میرا روڈ کی سوسائٹی سے یکساں سول کوڈ تک - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-07-02

میرا روڈ کی سوسائٹی سے یکساں سول کوڈ تک

mira-road-society

جی نہیں میرا روڈ کا معاملہ صرف ایک سوسائٹی کے ضوابط کی خلاف ورزی کا معاملہ نہیں تھا !

جو یہ کہہ رہے ہیں کہ محسن خان اور اس کی بیوی یاسمین خان نے سوسائٹی کے ضوابط کی خلاف ورزی کی ، اور ضوابط کے برخلاف عید الاضحیٰ پر قربانی کے لیے دو بکرے لا کر اپنے گھر میں رکھے ، وہ یہ کہنے سے کترا رہے ہیں ، کہ کسی ہاؤسنگ سوسائٹی میں ' جئے شری رام ' کے نعرے لگانا اور ' ہنومان چالیسا ' کاپڑھنا بھی سوسائٹی کے اصولوں اور ضوابط کے خلاف ہے۔ اور اگر ان کے بقول ' جئے شری رام ' کے نعرے اور ' ہنومان چالیسا ' کا پڑھا جانا ، سوسائٹی کے اصولوں اور ضوابط کے خلاف نہیں ہے ، تو انہیں کم از کم یہ تو مان ہی لینا چاہیے ، کہ ایک ہی سوسائٹی میں رہنے والے دو فرقوں یا کئی فرقوں کے درمیان معاملہ ' یکساں ' نہیں ہے ، بلکہ ان کے درمیان یا ان کے تہواروں کے معاملے میں ، ایک واضح بھید بھاؤ یا ایک صاف صاف نظر آنے والا تعصب برتا جاتا ہے۔
اور یہ صرف ایک سوسائٹی کا ہی معاملہ نہیں ہے ، ملک کی نہ جانے کتنی سوسائٹیاں ہیں جہاں اس طرح کا تعصب برتا جاتا ہے۔ یہ سوال اکثر لوگ پوچھتے ہیں ، کہ بھلا جس سوسائٹی میں گنپتی کا پنڈال بنایا جا سکتا ہے ، لاؤڈ اسپیکروں پر بھجن بجائے جا سکتے ہیں ، ہولی اور دیوالی پر رنگ ڈالا اور آتش بازی کی جا سکتی ہے ، اس سوسائٹی میں کوئی محسن خان کیوں اپنے تہوار پر دو بکرے لا کر نہیں باندھ سکتا ؟ اور اگر کوئی بکرے لے بھی آتا ہے ، تو کیا اسے ڈرانے کے لیے ضروری ہے کہ ' بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوکر جئے شری رام ' کے نعرے لگائیں اور زوردار آواز میں ' ہنومان چالیسا ' پڑھیں ، وہ بھی رات گئے تک ! کیا یہ سب سوسائٹی کے اصولوں میں درج ہے ؟


مزید ایک سوال ہے ، اس عید سے پہلے مذکورہ سوسائٹی میں ہی مسلمانوں کو بکرے باندھنے کے لیے جگہ الاٹ تھی ، امسال جگہ کیوں نہیں دی گئی ؟ سیدھا لگ رہا ہے کہ پہلے بلڈر نے ، پھر سوسائٹی کے مکینوں نے منصوبہ بند طور پر کچھ ایسا کیا کہ ، اس بار سوسائٹی میں بکرے لائے ہی نہ جا سکیں ، جبکہ اس سوسائٹی میں ساڑھے چار سو کے قریب مسلم خاندان رہتے ہیں ! کہاں باندھے گیے ہوں گے ان کے بکرے ؟ مزید یہ کہ اگر سوسائٹی میں غیر مسلم پندرہ سو ہوں تو ، کیا انہیں یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اُن دوسرے مذاہب کے مکینوں کے ، جو ان سے کم تعداد میں ہوں ، حق چھین لیں ؟
میں یہ قطعی نہیں کہہ رہا ہوں کہ محسن خان 'بے قصور ' ہے ، اس کا سب سے بڑا ' قصور ' یہ ہے ، کہ یہ جاننے کے بعد بھی کہ اس بار سوسائٹی میں بکرے باندھنے کی جگہ نہیں ملے گی ، اس نے سوسائٹی کے دوسرے مسلم مکینوں کی طرح اپنے بکروں کو کسی اور جگہ باندھنے کا انتظام نہیں کیا۔


لیکن اتنا تو کہوں گا کہ اس کا ' قصور ' اتنا سنگین نہیں تھا کہ اتنے بڑے پیمانے پر نفرت کا اظہار کیا جاتا ، اسے ' ٹیررسٹ ' کہا جاتا ، اور یہ طعنہ دیا جاتا کہ ' یہ پاکستان نہیں ہے۔' ویسے محسن خان کی ' نادانی ' نے ایک ایسے چہرے کو اجاگر کر دیا ہے ، جو نفرت سے بھرا ہوا ہے ، جسے ہر باریش آدمی ٹیررسٹ نظر آتا ہے ، اور جو لوگوں کو پاکستان کا طعنہ دیتے ہوئے یہ بھول جاتا ہے کہ جِسے طعنہ دیا جا رہا ہے وہ بھارت کا قانونی شہری ہے۔ یہ نفرت اچانک نہیں پیدا ہوئی ہے ، یہ دھیرے دھیرے پیدا کی گئی ہے۔
ہاں ! اچھی بات یہ ہے کہ ابھی ایسے لوگ بہت زیادہ نہیں ہیں ، لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔ کولہا پور اور احمد نگر کی مثالیں کافی ہیں ، جہاں پہلے فرقہ وارانہ جھگڑے نہیں ہوتے تھے ، وہاں بھی اورنگ زیب عالمگیر اور ٹیپو سلطان کے نام پر فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلائی جا رہی ہے۔


خیر ، مجھے میرا روڈ کی ' جے پی انفرا ہاؤسنگ سوسائٹی ' کی ' اسٹیلا بلڈنگ ' میں رہنے والے محسن خان اور اس کی بیوی کی حمایت کرنا نہیں ، بس یہ بتانا مقصود ہے کہ اس ملک میں مختلف ذاتوں اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ الگ الگ طرح کا رویّہ اپنایا جاتا ہے ، کسی کے ساتھ ' یکساں ' سلوک نہیں کیا جاتا۔
میں ' یکساں ' پر واپس لوٹوں گا ، لیکن اس سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ اس مرتبہ عید الاضحیٰ کے موقعے پر ، مسلمانوں کی طرف سے ، کم از کم مہاراشٹر میں ، خاصی وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا گیا۔ مثلاً مالیگاؤں کے سنگمیشور کے علاقہ میں عید کے پہلے دن مسلمانوں نے قربانی کا فریضہ ادا نہیں کیا ، دوسرے دن قربانیاں کیں ، کیونکہ پہلے روز ہندوؤں کا تہوار ایکادشی بھی تھا ، اور ایکادشی پر گوشت وغیرہ کا کھانا منع ہے۔ شولاپور ، جلگاؤں جامود اور مزید کئی علاقوں میں پہلے دن قربانی یا تو نہیں کی گئی یا یہ احتیاط برتی گئی کہ ایکادشی پر کسی دوسرے کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔
ممبئی کی چند سوسائٹیوں میں بھی ، غیر مسلم پڑوسیوں کے سبب بکروں کی قربانیاں سوسائٹیوں کے باہر کرائی گئیں۔ یہ وہ عمل ہے جسے برادرانِ وطن نے سراہا بھی ہے ، لیکن سوال پھر گھوم کر وہیں آ کھڑا ہوتا ہے کہ مذہب اور دھرم کے معاملات میں اور تہواروں کے مواقع پر سب کے ساتھ کیوں ' یکساں ' سلوک نہیں کیا جاتا ، کیوں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ وہ فرقہ جو اقلیت میں ہے ، وہ قدم پیچھے کھینچے ؟


میں کسی ایک مخصوص فرقے کی بات نہیں کر رہا ہوں ، بات تمام اقلیتوں کی ہے۔ اب جب بات تمام اقلیتوں اور غیر اقلیتوں کی آ گئی ہے تو بات ' یکساں ' پر بھی ہو جائے ،جس کا نعرہ ان دنوں ہمارے وزیراعظم نریندر مودی ' یکساں سول کوڈ ' کے حوالے سے لگا رہے ہیں۔ بھوپال میں بھاجپائیوں کی ایک ریلی میں پی ایم مودی گرجے کہ " دوہرے نظام سے ملک نہیں چل سکتا " ، لیکن شاید وہ یہ بھول گئے ہیں کہ آزادی کے بعد سے یہ ملک ایسے نظام کے تحت ہی چل رہا ہے جسے ' اکثریت میں وحدت ' کی شاندار مثال سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے۔
یہ تو اِس نفرت بھرے دور میں ' یکسانیت ' کا نعرہ دیا جا رہا ہے ، اور اس نعرے کے بہانے نفرت کو پروسا جا رہا ہے۔ ویسے پی ایم مودی سے بھی اور ان کی پارٹی بی جے پی کے لیڈروں و آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں سے بھی سوال ہے کہ کس یکساں سول کوڈ کی بات کی جا رہی ہے ، وہ جس کے ذریعے سب پر ' منو سمرتی ' تھوپنے کی کوشش کی جائے گی یا وہ جو صرف ایک دھرم کے رواجوں کو سب کے لیے لازمی قرار دے دے گا ؟


اس سوال کا جواب تو خیر یکساں سول کوڈ کا مسودہ سامنے آنے کے بعد مل ہی جائے گا ، لیکن تب تک یہ سب کم از کم عملاً سب کے ساتھ ' یکساں ' سلوک کا مظاہرہ تو کریں ، یہ تو نہ کریں کہ کسی محسن خان کو اپنی ہی سوسائٹی اور اپنے ہی فلیٹ میں ایک یا دو بکرا باندھنے کے لیے بھی سو بار سوچنا پڑے۔


From Society of Mira Road to Uniform Civil Code

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں