد کے ردعمل اور فرانس بھر میں جلتی ہوئی سڑکیں یہی پیغامات بھیج رہی ہیں۔


ایمانوئل میکرون کی دوسری صدارتی میعاد غلط فیصلوں اور اندازوں سے بھری ہوئی ہے ، غیر اکثریت والی حکومت کے تحت اس کی پالیسیوں نے بڑے چیلنجوں کو ملک میں عود کر آنے پر ابھارا ہے لیکن فرانس اندروں کے چیلنجوں کے بجائے خارجہ پالیسیوں پر زیادہ توجہ دے رہا ہے۔ پہلے پالیسی کو نافذ کرنے اور پھر اتفاق رائے پیدا کرنے کے میکرون کے فیصلہ نے فرانس کے اندر مزید افراتفری پیدا کردی ہے۔ فرانس میں بڑھتی مقبولیت کے ساتھ ، پولیس یونینوں کے احتجاج کو خانہ جنگی کی صورتحال دینے کے حالیہ اعلانات معاملے کو حقیر تر بنا دیں گے اور انضمام کے موجودہ ساختی مسائل کو گہرا کر سکتے ہیں۔
اسے مذہبی ، نسلی اور ثقافتی رنگ دینے جیسے ادھ پکے بیانیے فرانس میں جلتی ہوئی سڑکوں کا کوئی حل فراہم نہیں کریں گے اور نہ ہی پالیسی ساز کچھ کر سکتے ہیں گو کہ وہ یقین رکھتے ہوں کہ ریاستی نگرانی معاشرے میں تفریق کا احاطہ کر سکتی ہے۔ اقوام متحدہ نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور فرانسیسی حکومت اور اسی طرح میکرون کے سیاسی مخالفین کو بھی خبردار کیا ہے جو نفرت کی سیاست کو مزید فروغ دینے کے لیے استعمال کرنے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں لیکن اس طرح کی رجعت پسندانہ سوچ فرانسیسی جمہوریت اور اس کے سیکولرزم کی مدد کرنے سے قاصر دکھائی پڑتی ہے۔ اس کے برعکس ، سڑکوں پر ہونے والا تشدد ان ضرورت مند درخواست دہندگان کو مزید نقصان پہنچائے گا جو اپنے مستقبل کے لیے فرانس آنا چاہتے ہیں۔


جارحانہ سیکولرازم اور نوآبادیاتیت کے بنیادی ڈھانچے کے تحت سماجی انضمام کی ناکامیاں فرانس میں باہر کی کسی بھی جنگ سے زیادہ خون بہائیں گی۔ نیلسن منڈیلا نے ایک بار لکھا تھا کہ "سب کے لیے انصاف ہو۔ سب کے لیے امن ہو" اور اس سے میکرون اور فرانسیسی جمہوریت کی ان شکایات کو دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو بعض اوقات سڑک پر انتشار کا شکار ہو جاتی ہیں۔

***
انگریزی مقالہ: ڈاکٹر پریم آنند مشرا، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی۔
اردو ترجمہ: ڈاکٹر سعد احمد، جامعہ ملیہ اسلامیہ۔
اسسٹنٹ پروفیسر، نیلسن منڈیلا مرکز برائے امن، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
ای-میل: saadfarouqee[@]gmail.com

France Teetering on the Brink of Anarchy

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں