شہر آگرہ اور آگرہ کی ممتاز شخصیات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-05-25

شہر آگرہ اور آگرہ کی ممتاز شخصیات

prominent-personalities-of-agra-city

آگرہ ملک ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کا ایک شہر ہے۔ اس کا نام اکبرآباد ہے۔ مغلیہ سلطنت میں آگرہ شہر بالخصوص دارالسطنت رہا ہے۔ جس کو سکندر لودی نے بسایا تھا۔ سکندر لودی نے دہلی سے صفدر خاں کو آگرے کا حاکم بنا کر بھیجا۔
لیکن سیف الدولہ محمود پسر ابراہیم غزنوی کے آگرہ قلعہ فتح پر "مسعود سعد سلیمان" نے دو قصیدے فارسی میں سیف الدولہ اور قلعہ کی شان میں لکھ کر بھیجے تھے جس میں آگرہ اور آگرہ قلعے کا ذکر ملتا ہے ملاحظہ فرمائیں:

حصار آگرہ شد از میانہ گرد
بسان کدہ برد بادہ ہائی چون کہسار
امیر آگرہ جیسپال از گنبد
فرد دوید بہ پست آمد از سر بلند حصار
"اس گرد غبار کے درمیان آگرہ کا قلعہ دکھائی پڑا ،قلعہ کیا تھا ایک پہاڑ تھا۔ اس پہاڑ کے چوبارے تھے وہ اپنی اپنی طرز کے چھوٹے پہاڑ تھے۔"


ماہ نو روز دگر بارہ بما روی نمود
قلعہ آگرہ در آورد ملک زادہ بچنگ


تاریخ کے واقعات سے نہیں بلکہ شاعر کے دیوان سے معلوم ہوتا ہے کہ آگرہ اور آگرہ کا قلعہ سکندر لودی سے پہلے موجود تھا۔ چونکہ سکندر لودی کا عہد سیف الدولہ کے عہد سے چار سو سال سے زیادہ قبل کا ہے۔ شہر آگرہ تہذیب و تاریخ کا مرکز شروع سے ہی رہا ہے۔ آگرہ شہر اپنی خصوصیات کی بنا پر پوری دنیا میں قبولیت کی سند رکھتا ہے۔ یوں تو آگرہ شہر پوری دنیا میں اپنی عمارتوں کے سبب مشہور ہے۔ اس کے بعد مغلوں کا دور آتا ہے۔ مغل دور میں تقریباً سب ہی بادشاہوں نے آگرہ شہر میں عمارتیں تعمیر کرائی ہیں۔
بابر نے آگرہ میں" آرام باغ " بنایا جو آج "رام باغ"کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جہاں آج گھنی آبادی ہے۔ بابر کے بعد شیر شاہ سوری اور اس کے بیٹے نے آگرہ فتح کیا۔ لکین آگرہ کو عروج اکبر کے زمانے میں ہوا۔ جس میں بادشاہ اکبر نے آگرہ کا لال قلعہ، فتح پور سیکری اور ہمایوں کا مقبرہ، موتی مسجد وغیرہ کی تعمیر کرائی اور شاہ جہاں بادشاہ نے اپنی بیگم ممتاز کی یاد میں گنبد و محراب کی شکل میں" تاج محل" بنوایا۔ جس نے پوری دنیا میں صرف آگرہ ہی نہیں بلکہ ہندوستان کو زینت بخشی۔ تاج محل دنیا کا ایک عجوبہ ہے، جس کو پوری دنیا سے لوگ دیکھنے کے لئے آتے ہیں، اس کی خوبصورتی کی تعریف کرتے ہیں۔ کسی بھی ملک کا باشندہ ملک ہندوستان آئے اور تاج محل کی خوبصورتی کو دیکھے بغیر رہ جائے، ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔


میرزا ابو طالب کلیم ہمدانی شاہ جہاں کا ملک الشعراء تھا۔ اس نے" شہنشاہ نامہ" نظم کیا ہے۔ وہ اس میں آگرہ کی تعریف یوں کرتے ہیں۔
"اکبرآباد میں دل ودماغ کو مطمئن رکھنے ،ساز و سامان ارزاں ہے۔ ہزار شہر اس کے کوچوں میں گم ہیں۔یہاں بہتا دریا ،دریائے نیل کا ثانی ہے۔ اس شہر کی وسعت کا یہ عالم ہے۔کہ اگر کوئی اپنے دوست کی خیر گیری کے لئے قاصد بھیجے۔ تو واپس آتے آتے وہ قاصد بوڑھا ہو جائے۔ایسا شہر دنیا میں موجود نہیں۔ہر ملک کے لوگ یہاں بستے ہیں ظلم و ستم کا یہاں گزر نہیں ،کوئی باجہ ،تمغا اور دیوانی پریشانیاں لاحق نہیں ہاں یہاں کے پری چہرہ دل ضرور احک لیتے ہیں۔" (ص: 98)


سب سے پہلے شاہ جہاں نے ہی آگرہ کو اکبرآباد کے نام سے پکارا ہے۔
آگرہ کو بڑے بڑے نامور شعراء اساتذہ اکرام اور دانشوروں نے اپنے نام و کام دونوں سے سینچا ہے۔ ادب میں دبستان اکبرآباد بن کر اُبھرا ہے۔ اردو ادب کی یہ خوش قسمتی کہی جائے یا ادب کا اس سے لگاؤ کہ بڑے بڑے نامور شعراء اکرام اس سر زمین آگرہ سے ہی نکلے ہیں۔ جس نے ادب کے حسن کو دوبالا کر دیا ہے۔ اردو ادب کا نام لیا جائے اور دبستان اکبرآباد کو فراموش کر دیا جائے، ایسا ہونا تقریباً ناممکن ہے۔
ادب کی تاریخ اکبرآباد کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ آگرہ شہر نے ہی اردو غزل کے بادشاہ میر تقی مؔیر جیسا قادر الکلام شاعر اردو ادب کو دیا اور مغلیہ دور کی آخری کڑی اور جدید دور کی پہلی کڑی سمجھے جانے والے مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ بھی اسی شہر آگرہ کی ہی دین ہیں۔ نظیر اکبر آبادی تو خود کہتےہیں کہ:
عاشق کہو، اسیر کہو، آگرے کا ہے
ملا کہو ،دبیر کہو، آگرے کا ہے
مفلس کہو ،فقیر کہو ،آگرے کا ہے
شاعر کہو، نظیر کہو، آگرے کا ہے
اردو ادب کے سب سے بڑے عوامی شاعر نظیر اکبرآباد جو دہلی میں 1835 میں پیدا ہوئے لیکن آگرہ ایسے آئے کہ یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ نظیر اکبرآبادی نے اپنے کلام میں جابجا آگرہ شہر کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے اپنی نظموں میں آگرہ کے ہی رسم و رواج، آگرہ کے تہوار، آگرہ کی ککڑی، آگرہ کے میلے، تیراکی، بلدیو جی، کمال خاں اور دیگر میلوں ،تہوارں ، ہولی ، دیوالی اور موسم کا ذکر اس طرح پیش کیا ہے کہ اکبرآبادی ہونے کا حق ادا کر جاتے ہیں۔ میاں نظیر اپنی ایک مسلسل بردیف نظم "آگرہ " میں اس شہر کے شاندار ماضی کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں:
"شدّاد زر لگا ،نہ بناتا بہشت کو
گر جانتا کہ ہووے گا آباد آگرہ۔"


آگرہ کی جتنی خوبصورت منظر کشی نظیر اکبرآبادی نے کی ہے۔ اتنی شاید ہی کسی شاعر نے کی ہوں۔ نظیر اکبرآبادی آگرہ میں موجود تاج گنج محلہ نوری دروازہ میں کرائے کے مکان میں رہا کرتے تھے۔ تاج گنج سے لڑکوں کو درس دینے کے لئے آیا کرتے تھے۔ راستے میں آگرہ بازار سے رو بہ رو ہونے کا موقع ملتا تھا۔ آگرہ بازار کی وہ یوں منظر کشی کرتے ہیں کہ آگرہ کی ہو بہ ہو تصویر کھینچ دیتے ہیں۔ اور "ہولی" تو ان کی اتنی مشہور نظم ہے تقریباً گیارہ کلیات میں "ہولی" پر نظمیں موجود ہیں۔ نظم" ہولی" میں اس کی بہاروں کے ساتھ ساتھ وہ زندگی کی تلخ سچائیوں کو بھی پیش کرتے ہیں۔
بقول کلیم الدین احمد :
"نظیر کا وجود ہی اردو شاعری کی بے نظیر تنقید ہے"
نظیر کی شاعری سماجی شاعری ہے۔ اس میں سماج سے رو بہ رو ہونے کا موقع ملتا ہے اور نظیر اس میں آگرہ تہذیب کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ وہ اپنی نظموں کے ذریعے معشرے میں پھیلی گندگی کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ انسان چھوٹا بڑا خود نہیں ہوتا، اس کو حالات صحیح اور غلط کی طرف لے جاتے ہیں۔ وہ اپنی نظموں میں مفلسی ( غربت ) اور آدمی کی حثیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں گویا صرف آگرہ کی ہی نہیں ملک ہندوستان کے ساتھ پوری انسانی حثیت کو بیان کر رہے ہیں۔ نظم آدمی نامہ میں لکھتے ہیں:
دنیا میں بادشاہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
زردار ،بے نوا ہے ، سو ہے وہ بھی آدمی
نعمت جو کھا رہا ہے ،سو ہے وہ بھی آدمی
ٹکڑے جو مانگتا ہے ،سو ہے وہ بھی آدمی
نظیر اکبرآبادی نے اپنی نظموں میں صرف زبان کے چٹکھارے ہی نہیں بھرے بلکہ ان کی شاعری انسان دوستی کا درس دیتی ہے۔
آگرہ شہر سے ان کی محبت کو خراج عقیدت پیش کرنے کی غرض سے ہر سال بسنت پر رگھونشی گھرانے کی جانب سے "بزم نظیر " کمیٹی مشاعرے کا انعقاد کرتی ہے اور ان کا کلام پیش کیا جاتا ہے۔ "حبیب تنویر "نے بھی ایک ڈرامہ نظیر کے حالات و شاعری پر "آگرہ بازار" کے نام سے لکھا ہے۔جو آج بھی ٹیکنالوجی کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔ نظیر اکبرآبادی کی شاعری اردو ادب میں درخشندہ ستارے کی مانند چمکتی رہے گی اور اکبرآبادی ہونے کا حق ادا کرتی رہے گی۔


آگرہ جسے صلح کل کی نگری کہا جاتا ہے، یہ صرف میرؔ و نظیرؔ کی دھرتی نہیں بلکہ صلح کل کی نگری اکبرآباد یہاں آنے والے ہر شخص کو محبت کا پیغام دیتا ہے۔ یہ ہماری وراثت ہے ،جو کل بھی تھی، آج بھی ہے، اور ہمیشہ رہے گی، بقول رشید احمد صدیقی:
"مغلیہ سلطنت نے ہندوستان کو تین چیزیں دی ہیں ، تاج محل، اردو، اور غالب"
یہ آگرہ کی خوش قسمتی ہے کہ غالؔب اور تاج محل دونوں ہی شہر آگرہ ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی وراثت ہیں۔
اور جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے، اس زبان سے وابستہ ادبی روایت کی ایک خاص شکل بھی اکبرآباد میں پروان چڑھی ہے۔
بادشاہ اکبر سے لے کر شاہ جہاں تک یہاں حکمراں ہوئے۔ اس زمانے سے لے کر آج تک آگرہ شہر اردو ادب کے قابل قدر شعراء و ادباء پیدا کرتا رہا ہے۔ جس سے اردو ادب میں گرانقدر اضافہ ہوتا رہا ہے۔


آگرہ شہر میں اردو ادب کے قدیم و جدید شعرائے کرام ایک نظر میں ۔۔۔

اردو شاعری کا باوا آدم تو ولؔی دکنی کو کہا جاتا ہے جو کہ 1807 میں دہلی آئے اور شمالی ہند میں اردو شاعری کا رواج ہوا۔ ان ہی کے دور کے ایک اہم شاعر سراج الدین علی خاں آرؔزو تھے جو 1689ء میں آگرہ میں ہی پیدا ہوئے۔ آرؔزو صاف سادہ آسان زبان میں شاعری کیا کرتے تھے۔ جو کچھ دل میں آتا تھا کہہ گزرتے تھے۔ 26جنوری 1856 میں لکھنؤ میں ان کا انتقال ہوا۔
اور شاہ مبارک آبرو ،اور مظہر جانِ جاناں کی پیدائش بھی آگرہ میں ہوئی۔
اس کڑی میں دوسرا اہم نام غزل کے بادشاہ میر تقی میؔر کا لیا جائے گا جو کہ آگرہ کی سر زمیں کے چشم وچراغ ہیں۔ جس نے اردو ادب کو وہ زینت بخشی ہے جس کا مقابلہ آج تک شاید کوئی کر نہیں پا سکا۔ شہر آگرہ میں موجود ہینگ کی منڈی میں میر کا اصل مکان تھا جو آج جوتا مارکیٹ ہے۔
میر 1722 میں اکبرآباد میں پیدا ہوئے۔ لیکن بعد ازاں دہلی چلے گئے پھر اکبرآباد اور پھر دہلی اور دہلی اُجڑنے پر لکھنؤ آصف الدولہ کے پاس چلے گئے۔ 1810میں شہر لکھنؤ میں ہی اِنتقال ہوا۔ انھوں نے ادب کو 7 دیوان دیے ہیں۔ ان کی شاعری کو دلی اور دلی کا مرثیہ کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ میر کو عشقیہ شاعری کی تعلیم ان کے والد نے دی تھی۔ چونکہ عشق ہی وہ شے ہے جس سے راز ہستی کا سفر طے کیا جا سکتا ہے۔ عشق میں میر کی ظاہری حالت ، ان کے طور طریقے ، ان کی طرز حیات ان کی کیفیات اور اپنے معاشرے سے عشق کی نوعیت محبوب سے بے التفاتی ، اس کی بے وفائیاں، درد و چبھن ملتی ہے جس نے اردو غزل میں مثالی عاشق کا معیار قائم کیا ہے۔ میر کہتے ہیں:
سمجھے انداز شعر کو میرے
میر کا سا کمال رکھے
پتہ پتہ بوٹہ بوٹہ حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
ان کی خودنوشت 'ذکر میر' ہے جس میں پوری تفصیلات موجود ہیں۔ اردو شعراء کا پہلا تذکرہ 'نکات الشعراء' کے نام سے لکھا۔ کئی عشقیہ مثنویاں لکھیں جن میں مثنوی "در ہجو" بھی شامل ہے۔


نجم الدولہ دبیرالملک خطاب، مرزا نوشہ لقب ، اسد اللہ خاں نام، پہلے اسد پھر غالؔب تخلص اختیار کیا۔ اردو شاعری کی سب سے عظیم شخصیت کی پیدائش اسی شہر آگرہ کی ہے۔ مرزا غالب آگرہ میں 1796ء میں آگرہ کے کلاں محل جہاں آج اندر بھان گرلس انٹر کالج ہے، میں پیدا ہوئے۔ 13 برس کی عمر میں آگرہ سے کوچ کر کے دہلی آ گئے۔ غالب کو اپنے شہر کی یاد ستاتی تھی جس کا ذکر ایک خط میں یوں کرتے ہوئے منشی شیو نرائن کو لکھتے ہیں:
"ہماری بڑی حویلی وہ ہے جو اب لکشمی چند سیٹھ نے مول لی ہے، اس کے دروازے کی سنگین بارہ دری پر میری نشست تھی اور پاس اس کے ایک گٹھیا والی حویلی اور سلیم شاہ کے تکیے کے پاس دوسری حویلی اور کلاں محل سے لگی ہوئی ایک اور حویلی اس کے آگے بڑھ کر ایک اور کٹہرہ کہ وہ کشمیرن والا کہلاتا تھا، اس کٹہرے کے ایک کوٹھے پر میں پتنگ اڑاتا تھا اور راجہ بلوان سنگھ سے ہم پتنگ لڑایا کرتے تھے۔"
کلاں محل پیپل منڈی میں آج بھی مغلوں کے انداز کی یہ حویلی موجود ہے۔


اردو شاعری میں غالب وہ پہلے شاعر ہیں جس نے دنیا کے غم کو غمِ دوراں بنا دیا۔ بقول عبادت بریلوی:
غالب کی غزلوں میں ان کی زندگی کے المیہ کے ساتھ اس دور کا المیہ بھی موجود ہے جس نے ان کو پیدا کیا تھا اور جس کے زیر سایہ انہوں نے اپنی زندگی کے دن گزارے تھے، ان کی شاعری کا غم انسانیت کا غم ہے۔فرماتے ہیں:
دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں رلائے کیوں

ان کی شاعری میں زندگی کا مربوط فلسفہ پایا جاتا ہے، کہتے ہیں۔
قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
ان کے یہاں غم کی مختلف شکلیں ملتی ہیں:
میری قسمت میں غم گر اتنا تھا
دل بھی یا رب کئی دیے ہوتے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے


غالب نے شاعری کے ساتھ ساتھ 1850 میں اردو میں ایک نئے طرز میں خطوط نویسی کی بنیاد ڈالی۔ جس سے اردو نثر کو فروغ ملا۔ غالؔب کے خطوط نے ہی مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا ہے۔ اردو میں وہ رنگ اختیار کیا ہے جو آج تک کسی کو نصیب نہ ہو سکا، یعنی اردو میں ایک نئے طرز کی بنیاد ڈالی۔
کیوں صاحب ، پیر و مرشد ، میاں بھائی صاحب جیسے الفاظ سے اس طرح خط کا آغاز کرتے ہیں کہ ان کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے، غالب خط نہیں لکھ رہے بلکہ سامنے بیٹھے باتیں کر رہے ہوں۔ غالب بلا کے شوخ مزاج تھے نظم ہو یا نثر شوخیاں ان کے یہاں موجود ہیں۔ ایک دوست کو رمضان میں خط لکھتے ہیں۔ نمونہ کلام دیکھیں۔
"دھوپ بہت تیز ہے، روزہ رکھتا ہوں۔ مگر روزے کو بہلاتا رہتا ہوں، کبھی پانی پی لیا ، کبھی حقّہ پی لیا ،کبھی کوئی ٹکڑا روٹی کا بھی کھا لیا ، یہاں کے لوگ عجب فہم رکھتے ہیں۔ میں تو روزہ بہلاتا ہوں ، اور یہ صاحب فرماتے ہیں کہ تو روزہ نہیں رکھتا یہ نہیں سمجھتے کہ روزہ نہ رکھنا اور چیز ہے اور روزہ بہلانا اور بات۔۔۔"
اور بالآخر دہلی میں گلی قاسم جان بلّی ماران میں ہی 1869 میں غالب اس سرائے فانی سے کوچ کر گئے۔


جہاں 1869 میں آگرہ کا ایک عظیم شاعر رخصت ہوتا ہے۔ وہیں 1869 میں آگرہ کی سر زمیں نے ثاقؔب لکھنوی جیسا شاعر پیدا کیا، جو کہ 1869 میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ لیکن لکھنؤ میں ایسا بسے کہ جس سے لکھنوی کہلائے۔
آگرہ کی ایک اور عظیم شخصیت سیمؔاب اکبرآبادی کی شکل میں ہم سے روبہ رو ہوتی ہے۔ سیماب اکبرآبادی بھی شہر آگرہ میں 1880 میں پیدا ہوئے لکین پاکستان ایسے گئے کہ وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ ان کا اصل نام سید عاشق حسین تھا۔ داغ دہلوی سے شاگردی اختیار کی ان کا پہلا مجموعہ کلام "کلیم عجم" 1936 میں شائع ہوا۔ دوسرا مجموعہ "سدرۃالمنتہیٰ" ، اس کے علاوہ ساز آہنگ، کارِ اَمروز اور لوح محفوظ ہے جو بہت ہی عمدہ مجموعہ کلام ہے۔ آپ نے قران پاک کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ اردو صحافت میں بھی سیماب نے نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں۔ آپ نے آگرہ میں" قصر الاادب " کی بنیاد ڈالی۔ جس کے زیر سایہ روزنامہ ، ماہنامہ ،سہ ماہی، ادبی صحافت کا انتظام کیا۔ ان کی سب سے اہم یادگار "شاعر"ہے۔ یہ رسالہ 1935 سے تقسیم ہند تک آگرہ سے شائع ہوا اور اس کے بعد ممبئی سے آج تک شائع ہو رہا ہے۔ سیمؔاب اکبرآبادی اردو ادب میں بلند مرتبہ رکھتے ہیں جو سر زمیں آگرہ کی ہی دین ہے۔


سیماب اکبرآبادی ، اصغر گونڈوی ، فانی بدایونی اور یاس یگانہ چنگیزی کے زمانے میں صبا اکبرآبادی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ صبا اکبرآبادی 14 اگست 1908 کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد خواجہ علی محمد آگرہ کے ممتاز طبیب تھے۔ ان کے استاد اخفر اکبرآبادی بھی قادر الکلام شاعر تھے۔
صبا صاحب نے غالب کے دیوان کی تضمین کی ہے۔ آگرہ چھوڑ کر کراچی چلے گئے تھے۔ انہیں اپنے اکبرآبادی ہونے پر فخر تھا۔ لکھتے ہیں۔
زمانے نے مجھے بدلا نہیں ہے
ہمیشہ اکبرآبادی رہا ہوں
سیمؔاب صاحب کے ہی ہم عصر شاعروں میں میکش اکبرآبادی کی شخصیت بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں جو سر زمیں آگرہ کی وراثت ہے۔ میکش اکبرآبادی کی پیدائش مارچ 1902 میں بمقام میوہ کٹرہ آگرہ میں ہوئی۔ اور شہر آگرہ نے ان کو زینت بخشی ہے۔ میکش اکبرآبادی کا اصل نام سید محمد علی شاہ تھا ۔ صوفیانہ شاعر تھے۔ یہ ان کی خاندانی وراثت تھی۔ ان کے بارے میں حامد حسن قادری لکھتے ہیں۔
"حلیہ دیکھو تو ٹھیٹھ اکبرآبادی۔ دل ٹٹولو تو مکّی مدنی بغدادی و اجمیری۔ میکش صاحب شاعری میں اس قدر صحیع مزاق اور لطیف طبیعت رکھتے ہیں کہ اس کے آگے بس اللّہ کا نام ہے۔"


پروفیسر آلِ احمد سرور کے مطابق:
آج میکش سے ملاقات میں محسوس ہوا
ہندی میں صاحب عرفان ابھی باقی ہیں
لاکھ برباد سہی پھر بھی یہ ویران تو نہیں
اس خرابے میں کچھ انسان ابھی باقی ہیں
ان کے کلام میں کلاسکیت ، تصّوف اور تغزل کی اہم اہنگی ہے۔ ان کے شعری مجموعے "میکدہ"، "حرف تمّنا" ، "داستان شب " ہیں ان کے علاوہ "نغمہ اور اسلام "نقد اقبال اور مسائل تصوف نامی کتب بھی ہیں۔
آگرہ پر ان کی خصوصی کتاب" آگرہ اور آگرے والے "جس میں آگرہ کی تہذیب، رہن سہن طور طریقے، آگرہ کی ادبی شخصیتں، تاج محل اس کا معمار ،آگرہ کے مشاعرے، آگرہ کے میلے ، جوتے دال موٹھ، دری کارچوبی وغیرہ کا ذکر اس طرح پیش کیا ہے کہ آگرہ کی چلتی پھرتی تصویر نظر آتی ہے۔
حقیقت سے فسانے تک فسانے سے نگاہوں تک
مرے پاس آتے آتے اس نے کتنے پیرہن بدلے
(میکٓش )


میکش آگرہ کے صوفیانہ گھرانے تعلق رکھتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں آگرہ سے ان کا دلی رشتہ ہے۔ جو آج تک "بزم میکش" کے نام سے آگرہ میں محفل منعقد کی جاتی ہے۔ جس کے سرپرست اجمل علی شاہ ہیں، جو آستانہ میکش آگرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس میں ہر سال ادبی خدمات پر "میکش ایوارڈ" تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بزم میکش کی موجودہ جنرل سیکٹری بیکھنٹی دیوی گرلس ڈگری کالج کی پروفیسر اور ہماری استاد ڈاکٹر نسرین بیگم صاحبہ اس کام کو اور شہر آگرہ کی خصوصیات کی بنا پر میکش اکبرآبادی صاحب کو عروج عرفان عطا کرتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ پورے ملک میں شہر آگرہ کی نمائندگی کرتی ہیں۔ انھوں نے "جوش ملیح آبادی کی نثری خدمات" پر تحقیقی کام انجام دےکر اردو ادب میں اس کمی کو پورا کیا ہے۔جس کا پہلا ایڈیشن 2002 میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر نسرین بیگم کے کئی مضامین رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ آپ متعدد قومی و بین الاقوامی سیمیناروں میں اپنے مقالات پیش کرکے کر داد تحسین بھی حاصل کر چکی ہیں۔


آگرہ کی مشہور و معروف شخصیت استاد محترم ڈاکٹر سید شفیق اشرفی نے آگرہ کا ادبی ماحول، موجودہ وقت میں کافی گرمایا ہے۔ استاد محترم سینٹ جانس کالج میں مولانا حامد حسن قادری صاحب کے بعد شعبہ اردو کے صدر رہے۔ہیں۔ تاریخی سینٹ جانس کالج میں پی۔ جی۔ اردو کلاسز کی شروعات آپ کی ہی محنت کا ثمرہ ہے۔ جس سے طلبہ کی اعلی تعلیمی راہیں روشن ہوئیں۔ آپ نے شہر آگرہ کی ادبی سرگرمیوں کو کافی تقویب پہنچائی ہے۔ استاد محترم نے پچھلے 25۔26 برسوں کے دوران آگرہ کے ادبی حلقوں میں کافی محنت صرف کی ہے، بین الاقوامی سطح پر مشاعروں کا اور سیمینار وغیرہ کا انعقاد کرنا، ان کو عملی جامہ پہنانے میں اپنی ادبی نوازش کا ثبوت پیش کرتے ہوئے آگرہ کے ادبی حلقوں کو وہ وقار عطا کیا ہے کہ جس سے آگرہ شہر آج بھی اپنے ادبی معیار پر قائم ہے۔ استاد محترم کی آگرہ سے محبت اسی آب و تاب کے ساتھ آج بھی زندہ ہے۔ ان کی نگرانی میں آگرہ شہر کے ادبی حلقوں نے ادب میں گرنقدر اضافہ بھی کیا ہے۔ استاد محترم کا ادب سے لگاؤ اور دلچسپی اس بات سے بھی ظاہر ہے کہ آپ کی کئی کتابیں منظر عام پر آکر داد تحسین حاصل کر چکی ہیں۔


شہر آگرہ ادبی نوازش میں کسی سے کم نہیں، گویا کہ پوری گنگا جمنی تہذیب کے ساتھ ہر دور میں ایک بڑا شاعر بڑا فنکار اردو ادب کو آگرہ عطا کرتا رہا ہے۔ موجودہ شہر آگرہ جس آب وتاب کے ساتھ ادبی نوازش کے لئے جانا جاتا ہے، وہی تہذیب آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ جس کو آگے بڑھانے میں عصرِ حاضر کے شاعروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے جن میں امیر احمد جعفری، اقبال خلش، مالک زادہ، سہیل لکھنوی ، مشکور کانپوری،حنا تیموری، حسن اقبال رام پوری، دل تاج محلی اور محمود اکبرآبادی کے ساتھ دورِ حاضر کی نوجوان شاعرہ ڈاکٹر سعدیہ سلیم شمسی بھی شامل ہیں جن کی ایک نثری کتاب "رام پور: منظر نامہ، تہذیب و تاریخ و ادب " سنہ 2020ء میں منظر عام پر آکر داد تحسین حاصل کر چکی ہے۔ یہ سب آگرہ کی تہذیبی روش کو آگے بڑھانے میں اپنا حصہ ادا کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ادب کے گیسؤ صرف شعرائے کرام حضرات ہی نہیں سنوارتے بلکہ ہمارے اہل قلم کار ادیب دانشور بھی اس ساز گار فضا میں اپنی سر زمیں آگرہ کو اپنی تخلیقات سے ادب میں بلند فائز مقام عطا کرتے ہیں۔ جو اردو ادب میں ہمیشہ درخشاں رہے گا۔ جن میں عظیم بیگ چغتائی ،ل احمد اکبرآبادی ، لطیف الدین احمد انجم آفدنی، مفتی انتظام اللہ شہبائی، مرزاحاتم علی بیگ، بلوان سنگھ راجہ، رجب علی بیگ سرور، آلِ احمد سرور وغیرہ کے نام لے سکتے ہیں۔
سینٹ جانس کالج آگرہ ، آگرے کی اردو تاریخ میں مولانا حامد حسن قادری صاحب کا نام نمایاں حثیت کا حامل ہے۔ وہ سینٹ جانس کالج آگرہ میں طالب علم اور پھر پروفیسر رہے ہیں۔ مختلف اصنف میں انھوں نے اپنی یادگاریں چھوڑی ہیں۔ تاریخ گوئی میں ان کو امتیاز حاصل ہے۔ ان کا سب سے اہم کارنامہ ضخیم تصنیف 'داستان تاریخ اردو' ہے جو 1938ء میں تحریر کی گئی۔ داستان کی صورت میں اردو کی پیدایش سے لے کر عہد جدید تک کا منظر نامہ پیش کیا ہے۔ اس سے کوئی بھی محّب اردو استاد اور طالب علم بے نیاز نہیں رہ سکتا چونکہ اس کے مطالعہ سے اردو نثر کے بارے میں تنقید و تجزیہ کی نئی راہوں کو دریافت کیا جا سکتا ہے۔


اس رومان اَنگیز ادبی فضا میں اردو کے ایک ممتاز انشاپرداز شاہ نظام الدین دلگیر اکبرآبادی نے بھی آگرہ سے 'نقاد' نام کا ایک ماہنامہ نکالا۔ نقاد کا پہلا پرچہ جنوری 1913میں منظر عام پر آیا۔ 1930 میں جاری ہوا سیماب اکبرآبادی صاحب کا رسالہ شاعر بھی آگرہ کی دین ہے۔ مرزا غالب ریسرچ اکاڈمی آگرہ سے سید اختیار جعفری صاحب نے 2014 میں 'آگرہ میں اردو صحافت ' کے حوالے سے گیارہ ابواب پر مستمعل کتاب تحریر کی، جس میں جعفری صاحب نے بعد از کامل تحقیق 182 اردو رسائل اور دیگر زبانوں کے رسائل کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ کتاب بھی ایک معنوں میں آگرہ میں اردو صحافت کی کمی کو پورا کرنے میں ایک مثال قائم کرتی ہے۔


اردو کے ارتقاء میں آگرے کے اہل علم و ہنر نے ہر دور میں نہایت اہم حصہ لیا ہے اور لے رہے ہیں۔ کہنا چاہیے کہ شہر آگرہ اردو ادب کے ہر شعبہ میں آگے رہا ہے۔ ہر دور میں بلند پایہ ادیب و شعراء کے ساتھ ساتھ علم دوست انسان پیدا کرتا رہا ہے، جس سے ملک و ادب کا وقار بھی بلند ہوتا ہے۔ ہمارے اہل قلم دوست آج بھی اسی آب وتاب کے ساتھ اردو ادب کی خدمات انجام دے رہے ہیں اور ان شاء اللہ آگے بھی دیتے رہیں گے۔ یہ علم و ہنر کا مرکز اور صلح کل کی نگری ادب میں اسی طرح اپنے قلم کے ذریعے ، اپنی تخلیقات کے ذریعے ملک و ادب میں محبت کا پیغام دیتی رہے گی۔
"اکبر کے نام سے ہوا آباد آگرہ"

***
Mehmooda Qureshi (Research Scholar Delhi University, Delhi)
22/78, Dholi Khar Mantola, Agra Fort, Agra - 282003
mehmooda3006[@]gmail.com

City of Agra and prominent personalities of Agra. - Essay: Mehmooda Qureshi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں