یونیفارم سِول کوڈ کا کھیل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-07-09

یونیفارم سِول کوڈ کا کھیل

game-of-uniform-civil-code

راشٹریہ مسلم منچ کا جھانسہ اور مسلم قائدین و جماعتوں کی سرگرمیاں !
'یونیفارم سِول کوڈ ' (یو سی سی ) کو لاگو کرانے کے لیے آر ایس ایس کی مسلم باڈی ' مسلم راشٹریہ منچ ' میدان میں اتر گئی ہے !

ویسے تو یہ باڈی ، اندریش کمار جس کے سربراہ ہیں ، عرصے سے مسلمانوں کو بزعم خود ' قومی دھارے ' سے جوڑنے کے لیے سرگرم ہے ، مگر اس کی سرگرمیاں عموماً اُن دنوں میں زیادہ ہی میڈیا میں شہ سُرخی بنتی ہیں ، جب آر ایس ایس کو اپنی سیاسی تنظیم بی جے پی کے ذریعے مسلم قوم پر کوئی ایسا قانون یا ایسا ضابطہ تھوپنا ہوتا ہے ، جو اُن کی مذہبی اور سماجی دونوں ہی طرح کی شناخت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔
اور اس بار تو زبردست پیمانے پر نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی ہے ، یونیفارم سول کوڈ ' کا نفاذ جو کرنا ہے۔ یاد رہے کہ جب این آر سی اور این آر پی کے خلاف تحریک اپنے شباب پر تھی ، تب اسے کمزور کرنے کے لیے منصوبہ بنا تھا کہ ' میر جعفروں ' اور ' میر صادقوں' کو استعمال کیا جائے ، جن کی مسلمانوں میں کوئی کمی نہیں ہے۔ ایسے ہی چند ' منافقین' کے چہرے 16/ جنوری 2020ء کے روز دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں نظر آئے تھے ، باریش ، صافوں اور پگڑیوں سے سرڈھکے ہوئے ، اور کرتا پائجاموں میں ملبوس۔ یہ سارے کے سارے ' مسلم راشٹریہ منچ ' کے اسٹیج پر ، منچ کے صدر ، سینئر سنگھی لیڈر اندریش کمار کے ساتھ براجمان تھے ، اور سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کی حمایت میں سنگھی ٹولے کی ہاں میں ہاں ملارہے تھے۔
انہیں یہ خوب پتہ تھا کہ جس سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کی وہ حمایت کر رہے ہیں ، اُسے مسلمانوں کے خلاف ہی استعمال کیا جائے گا ! لیکن کیا کیا جائے کہ انہوں نے اپنے ' ضمیر' کو بیچ دیا تھا ، اور آج بھی بیچے ہوئے ہیں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ، نہ ملک ان کے لیے عزیز ہے ، نہ ہی سنگھ اور نہ ہی قوم ، انہیں سب سے زیادہ عزیز اپنا پیٹ ہے ، اور یہ پیٹ کے لیے ملک اور قوم کیا اپنا ایمان بھی بیچ سکتے ہیں ، بلکہ ایمان بیچ چکے ہیں۔ اُس وقت کانسٹی ٹیوشن کلب میں چند 'باضمیر' افراد ، قوم اور ملک سے محبت رکھنے والے لوگوں ، علمائے حق اور برادرانِ وطن نے اندریش کمار کے سامنے ہی سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر مردہ باد کے نعرے لگائے تھے ، ان کے ہاتھوں میں این آر سی مردہ باد کے پلے کارڈ تھے۔


آج پھر سے ' مسلم راشٹریہ منچ ' سرگرم ہے۔ اس میں جو شامل ہیں اُن کی باگ ڈور اندریش کمار کے ہاتھ میں ہے اور انھوں نے ' مسلم راشٹریہ منچ ' کو اپنا مندر بنالیا ہے۔ اب یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ مسلمانوں کو ' یونیفارم سِول کوڈ ' کی حمایت کرنا چاہیے۔ وہ مسلمان جو اس ' منچ ' سے بہت زیادہ واقف نہیں ہیں یہ سوال کر سکتے ہیں کہ ، بھلا مسلمان ہو کر یہ کیسے ' یونیفارم سِول کوڈ ' کی حمایت کر سکتے ہیں ؟
اُن کے سوال جائز ہیں کیونکہ آر ایس ایس کے منصوبے کبھی پردے میں نہیں تھے۔ سب کچھ عیاں تھا ، جیسے کہ کل کی مرکزی وزیر اوما بھارتی نے بابری مسجد کی شہادت کے معاملے میں کہا تھا کہ " ہم نے جو کچھ کیا وہ کھلے عام کیا "۔


مگر وہ مسلمان کیسے اندھے اور بہرے ہیں ، جو آر ایس ایس اور بی جے پی کا دامن تھامے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے ' یونیفارم سِول کوڈ ' کی حمایت کرنا ، اور مودی کی بات سننا ہی بہتر ہے۔ سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر پر مودی جو کہہ رہے ہیں وہی عین سچ ہے ، طلاق ثلاثہ کے معاملے میں مودی اور یوگی ہی درست ہیں۔ یہ وہ ٹولی ہے جو ، جب بھی لاؤڈ اسپیکروں سے اذان کی بات ہوتی ہے تو ، اذانیں بند کروانے کے لیے 'یرقانیوں' سے بھی دو ہاتھ آگے کھڑی نظر آتی ہے۔ اگر ان کا بس چلے تو یہ آج ہی ' یونیفارم سِول کوڈ ' لاگو کر دے۔ ' منچ ' پر مزید بات کریں گے ، لیکن اس سے پہلے کچھ بات یو سی سی اور سنگھی سیاست کی ضروری ہے۔


یو سی سی پر حالیہ بحث اُس وقت شروع ہوئی جب وزیر اعظم نریندر مودی نے27 ،جون کو بھوپال میں بی جے پی کے بوتھ ورکرز سے خطاب کرتے ہوئے یو سی سی کے لیے ایک مضبوط کیس بنایا ، انھوں نے کہا " ان دنوں ، لوگوں کو یو سی سی کے خلاف اکسایا جا رہا ہے۔ آپ مجھے بتائیں کہ اگر کسی گھر میں ایک فرد کے لیے ایک قانون ہو اور دوسرے فرد کے لیے دوسرا قانون ہو تو کیا وہ گھر چل سکتا ہے؟ پھر ایک ملک ایسے منافقانہ نظام کے ساتھ کیسے چل سکتا ہے؟ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ ہندوستان کا آئین بھی یکساں حقوق کی بات کرتا ہے۔"
بی جے پی اور سنگھ کا نعرہ ہے ' ایک ملک ، ایک قانون ' ، اور اسی نعرے کے حوالے سے 1998ء میں بی جے پی کے انتخابی منشور میں یو سی سی کو لاگو کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ جب 2014ء کے لوک سبھا الیکشن کا منشور تیار کیا گیا تو اُس میں بھی بی جے پی نے اس وعدے کا اعادہ کیا تھا ، اور 2019ء کے لوک سبھا الیکشن کے بی جے پی کے منشور میں بھی اس کا اعادہ تھا۔ یہ سچ ہے کہ آر ایس ایس کے دوسرے سرسنگھ چالک گولوالکر ، جنہیں ' گرو جی ' کہا جاتا ہے ، مختلف وجوہ سے ' یونیفارم سِول کوڈ ' کے نفاذ کے خلاف تھے ، لیکن اُن کے بعد سنگھ نے اسےنافذ کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے ، کیونکہ ' یونیفارم سِول کوڈ ' کا راستہ ' ہندوراشٹر ' کے اُس خواب کی تکمیل کو ، جسے سارے بھگوائی دیکھتے چلے آ رہے ہیں ، آسان بناتا ہے۔
یہ بات نوبل انعام یافتہ اکنامسٹ امرتیہ سین نے کھل کر کہی ہے ، اور دیگر دانشوران بھی کہتے رہے ہیں۔


بی جے پی اور سنگھ پریوار کے لیے یو سی سی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسے لاگو کرانے کے لیے بھگوائیوں کی طرف سے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا ، پارلیمنٹ میں پرائیوٹ بِل پیش کیا گیا ، اور اس کے لیے تحریکیں چلائی اور مظاہرے کیے گئے۔ اِن دنوں یو سی سی کی بات زور و شور سے اٹھانے کی ایک وجہ اور ہے ، بی جے پی کے پاس کوئی ' اشو ' کوئی ' مدعا ' نہیں رہ گیا ہے ، اور دس سالوں کی بدعنوانیاں اور حکومتی بدانتظامیاں اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی ہیں ، اس کی ساکھ بھی ڈانوا ڈول ہے ، اور مودی جی کی گدّی بھی۔ لہذا بھاگتے بھوت کی لنگوٹی کے مصداق یو سی سی اس کو اس نے موضوع بنا لیا ہے۔


یہ یو سی سی ہے کیا ؟ یہ سمجھ لیں کہ اس کا مطلب ہر مذہب ، جنس اور جنسی رجحان سے قطع نظر تمام شہریوں کے لیے ایک واحد پرسنل لا ، یا آسان زبان میں ایک ہی جیسے قانون کا ہونا ہے۔ ویسےکریمنل معاملوں سے متعلق قوانین سارے مذاہب پر یکساں لاگو ہوتے ہیں ، مذہبی معاملات پر یکساں قوانین لاگو نہیں ہوتے ہیں۔ سمجھا جاتا ہے کہ یو سی سی مختلف مذاہب کے عائلی و مذہبی قوانین کو ختم کر دے گا ، اور ہر ایک کے لیے یکساں ضابطہ اخلاق لائے گا۔ ہندوستان کا آئین یہ کہتا بھی ہے کہ ریاست کو اپنے شہریوں کو ایسے قوانین فراہم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ، اور سپریم کورٹ بھی متعدد فیصلوں میں اس کی وکالت کر چکا ہے۔ حکومت نے یو سی سی کی بات تو کردی ہے ، لیکن ابھی تک ایسا کوئی مسودہ پیش نہیں کیا ہے ، جس سے تعین ہو سکے کہ اس یو سی سی کی شکل کیا ہوگی۔
چونکہ یو سی سی سے عائلی اور مذہبی قوانین کو بدلنے کی کوشش کی جا سکتی ہے ، اس لیے ملک بھر میں ایک بے چینی کی کیفیت ہے ، آدای واسی اس کی مخالفت کر رہے ہیں ، نارتھ ایسٹ میں تو اس کے خلاف تشدد کی دھمکی دے دی گئی ہے ، اڈیشہ ، چھتیس گڑھ ، جھارکھنڈ ، اتراکھنڈ وغیرہ میں اس کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ مدھیہ پردیش میں آدی واسیوں نے اس کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی اس کی مخالفت کر رہی ہیں ، بی جے پی کی حلیف اے آئی اے ڈی ایم کے نے اس کی مخالفت کی ہے ، ڈی ایم کے اس کے خلاف ہے ، شرومنی اکالی دل اس کے خلاف ہے ، کانگریس اور کیرالا کا بایاں محاذ اس کے خلاف ہے ، اور ملک بھر میں ایک بےچینی کی فضا ہے۔
مسلمان بھی اس کے خلاف ہیں ، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مودی نے اپنی تقریر میں اس حوالے سے مسلمانوں کا بطور خاص ذکر کیا ہے ، اور یہ سمجھا جا رہا ہے کہ یو سی سی کے ذریعے ہندو - مسلم کی انتخابی سیاست کی جائے گی ، اور مسلم و ہندو ووٹ تقسیم کیے جائیں گے۔ ایک کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ عام ہندوستانیوں کو یہ تاثر دیا جائے کہ مسلم قوم ایک اچھے کام کے آڑے آ رہی ہے ، اور اسی کام کے لیے ' منچ ' اور اس کے ' مسلمان ' بھی سرگرم ' ہوئے ہیں ، اور ایسی ہی دوسری جماعتوں اور تنظیموں کے مسلمان بھی ، اور وہ مسلمان بھی جو بہت جلدی بِک جاتے ہیں۔
' منچ ' کے قومی کنوینر محمد افضل کا یہ دعویٰ ہے کہ ' منچ ' نے ایک سروے کیا ہے ، اور جن مسلمانوں سے بات کی ہے ان کی اکثریت نے یو سی سی کی حمایت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ' مسلمانوں کے مذہبی فرائض ' کو علیحدہ رکھ کر یو سی سی کا نفاذ ہو جائے تو کیا غلط ہے !


اندریش کمار نے اس تعلق سے باقاعدہ ' ملک گیر مہم ' کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس مہم کے ذریعے مسلمانوں کو یہ تو بتایا نہیں جائے گا کہ ان کی شادی ، طلاق اور وراثت سے متعلق شرعی قوانین بدلے جا سکتے ہیں ، ان سے یہی کہا جائے گا کہ جب سارے ملک میں ایک ہی جیسا قانون ہوگا ، سب کے لیے ، تو ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہوں گے !
یہی وہ کام ہے ، دھوکہ دے کر ذہن سازی کا ، جو ' مسلم راشٹریہ منچ ' کو مسلم قوم کے لیے خطرناک بنا دیتا ہے۔ ایسے میں مسلم تنظیموں کا ، جماعتوں کا اور دانشوروں کا فرض بن جاتا ہے کہ وہ ملک کے مسلمانوں کو صحیح صورتِ حال سے آگاہ کریں۔ لیکن صحیح صورتِ حال سے آگاہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یو سی سی کے خلاف سڑکوں پر اترا جائے ، مظاہرے کیے جائیں اور بھگوائیوں کو یہ کہنے کا موقعہ دیا جائے کہ یہ مسلمان اس ملک کے عام لوگوں کو ایک قانون اور ایک نظام کے تحت آنے نہیں دینا چاہتے۔
صحیح صورتِ حال سے آگاہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ عام مسلمانوں تک پہنچ کر ان کے ذہن سے اُن خدشات کو مٹایا جائے جو 'منچ ' اور ایسی ہی دوسری تنظیموں کی کوششوں سے اُٹھ رہے ہیں۔


لاء کمیشن کے سامنے لوگ اپنی آراء رکھیں ، یہ ایک اچھی بات ہے لیکن اس معاملے پر اُس وقت تک ، جب تک کہ حکومت یو سی سی کا مسودہ نہ پیش کر دے ، شور مچانا نامناسب ہے۔ اگر شور مچایا گیا تو ' منچ ' اور ' منچ ' کے ذریعے آر ایس ایس اور اس کے ذریعے بی جے پی کو ہی فائدہ ہوگا ، شور مچانے والوں کا کوئی بھی بھلا نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ اس ملک میں برادریوں اور روایات کی پیچیدگی اور تنوع کی وجہ سے بہت سے لوگ 'یونیفارم سول کوڈ ' کے خلاف ہیں ، وہ 'یونیفارم ' کی بجائے ایک 'مشترکہ' یعنی ' کامن سول کوڈ ' کا مطالبہ کر رہے ہیں ، جو ہر مذہب کے ذاتی قوانین کے بہترین ضابطوں کو اپنے اندر شامل کر سکے۔
لیکن مسلم قائدین کو ، بالخصوص مسلم پرسنل لاء بورڈ ، اس کے صدر محترم مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، جمعیۃ علماء ہند ، اور جماعت اسلامی اور دیگر تنظیموں و جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ابھی کھل کر ، دونوں میں سے ، کسی کی بھی مخالفت نہ کریں ، بس اپنی دلیلیں جمع کریں اور اگر قانونی لڑائی کی ضرورت پڑے تو اس میں اُن سب کو ، جو یو سی سی کے خلاف ہیں ، اپنے ساتھ جوڑ لیں۔ رہی بات ' منچ ' کی اور اس کے ' باریش منافقین ' کی ، جنہیں اندریش کمارکا اپنے سرپر ہاتھ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے زیادہ اچھا لگ رہا ہے ، اور جنہیں یہ لگ رہا ہے کہ اس طرح وہ مودی ، شاہ ، یوگی کے 'منظور نظر' ہوجائیں گے ، تو انہیں اُن کے حال پر چھوڑ دیا جائے ، یہ قوم ، ملک ، دین ، ایمان اور مذہب کوبیچ کر دنیا تو کماسکتے ہیں لیکن کبھی عزت نہیں پاسکتے ، ان کے لیے بس ذلت ہی ذلت ہے۔


The game of Uniform Civil Code

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں