مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی بحیثیت داعی اسلام - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-06-05

مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی بحیثیت داعی اسلام

maulana-abul-hasan-ali-mian-nadvi

مختصر سوانحی خاکہ
ولادت : حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی ولادت 6 محرم الحرام 1332ھ مطابق 15، دسمبر 1913ء رائے بریلی کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ہوئی ( جو دائرہ شاہ علم اللہ کے نام سے موسوم اور تکیہ کلاں کے نام سے مشہور ہے، جس کو کئی سو سال سے تو حید وسنت اور تحریک جہاد کے مرکز ہونے کا شرف حاصل ہے )۔ ساتویں دن عقیقہ کی سنت ادا کی گئی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام نامی پر ابوالحسن علی نام تجویز کیا گیا۔


حسب ونسب: آپ کا خاندانی سلسلہ جد امجد حضرت امیر کبیر سید قطب الدین محمد المدنی متوفی 277 ھ سے ملتا ہے ( جن سے ہندوستان میں اس خاندان کی بنیاد پڑی۔ حضرت کے والد ماجد مولانا حکیم سید عبدالحئی حسنی صاحب ہندوستان کے مایہ ناز مؤرخ ، صاحب ذوق محدث اور صاحب دل عالم تھے۔ حضرت والا کی والدہ ماجدہ مخدومہ سیدہ خیر النساء بہتر صاحبہ اپنے زمانہ کی ممتاز ترین خواتین میں سے تھیں۔ حضرت کی تربیت میں ان کی والدہ کا اہم کردار رہا ہے۔ مفکر اسلام ؒنے ایسے خاندان میں آنکھ کھولی جو ایک طویل زمانہ سے علمی و دینی خدمت انجام دے رہا تھا۔


تعلیم و تربیت : غالبا چار سال کی عمر میں رائے بریلی کے قیام میں تسمیہ خوانی ہوئی جو حضرت کے چچا مولانا سید عزیز الرحمن صاحب نے کرائی ،اردو کی با قاعدہ تعلیم بھی انہیں کی پاس شروع ہوئی۔ ماحول کے دینی ہونے کے ساتھ علمی وادبی ہونے نے بھی مولانا پر خصوصی اثر ڈالا، مولانا کو بچپن سے ہی مطالعہ کا اور کتاب جمع کرنے کا شوق ہوا، اور یہ ان کی اس عمر میں ہی شروع ہو گیا جو کہ کچی تھی اور بطور خاص علمی کتب کے لائق نہیں تھی لیکن مولانا کے مطالعہ کا شوق اس قدر بلند تھا کہ ہر پڑھی جانے کے لائق کتاب کا مطالعہ مولانا کا شوق بن گیا تھا۔ اس دوران جب کہ مولانا کی عمر مشکل سے 9 سال کی ہوگی مولانا کے والد کے اچانک انتقال کر جانے سے مولانا کو بڑے صدمہ اور دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا کی والدہ بڑی حوصلہ مند اور باہمت خاتون تھیں ان کے اپنے والدین کی طرف سے جائداد میں جو قدرے قلیل حصہ ملا تھا اس پر اکتفا کرتے ہوئے پوری اولوالعزمی سے مولانا کی تعلیم وتربیت پر توجہ دی، مولانا نے اپنی آپ بیتی “کاروان زندگی” میں لکھا ہے کہ“ گھر میں بڑے مرد کے نہ ہونے کی وجہ سے والدہ صاحبہ ہی میری نگرانی اور اخلاقی و دینی تربیت کی ذمہ دار تھیں”۔بڑے بھائی نے بھی اولوالعزمی اور وسعت قلبی سے اپنے اس چھوٹے بھائی کے ساتھ شفقت وتربیت کا اہتمام کیا، اور علم وادب کی ضروری شاخوں میں ان کے الگ الگ ماہرین شخصیات سے تعلیم دلانے کا اہتمام کیا۔
اساتذہ: چنانچہ عربی زبان وادب میں وقت کے ممتاز ترین عالم شیخ خلیل بن محمد یمانی ؒسے ،حدیث شریف میں ندوۃ العلماء کے شیخ الحدیث مولانا حیدر حسن خان ٹونکی ؒسے اور بطور مزید دیو بند کے شیخ الحدیث مولانا سید حسین احمد مدنی سے، اور علم تفسیر و تربیت باطنی میں لاہور کے مولانا احمد علی لاہوری سے بھر پور استفادہ کیا ۔


تحریک ندوۃ العلماء کے مقاصد میں ایک اہم مقصد دعوت و تبلیغ بھی ہے جس کو بڑے پیمانے پر انجام دینے کے لئے ذمہ دارانہ تحریک نے دارالعلوم کی بنیاد ڈالی تاکہ کثیر تعداد میں داعی دین اور اسلام کے سپاہی تیار کئے جائیں اور ایسی داعی پیدا بھی ہوئے جن میں سرفہرست حضرت علی میاں ؒ کا نام نمایاں ہے۔ پھر آگے چل کر غیر مسلموں میں اسلامی کی دعوت کا کام کرنے کے لئے مفکر اسلامؒ نے تحریک پیام‌ انسانیت کی بنیاد ڈالی تاکہ انسانیت کے ذریعے غیروں کو ہم مانوس کر سکے تاکہ دعوت دین دینا آسان ہوجائے ، مزاج انسانی کو مانوس کرنے کا سب سے موثر طریقہ انسانیت ہی ہے ، اسلئے یہ تحریک وجود میں آئی اور آج الحمد للہ پورے ملک ہند میں ایک واحد تحریک ہے جو غیروں میں دین کا کام انجام دے رہی ہے۔


جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم و داعی دین و اسلام پورے عالم کا سفر فرماتے تھے اور موقع محل کی رعایت کرتے ہوئے ملاقاتوں و تقریروں اور انسانیت و اخلاق کے ذریعے سے دعوت پیش کرتے تھے۔ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں تو ظاہر ہے کے اسی طریقہ و منہج کو میدان دعوت میں اختیار کریں گے جو آپ نے عملاً و فعلا بتایا ہے۔حضرت مولاناؒ بھی اسی روشنی میں دعوت و تبلیغ کے کام کو انجام دیتے تھے۔
آپ ؒبھی دنیا کے اکثر و بیشتر علاقوں میں دعوتِ دین و اسلام کے خاظر اسفار فرمائیں اور دعوت دینے میں جس اسلوب و طریقہ کار کو اختیار کیا ، وہ سب اس مقالہ میں دیکھنے کو ملے گا ، سب سے پہلے بیرونی ممالک کے دعوتی اسفار کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس کے بعد پڑوسی ممالک کا ذکر ،پھر ملک ہند میں دعوتی سرگرمی کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گی ہے۔جس کی تفصیل درج ذیل ہیں:


حجاز مقدس سعودی عرب کا پہلا دینی و دعوتی سفر
نہیں وجود حدود و ثغور ہے اس کا
محمد عربی سے ہے عالم عربی


عالم عربی کی اصل شناخت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ، وہیں سے دنیا کو دین و ایمان کی روشنی ملی ، آپ ﷺ سے وابستگی ہی اس کا اصل امتیاز ہے۔ اگر اس کا یہی امتیاز باقی نہ رہے تو اسکی کوئی خصوصیت نہیں سوائے عربی زبان کے۔ یورپ اس حقیقت سے آشنا ہوگئی اور یہ کوشش کی کہ مرکز اسلام کو اپنی اصل سے کاٹ دیا جائے اور اس کے لئے اس نے مصر کا انتخاب کیا ، اور پھر مصری نوجوانوں مغربی ملکوں میں تعلیم کرنے لگے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دلوں و دماغ میں مغربی افکار و نظریات نے جنم لے لیا اور وہ مغربی سرگرمیاں انجام دینے لگے ۔ گویا کہ مصر کی حیثیت یورپ کے ایک شاگرد ، مقلد یا خوشاچین کی ہوکر رہ گئی تھی۔ جس کے سبب آہستہ آہستہ مصر مغربی تہذیب کے سانچے میں ڈھلتا گیا۔
حضرت مولانا ابوالحسن علی حسنی ندوی ؒ 19 شعبان المعظم 1396ھ مطابق 9 جولائی 1947ء کو حضرت مولانا عبید اللہ بلیاوی کے اشارہ ، مولانا یوسف کاندھلوی اور شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی کے مشورہ سے پہلی مرتبہ حج اور دعوتی و تبلیغی نیت سے حجاز مقدس تشریف لے گیے ‌، مولانا ایک صاحب بصیرت داعی تھے اسلئے اپنے پہلے سفر حج میں ہی یہ تبدیلی محسوس فرمالی تھی اور یہ اندازہ کرلیا تھا کہ اب سعودی عرب بھی مصر و شام کے راستے پر ہے۔ مولاناؒ کی نظر میں اس کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ جس دعوت و تحریک کے نام پر مملکت کا وجود عمل میں آیا ہے اس کو وہاں فراموش کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ تبدیلی واقع ہوئی ہے۔


مولاناؒ ایک فکر و دردمند داعی تھے ، اسلام پر مغرب کے یہ برے اثرات مولانا سے دیکھے نہ گئے پھر مولانا حجاز کے اہل علم و اہل اقتدار طبقہ میں موثر طریقے سے دعوتی تحریک و مشن کو چلایا ، مولانا بلال حسنی ندوی تحریر کرتے ہیں کہ “ان کے دل پر بدلتے حالات کا بڑا اثر پڑا ، سفر سے واپسی کے دن ہی انہوں نے وہاں کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ولی عہد مملکت امیر سعود کو ایک بصیرت افروز دردمندانہ اور ناصحانہ مکتوب تحریر فرمایا۔ یہیں سے طبقہ حکام و امراء میں مولانا کی دعوتی کوششوں کا آغاز ہوتا ہے۔ مولانا نے اپنے پورے قیام میں جس استغناء کے ساتھ دعوت وتبلیغ کا کام انجام دیا اور جو مناسب اسلوب اس کے لیے اختیار کیا اس کے نتیجہ میں وہاں کے متعدد اصحاب فکر و عمل ان سے متاثر ہوئے۔


ان میں ایک نمایاں نام شیخ عمر بن حسن آل الشیخ کا ہے جو "هيئة الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر" کے رئیس تھے اور امیر سعود کے بڑے معتمد بھی تھے، یہ خط حضرت مولانا نے ان ہی کے ذریعہ سے امیر موصوف کو ارسال فرمایا، بعد میں معلوم ہوا کہ انہوں نے خود یہ مکتوب امیر کو پڑھ کر سنایا۔ خط میں حضرت مولانا نے مملکت کی اہمیت و عظمت بیان فرمائی ہے، مسلمانوں کی اس سے جو توقعات ہیں ان کا تذکرہ کیا ہے پھر اس غلط رخ کا ذکر فرمایا ہے جس پر عام طور سے حکومتیں پڑ جایا کرتی ہیں اور اس کی ضروری اور مناسب اصلاحات کی طرف توجہ دلائی ہے”۔مولاناؒ مکتوبی دعوت پر توجہ نہ دے سکے جس وجہ سے حالات جوں کے توں رہے۔
چنانچہ 21 شوال المکرم 1366ھ بروز سنیچر کو مدینہ منورہ میں ترکی حجاج سے ملاقات کی اور عربی میں مدلل و پرمغز تبلیغی تقریر فرمائی جس کا بڑا اثر ہوا۔ پھر 22 شوال بروز اتوار مولانا ؒؒکی قیادت میں مختصر سی تبلیغی جماعت دس میل کے فاصلے پر ایک قصبہ زہرا میں تشریف لے گئی ، وہاں حجاج کی مجلس میں مولانا ؒتعلیم کے غرض سے گئے ، ان حجاج کی حالت کو دیکھ کر مولاناؒ کو دعوت و تبلیغ کی اہمیت و ضرورت کا بہت احساس ہوا کیونکہ وہ حجاج 60-70 سال کی عمر کے تھے اور کلمہ و سورہ فاتحہ تک سے ناآشنا تھے ، خیر مولانا وہاں زہرا میں پانچ دن قیام فرمایا اور دعوت و تبلیغ کے مشن کو حتی المقدور کامیاب بنایا، زہرا سے واپسی کے بعد 27 شوال بروز جمعہ کو عربوں کا ایک اجتماع منعقد ہوا ، عربوں کا ایک بڑا مجمع وہاں موجود تھا جس میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز حضرات بھی تھے ، مولانا ابو الحسن علی ندویؒ بحیثیتِ داعی عربی میں پرتاثیر تقریر فرمائی جس کا عربوں پر کافی اثر ہوا۔
حجاز مقدس کا دوسرا دعوتی و تبلیغی سفر
پہلے اور دوسرے سفر کے دوران تقریباً 4 سال کا وقفہ ہے ، اس وقفہ میں وہاں کے حالات مزید بدتر ہوگئے تھے ، حضرت مولانا کو فکر لاحق ہوئی اور آپ ؒنے ان ناگفتہ بہ حالات کو بدلنے کے لئے 50- 1951ءمیں اپنے کئی شاگردوں مولانا معین اللہ ندوی ، مولانا عبداللہ عباس ندوی مولانا عبدالرشید اعظمی ندوی ، مولانا سید محمد طاہر منصور پوری، مولانا سید رضوان علی ندوی اور اپنے عزیز بھانجہ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کے ساتھ دعوتی و تبلیغی مقصد سے حجاز مقدس کا سفر کیا اس میں وہاں طویل قیام فرمایا اس سفر سے حجاز مقدس کے علماء اور اہل علم و دانش حلقوں میں دوبارہ حکیمانہ و داعیانہ انداز سے دعوت کا کام شروع فرمایا۔


پھر دیکھتے ہی دیکھتے مولانا کی دعوتی کوششوں سے وہاں کے حالات پر بڑا اثر پڑا اور تعلیم یافتہ طبقہ کی ایک جماعت نے حضرت مولانا کی فکر و دعوت کو لے کر اٹھ کھڑی ہوئی لیکن اب بھی کچھ لوگ دین سے بے پرواہ اور تہذیب نو کے دلدادہ بنے بیٹھے تھے جس کی وجہ سے مولانا نے اپنی کوشش کو جاری رکھا ،لیکن کچھ ہی ایام بعد مولاناؒ کو یہ خبر معلوم ہوئی کہ عرب حکومت میں تہذیب نو کے ایک حصہ کو پوری طرح داخل کرنے کا رجحان پیدا ہوگیا ہے ، مولاناؒ امیر سعود سے مدینہ منورہ میں ملاقات کی اوران خطرات سے آگاہ کیا جو مملکت کو درپیش تھی ،مولاناؒ کے اس گفتگو سے ان کے دل میں فکر اسلامی کا بیج پڑگیا جس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔


مولاناؒ نے اتنے ہی پر بس نہیں کیا بلکہ ہمیشہ ان تغیرات کا جائزہ لیتے رہے اور ضرورت کے پیش نظر حکام و سلاطین کو متوجہ کرتے رہتے اسی طرح کے بعض نا مناسب تبدیلیاں اور آزادانہ اقدامات کا جب آپ ؒ کو علم ہوا تو پھر آپ نے امیر فیصل ہی کو دوبارہ ایک بصیرت افروز مکتوب کے ذریعہ ہدایت دی ، جس میں اسلامی دعوت و تبلیغ اور اسلامی نظام و تعلیمات نیز مسلمانوں کی تعمیر و ترقی کا پہلو نمایاں تھا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ دعوت و جہاد کا جو موقع اللہ ربّ العزت نے آپ کو عطاء کیا ہے ، وہ ہر ایک کو ہر جگہ اور ہر وقت میسر نہیں آتا ہے کہ "آتی نہیں فیصل گل روز روز "۔

مولانا ؒکی فکری بصیرت کا یہ عالم تھا کہ اپنے پہلے سفر حج کے دو سال بعد یعنی 1949ء میں تغیر پذیر حالات کے پیش نظر ندوی فضلاء کو دعوت و تبلیغ کی غرض سے وہاں بھیجنے کا سلسلہ جاری کیا ، اسی سال مولانا کو حج کی پیشکش بھی کی گئی تھی لیکن اپنے شیخ کے ایماء پر اس کو ترک کردیا تھا۔ ندوی فضلاء میں سب سے پہلے دعوتی مشن کے فروغ کے لئے مولانا معین اللہ ندوی ؒ و مولانا رشید اعظمی ندوی ؒکو بھیجا ،(جیساکہ ابھی اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ1950 کے اواخر اور 1951 کے اوائل میں مولانا نے کئی شاگردوں کے ساتھ سفر فرمایا ، یہ اس سے پہلے کی بات ہے ) پھران دونوں حضرات کے بھیجے جانے کے بعد ایک سال گز جانے کے قریب تھا کہ نئے سال کے لئے مولاناؒ نے مزید ندوی فضلاء کو بھیجنے کا ارادہ کیا جس میں مولانا سید رابع حسنی ندوی کا نام بھی تھا ، 1950 ء میں حضرت عبدالقادر رائے پوریؒ نے خود حج کی خواہش ظاہر کی اور “مولانا علی میاں ندویؒ سے کہا کہ میں حج پر جاؤ گا آپ بھی چلئے اور یہ بھی کہا کہ یہ حج میں آپ ہی کے خاطر آپ کے بات ماننے کی قدردانی میں کر رہا ہوں ” اس جملہ سے مولانا علی میاں ندوی ؒ کی قدر و منزلت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ، اب مولانا اپنے شاگردوں اور شیخ کے ہمراہ دعوتی و تبلیغی سفر طے فرمایا ، اور حجاز مقدس کے مختلف گوشوں میں دعوت کا کام کیا سب سے زیادہ مولاناؒ سے تعلیمی طبقہ نے اثر لیا اور گاہے بگاہے حکام و سلاطین سے ملاقات ہوتی رہیں ، ساتھ ہی تقریروں و تحریروں کے ذریعے سے دعوتی سرگرمیاں انجام دیتے رہے۔
حجاز مقدس کے بااثر ادباء میں مولانا ؒ کا عوتی و تبلیغی رول
سعودی عرب کے وزیرِ مالیہ عبداللہ سلیمان جو حکومت کےبہت معتمد علیہ تھے اورنائب وزیر مالیہ سرور الصبان تھے ، گورنمنٹ کے سرکاری پریس کے منیجر سید محمود حافظ اور حجاز کے مشہور و معروف ادیب احمد عبدالغفور عطار یہ حضرات ادبی ذوق و مزاج رکھتے تھے اور ادیبوں سے بڑے مانوس ہوتے تھے اور ان کی خاظر خواہ خدمت کرتے تھے ، ساتھ ہی ادبی و علمی حلقوں میں بڑے مقبول تھے ، اب چونکہ مولاناؒ بھی ادبی دنیا کے ممتاز غازی تھے جس وجہ وہ مولانا سے بہت متاثر ہوئے۔ سید محمود حافظ دیندار ، وضع دار اور بڑے نیک صالح شخص تھے مولاناؒ سے حددرجہ محبت رکھتے تھے ، انہی نے ایک دعوت کے ذریعہ سے مولانا ؒکو حجاز کی بڑی اہم شخصیات علما ء و ادباء اور دانشوروں سے تعارف کرایا ، دعوت میں آئے ہوئے سیکولر ذہن کے لوگوں نے مولانا ؒ کے تعارف کی وجہ سے مختلف سوالات کئے مولانا نے ان تمام سوالات کے تسلی بخش جوابات دئے ، جس کے نتیجہ مولانا کا ادبی و دعوتی پہلو اجاگر ہوا۔


مولاناؒ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ان کو دعوت و تبلیغ سے جوڑنے کی کوشش کی کیونکہ یہ حجاز کے مشہور و بااثر شخصیتیں تھیں جن کے ساتھ لوگوں کا ایک بڑا قافلہ ہوتا ہے ، مولانا کا خیال یہ تھا کہ اگر ان کے دلوں و دماغ میں دینی و اسلامی ، دعوتی و تبلیغی فکر کی بیج پڑگئی تو وہ ضرور برگ و بار لائے گی جس سے اسلام اور عالم اسلام کو تقویت ملے گی ، مولانا نے ان سے کہا کہ ایک دن‌ ہم پکنک پر چلتے ہیں ، وہ لوگ تیار ہوگیا اور روانہ ہوئے اور وادی فاطمہ کے ایک دیہاتی علاقہ کی مسجد میں تبلیغ طرز پر ٹہرے ، مولانا رابع حسنی ندوی رقمطراز ہیں کہ“ یہاں (پکنک میں)مولانا نے ان کے ذہنوں کا لحاظ کرتے ہوئے دین کی باتیں کیں ، جس سے وہ لوگ مانوس ہوئے اور دین کے تعلق کو محسوس کیا۔ پھر اس کے بعد وقتاً فوقتاً ملاقاتیں ہوتی رہیں اور وہ لوگ مولاناؒ سے مانوس ہوتے چلے گئے ، ریڈیو پر تقریریں بھی کرائیں، اور زور دار تعارف بھی کرایا اور ان کے رسائل بھی جو وہ ساتھ لے کر گئے تھے سنوائے۔


اس کے بعد احمد عبد الغفور عطار نے مولانا ؒ سے طائف کے سفر کی تجویز پیش کی ، شیخ سرور الصبان نے سفر کا انتظام کیا ، اس سفر میں احمد عبد الغفور عطار اور انکے ساتھی اور مولانا علی میاں ند نا وی ، مولانا معین اللہ ندوی اور تبلیغی جماعت کے ذمہ دار مولانا سعید احمد خاں مکیؒ ساتھ ساتھ تھے ، مولانا علی میاں ندوی ؒ بحیثیت داعی وہاں کی کئی اہم‌ دینی و ملی شخصات سے ملاقات فرمائی اور وہاں کے کمشنر شاہی خاندان کے ایک فرد تھے جو سننے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے ، لکھ کر بات ہوتی تھی ، بڑے ذہین تھے ، ان سے بھی مولانا کی ملاقات ہوئی (14) اور پھر حسب معمول طائف کے اندر کئی دنوں تک دعوتی و تبلیغی سرگرمیاں انجام دیتے رہے۔
مصر کا دعوتی سفر
10 جنوری 1951 کو مولانا علی میاں ندوی ؒ نے مولانا معین اللہ ندوی ؒاور مولانا عبد الرشید ندوی اعظمی ؒؒکے ہمراہ اپنے دوسرے سفر حجاز ہی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مصر کا سفر کیا ، وہاں علم و ادب اور دعوت و فکر کے چوٹی کے لوگوں سے ملاقاتیں کرتے اور مختلف قبائل ، مساجد ، مدارس ، جامعات ،یونیورسٹیز اور دیگر علمی حلقوں ، ادبی مجلسوں اور جماعت طلباء میں تقریروں ، مقالات اور تحریروں کے ذریعے سے چھ ماہ تک دینی گشت و دعوت کے کام میں سرگرم رہیں ، 21 مارچ 1951کو مولانا ؒنے دارالعشیرۃ المحمدیہ میں تقریر فرمائی جس میں “حاضرین کو عوام سے ربط و تعلق پیدا کرنے کی طرف متوجہ کیا اور کہاکہ مصری دیہاتوں کی طرف ہفتہ وار جماعت کو نکلنے کا نظام قائم کریں” اس تشکیل سے حاضرین نے جماعت میں نکلنے کا وعدہ کیا اور اچھے نتائج برآمد ہوئے ۔


چنانچہ 22 مارچ کو مولانا ؒ نے بعض ازہر سے ملحق کالجوں کے طلباء کے درمیان ایمانیات کے موضوع پر تقریر فرمائی اور شہر کے مضافات و اطراف میں دین کی دعوت کے لیے نکلنے کی تلقین کی ، سب طلباء نے آئندہ کل یعنی جمعہ بتاریخ 23 مارچ کو نکلنے کا وعدہ کیا ،پھر وہ طلباء کل تشریف لائے اور مولاناؒ کے ہمراہ ایک مسجد میں نماز جمعہ ادا کی ، بعد نماز جمعہ ایک صاحب نے تبلیغی جماعت کے اغراض و مقاصد سے عوام الناس کو آگاہ کیا ، جس کا اچھا اثر پڑا۔


اس کے بعد مولاناؒ اور طلباء" نکللہ " گئے ، جہاں پہلے سے ہی مولانا معین اللہ ندویؒ اور مولانا عبید اللہ بلیاویؒ موجود تھے ، بعد نماز عصر ایک بڑے ہال میں مولانا نے ان کے سامنے ایک مختصر تقریر کی جس کو یہاں نقل کیا جاتا ہے “ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر جو انعام کرتا ہے ان میں سب سے بہتر و بڑا انعام نعمت تو حید ہے جس سے ایسے لوگ بھی محروم ہوئے جن سے زیادہ کوئی نبی سے قریب نہ تھا، یہ اللہ کی دین ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے، یہ ایسی نعمت ہے جس پر بڑا شکر ادا کرنا چاہئے اور شکر ادا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آدمی لوگوں میں دینی دعوت اور نشر واشاعت کا کام کرے”۔ اس تقریر سے حاضرین متاثر ہوئے اور دعوت الی اللہ کی ادائیگی میں لگ گئے۔


15 اپریل 1951ء کو مولاناؒ نے ڈاکٹر یوسف القرضاویؒ ، مولانا عبید اللہ بلیاوی ؒاور اپنے دونوں شاگر سمیت کئی اہم شخصیات کے ہمراہ " نبروہ "میں جماعتوں کی تشکیل کے لئے تشریف لے گئے ، اہل السنہ کی ایک مسجد میں بعد نماز فجر تقریر فرمائی اور درخواست کی کہ دینی دعوت کے سفر میں ہمارا ساتھ دیں ، بعد نماز ظہر کئی لوگ جماعتوں میں تقسیم ہوگئے اور ہر جماعت قریب کے گاؤں کے لئے روانہ ہوگئی تاکہ یہاں کے مسلمانوں سے ملے اور ان میں دینی دعوت کا کام کریں ، مولاناؒ نے یہاں کی مستورات میں بھی دینی و تبلیغی بیان و تشکیل فرمائی۔


کچھ دنوں کے بعد 19 مئی 1951 ء کو مولانا آزاد ؒ سے مولانا علی میاں ندوی ؒ کے علمی و دعوتی قافلہ نے ملاقات کی اور کارگزاری بھی سنائی اور مختلف تبادلہ خیال پیش کیا، راقم السطور نے مطالعہ سے اندازہ لگایا کہ شاید ہی کوئی بااثر و باکمال ، علمی و ادبی شخصیات اورمختلف عہدوں پر فائز حضرات نیز سرکاری ملازمین سے حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ نہ ملے ہوں اور دین کی دعوت نہ دی ہو ، بحیثیتِ داعی مولاناؒ نے جو سعی کی ہے شاید ہی کوئی اس طرح سے دعوتی سرگرمیاں انجام دے سکے۔
سوڈان کا دعوتی سفر
شعبان 1370 ھ مطابق جون 1951 ء کو مولانا ؒ نے مولانا بلیاوی ؒ کے معیت میں سوڈان کا سفر کیا اور مورخہ 12 جون سوڈان کے مفتی اعظم شیخ ابوالقاسم اور جسٹس شیخ حسن المدثر سے ملاقات کی اور دعوت و تبلیغ کے موضوع پر گفتگو فرمائی ، ساتھ ہی جنوبی سوڈان و اطراف و اکناف کے علاقوں کی طرف توجہ مبذول کرائی جو ابھی تک کفر و ضلالت کے عمیق گار میں ہیں ، نیز انگریزی حکومت نے" کیوبا "میں اسلامی تبلیغ کی اجازت جلد ہی دی تھی(پہلے ممنوع تھی) ، مولاناؒ نے اس علاقہ کی طرف بھی ان دونوں حضرات کو خوب محنت کرنے کی تلقین فرمائی ۔


پھر 13 جون کو جمعیۃ التبشیر الاسلامی کے سیکریٹری شیخ شوقی اسد سے دعوت دین کی غرض سے ملاقات کی ، مولاناؒ نے ان سے جو کہا وہ یہاں ذکر کیا جاتا ہے “ جستہ اللہ کام کرنے والوں اور مخلص داعیوں اور کارکنوں کا وجود آمدنی کی زیادہ فکر کرنے اور چندہ جمع کرکے جمعیۃ کے لئے اچھا بجٹ اکٹھا کرنے سے زیادہ مقدم وضروری ہے” ، مولاناؒ کی اس گفتگو سے انہوں نے دعوت دین کی خدمت میں پیش پیش رہے۔ 14 جون کو مسجد کے امام شیخ محمد عوض عمر نے سوڈانی طرز پر مولاناؒ کی دعوت کی ، کھانے سے فارغ ہونے کے بعد مولانا ؒ ان کو اسلامی دعوت کی تحریک چلانے کی کی طرف پر متوجہ کیا علاوہ ازیں" ام‌درمان " کے جامعہ تشریف لیے گئے اور وہاں کے فارغین طلباء سے افریقہ کی دینی اہمیت کے موضوع پر تقریر کی اور دعوت و تبلیغ کے کام کا طریقہ کار بھی بتایا، اس کے بعد مورخہ 18 جون کو سوڈان کے دوبارہ مصر کا رخ کیا ، پھر کچھ ہی دنوں بعد مصر کو بھی الوداع کہا۔
شام کا دعوتی سفر
20 رمضان 1370 ھ مطابق 25 جون 1951 ء کو مولانا ؒ اور بلیاوی ؒ ملک شام تشریف لے گئے ، یہاں بھی مولاناؒ نے چوٹی کے علماء و سربراہوں سے ملاقاتیں کی ، دمشق کے مختلف گوشوں میں دعوت کا کام کیا، ماہ رمضان کے بعد مولانا ؒ نے شرق اردو کا سفر کیا ، یہاں کے بادشاہ ملک عبداللہ بن حسین سے ملاقات کی ، مضمون کو زیادہ طول نہ دیتے ہوئے اس سفر کی داستان اور شاہ سے ملاقات کے متعلق جو گفتگو ہوئی اس کو بلیاوی ؒ کی زبانی جوں کا توں نقل کرنا مناسب سمجھتے ہیں “مولانا علی میاں نے شاہ عبداللہ بن حسین سے کہا: جلا لۃ المملک ! اگر چھوٹا سے چھوٹا ملک بھی ہو اور خواہ اس کی پیداوار کم ہو، اس کی فوج ناقابل ذکر ہو لیکن اسلام کو اپنا لے اور دین کے احکام اپنی مملکت میں رائج کرلے تو وہ دنیا کے لئے رحمت کا سبب بن سکتا ہے، اور ساری دنیا کے لئے نمونہ بن سکتا ہے جب مولانا یہ بات کر رہے تھے میں نے شاہ کو دیکھا کہ وہ کنکھیوں سے اپنے ایک وزیر کو دیکھ رہے تھے ، جیسے کہہ رہے ہوں سنو ایک ہندی داعی دین کیا کہہ رہا ہے؟ ،شام کے دوسرے شہر حمص اور حماۃ اسے کے علاوہ متعدد علاقوں میں مولاناؒ تشریف لیے گئے اور مختلف طریقوں سے دعوتی و تبلیغی خدمات انجام دیتے رہے ۔
22 جولائی کو مولانا ؒ نے شام کے جمعیۃ التمدن الاسلامی میں اہم اسکالرز سے دعوت و تبلیغ اور فکر اسلامی کے موضوع پر تقریر فرمائی ، ساتھ ہی عوام سے رابطہ پیدا کرنے اور دیگر قوموں کو دعوت اسلام دینے کی طرف توجہ دلائی ،پھر اگلے دن مولانا ؒ نے دمشق یونیورسٹی تشریف لے گئے ، یہاں ڈاکٹرز ، پروفیسرز ، ماہرین تعلیم ، اساتذہ ، پرنسپل و وائس چانسلر سمیت مختلف شعبوں میں سرگرم اہم شخصیات کے درمیان دعوت دین پر مبنی مقالہ پڑھا ۔ پھر 23 جولائی کو دمشق کے الجمعۃ الغراء میں علماء اور دینی انجمنوں کے صدر حضرات اور اہل مدارس کے درمیان دعوت کے اس طریقہ کار کو بیان کیا جو شہر لکھنؤ کے دارلعلوم ندوۃ العلماء میں چلاتے ہیں ، اسی مناسبت سے اگلے دن اخوان المسلمین کے درمیان بھی گفتگو فرمائی ، جس سے مدارس اور شہر والوں کے اندر فکر اسلامی کی پیج پڑ گئی ، اسی طرح سے لبنان ، اردن ، سوریہ ، فلسطین ، حلب ،مضایا ، کے شہروں میں بھی دعوتی غرض سے تشریف لے گئے ، یہاں کے مساجد ، یونیورسٹیز اور دینی حلقوں میں دعوت چلائی ۔
یورپ و امریکہ کا دعوتی سفر
1962ء میں مولانا ؒ یورپ تشریف لے گئے ، یہاں ایک دینی مدرسہ میں تقریر کی جس میں دعوت کے تقاضے و اہمیت اور دعوت کو صحیح طور پر انجام دینے کی طرف توجہ دلائی ، ایک اور دعوتی و فکری ادارہ میں تشریف لے گئے جو اپنے مخصوص انداز میں دعوت کا کام کر رہا ہے ، مولاناؒ نے ان کو اس کام‌ کو سراہتے ہوئے یہ توجہ بھی دلائی کہ کسی ایک طریقہ کار اور اسلوب کو دو ین کی خدمت کا واحد طریقہ نہیں سمجھ لینا چاہیے بلکہ وسعت سے کام‌ لینا چاہیے ، اس کے بعد ایک اور دینی مرکز میں تشریف لے گئے اور یہاں بھی دعوتی و تبلیغی اہمیت کو واضح کیا۔


ایک موقع پر امریکہ کی کیلی فورنیا میں حالات سے باخبر ہوکر پرمغز تقریر کی جس کو یہاں ذکر کیا جاتا ہے “ دیکھو دین ایک ہے، تم مقامی اثرات سے اتنے متاثر نہ ہو کہ یہ امریکہ کا اسلام ہو جائے، یہ ایشیا کا اسلام ہو جائے، یہ آسٹریلیا کا اسلام اور یہ افریقہ کا اسلام ہو جائے۔ دین کی بنیادی قدریں اور احکام ایک ہیں۔ دین میں خود اس کا خیال رکھا گیا ہے کہ حالات اور علاقوں کی مجبوریوں میں کیا گنجائش ہے؟ لیکن بنیادی طور پر اور مجموعی طور پر دین ایک ہے۔ دین کسی جگہ بھی ہو گا وہ اپنی اسی بنیادی حیثیت سے ہوگا۔ اس لئے مقامی حالات اور تقاضوں سے دین کی اصل شکل اور کیفیت نہیں بدلی جاسکتی”۔ مولاناؒ نے یہاں کے غیر مسلموں میں بھی تبلیغ کا کام کیا۔


یونیورسٹی آف انجینئرنگ جرمن میں ایک خطاب فرمایا اور ان کو بھی اسلامی دعوت دی ، ایک دوسرے موقع پر جرمن قوم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ“ تم بڑے بڑے ذہین لوگ پیدا ہوئے ، تم عملی قوم ہو ، تم اسلامی رہنماؤں کو اپنا کر دیکھو ، تمہاری طاقت و قوت کو اس سے مدد ملے گی ”۔ اسی طرح امریکہ کی مسلم طلبہ کی انجمن M۔S۔A سے مولاناؒ نے اسلام کی اہمیت کے موضوع پر بیان فرمایا ، اس کے بعد تقریباً 20 دن دعوت و تبلیغ کی غرض سے امریکہ و کناڈا کے اہم اہم شہر مثلاً اسپین ، لندن کا سفر کیا ، ان‌موقوع پر کی گئی تقریروں و خطابات کے مجموعے میں تفصیل سے دیکھی جا سکتی ہے (" نئی دنیا امریکہ میں صاف صاف باتیں" اور" مغربی دنیا سے صاف صاف باتیں" ، "مکاتب یورپ " ،" دو مہینے امریکہ میں ")


کویت و مراکش کا دعوتی سفر


1962 ء میں ہی مولاناؒ نے کویت کا سفر کیا ، یہاں کے شیخ امیر عبداللہ سے ملاقات کی ، ضروری مشورہ دئے اور ساتھ ہی ایک تحریر بھی ان کے سپرد کی جس میں لکھا تھا “ اللہ تعالیٰ نے تاریخ میں آپ کو وہ نادر موقع دیا ہے جس میں آپ اپنا انقلابی رول ادا کر سکتے ہیں، جو ہمیشہ شکر و اعتراف کے ساتھ یاد رکھا جائے گا۔ وہ رول ہماری موجودہ تہذیب کے خلا کو پر کرتا ہے؛ وہ خلا کسی ایسی حکومت کا نہ ہوتا ہے جو دین و عقیدہ اور مادی وسائل و ذرائع کے درمیان ربط پیدا کرے، وہ خلا ایسے معاشرہ کا فقدان ہے جس میں ایمان و اخلاق اور معاصر دنیا کے جدید تجربات کے درمیان ہم آہنگی ہو۔ یہ ایسا خلا ہے جسے دنیا کی کوئی بڑی حکومت بھی نہیں بھر سکتی۔ جو حکومت بھی اس شعار کو اپنائے گی وہ حکومتوں کی صف میں معنوی لحاظ سے اپنا اولین مقام بنالے گی اور اس کو ایسا وقار و احترام حاصل ہوگا جو دنیا کے بڑے ملکوں کو بھی حاصل نہیں۔ امیر نے مولانا ؒ کے مشورہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور اس پرعمل بھی کیا۔


1976 ء میں حضرت مولاناؒ مراکش تشریف لے گئے اور یہاں دو ہفتہ قیام فرمایا ، شاہ مراکش حسن ثانی نے مولانا ؒ کی دعوت کی ، بعد طعام مولانا نے خطاب فرمایا کہ “ میں آپ کو عالم اسلام کی جانب سے ایک بہت عزیز پیغام پہنچانے کی سعادت حاصل کرتا ہوں، وہ یہ ہے کہ آج دنیا کے مسلمان بے چینی سے اس کے منتظر ہیں کہ عالم اسلام کے افق سے کوئی نیا ستارہ طلوع ہو۔ مسلمان اس وقت ایسے غیر معمولی حالات سے گذر رہے ہیں جن میں کوئی غیر معمولی قائدانہ شخصیت ہی ان کی مشکل کشائی کر سکتی ہے، جو غیر معمولی قوت ایمانی ، عزم راسخ، اور اخلاص کامل سے متصف ہو، اور جو سیاسی اغراض و مفادات سے بلند ہو کر رضائے الہی اور خدمت اسلام کا عہد کرے ” مولانا کی دعوتی و فکری کوششیں یوں ہی کئی دنوں تک جاری رہی اور اچھے نتائج سامنے آتے رہے۔
یمن و ترکی کا دینی و دعوتی سفر
1984 ء کو حضرت مولانا نے یمن کا پہلا دعوتی سفر کیا ، وہاں ہر طبقہ کی جانب سے ان کا عظیم الشان استقبال ہوا، ذمہ داران حکومت نے تشریف آوری کو بڑی اہمیت دی اور فوج کے سامنے بھی دو مرتبہ خطاب کا موقع دیا۔ صدر، نائب صدر، وزیر اعظم، اور اہم وزراء و عمائدین سے ملاقاتیں ہوئیں۔ صنعاء یونیورسٹی میں خطاب ہوا۔ ریڈیو اور ٹی وی پر خطاب کا موقع دیا گیا۔ ملک کے مختلف شہروں میں عوامی جلسوں میں خطاب ہوا۔ اس کے علاوہ دانشوروں کے خصوصی اجتماع میں خطاب ہوا اور حضرت مولانا نے ان کے سامنے یمن کی وہ خصوصیات بیان کیں جو زبان نبوت سے ارشاد ہوئی ہیں اور فرمایا کہ ان خصوصیات کو باقی رکھنا اہل یمن کی ذمہ داری ہے۔ مغربی ممالک میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی سازشوں اور مغربی تمدن کو تعلیم و ثقافت کے ذریعہ ملک میں رائج کرنے کے خطرات سے آگاہ کیا۔


ترکی کی تاریخ سے مولانا ؒ صرف واقف ہی نہیں بلکہ اس کے رمزشناس تھے۔ وہاں کے اہم شخصیات کو کئی بار خطاب کیا ، متعدد سفر بھی فرمایا۔ رفاہ پارٹی کے سربراہ نجم الدین اربکان شخص مولاناؒ سے بہت متاثر ہوئے ، پھر مولانا کی دعوتی محنت کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی عنصر کو حکومت میں داخل کرنے کی کوشش کی اور اس میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے ،۔مولانا ؒ1996 ء میں جب ترکی واپس تشریف لے گئے تو وہاں نجم الدین اربکان وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر فائز ہوچکے تھے ، اس وقت وہ بیرونی سفر پر تھے جس کے سبب مولاناؒ سے ملاقات نہ ہوسکی ، لیکن مولانا نے ان کے نام مشوروں پر مشتمل ایک خط تحریر فرمایا ، جس میں اسلامی نظام کے متعلق ہدایات دی گئی تھی، جس کا کافی اثر پڑا ۔
پڑوسی ممالک کا دینی و دعوتی سفر
1980 ء میں مولاناؒ نے صدرِ پاکستان کو ایک مفصل مکتوب تحریر فرمایا ، جس میں ان کو بطور خاص پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرنے کی طرف متوجہ کیا۔صدر صاحب نے اس کا جو جواب دیا اس کا ایک اقتباس یہاں نقل کیا جاتا ہے “ نظام اسلام کے متعلق آپ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے میں ان سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم نظام اسلامی کو جلد از جلد تمام زندگی کے شعبوں میں نافذ کریں، کیوں کہ اسلام کو عملی زندگی میں اپنانا ہمارا صرف دینی تقاضا ہی نہیں بلکہ ہمارے ملک کا دارومدار بھی اسی پر ہے۔ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کار خیر کو مکمل کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے ”صدر پاکستان مولانا ؒؒکے بڑے قدر دان تھے ، ہر مشورہ اور ہدایت پر عمل کرنے کی ممکن کوشش کرتے تھے۔
حضرت مولانا نے 1960 ء میں اپنے شاگر مولانا معین اللہ ندوی ؒ کے ساتھ دعوتی و تبلیغی غرض سے برما تشریف لے گئے ۔ یہاں بھی جگہ جگہ مولانا کی دینی و علمی تقریریں ہوئیں ، برما کے علماء و مفکرین کو اس جانب بھی متوجہ کیا کہ اس ملک میں اسلام کی حفاظت و اشاعت اور عوام کو اسلام سے متعارف کرانے کی ضرورت ہے ۔یہاں ایک ماہ سے زائد مولانا کا قیام رہا اور اس دوران تقریباً 20 تقریر فرمائیں ،جس سے دینی و دعوتی فضا قائم ہوگئی۔
1984 ء میں حضرت مولانا نے مولانا عبدالکریم پاریکھؒ اور مولانا ابوالعرفاں خان ندوی کے ہمراہ بنگلہ دیش تشریف لے گئے۔وہاں دعوتی و تعمیری تقریریں فرمائیں جس کو اہل علم و دو ین اور دیگر لوگوں نے خوب پسند کیا جس کا فائدہ ہوا ۔ دینی مراکز بھی تشریف لے گئے ، وہاں اچھا استقبال ہوا ۔ ایک بیان یوں فرمایا کہ “ اس اسلامی ملک کی سلامتی، خوشحالی اور عزت اسلام سے وابستہ ہے۔ اور اگر اس نے اسلام کا ساتھ چھوڑا تو پھر اس ملک کی چول کبھی بیٹھ نہیں سکتی”۔ مولاناؒ نے حتی المقدور اسلام کے نشر و اشاعت کی کوششیں کیں اور علماء و دانشوروں کو اسلامی تشخص کے تحفظ اور عوام میں دینی تعلیم کی تحریک کی طرف متوجہ کیا ۔


1986 ء میں مولانا ؒ نے ملیشیا کا سفر فرمایا۔ ملیشیا ئی ندوی فضلاء جو پہلے سے دعوتی سرگرمیاں انجام دے رہے تھے ، انکی وجہ سے ندوۃ العلماء کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ، وہاں مولانا کا پرجوش استقبال کیا گیا، اور مختلف جگہوں پر مولانا کا خطاب ہوا ، کوالا لمپور کے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں بھی مولانا کا جانا ہوا۔ القدح تھائیلینڈ کے جنوب صوبہ سے بالکل ملا ہوا ہے ، وہاں مدرسہ تربیہ اسلامیہ کے منتظمین کا تعلق دارالعلوم ندوۃ العلماء سے قائم تھا اور ندوۃ العلماء کے دو فاضل مدرسہ کے ذمہ داروں میں سے تھے ، اصل ذمہ دار شیخ یوسف نعمت ازہری تھے جو دعوتی ذہن رکھتے تھے اور خود بھی داعی پر ہیں اور ندوۃ العلماء بھی آچکے ہیں ، انہوں نے مولانا کی خصوصی دعوت کی اور اہم مشورے لئے ، پھر مولانا ؒ کے مشورے و ہدایت کے مطابق دینی و دعوتی اور تعلیمی میدان میں سرگرم رہے۔


1982 ء میں مولانا ؒ کو سری لنکا کے ایک پروگرام میں مدعو کیا گیا ، اور یہ سفر الجامعۃ النظیمیۃ سیلون کی دعوت پر کیا گیا ،وہاں جاکر یہ بات معلوم ہوئی کہ مولانا کا رسالہ" ردۃ ابابکرلھا " کا مطالعہ اس جامعہ کے قیام‌ کا سبب بنا۔واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ اس وقت فکری ارتداد کا مقابلہ کرنے کے لئے مستقل یونیورسٹی کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت تھی ،ان ہی ایام میں مخیر مسلمان تاجر الحاج محمد نظیم کو اس کتابچہ نے بہت متاثر کیا ، جس وجہ سے اس کا قیام عمل میں آیا تاکہ فتنہ ارتداد سے نسل نو کو بچایا جا سکے۔ سفر میں اہم شخصیات سے مولانا کی ملاقاتیں ہوئیں۔ جامعہ کے پروگرام جس میں سری لنکا کے وزیر خارجہ اور متعدد عرب و مسلم حکومتوں کے سفراء اور مسلمان رہنما شریک تھے، مولانا نے تقریر کرتے ہوئے جو کچھ کہا اسے یہاں نقل کیا جاتا ہے


“یہ ملک وہ ہے جس کے بارے میں یہ روایت مشہور چلی آرہی ہے کہ ہمارے آپ کے اور نسل انسانی کے مورث سیدنا آدم علیہ السلام نے جنت سے یہیں نزول فرمایا، اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ "أيھا الناس ! إن ربكم واحد ، وإن أباكم واحد " (لوگو! تمہارا رب بھی ایک ہے، اور تمہارے مورث اعلیٰ (باپ) بھی ایک ہیں) یعنی تم دورشتوں سے ایک دوسرے کے بھائی ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس فرمان نبوی کا اعلان اخوت انسانی کی سب سے مستحکم بنیاد اور حقوق انسانی کے بین الاقوامی منشور کی سب سے اہم دفعہ ہے۔ اگر دوسرے اسلامی ممالک ایک مرتبہ اعلان کریں تو آپ کو اس نسبت سے جو مشہور روایت کے مطابق آپ کو حاصل ہے، دس مرتبہ اعلان کرنا چاہئے، اور اس کا داعی اور مبلغ ہونا چاہئے۔ سری لنکا کا اس کے بعد مولانا کا دوسرا سفر نہیں ہوا۔
ملک ہندوستان میں دعوتی خدمات
ملک ہندوستان میں حضرت مولانا ؒ نے بے شمار شہروں میں خطابات و دروس اورمضامین و ملاقاتوں کے ذریعے دعوت و تبلیغ کی خدمات انجام دیں۔
1935 ء میں آپؒ ڈاکٹر امیڈکر کو دعوت اسلام دینے کے لئے ممبئی تشریف لے گئے۔ اس وقت آپ کی عمر 21 ہی سال کی تھی۔ جس انداز میں آپؒ نے ڈاکٹر امیڈکر کو دعوت دین پیش کیا اور اس نے کیا جواب دیا۔مولاناؒ کی زبانی ملاحظہ ہو:


“ میں نے گفتگو کا آغاز کیا، اور کہا، ڈاکٹر صاحب! آپ سے مختلف ماہر کے بڑے بڑے لوگ ملے ہوں گے اور انھوں نے اونچی اونچی باتیں کہی ہوں گی، میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کو اپنی اوراپنی برادری کی نجات کی فکر ہے اور خلوص کے ساتھ صحیح مذہب کی تلاش ہے تو میں آپ کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں اور اس کے لئے کوئی رشوت یا ترغیب یا لا لچ نہیں دیتا، انھوں نے بڑی سنجیدگی اور احترام کے ساتھ میری بات سنی اور جواباً کہا کہ معاملہ بڑا سنجیدہ اور غور طلب ہے، میں مطالعہ بھی کر رہا ہوں اور غور بھی اسکے بعد میں کوئی فیصلہ کروں گا”۔


بالآخر اس نے ایمان نہ لایا لیکن آپؒ نے کم‌ عمری میں عظیم الشان کام کو انجام دیا جس سے آپ نے حقیقی داعی الی اللہ ہونے کا ثبوت دیا اور یہ ثابت ہوگیاکہ "ان العلماء ورثۃ الانبیاء"کےحقیقی عامل آپ ہی تھے ، یہ بڑی ہمت و جرأت کی بات ہے پھر آپ نے تو دین کا پیغام و حجت تمام‌ کرہی دی، اتنا ہی کام انبیاء علیہم السلام کو بھی دیا گیا تھا کہ بس حجت تمام کردیں ، جو پیغام دیا جارہا ہے بس اسے ان تک پہونچا دیں ،اب اللہ ربّ العزت ہدایت دے یا گمراہ کردے یہ اللہ کی مرضی و منشا ہے۔


1930 ء ہی سے مولانا نے طلباء اور نو جوانوں کی دینی و فکری تربیت کیلئے تبلیغی دورے اور اسفار شروع کر دئے تھے، جن میں طلباء کو ساتھ لے جاتے ، اپنا بستر اٹھا کر 7۔ 8 میل پیدل بھی جانا ہوتا ،شہر لکھنؤ کے نواحی قصبات اور دیہاتوں میں کثرت سے آمد و رفت ہوتی تھی ، اور ان سے دینی و اصلاحی فوائد، نمازوں میں ترقی ، ذکر و شب بیداری، سادگی و جفاکشی ، آپس میں روابط و تعارف اپنی کمزوریوں کا علم عوام کی دینی پسماندگی اور جہالت کا علم اور دینی ذمہ داری کا احساس ہوتا تھا۔جو الحمدللہ آج بھی مولانا محبوب عالم‌ ندوی صاحب امیر تبلیغی مرکز لکھنؤ کے زیرِ نگرانی جاری و ساری ہے۔


30 نومبر1977ءکو حضرت مولاناؒ اور مولانا عبد اللہ عباس ندویؒ ، مولانا عبدالکریم پاریکھ، مولانا ہارون ندوی، مولانا عبداللہ حسنی ندوی کے ہمراہ ریاست" مدھیہ پردیش "کے تاریخی خطے مالوہ کے چند اہم‌ مقامات اجین ، اندور ، دھار ، مانڈو ، دیپال پور دعوت و تبلیغ ، تعلیم و تعلم ، محبت و اخوت کی تشہیر کے لئے روانہ ہوگئے۔


یکم دسمبر کو سہ روزہ بھوپال کے دعوتی و تبلیغی اجتماع میں شرکت فرمائی اور اور آپ ہی کے بیان سے اجتماع کا آغاز ہوا۔
کنتم خیر امتی اخرجت للناس الخ ، کے موضوع پر پرمغز بیان فرمایا۔ جس کا لب لباب یہ ہے :


اس امت کی بعثت آپ کی بعثت کا پھیلاؤ ہے، اس لئے دین کی اشاعت کی ذمہ داری کی باگ ڈور امت کے ہاتھ میں دیدی گئی ہے اس کے کرنے میں کامیابی ہے اورنہ کرنے میں بڑا‌ نقصان ہے۔ ٹھوکر کھائی ہوئی انسانیت جو آج گہرے غارمیں گرنے پر آمادہ ہے اس کوکون بچائے گا؟ اخلاق بیمار، معاشرت بیمار، روح بیمار، عقیده بیمار، ایمان بیمار ،ساری انسانیت بیمار ہے، اس کا علاج کون کرے گا حقیقت یہ ہے کہ تعلق مع اللہ اور دعوت الی اللہ کا سلسلہ منقطع ہوگیا ہے۔


وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے


امت محمدیہ جب اس کام کو چھوڑ دے گی تو سخت مصائب و آلام اور ذلت و خواری میں مبتلا کر دی جائے گی، اور ہرقسم کے غیبی نصرت و مدد سے محروم ہو جائے گی، گمراہی و ضلالت کی شاہراہیں کھل جائیں گی ،مخلوق تباہ وبرباد ہو جائے گی، اور یہ سب کچھ ہو رہا ہے اس تیا ہی و بربادی کی خبر اس وقت ہوگی جب میدان محشر میں خدا کے سامنے باز پرس کے لئے بلایا جائے گا۔ ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ فریضہ تبلیغ کو لےکر کھڑے ہوں، خدا اور رسول کو پہچانیں اور احکامِ خداوندی کے سامنے سرنگوں ہو جائیں ،کیوں کہ یہ کام خدا کی ایک اہم عبادت اور سعادت عظمیٰ ہے اور انبیاء کی امانت ہے ، اس کام کا مقصد دوسروں کی ہدایت نہیں بلکہ اس سے خود پنی اصلاح اور سعادت د کا اظہا ر مقصود ہے ، اگرہم اس صحیح طورپر انجام دیں گے تو عزت و آبرو اور اطمینان کی زندگی پائیں گے۔
دعوت و تبلیغ کا یہ سلسلہ 10 دنوں تک مالوہ کے مختلف شہروں میں ہوتا رہا،۔ اس طرح آپ ؒ پوری زندگی عالم اسلام کی فکر میں ہمہ تن مصروف تھے۔


ہندوستانی حکمراں میں دعوتِ اصلاح


حضرت مولانا ؒ ہندستانی لیڈروں کو بھی قوم و ملت کے مفاد کے تئیں اصلاحات کی طرف توجہ مبذول کرائی اور ملک و ملت کی سلامتی کے لئے بھی ان کو گاہے بگاہے ملاقات ، خطوط اور تقریروں کے ذریعے آگاہ کرتے رہتے تھے۔چند وہ حکمراں کا ذکر کیا جاتا ہے جنہیں مولانا نے دعوت دی :


1) راجیو گاندھی کے دور اقتدار میں ان کو نصیحت کی کہ ہندوستان مختلف مذاہب کا گہوارہ ہے، ہر مذہب والے کو اپنے مذہب کی ہدایات پر عمل کرنے کی سہولت کو برقرار رکھا جائے ، اس سلسلہ میں اسلامی شریعت میں مسلمان عورت کے لئے جو ضابطہ ہے اس پر عمل کرنے کا ان کا حق تسلیم کیا جائے۔ مولانا نے یہ بات ان سے بار بار کہی حتی کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کے سلسلہ میں جو مسلمان عورت کے مسئلہ طلاق کے سلسلے میں اسلامی شریعت کے خلاف ہوا تھا، اس کے ازالہ کے لئے پارلیمنٹ میں با قاعده بل لاکر شریعت کے مطابق قانون بنوانے میں بہت مدد ملی ، اور یہ ایک بڑا کارنامہ سمجھا گیا۔


2) رسمہا راؤ کے دور اقتدار میں ان سے ملاقات پر ان کو یہ توجہ دلائی کہ ہندوستان کی آزادی کے حاصل کرنے والوں کو قوم کا اخلاقی کردار بنانے کی بھی فکر تھی، وہ فکر آج ملک سے ختم ہو چکی ہے، اس کے لئے آپ لوگوں کو توجہ کرنا چاہئے ، اقتدار اور دولت کی ہوس اس وقت سب پر طاری ہے، یہ ملک کے لئے بہت خطرہ کی بات ہے، مولانا رحمتہ اللہ علیہ نے توجہ دلائی کہ آپ لوگ ملک میں نکلتے اور لوگوں کو اعلیٰ اخلاق اختیار کرنے کی تلقین کیجئے تا کہ ملک درست راستہ پر چلے اور عظیم ملک بن سکے۔


وزیر اعظم اٹل بہاری باجپئی جی مولاناؒ کی آخری علالت میں ان کی مزاج پرسی کے لئے آئے تو اس وقت جب کہ مولانا ؒکو بولنے میں بھی دقت ہورہی تھی یہی کہتے رہے کہ باجپئی جی! ملک کو بچائیے، ملک بڑے خطرہ میں ہے، مال اور اقتدار کی محبت نے تمام اقدار کو پس پشت ڈال دیا ہے، ملک کو بچائیے۔ دیگر وزراء اعظم کو بھی مولانا نے ان کی ذمہ داری ملنے پر اخلاقی اور انسانی وذمہ داری یاد دلائی ، اور ملاقات پر یہ باتیں کہیں، اور ملاقات نہ ہونے پر خطوط کے ذریعہ متوجہ کیا۔


دعوتی خدمات پر تصنیفات


مولانا نے اپنی دعوتی اور اصلاحی کوششوں کو صرف تقریر و خطابت تک ہی محدود نہیں رکھا، بلکہ مضمون نگاری اور تصنیف و تالیف کے دائرہ میں بھی مولانا کا کام ممتاز رہا، اور وہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا، اور بالآخر مولانا نے تدریسی مشغلہ کو ملازمت کے دائرہ سے ہٹا کر اپنے وقت کی سہولت و گنجائش کے ساتھ وابستہ کرلیا ، تا کہ دعوت و اصلاح کا کام خطابت و تصنیف کے ذریعہ سے زیادہ کر سکیں۔


وہ کتابیں جو مولاناؒ نے دعوتی ، فکری ، اصلاحی انداز و گفتار میں تصنیف فرمائی ہیں ،مختصر تعارف کے ساتھ درج ذیل ہیں:


1) کتاب نام عربی : ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين۔
اردو نام : انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر۔
یہ کتاب عالم عرب پر وہ اثر ڈالا ، اور ان کے نوجوان اور دانشور طبقہ میں اسلام اور مسلمانوں کے تئیں وہ اعتماد بحال کیا جو متزلزل ہو چکا تھا۔


2)کتاب نام : تاریخ دعوت و عزیمت
مولانا کی یہ تصنیف پانچ جلدوں پرمشتمل ہے، اور یہ سلسلہ عربی میں رجال الفكر و الدعوة في الإسلام کے نام سے منظر عام پر آیا اور مقبول عام ہوا۔ اور فارسی میں تاریخ دعوت و اصلاح کے نام سے مولانا ابراہیم دامنی اور مولانا قاسم قاسمی نے اس کو منتقل کیا ہے۔ ترکی اور انگریزی میں بھی اس کا ترجمہ ہوا ہے۔ مولانا نے اپنی اس تصنیف میں اسلام کی تیرہ سو برس کی تاریخ میں اصلاح و انقلاب حال کی کوششوں کے تسلسل کو دکھایا ہے، اور ان ممتاز شخصیتوں اور تحریکوں کی نشان دہی کی ہے جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق دین کے احیاء اور تجدید اور اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کے کام میں حصہ لیا۔ جن کی مجموعی کوششوں سے اسلام زندہ اور محفوظ شکل میں اس وقت موجود ہے۔

3)کتاب نام : تبلیغ و دعوت کا معجزانہ اسلوب۔
یہ مولانا کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو دار العلوم ندوۃ العلماء کے شعبہ دعوت و فکر اسلامی میں دیئے گئے۔ یہ آپ نے عربی میں معہد عالی برائے دعوت و فکر اسلامی کے طلبہ کے سامنے 1400ھ میں دیئے تھے، جو " روائع من أدب الدعوة في القرآن و السیرة " کے نام سے طبع ہوئے۔ یہ اس کا اردو اڈیشن ہے جو مولانا ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی صاحب کے قلم سے ہے۔ ایک داعی اور مبلغ میں کیا خصوصیات ہونی چاہئیں؟ اس کو کس طرح کا انداز گفتگو اختیار کرنا چاہئے؟ وہ حکمت کیا ہے جو تبلیغ دین کے لئے ضروری ہے؟ قرآنی نمونوں اور نبوی کردار سے اس کو اس کتاب میں واضح کیا گیا ہے۔


4)کتاب نام : دعوت فکر و عمل۔
1978ء میں مولانا کے پاکستان کے دورہ کی اہم تقریروں کا یہ مجموعہ ہے، جو پاکستان میں "حدیث پاکستان "کے نام سے شائع ہوا۔ اور مجلس تحقیقات و نشریات اسلام نے "دعوت فکر و عمل "کے نام سے پیش کیا ہے۔ یہ سفر اسلامی ایشیائی کا نفرنس کے موقع پر کیا گیا تھا۔ مختلف موضوعات پر ان تقریروں کے مخاطب مختلف طبقات ہیں۔


میدان دعوت کی وسعت اور طریقہ کار


حضرت مولانا ؒ نے دین کی نشر و اشاعت کے لئے جن اہل اللہ کے طریقہ کار کو اختیار کیا اور جس کے مطابق دعوتی و تبلیغی اور اصلاحات کی طرف گامزن رہے تھے۔ اس طریقہ کو حضرت مولانا رابع حسنی ندوی صاحب کی زبانی پیش کیا جاتا ہے :


حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے عامتہ المسلمین میں کام کرنے کے لئے علمائے سلف اور صوفیاء کے طریقہ کو ہی مناسب سمجھا ، اور اس کو اختیار کیا ، چنانچہ اس دائرہ میں حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کے طریقہ دعوت و تبلیغ کو اور اہل ارشاد بزرگوں کے طریقہ صحبت و تربیت کو پسند کیا، اور اس کے دائرہ میں مطابقت اختیار کرنے کا اہتمام کیا لیکن جہاں جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے مخاطبین کا معاملہ دیکھا وہاں ان کے مزاج اور ان کی صلاحیت فہم کے مطابق زبان و قلم کا طریقہ اختیار کیا، اور اس میں کلام و زبان کی تاثیر اور قدرے متکلمانہ انداز بھی اپنایا۔ اور جہاں تک اصحاب اقتدار و قوت کا تعلق ہے تو ان کے سلسلہ میں وہ طریقہ اختیار کیا جو حضرت مجددالف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کا طریقہ تھا جو خطوط کے ذریعہ اور ناصحانہ روابط کے ذریعہ تفہیم وارشاد کی خاموش کوششیں اختیار کرنے کا ہے، اور محض تائید یا بلا رعایت تردید کا مروجہ طریقہ نہیں اختیار کیا ، مولانا رحمتہ اللہ علیہ کے اپنے اس متنوع اور جامع طریقۂ کار میں ایک طرف تو اسلاف کے کاموں کے نمونے رہنمائی کا ذریعہ بنے جن میں عام لوگوں کے طبقہ کے لئے حضرت حسن بصریؒ اور علامہ ابن الجوزیؒ اور شیخ عبد القادر جیلانیؒ وغیرہ کی مثالیں اور خواص واہل علم میں کام کے نمونے امام غزالی، علامہ ابن تیمیہ، علامہ ابن القیمؒ ، حضرت شاہ ولی اللہ ؒکے کام کی مثالیں، اور اہل اقتدار و قوت میں کام کرنے کے لئے حضرت مجددالف ثانی رحمتہ اللہ علیہ، اور ان کے پیش رو بزرگ اور سلسلہ نقشبندیہ کے عالی مرتبت شیخ خواجہ عبید اللہ احرارؒ اور انہی جیسی عظیم اور حکیمانہ طریقہ کار کی مثال سامنے رکھی۔
نیز علمی طبقہ میں مولانا رحمتہ اللہ علیہ اس کا بھی فرق رکھتے تھے کہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ کا ذہن الگ ہوتا ہے، اور مذہبی تعلیم یافتہ طبقہ کا ذہن الگ ہوتا ہے، اس فرق کی رعایت حضرت مولانا رحمتہ اللہ علیہ بہت خوش اسلوبی سے کرتے تھے۔


حضرت مولانا ؒ نے دعوت و اصلاح کے لیے ایک خاص طریقہ کار اختیار کیا جس کی نمایاں خصوصیت حکمت و دانائی اور موعظت حسنہ ہے، اپنے دائرہ عمل کو مسلمانوں کے مسائل تک ہی محدود نہیں رکھا، بلکہ پوری انسانیت کے مسائل کو اپنے میدان عمل میں داخل کیا، اور اس کے لیے ناصحانہ اور موثر اسلوب اپنا یا جس کے دلوں اور ذہنوں پر اچھے اثرات مرتب ہوئے۔


مسلم پرسنل لا بورڈ :" شاہ بانو متنازعہ "
1983ء میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب سابق مہتمم دار العلوم دیوبند کے انتقال کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لاء کے باوقار عہدے کے لئے متفقہ طور پر آپ کا انتخاب عمل میں آیا اور تاحیات اس کے صدر رہے تھے ۔ صدر ہونے کے دو ہی سال بعد شاہ بانو کیس کا مسئلہ پیش آگیا تھا ، جس کو سپرم کورٹ نے مطلقہ کے سلسلہ میں اسلامی شریعت کے خلاف فیصلہ دے دیا تھا۔ مولانا کی قیادت میں بورڈ کی طرف سے مدبرانہ طریقہ سے شریعت اسلامی کے ناقابل ترمیم و تنسیخ ہونے کی مہم مسلم رائے عامہ کے تعاون سے دستور ہند کے حدود میں رہتے ہوئے طاقتور اور متحدہ طریقہ سے تحریک چلائی گئی، جس کے آگے مرکزی حکومت کو مجبور ہو کر اس متنازعہ فیصلہ کو واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ اسی طرح بابری مسجد تنازعہ میں بھی آپ کی خدمت قابل تحسین تھی۔


دینی تعلیمی کونسل :" مسئلہ وندے ماترم "و سرسوتی پوجا "
1959 میں آپؒ اس تنظیم کے صدر بنائے گئے اور تاحیات اس کے صدر رہے۔ 1998ء میں وندے ماترم کا ترانہ جس کا مشرکانہ پہلو سب سے زیادہ قابل اعتراض بنا ہے، جب اسکولوں میں بچوں کے لئے لازمی قرار دئے جانے کی بات آئی تو حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒنے اس کے خلاف آواز بلند کی۔جس پر حکومت کو اپنے سابقہ اعلان کے برخلاف صاف الفاظ میں یہ اعلان کرنا پڑا کہ ” وندے ماترم اور سرسوتی پوجا سب پر عائد نہیں کی گئی ہے، اور وہ سب کے لئے لازمی نہیں ہے۔ دونوں واقعات یعنی دندے ما ترم پر مولاناؒ کا بیان اور اس کے مشرکانہ اور نا قابل قبول ہونے کی وضاحت اور اس پر فرقہ پرست لوگوں کا رد عمل اور چھاپہ ملک کے اخبارات میں بڑی تفصیل سے پیش کیا گیا۔ حکومت کو معذرت کرنی پڑی ، اور ریاستی وزیر تعلیم کو بر طرف بھی کیا گیا۔ دوسری طرف حضرت مولانا سے اظہار ہمدردی اس وسیع پیمانہ پر کی گئی جس کی ماضی قریب میں نظیر نہیں ملتی۔
اس کے علاوہ تحریک پیام انسانیت کے پلیٹ فارم سے بھی بے شمار خدمات انجام دیں ہیں جس کو اس چھوٹے سے مقالہ میں ذکر کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ (مزکورہ بالا ہندوستانی حکمراں کو مولانا نے پیام انسانیت کے بینر تلے ہی ملک کی سلامتی و اصلاح کی طرف متوجہ کیا تھا )


علماء ربانی کی نظر میں داعی اسلام


داعی اسلامؒ کے متعلق علامہ یوسف القرضاویؒ کی گواہی کافی ہے جن کا کہنا ہے کہ شیخ ندویؒ کا اسلوب نہ صرف ادیبانہ بلکہ ساحرانہ ہے، وہ ایسے داعی ہیں جو انسانوں کی نفسیات اور ان کی عقلی سطح کے مطابق گفتگو کرتے ہیں، تمام انسانی طبقات کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرنے کی بے پناہ صلاحیتوں سے اللہ تعالیٰ نے انھیں نوازا ہے، وہ زمان و مکان اور انسانی طبائع ومزاج کی پوری رعایت کرتے ہیں، شیخ ندوی ؒکی حس تاریخ کے بارے میں اتنی تیز ہے کہ جو اہم دعوتی و تربیتی نتائج وہ نکالتے ہیں ہمارا ذہن بھی اس طرف نہیں جاتا۔

برصغیر کے مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نے آپ کو موفق من اللہ قرار دیا۔ انہی کے فرزند اور پاکستانی سپریم کورٹ کے جج مولانا تقی عثمانی صاحب نے دعوت الی الاسلام کا دوسرا نام دیا۔


اپنے وقت کے محدث شیخ عبد الفتاح ابو غدہ نے 10 دسمبر 1989 ء کو حضرت مولانا کے نام ایک خط میں آپ کے دعوتی اسلوب کی خوبیوں کو کچھ یوں بیان کیا ہے کہ آپ کا قسم شہد خالص کی طرح شفا کا کام دیتا ہے اور زخم کا مرہم ثابت ہو کر دین کی لگن پیدا کرتا ہے۔


دار العلوم دیو بند کے مہتم محترم مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دار العلوم کے ماہنامہ ترجمان میں لکھا تھا کہ دعوتی اسفار کی کثرت میں حضرت مولانا کی مثال پورے ہندوستان میں نہیں ملتی اور یہ بات حقیقت ت پر منی تھی ، اسلامی یا غیر اسلامی ممالک میں شاید ہی کوئی اہم ملک ایسا ہو جہاں کا آپ نے دعوتی سفر نہ کیا ہو۔


شورش صاحب اپنے‌ کتاب فن خطابت میں حضرت مولانؒا کو حجازی خطیب القاب سے یاد کیا۔


شیوخ مصر و عرب نے آپؒ کو ابونا و شیخنا کے الفاظ سے یاد کیا۔


حضرت مولانا رابع ندوی صاحب لکھتے ہیں کہ مولاناابو الحسن ندوی ؒنے اپنی دعوتی زندگی میں اپنے عصر کے تینوں طبقات میں جو عامتہ المسلمین اور اہل علم اور اہل اقتدار کے تھے ان کے ارشاد و اصلاح کی فکر و محنت کی ، اس نے اپنی جگہ پر خاصا اثر ڈالا ، اور ان کوششوں کے نتیجہ میں امت متعدد نقصانات سے محفوظ ہوئی ، اور غلط رجحانات پر روک لگی ، اور ان کی تقریر وتحریر اور رہنمائی سے ایک متوازن اور جامع فکر ورجحان کی حامل نسل تیار ہوئی۔ مولانا رحمتہ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں جو علمی وفکری سرمایہ چھوڑا ہے وہ ان کے نہ رہنے کے بعد بھی نئی نسل کے صحیح اور متوازن ذہن کی تشکیل میں برابر معاون ہے۔
حضرت مولاناؒ کی بے‌شمار دینی خدمات اور مختلف سرگرمیاں ہیں جن میں سے صرف ایک پہلو پر بحث کی گئی ہے۔

***
محمد عامل ذاکر مفتاحی (لکھنؤ، اترپردیش)
ای-میل: amilshaikh8888[@]gmail.com

Maulana Abul Hasan Ali Mian Nadvi as a preacher of Islam

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں