شعر گوئی ہو یا نثر نگاری، اسے ادب کا درجہ تبھی نصیب ہوتا ہے جب اس میں اس درجہ پختگی و بالیدگی آ جائے کہ اُسے اہلِ خانہ کے ساتھ بیٹھ کر پڑھا یا سنا جا سکے۔ موجودہ سوشل میڈیا اور مشاعروں میں شعرا اور ادبا ٔکی بھر مار ہے جو اَدب کے نام پر پھوہڑ ، غیر معیاری اور لچر مواد پروس رہے ہیں،معدودے چند سخن وروں کے جو اصل گوہر ہیں ۔جنھوں نے خالص ادب پیش کیا اور اپنی مشقِ سخن کو اردو کی بقا کے لیے ایک صحیح سمت عطا کی۔اردو کے انہی سچے ، بیباک اور حساس جیالوں میں ذوالفقار نقوی صاحب مخصوص اہمیت کے حامل ہیں۔سوشل میڈیا کے توسط سے گزشتہ چند برسوں سے آنجناب سے میری شناسائی ہے۔ گاہے گاہے موصوف کے کلاموں سے محظوظ ہوتا رہا ہوں لیکن جب " دشتِ وحشت" کا سفر کیا تو نقوی صاحب کے فن کے کئی رموز آشکار ہوئے۔بشمول حمد و نعت ایک سو ایک کلاموں پر مبنی یہ نقوی صاحب کا تیسرا شعری مجموعۂ کلام ہے ۔اس سے قبل "زادِ سفر" 2012 اور "اُجالوں کا سفر" 2013 میں شائع ہو کر مقبولِ خاص و عام ہو چکے ہیں۔ گویا ذوالفقار نقوی صاحب نے زادِ سفر لے کر اُجالوں کا سفرشروع کیا اور دشتِ وحشت تک پہنچ گئے لیکن اِ ن کے کلام کی نغمگی ، روشنی ، شیریں فصاحت و بلاغت کو دیکھتے ہوئے یہی لگتا ہے اس دشتِ وحشت میں بھی یہ ان کے لیے اُجالوں کا سفر ہے۔
"دشتِ وحشت" میں بکھرے ہوئے پھولوں پر نظر ڈالیں تو محسوس ہو گا کہ مختلف انواع و رنگوں کے ان گلوں کی خوشبوئیں مشام ِ جاں کو معطر کرنے والی ہیں۔ روایتی اسلوب کے ساتھ کہے گئے اشعار میں شوخی اور لطافت کے بجائے سنجیدگی اور متانت ہے ، جس سے اثر پذیری اور کشش بڑھ گئی ہے۔ شعروں میں رمزیت، فلسفہ اور تصوف کی آمیزش ہے۔
اسلوب میں اس درجہ بیباکی اور پُرکاری ہے کہ خدا سے تخاطب میں بھی غزل رنگ چھلک چھلک پڑتا ہے اور قاری یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ شاعر رب سے مخاطب ہے یا اپنے محبوب سے مخاطب ہے، گویا شاعر نے اپنے خالق کو ہی اپنا محبوب بنا کر اپنی بات قا لبِ شعری میں ڈھال دی ہے۔
میری منزل ہے، میرا جادہ بھی
میری عقبیٰ ، مرا جہاں تُو ہے
میں درون و برون سے خارج
ذرّے ذرّے میں ضو فشاں تُو ہے
جہاں حمد میں یہ اسلوب اختیار کیا گیا وہیں نعت کو بھی غزلیہ رنگ دینے کی کامیاب سعی کی گئی ۔برتے ہوئے مضمون کو بھی اِس نفاست اور دلکشی سے برتا گیا کہ زبان سے بے ساختہ واہ نکل پڑے۔
وفورِ وحشتِ صحرا میں سائباں کے لیے
وہ لامکان سے اُترا ہے ہر مکاں کے لیے
وہ جس کے جسم کا سایہ نظر نہیں آتا
وہی تو اصل میں سایہ ہے ہر جہاں کے لیے
اشعار میں محبوب کے لیے بے تکلف تخاطب اساتذہ کا اسلوب رہا ہے اوراِسی روش کو ذوالفقار نقوی صاحب نے بھی قائم رکھا ہے اور بدرجہ اتم نفاست سے نبھایا ہے۔ یہ کمالِ ہنروری ہے وگرنہ اس میں ابتذال و عامیانہ پن دبے پاؤں چلا آتا ہے۔
وصل امکاں میں کس طرح آئے
میں زمیں اور آسماں ہے تُو
میرے ایقاں پہ حرف آتا ہے
کیسے کہہ دوں کہ اِک گماں ہے تُو
نقوی صاحب قریب کے مضامین کو بڑی ہی چابکدستی سے برتنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اِ ن کا رجحان بالعموم فلسفہ اور معنویت کی طرف ہے۔ صحت زبان اور روز مرہ پر مخصوص توجہ کے سبب اِن کے اشعار میں غنایت اور اثر پذیری در آئی ہے۔زندگی کے نشیب و فراز ،تلمیحات اور وارداتِ قلبی کو اتنی سادگی اور صفائی سے قلمبند کرتے ہیں کہ قاری کو بِلا غور و فکر اشعار کی ترسیل ہو جاتی ہے۔
ہم پیشِ ظلم و جور کبھی خم نہیں ہوئے
سودا ہمارے سر میں فقط کربلا کا تھا
اپنا پنچھی تلاش کرنا ہے
آشیاں دام کر دیے جائیں
موصوف جہاں آپ بیتی کو جگ بیتی بنانے کا ہنر رکھتے ہیں وہیں پر پرورشِ لوح و قلم کرتے نظر آتے ہیں۔ لفظوں کی جادو گری اور ذو معنویت کے جلوے بکھیرتے ہوئے یوں رقم طراز ہوتے ہیں کہ:
کوزہ گر دیکھ اگر چاک پہ آنا ہے مجھے
پھر ترے ہاتھ سے ہر چاک سلانا ہے مجھے
آپ بیتی کو جہاں بیتی بنا کر پیش کر
قافیہ پیمائی کی قیمت کوئی فن میں نہیں
اپنے عہد کی کشمکش، فکرِ دوراں، غمِ جہاں ، آلامِ روزگاراور قوم کے تئیں اصلاحی اور تعمیری جذبے اِن کے اشعار میں نمایاں ہیں۔ شعروں میں عزم و استقلال، فقیرانہ تیور، ناپائدار زندگی کی حقیقت اور آفاقی سچائیاں بیان کرنا اِن کا وصفِ خاص ہے اور یہی اِن کی شاعری کا طرۂ بھی امتیاز ہے۔
خاک زادوں کے لیے خاک تھی خالی دنیا
وجد میں آئے تو ہاتھوں میں اُٹھا لی دنیا
مری مٹی پرانی ہو گئی ہے
عدم کی اِک نشانی ہو گئی ہے
کوئی پھر چاک پر رکھ دے یہ مٹی
بکھر کر لامکانی ہو گئی ہے
ذوالفقار نقوی صاحب کی شاعری میں کئی شاعرانہ فنکاریاں اور اوصافِ حسنہ شامل ہیں۔ جن میں علوئے تخیل اور معنی آفرینی سرِ فہرست ہیں۔جہاں فی زمانہ اقوام و ملل کی پستی و تنزل کی روداد اِن کے شعروں میں ملتی ہے وہیں یہ سماجیات و سیاسیات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اور اِسی سبب اِن کی شاعری اور زندگی میں بَلا کی ہم آہنگی ہے۔ جو دیکھتے ہیں وہ انتہائی جرات مندانہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔
باقی ہے زمانے میں ابھی شمر مزاجی
سر کتنے سرِنوکِ سناں دیکھ رہا ہوں
اک آن میں جل جائیں گے ایوان تمھارے
اُٹھتا ہوا ہر دِل سے دھواں دیکھ رہا ہوں
ہم بہ بانگِ دہل کہہ سکتے ہیں کہ جب تک ذوالفقار نقوی جیسے شعرا ٰ ٔ اپنا قلم متحرک رکھیں گے اردو ادب پروان چڑھتا رہے گا ، اس کی آبیاری ہوتی رہے گی اور اسی طرح اس کی بقا کی توقع کی جا سکتی ہے۔
اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے۔
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
ذوالفقار نقوی اور اجالوں کا سفر - تبصرہ از نذیر قریشی
دشتِ وحشت کا شاعر : ذوالفقار نقوی - تبصرہ از پروفیسر قدوس جاوید
عرفان ظفر قریشی
آکولہ، مہاراشٹر، موبائل : 07875147030
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں