نفرت اور فرقہ واریت کا زبردست پرچار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-06-18

نفرت اور فرقہ واریت کا زبردست پرچار

massive-spread-of-hatred-and-communalism

اترکاشی سے لے کر گنگا جمنا اسکول اور دارالعلوم دیوبند تک بدنیتی ہی بدنیتی !

نیت کا فتور صاف عیاں ہے !
بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں چاہے جس قدر اقلیتوں ، بالخصوص مسلم اقلیت ، کی بھلائی کا نعرہ بلند کریں ، چاہے جتنی بار ' سب کا ساتھ ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس ' کا جاپ کریں ، ان کے اعمال اُن کی بدنیتی کو سامنے لے ہی آتے ہیں۔ اور اِن دنوں تو ساری بدنیتی کھل کر سامنے آ گئی ہے ، کیوں کہ اب یہ بھاجپائی مسلم اقلیت کی بھلائی کی بات ' جھوٹ موٹ ' بھی نہیں بول پاتے ، 2024 ء کے لوک سبھا الیکشن جو تیزی کے ساتھ بڑھتے چلے آ رہے ہیں ، کئی ریاستوں میں اسمبلی کے الیکشن بھی ہیں ، اور کرناٹک کی شرم ناک ہار کے بعد پی ایم نریندر مودی دوسری ریاستیں کھونا نہیں چاہتے ہیں۔ ہار سے بچنے کا اِن کے پاس بس ایک ہی فارمولہ ہے ، شدت کی فرقہ پرستی ، نفرت کا زبردست پرچار اور فرقہ وارانہ بنیاد پر مختلف فرقوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان نہ ختم ہونے والی خلیج۔


آج کل اِن ہی سب فارمولوں پر زور ہے۔ اتراکھنڈ کی مثال لے لیں ، جہاں بی جے پی کی دھامی حکومت نے بدانتظامی کی ساری حدیں پار کر دی ہیں ، اور ریاستی حکومت سے لے کر مرکزی حکومت تک کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ ، لوک سبھا کے الیکشن میں اس چھوٹی سی ریاست میں بی جے پی کے لیے اپنی سیٹیں بچاپانا بہت ہی مشکل ہوگا ، لہذا وہاں ' لوجہاد ' کے ایک فرضی معاملہ میں مسلمانوں کو ڈرانے اور دھمکانے کا کھیل شروع کیا گیا ، اور یہ انتباہ دیا گیا کہ ، مسلمان اترکاشی میں اپنی دوکانیں اور اپنے مکان بند کر کے چلے جائیں ! ظاہر ہے کہ یہ ایک غیر قانونی اور غیر آئینی اعلان یا انتباہ تھا ، اس جمہوری ملک میں کسی بھی ذات پات اور مذہب و دھرم پر عمل کرنے والے کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہے کاروبار کرے اور امن و چین سے زندگی گزارے ، لیکن مسلمانوں کو دھمکیاں دے کر آئین کی دھجیاں اڑائی گئیں اور قانون سے کھلواڑ کیا گیا ، مہاپنچایت کا اعلان کرکے خوف کی ایک پُر ہیبت فضا قائم کرنے کی کوشش کی گئی ، جس کے نتیجے میں بہت سے مسلمان دوکانوں اور مکانوں پر تالے ڈال کر اترکاشی چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اُن سب کے خلاف ، جنہوں نے شرانگیزی کی تھی ، قانونی کارروائی کی جاتی ، لیکن ہو یہ رہا ہے کہ وزیراعلیٰ تریویندرا سنگھ دھامی کی حکومت نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ 2018 ء سے لے کر اب تک کی ' بین المذاہب شادیاں ' تفتیش کے مرحلے سے گزریں گی ، یعنی ہر وہ شادی جو دو الگ الگ مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان ہوئی ہے اُن کی چھان بین کی جائے گی ، اور دیکھا جائے گا کہ ایسی شادیوں میں قوانین اور ضوابط کا دھیان رکھا گیا ہے یا نہیں ، کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ شادی کے لیے کسی کو دھمکایا گیا ہو ، جبراً مذہب تبدیل کرایا گیا ہو ! اور اگر کوئی شادی ضوابط سے ہٹ کر پائی گئی ، تو بھلے ہی اُس شادی کو پانچ برس بیت گئے ہوں ، کارروائی کی جائے گی۔
واضح رہے کہ اترا کھنڈ اسمبلی میں ' مذہب کی آزادی کا قانون' میں 2022ء ترمیم کے بعد سےیہ لازمی کر دیا گیا ہے کہ شادی کے لیے ' تبدیلئ مذہب کرنے والا ' ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا اپنے علاقہ کے ایکزیکیٹیو مجسٹریٹ کو ایک مہینے قبل اس کی اطلاع دے نیز جو دھرم گرو ، چاہے وہ کسی مذہب کا ہو ، تبدیلئ مذہب کرا رہا ہے ، وہ بھی مذکورہ ذمہ داران کو ایک مہینے پہلے ہی اس بارے میں اطلاع دے۔ مذکورہ قانون 2018ء میں نافذ کیا گیا تھا ، تب سے لے کر 15 ، جون 2023 ء تک اتراکھنڈ میں اس قانون کے تحت کُل 18 معاملات درج کیے گئے ہیں ، جن میں سے گیارہ معاملات میں چارج شیٹ داخل کر دی گئی ہے ، ایک معاملہ کی فائنل رپورٹ پیش کر دی گئی ہے ، پانچ معاملوں کی تفتیش کی جارہی ہے ، اور ایک معاملے کو ختم کر دیا گیا ہے۔ ترمیم کے ذریعے ' قصور ' کو ' غیر ضمانتی ' مان لیا گیا ہے اور ' قصوروار ' پائے گئے افراد کے خلاف دس سال تک کی سزائے قید کے ساتھ 50 ہزار روپیہ تک کے جرمانے کی سخت ترین سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ قانون اور سزا سے کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے ، اعتراض ' بدنیتی ' پر ہے۔ بین المذاہب شادیوں کو ، اگر مسلم لڑکے اور ہندو لڑکیاں ہوں ، تو تفتیش سے پہلے ہی ' لو جہاد ' کا نام دے دیا جاتا ہے ، اور سارا دباؤ مسلم لڑکے یا لڑکوں پر آجاتا ہے کہ وہ ثابت کریں کہ انہوں نے لڑکی یا لڑکیوں کا جبراً مذہب تبدیل نہیں کرایا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اتراکھنڈ میں صرف 18 معاملات بین المذاہب شادیوں کے درج کیے گئے ہیں ، لیکن اترا کھنڈ کے سارے شرپسند ، چاہے وہ وشوا ہندو پریشد کے لوگ ہوں ، بجرنگ دل کے یا پھر آر ایس ایس کی کسی دوسری تنظیم سے تعلق رکھنے والے یا پھر بھاجپائی ہی کیوں نہ ہوں ، یہ تاثر دیتے پھر رہے ہیں جیسے کہ سارے مسلم نوجوان کچھ اور نہیں کر رہے ہیں بس ' لو جہاد ' ہی کر رہے اور ہندو لڑکیوں کا دھرم پریورتن کرا رہے ہیں !! اترا کھنڈ میں ' لینڈ جہاد ' کا زہر بھی پھیلایا جا رہا ہے ، یوں جیسے کہ سارے مسلمانوں نے مل کر پورے اترا کھنڈ کو خرید لیا ہو ، وہ اترا کھنڈ جو سدرشن چینل کے زہریلے اینکر سریش چوہانکے کے بقول ' دیو بھومی ' ہے۔


بدنیتی کی سیکڑوں مثالوں میں سے مزید دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
ایک معاملہ مدھیہ پردیش ( ایم پی ) کا ہے ، اور دوسرا معاملہ اترپردیش ( یو پی ) کا ہے۔ یہ دونوں ہی معاملات تعلیمی اداروں سے متعلق ہیں۔ ایم پی میں ضلع دموہ میں واقع ایک تعلیمی ادارے ' گنگا جمنا ہائی اسکول ' پر وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کی سرکار نے بلڈوزر چلانے کا انتباہ دے دیا ہے ! اس اسکول کا ، یا اس اسکول کے ذمے داران کا قصور کیا تھا ، جانتے ہیں ؟ بس یہ کہ کلاس میں بیٹھنے والی غیر مسلم لڑکیوں نے اپنے سروں کو حجاب سے ڈھانپ رکھا تھا ! یہ سر وں کا ڈھانپنا چوہان سرکار کی نظر میں بہت بڑا ' جرم ' ہوگیا ، اتنا بڑا جرم کہ وہ ، بلا لحاظ مذہب ، جِن بیٹیوں کی تعلیم کے لیے سرکاری امداد کا اعلان کرتے رہے ہیں ، ان ہی بیٹیوں کے ایک اسکول کو بند کروا کر ، اس پر انہوں نے بلڈوزر چلوانے کی تیاری کر لی ہے !
یہ ساری کارروائی وزیراعلیٰ کی مرضی سے کی گئی ہے ، انہوں نے اس معاملے کو ، یعنی ' ہندو لڑکیوں کے ذریعے سروں کا ڈھانپنا ' بہت ہی سنجیدگی سے لیا ہے ، کیونکہ اس معاملے کو چند شریروں نے ' تبدیلئ مذہب ' سے جوڑ دیا تھا ! ظاہر ہے کہ وزیراعلیٰ چوہان کہاں یہ برداشت کر سکتے تھے ، انھوں نے نہ ہی تفتیش کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی ان والدین سے ، جن کے بچے اس اسکول میں پڑھ رہے تھے ، سچ جاننے کی ، حکم دے دیا اور بلڈوزر لے جاکر اسکول کے دروازے پر کھڑا کر دیا گیا۔ سچ یہ ہے کہ بلڈوزر اس لیے لے جایا گیا کہ یہ اسکول ایک مسلم جوڑا چلاتا تھا ، اور اِن دنوں حالتِ نزاع میں چل رہے شیوراج سنگھ چوہان کو اپنی کرسی بچانے کے لیے ، جی ! ان کی کرسی 2024 ء کے اسمبلی الیکشن میں ڈانواڈول ہے ، یہ سب کرنا پڑا یا کرنا پڑ رہا ہے۔


اسکول میں ایک ہزار بچے پڑھتے تھے ، اب یہ اسکول بند ہے۔ اس اسکول کا ایک ' قصور ' مزید سامنے لایا گیا ہے ، کلاس کے بچے ' سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ' کا ترانہ پڑھتے تھے ، بھلا علامہ اقبال کا ترانہ بی جے پی راج میں کیسے پڑھا جا سکتا ہے ! حالانکہ نئے پارلیمنٹ کی افتتاحی تقریب میں علامہ اقبال کے اس ترانے کی دھن بھی بجائی گئی تھی ، اسے ' دیش دروہ ' نہیں سمجھا گیا تھا ، مگر شیوراج سنگھ چوہان کو یہ منظور نہیں ہے ، شاید وہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ مسلم مخالف سرگرمیوں میں یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پر بازی مار لیں۔


بی جے پی کے ایک ہمدرد مسلم ' دانشور ' فیرو احمد بخت نے 16 ،جون کے انگریزی روزنامہ ' دی انڈین ایکسپریس ' میں اس تعلق سے ایک مضمون لکھا ہے ، جس میں تحریر کیا ہے کہ " ایم پی کے حالات سے یوں لگتا ہے جیسے چوہان یو پی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے ایک قدم آگے جانا چاہتے ہیں۔ یوگی نے ممکن ہے کہ کچھ نامناسب حرکتیں کی ہوں لیکن انھوں نے کبھی کسی اسکول پر بلڈوزر نہیں چڑھایا۔" چوہان کے لیے حالات چونکہ خراب ہیں اس لیے وہ مسلمانوں کو بلی کا بکرا بنانا چاہتے ہیں۔ اسکول کو بند کروا کے انھوں نے بظاہر تو ہندوؤں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ' وہ کسی ہندو لڑکی کو مسلمان بنانے کی کوششوں کو برداشت نہیں کریں گے ' لیکن یہ ساری کارروائی بدنیتی پر محمول تھی ، ان کی نیت ایک مسلم اقلیت کے اسکول پر اپنی سیاست کو چمکانا ہے ، اور اس کے لیے وہ ایک اسکول تو کیا متعدد اسکولوں کو منہدم کروا سکتے ہیں۔


اب بات یو پی کی کر لیں۔ دارالعلوم دیوبند کو دو نوٹسیں دی گئی ہیں ، ایک اقلیتی کمیشن کی طرف سے اور ایک حقوقِ اطفال کمیشن کی طرف سے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ دارالعلوم کے ذمے داران نے ایک نوٹس کے ذریعے ، اپنے اُن طلباء کو ، جو ہوسٹلوں میں رہتے ہیں ، باہر جا کر انگریزی زبان اور کمپیوٹر کی کوچنگ وغیرہ لینے سے روک دیا ہے۔ دارالعلوم کے نوٹس کا سامنے آنا کیا تھا کہ دونوں ہی کمیشنوں کے ذمےداروں کو دارالعلوم میں پڑھنے والے طلباء کے حقوق یاد آ گئے ، اور شاید غصے سے ان کے چہرے بھی سرخ پڑ گئے ہوں کہ ، بھلا اِن مسلم بچوں کو ان کے بنیادی حقوق سے کیسے روکا جا رہا ہے !
اور انھوں نے نوٹسیں بھیج کر سخت کارروائی کی دھکی دے دی۔ یہاں بھی سوال نیت کا ہے ، کیا کبھی اس قدر جلد اِن کمیشنوں نے بچوں کے حقوق کی خبر پہلے بھی لی ہے ! زیادہ دور تک جانے کی ضرورت نہیں ہے ، ایم پی ہی کا معاملہ لے لیں ، دس سال کی بچی الفیہ کی ہی مثال لے لیں ، جو رو رو کر کہہ رہی ہے کہ وہ اپنے ہی اسکول میں پڑھے گی ، کیا کسی کمیشن نے یہ جاننے کی اور پوچھنے کی ضرورت محسوس کی ہے کہ اِن بچوں کو بھلا تعلیم کے بنیادی حق سے کیوں محروم کیا جا رہا ہے ؟


سوال یہ ہے کہ بھلا کوئی بھی تعلیمی ادارہ کیوں ہوسٹل کے اپنے بچوں کو باہر جاکر کوچنگ لینے سے نہیں روک سکتا ؟ اس معاملے میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ حقائق جاننے سے قبل کیسے نوٹس بھیج دیا گیا ؟ کیا کمیشنوں کو نہیں پتہ کہ دارالعلوم میں خود انگریزی کا شعبہ ہے ، کمپیوٹر کی تعلیم دی جاتی ہے اور باقاعدہ بچے میتھس ، تاریخ و جغرافیہ پڑھتے ہیں ؟ سرکار کو سب پتہ ہے ، لیکن اس کی رال اس لیے ٹپک پڑی تھی کہ دارالعلوم پر شکنجہ کسنے کا اُسے ایک موقعہ مل رہا تھا۔ یہ ادارہ ، بلکہ تمام ہی مدرسے ، فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں خار کی طرح چبھتے ہیں ، اور مرکز سے لے کر بی جے پی کی ریاستی حکومتوں تک سب ہی ان پر لگام لگانے کے مواقع تلاش کرتی رہتے ہیں ، انہیں نہ مدرسے کے بچوں کے حقوق کی فکر ہے اور نہ ہی نصاب کی ، بس ان کی نیت خراب ہے۔


بدنیتی کے کئی معاملات ہیں ، ' اسلامو فوبک فلمیں ، اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان کے نام ، یوگا ، بین المذاہب شادیاں ، تبدیلئ مذہب ، وندے ماترم ، یکساں سِول کوڈ ، سوریہ نمسکار ، گیتا کا پاٹھ اور بڑے کا گوشت۔ اِن موضوعات پر بہت لکھا گیا اور آئندہ بھی لکھا جائے گا ، کیونکہ یہ وہ موضوعات ہیں جنہیں 2024 ء کے لوک سبھا الیکشن تک اٹھایا جاتا رہے گا ، بدنیتی کے ساتھ۔


Massive spread of hatred and communalism

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں