شیر میسور حضرت ٹیپو سلطان : دکن کے عظیم سپوت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-06-03

شیر میسور حضرت ٹیپو سلطان : دکن کے عظیم سپوت

sher-e-mysore-tipu-sultan

آج دکن کی ایک ایسی شخصیت کا تعارف پیش ہے جس نے ارض ہند پر سب سے پہلے انگریزوں کے ناپاک عزائم کو اس وقت بھانپا تھا جب ابھی انگریزوں کےمذموم ارادے اہل ہند پر آشکار نہیں ہو ئے تھے۔یہ وہی شخصیت تھی جس نے انگریزوں کے ناپاک عزائم کی بیخ کنی میں اپنی زندگی تیاگ دی۔۔ یعنی ان انگریزوں کے سامنے اپنا سر جھکانے کے بجائے ایک غیرت مند سلطان کی حیثیت سے آخری دم تک اپنی کوشش جاری رکھی۔ اور اسی کوشش میں اپنی جان بھی اپنے ملک کی خاطر قربان کی اور شہید کہلائے۔ ان کی غیرت اور بہادری سے انگریز اس طرح تھر تھر کانپتے تھے کہ جب میدان جنگ میں ان کی لاش ملی تو ہر انگریز ان کے قریب جانے سے کترا رہا تھا کہ کہیں ٹیپو سلطان زندہ نہ ہوں اور اپنی تلوار کی ایک ضرب سے ہمیں جہنم رسید نہ کر دیں۔
جی ہاں۔ وہ اہم شخصیت جس کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ شیر میسور حضرت ٹیپو سلطان رح کی ہے جن کی بہادری اور غیرت مندی کا معترف سارا عالم ہے۔


ٹیپو سلطان 20 نومبر 1750ء، مطابق جمعہ 10 ذوالحجہ، 1163ھ کو دیوانہالی میں پیدا ہوئے۔ موجودہ دور میں یہ بنگلورکا ایک دیہی مقام ہے جو بنگلور شہر کے 33 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ ٹیپو سلطان کا نام آرکاٹ کے بزرگ ٹیپو مستان اولیا کے نام پر رکھا گیا تھا۔ جب ٹیپو سلطان نے ہوش سنبھالا تو اس وقت انگریزوں کے ناپاک قدم تیزی سے پورے ہندوستان کی ایک کے بعد دیگر ریاستوں کو روندتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ وہ نظام حیدر آباد، مرہٹہ اور آرکاٹ کی ریاست کو اپنے دام میں گرفتار کر چکے تھے، صرف ریاست خداداد ان کی راہ میں حائل تھی جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی آنکھوں میں برابر کھٹک رہی تھی۔
ایسے وقت میں سلطان حیدر علی نے 17 سال کی عمر میں ٹیپو سلطان کو اہم سفارتی اور فوجی امور پر آزادانہ اختیار دے دیا اور انہوں نے جلد ہی اپنی ذہانت، فراست اور اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں سے والد ماجد حیدر علی کا دل جیت لیا۔ جب حیدر علی کی وفات ہوئی تو زمام حکومت حضرت ٹیپو سلطان نے سنبھالی۔


ٹیپو سلطان ایک عظیم مجاہد ہونے کے ساتھ ساتھ پکے مسلمان تھے۔ وہ ساد ہ زندگی بسر کرتے اور شرعی لباس پہنتے تھے اور آخری دور میں سبز رنگ کی دستار پہنے لگے تھے۔ نماز فجر کے وقت تلاوت کرتے اور پورے دن باوضو رہتے۔ان کا سیاسی شعور بھی بہت بلند تھا اسی شعور کی وجہہ سے انگریزوں کی مداخلت کو روکنے اپنی ہر ممکن کوشش کی۔انہوں نے اس وقت کےجے پور اور نیپال کے راجا ؤں کو خطوط لکھے۔اپنے ایلچی روانہ کیے اور سب کو باہم ملاکر ایک طاقتور جنگی محاز بنانے کی کوشش کی۔انہوں نے دکن کے نظام اور مر ہٹوں کے اتحاد سے انگریزوں کے خلاف محاذ بنانا چاہا تھا مگر مرہٹوں اور نظام نے اس کو اپنی حکومت کے لیے خطرہ سمجھا اور اپنے آپ کو ٹیپو سلطان سے الگ کیا۔اگر اسی وقت ٹیپو سلطان کے سیاسی شعور سے مرہٹے اور نظام آگہی پاتے تو شاید ہندوستان کے سیاسی حالات کچھ اور ہوتے۔


ایک جانب انگریزوں کی مکاری اور سازشیں تھیں تو دوسری جانب ٹیپو سلطان انکے خلاف تنہا نبرد آزما۔۔۔جبکہ دشمن بھی شاطر۔ جس نے ایک صاف و شفاف جنگ کے بجا ئے ٹیپو سلطان کے دربار سے حاسدوں کو اکٹھا کیا اور انہیں ٹیپو سلطان سے غداری کے عوض بیش بہا انعامات اور جاگیروں کا لالچ دیا گیا یہاں تک کہ والی میسور کے عہدہ کا لالچ بھی اس میں شامل تھا۔
ایسا بھی نہیں تھا کہ حضرت ٹیپو سلطان ان چالوں سے واقف نہیں تھے۔ وہ ان تمام ہتھکنڈوں سے واقف تھے لیکن یہاں انکی دریا دلی اور رحم دلی آڑے آئی تھی جس کی وجہ سے انہیں بعد میں نقصان اٹھانا پڑا۔


ان غداروں میں میر صادق کے علاوہ میر غلام علی ،بدرازماں خاں ،میر معین الدین ،میر قمر الدین ،میر قاسم علی ،اور میر معین الدین جیسے ننگ قوم نے ٹیپو سلطان کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کا کام کیا۔۔۔۔
انگریز حکومت پے در پے حضرت ٹیپو سلطان سے شکست کھانے کے بعد اپنی شکست کا بدلہ لینے اپنا ہر داؤ آزما چکی تھی۔اور اب ٹیپو سلطان کے غداروں سے ملکر اس نے ایسا منصوبہ بنا یا تھا کہ انکی ظاہری شکست یقینی تھی۔اسی منصوبہ کے تحت 14 فروری سنہ 1799 کو جنرل جارج ہیرس کی رہنمائی میں 21 ہزار فوجیوں نے ویلور سے میسور کی جانب کوچ کیا۔ 20 مارچ کو امبر کے نزدیک 16 ہزار فوجیوں کا ایک دستہ ان کے ساتھ آ ملا۔
اس میں کنور کے قریب جنرل سٹوئرٹ کی کمان میں 6420 فوجیوں کا دستہ بھی شامل ہو گیا تھا۔ ان سبھی نے مل کر ٹیپو سلطان کے سرنگا پٹم کے قلعے پر چڑھائی کر دی تھی۔اور تین مئ 1799 کو قلعہ پر حملہ کر دیا اور قلعہ کی صدر دیوار میں شگاف ڈالا۔اس پر قبضہ حاصل کرنے کے بعد برطانوی فوج دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔


بائیں جانب بڑھنے والی فوج کو ٹیپو سلطان کی جانب سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹیپو کی فوج کے ساتھ دست بدست مقابلے میں اس دستے کی رہنمائی کرنے والے کرنل ڈنلپ کی کلائی پر تلوار سے گہرا زخم لگا۔ اس کے بعد کرنل کے دستے کو آگے بڑھنے سے روکنے میں ٹیپو کے فوجی کامیاب رہے۔
ٹیپو سلطان اپنی فوج کی ہمت بندھانے خود جنگ میں شامل ہو چکے تھے۔ اس جنگ میں ٹیپو نے زیادہ تر لڑائی عام فوجیوں کی طرح پیدل لڑی۔ لیکن جب ان کے فوجیوں کی ہمت ٹوٹنے لگی تو وہ گھوڑے پر سوار ہو کر انکی ہمت بڑھانے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ اس وقت بےحد زخمی ہو گئے تھےجب ان کے بائیں سینے سے ایک گولی نکل گئی۔ ان کا گھوڑا بھی مارا گیا۔ اس وقت ان کے باڈی گارڈ راجا خان نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ انگریزوں کو بتا دیں اور قلعہ کے پچھلے دروازے سے فرار ہو جائیں۔ لیکن ٹیپو کو یہ نامنظور تھا۔ انھوں نے انگریزوں کے ہاتھوں قید کیے جانے کے بجائے موت کے راستے کا انتخاب کیا۔۔اور اس وقت انہوں نے اپنا وہ سنہری قول ادا فرمایا کہ:
" گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے "۔


اس کے ساتھ ہی وہ اپنی تلوار سے انگریزوں کا قلعہ قمع کرنے میں لگے رہے۔لیکن اب انگریز قلعہ کی پچھلے گیٹ سے اندر آ چکے تھے ان میں سے ایک انگریز نے ٹیپو کی تلوار کی بیلٹ چھیننے کی کوشش کی۔ تب تک ٹیپو کافی خون بہہ جانے کی وجہ سے تقریباً بے ہوش ہو گئے تھے۔ تب بھی انھوں نے اپنی تلوار سے اس فوجی پر حملہ کیا۔
پھر انھوں نے اسی تلوار سے ایک اور انگریز فوجی کے سر پر وار کیا۔ اسی درمیان ایک اور انگریز فوجی نے ٹیپو پر حملہ کر دیا۔ وہ ان سے جواہرات جڑی تلوار چھیننا چاہتا تھا۔ اس وقت وہ یہ نہیں دیکھ سکے کہ ان پر کس نے تلوار چلائی تھی موت کے آخری لمحات میں انکے لبوں پر قرآنی آیتیں تھیں۔ انگریز نہیں جانتے تھے کہ ٹیپو سلطان کی موت ہو چکی ہے۔ وہ انھیں ڈھونڈنے محل کے اندر گئے۔ پتا چلا کہ ٹیپو وہاں نہیں ہیں۔ ٹیپو کا ایک سپہ سالار انھیں اس مقام پر لے گیا جہاں ٹیپو گرے تھے۔ وہاں ہر طرح لاشیں اور زخمی فوجی پڑے ہوئے تھے۔


مشعل کی روشنی میں ٹیپو سلطان کی ڈولی نظر آئی۔
اس کے نیچے ٹیپو کے باڈی گارڈ راجا خان زخمی حالت میں پڑے تھے۔ انھوں نے اس طرف اشارہ کیا جہاں ٹیپو گرے تھے۔
ان کا جسم اتنا گرم تھا کہ ایک لمحے کے لیے انگریزوں کو ایسا لگا کہ کہیں وہ زندہ تو نہیں۔ لیکن جب انہوں نے ان کی نبض دیکھی اور دل پر ہاتھ رکھا تو ان کا شک دور ہوا۔ ان کے جسم پر تین اور ایک زخم ماتھے پر تھا۔
ایک گولی ان کے داہنے کان سے داخل ہو کر بائیں گال میں دھنس گئی تھی۔
انھوں نے بہترین سفید لینن کا جامہ پہن رکھا تھا جس کی کمر کے ارد گرد ریشمی کپڑے کی گوٹ لگی تھی۔ ان کے سر پر پگڑی نہیں تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ جنگ کے دوران گر گئی ہو۔
ایک بازو بند کے علاوہ جسم پر کوئی زیورات نہیں تھے۔ وہ بازوبند اصل میں ایک چاندی کا تعویز تھا جس کے اندر عربی اور فارسی میں کچھ لکھا ہوا تھا۔


اس وقت انگریزوں کے جنرل نے ٹیپو کی لاش کو انھیں کی ڈولی میں رکھنے کا حکم دیا۔ دربار کو پیغام بھیجا گیا کہ ٹیپو سلطان اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ان کی لاش پوری رات ان کے دربار میں رکھی گئی۔
انگریزوں نے ان کی لاش کو دیکھنے کے بعد ببانگ دہل کہا۔
"اب ہندوستان ہمارا ہے۔"
سارے شہر میں کہرام مچ گیا اور لوگ جوق در جوق اپنے سلطان کو اس کی شجاعت کو اسکی غیرت کو سلام پیش کرنے آنے لگے۔ اس رات آسمان بھی ٹیپو کے لواحقین کے ساتھ رو رہا تھا۔ اور اس پاک ہستی کو سلام پیش کر رہا تھا جس نے جھکنے کے بجائے دلیری سے دشمنوں کا سامنا کیا تھا اور جام شہادت نوش کیا۔
ان کی لاش کو دوسرے دن پورے اعزاز کے ساتھ شہر سے لے جایا گیا۔ ان کے جنازے میں انگریزوں نے اپنے جھنڈے نیچے کر دیے تھے۔ اور انہیں انکے والد محترم حیدر علی کی قبر کے ساتھ دفنایا گیا۔


آج اس مضمون کو لکھنے کا مقصد اس ہستی کو خراج عقیدت پیش کرنا تھا جسے دنیا ٹیپو سلطان کہتی ہے اور ہم اس دکن کے عظیم سپوت کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں۔۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی رہی
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

***
سدرہ فردوس (حیدرآباد)
nfismailismail[@]gmail.com
Sher-e-Mysore, Tipu Sultan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں