علامہ شبلی نعمانی : اعظم گڈھ کی مٹی سے اگنے والا روشن آفتاب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-05-27

علامہ شبلی نعمانی : اعظم گڈھ کی مٹی سے اگنے والا روشن آفتاب

allama-shibli-nomani

شخصیتیں ہر دور میں پیدا ہوتی رہی ہیں، ہر دور کی شخصیات کے افکار و خیالات نے معاشرے پہ اپنے اثرات مرتب کئے ہیں، بےشک ان کے افکار و خیالات سے اختلاف و اتفاق کیا جا سکتا ہے لیکن اختلاف کا حق رکھتے ہوئے بھی ہم بعض شخصیتوں کی فکری اثریت سے نظریں نہیں چرا سکتے، کسی بھی شخصیت کے ہر فکر سے اتفاق کرنے کی شرط ہمارے مذہب میں نہیں رکھی گئی ہے، اس لئے وسیع النظری کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم اتفاق و اختلاف کرتے ہوئے بھی علم اور اہل علم کی تعظیم و تکریم کرنا سیکھیں۔ اس سے شخصیت پرستی کا خاتمہ ہوتا ہے اور نظریات کی افزائش کی راہیں ہموار ہوتی ہیں، نظریات معاشرے کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں نظریے کی تعمیر سے ہی قوموں کی بقاء و ارتقا کا عمل شروع ہوتا ہے۔


اعظم گڈھ کی سرزمین کی علمی زرخیزی ایک ایسا موضوع ہے جس پہ سیر حاصل گفتگو کی جا سکتی ہے، اس سرزمین پہ کئی ایسی تاریخی شخصیات پیدا ہوئی ہیں جنھوں نے عالمی سطح پہ علم کے نئے روزن وا کئے سوچ کے کئی مقفل دروازوں کو کھولے ہیں، بدلتے زمانے کے تقاضوں کو محسوس کرتے ہوئے اسے اپنے فکر و نظر کے ساتھ آگے بڑھایا انھیں شخصیات میں ایک نمایاں نابغۂ روزگار شخصیت علامہ شبلی نعمانی کی ہے۔


علامہ شبلی نعمانی ہمہ جہت صلاحیتوں کے حامل تھے، ان کی شہرت عالمی سطح پہ مسلم حیثیت رکھتی ہے، ان کے بارے میں اگر یہ کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کہ ان کی شناخت کی تشکیل میں اعظم گڈھ نے اتنا کردار نہیں ادا کیا جتنا کہ انھوں نے اعظم گڈھ کی شناخت کو مستحکم بنانے میں اہم کردار ادا کیا، ان کی علم نوازی نے ان کی صلاحیتوں کو ایک ایسے روشن چراغ میں تبدیل کر دیا تھا جس نے ارد گرد ہی نہیں بلکہ تاحد نظر روشنی ہی روشنی پیدا کر دی۔ ان کی شخصیت کے کئی سارے رخ تھے علامہ شبلی نعمانی ایک یگانۂ روزگار محقق اور مصنف، ایک بے مثال سوانح نگار اور مورخ، ایک عظیم فلسفی اور مفکر، ایک مایۂ ناز ماہر تعلیم اور معلم اور شعر وادب کے امام ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسے عالم دین تھے، جن کی فکر ونظر آج بھی حاملین علوم نبوت کے لیے مشعل راہ کا کام کر رہی ہے۔
ان کی شخصیت کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے علم کو دینی و دنیاوی کسی خانے میں نہیں بانٹا بلکہ ہر اس علم سے استفادہ کرنے کی وکالت کی جو کہ شعور کی نشوونما کرتا ہے، انھوں نے خود مغربی علوم کا مطالعہ کر کے اس کی روشنی میں دینی علوم کی اہمیت اور دینی شخصیات کے کرداروں کو منفرد اسلوب میں ڈھال کر دنیا کے سامنے پیش کیا، سرسید احمد خاں کی رفاقت نے گویا ان کی صلاحیتوں کو ایک نئی زندگی ایک نیا مقصد عطا کر دیا تھا، علامہ شبلی نعمانی کی شخصیت صحیح معنوں میں ایک عالمی شخصیت تھی جنھوں نے عرب و عجم کے لوگوں کے درمیان ایک معتبر شناخت حاصل کی۔ وہ ساری زندگی علم کی خدمت میں مصروف رہے۔


علامہ شبلی نعمانی علیہ الرحمہ ۴؍جون ۱۸۵۷ء کوموضع بندول ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے ان کے والد شیخ حبیب اللہ کے گڈھ کے نامی گرامی وکیل اور شعر و ادب کے شیدائیوں میں سے تھے، عوام کی فلاح و بہبود کے تئیں ہمیشہ فکر مند رہتے تھے رفاہ عام کے لیے سرگرداں رہتے تھے، انھیں تصوف سے گہرا لگاؤ تھا، اپنے بچوں کی تربیت میں ان کے متصوفانہ نظریات کا بھی اثر شامل رہا علامہ شبلی نعمانی جو ان کے بڑے بیٹے تھے ان کی تعلیم و تربیت میں ان کے والد نے ایک نمایاں کردار ادا کیا، روایت کے مطابق علامہ شبلی نعمانی کی تعلیم کا آغاز گاؤں کے ہی مکتب سے ہوا اس کے بعد مولانا فاروق چریا کوٹی، اور مولانا فیض الحسن سہارنپوری سے فیضِ علم حاصل کرتے ہوئے اس وقت کے جید نامور علماء کرام سے استفادہ کیا انیس سال کی عمر میں ان کی تعلیم مکمل ہوگئی، ان کے اندر موجود علم کی تشنگی نے انھیں ہمیشہ علم کی راہ میں مائل بہ سفر رکھا یہاں تک کہ جب وہ حج کے لئے مکہ مکرمہ گئے تو اس دوران انھوں نے مکہ کی لائبریریوں میں موجود کتابوں کا مطالعہ کیا اور وہاں کی علمی شخصیات کی صحبت میں رہ کر ان کے علم سے خاطر خواہ استفادہ کیا۔
جب وہاں سے وہ واپس آئے تو ان کا علمی ذوق ایک جداگانہ راہ پہ رواں ہو چکا تھا، وہ تنگ نظری کی فضا سے باہر نکل کر کھلی فضا میں سانس لینے کے عادی ہو گئے تھے۔ بعد میں میں سرسید کی رفاقت میں ان کے علم و تحقیق کو ایک نیا آسمان مل گیا، حج سے واپسی کے بعد اپنے والد کے حکم پہ وکالت کی ہریکٹس بھی کی اور چھوٹی موٹی تجارتیں بھی کیں لیکن مسلسل ذہنی کشمکش سے نبردآزما بھی رہے، ایک تشنگی سی ان کی زندگی میں تھی جیسے وہ خود کو اس کے مطابق نہیں پاتے تھے، ان کی زندگی میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب محمڈن اینگلو عربک کالج میں لکچرار کی ایک جگہ خالی ہوئی علامہ شبلی نعمانی نے اس کے لئے درخواست ڈالی وہ انٹرویو کے لئے پہنچے سرسید احمد خاں نے ان کے ذوق مطالعہ کو دیکھتے ہوئے بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر کے ان کا تقرر کر دیا یہیں سے ہی ان کی تحقیق و تصنیف کو مہمیز ملی وہ اپنی صلاحیتوں کو ایک رخ دینے میں کامیاب ہو گئے۔
ان کے سامنے علم کے بےشمار دروازے کھلتے چلے گئے اور ان کی جستجو اور پیاس بڑھتی گئی اس جستجو اور آرزو کا سفر ان کی موت تک جاری رہا، وہاں پہنچنے سے پہلے تک ان کا علم دین اور بنیادی عصری علوم تک محدود تھا سرسید کی صحبت میں رہ کر انھوں نے مولویت کے محدود دائرے سے باہر نکل کر دنیا کو ایک الگ رخ سے دیکھا اور نئے نئے علوم سیکھے، مغربی علوم و فنون سے استفادہ کرتے ہوئے انھوں نے مشرقی علوم کی تعمیر نئے زاویے سے کی انھوں نے مغربی علوم کی وسیع النظری کی روایت کو مشرقی علوم میں منتقل کیا اور اس کو بدلتے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اردو زبان کی نشوونما بھی کی۔


علامہ شبلی نے محمدن اینگلو اورینٹل کالج میں تقریباً سولہ سال تدریسی خدمات انجام دی۔ ان کی تدریس کا طریقہ انتہائی مؤثر اور دلچسپ ہوا کرتا تھا جو کہ طلبہ کے اندر علم کی ایک جستجو پیدا کردیتا، اسی کالج میں رہتے ہوئے ان کی ملاقات پروفیسر تھومس آرنلڈ اور کئی مغربی اسکالروں سے ہوئی جن سے مل کر انھوں نے مغربی نظریات و خیالات کا بہت قریب سے جائزہ لیا یہیں سے انھیں اندازہ ہوا کہ مغربی نظریات و خیالات سے متعلق پائی جانے والی عمومی رائے غلط فہمی پہ مبنی ہے انھوں نے پروفیسر آرنلڈ سے بھرپور استفادہ کیا 1892 میں انھوں نے پروفیسر آرنلڈ کے ساتھ ترکی شام اور مصر وغیرہ کا دورہِ کیا تقریبا چھ ماہ تک وہاں قیام کیا، ترکی کے قیام کے دوران خلافت عثمانیہ نے آپ کی علمی عظمت ورفعت کے اعزاز میں آپ کو تمغہ مجیدیہ سے نوازا۔جب علامہ شبلی ترکی سے ہندوستان واپس آئے تو علی گڑھ میں آپ کے اعزاز میں مختلف جلسے منعقد ہوئے۔ چنانچہ آپ کی شہرت وعظمت کے چرچے برطانوی حکومت کے ایوان میں بھی ہونے لگے۔ لہٰذا برطانوی حکومت نے آپ کو شمس العلماء کے خطاب سے نوازا۔


سرسید احمد خان کا 1898ء میں جب انتقال ہوگیا تو آپ اعظم گڑھ واپس آگئے پھر 1901ء میں آپ حیدرآباد کوچ کر گئے اور حیدرآباد اسٹیٹ کے ایجو کیشن ڈپارٹمنٹ میں بطور مشیر کے کام کرنا شروع کر دیا اور وہاں کے تعلیمی نظام میں بہت سی اصلاحات کیں اور آپ کی کئی مشہور تصانیف انہیں ایام کی یادگار ہیں۔ 1905ء میں آپ حیدرآباد سے لکھنؤ چلے آئے، جہاں دنیا کی مشہور اسلامک یونیورسٹی دارالعلوم ندوۃ العلماء جو ابھی ابتدائی مرحلے میں تھا کے معتمد تعلیم کی ذمہ داری سنبھالی۔دارالعلوم ندوۃ العلماء کا قیام 1894ء میں ہوا۔ ندوۃ العلماء کی تحریک علامہ شبلی کے دل کی آواز تھی۔ روزِ اول سے وہ نہ صرف یہ کہ اس کی ساری سرگرمیوں میں شریک تھے بلکہ وہ اس ادارہ کی تعمیر وترقی کو اپنے خوابوں کی تعبیر سمجھتے تھے۔ لیکن انھیں وہاں کی فضا زیادہ دنوں تک راس نہیں آ سکی ان کی وسیع النظری کی وجہ سے کچھ لوگ ان سے نالاں تھے جب ندوہ کے حالات خراب ہو گئے تو انھوں نے اپنی ملازمت چھوڑ دی۔
علامہ شبلی نعمانی کی یہ شدید خواہش تھی کہ بڑے بڑے علماء کو جمع کر کے علمی تحقیق و اشاعت کا ایک ادارہ 'دار المصنفین' کے نام سے قائم کیا جائے انھوں نے اپنے اس خواب کو پورا کرنے کی پوری کوشش بھی کر لی لیکن اس ادارے کا افتتاح ہونے سے پہلے ہی ان کا انتقال ہو گیا۔
علامہ شبلی نعمانی ایک مایۂ ناز مؤرخ تھے، تاریخ کے ضمن میں اسلامی تاریخ کی عظیم شخصیتوں کے حالات کو قلمبند کر کے لوگوں میں اسلامی تاریخ کا نیا ذوق پیدا کیا ان کی تاریخ کے حوالے سے لکھی گئی کتابوں میں سب سے مشہور و مقبول کتاب خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سوانح 'الفاروق' اور امام ابوحنیفہ کی سوانح 'سیرۃ نعمان' ہے شبلی نعمانی امام ابوحنیفہ سے بہت متاثر تھے اپنے نام کے ساتھ نعمانی لگانا ان کی اسی عقیدت و محبت پہ مبنی ہے، پھر ان کی سیرت پہ کتاب مرتب کر کے اپنی محبت کو بہت ہی عقیدت کے ساتھ پیش کیا جس نے ان کی سوانح نگاری کو مستند بنانے میں اہم کردار ادا کیا، سوانح نگاری کے ضمن میں ان کی آخری تصنیف 'سیرۃ النبی' تھی جو کہ ان کی زندگی میں مکمل نہیں ہو سکی بعد میں ان کے شاگرد سید سلیمان ندوی مکمل کر کے اسے کتاب کی شکل میں شائع کرایا، یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ علامہ شبلی نعمانی نے سوانح نگاری کی صنف میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔


علامہ شبلی نعمانی شعری بساط پہ اپنی ایک نمایاں شناخت رکھتے تھے، ان کے شعر و شاعری سے متعلق ان کے نظریات کو ان کی کتاب 'شعر العجم، موازنہ انیس و دبیر' سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے ان کی کتابوں اور ان کے لکھے گئے متفرق مضامین کو پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کو شاعری کے فنی لوازمات، اور اس پہ تنقید سے گہری دلچسپی رہی ہے، انہوں نے ''شعرالعجم'' کی پہلی جلدمیں 'شعر کی حقیقت' ،' شاعری کے متعلق ارسطو اور مِل کی رائیں' اور چوتھی جلدمیں 'شاعری کی حقیقت'،' شاعری کے اصلی عناصر'، 'محاکات'،' تخیل'، 'حسنِ الفاظ' اور لفظوں کی نوعیتوں پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس لحاظ سے ان کی یہ تصنیف خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہے کہ اسی میں انہوں نے اردو شاعری کے تعلق سے اپنی گراں قدر آرأ کا اظہار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے شاعری سے متعلق اپنے خیالات کو اپنے تجربے ، مشاہدے و مطالعے کی روشنی میں بےحد توضیحی انداز میں لکھا ہے، انھوں نے شاعری سے متعلق اپنے نظریات کو بیان کرتے ہوئے مثالوں کا بھی سہارا لیا ہے جس سے ان کے خیالات کو سمجھنے میں کافی مدد ملی ہے۔


علامہ شبلی نعمانی کی سوانح نگاری بھی مسلم حیثیت رکھتی ہے انھوں نے اپنی سوانح نگاری کے ذریعے مشاہیر اسلام کے واقعات کو بیان کر کے مسلمانوں کو ان کی عظمت رفتہ کا احساس دلایا ان کا مقصد یہ تھا کہ مشاہیر اسلام کے کارناموں کو اتنے شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا جائے کہ مخالفین اسلام بھی اس پہ غور کرنے پہ مجبور ہو جائیں ان کی تاریخ نگاری بھی اسی ضمن میں آتی ہے دوسرے وہ یہ بھی چاہتے تھے زبان و ادب کے دامن کو مزید وسعت بخشیں انھوں نے اس کے لئے بھرپور کوشش کی اور کامیاب بھی رہے، علامہ شبلی کا مطالعہ بہت وسیع تھا مغربی علوم و فنون سے واقفیت نے ان کی صلاحیتوں میں مزید اضافہ کیا، وہ سوانح نگاری کے فن سے کما حقہ واقف تھے 'المامون'' ۱۹۸۸ء میں شائع علامہ شبلیؔ کی پہلی مستقل تصنیف ہے۔ جو اُردو میں حالیؔ کی حیاتِ سعدی کے بعد جدید طرز کی دوسری سوانح عمری ہے۔ سرسیّد نے اِس کتاب پر جو مختصر دیباچہ لکھا ہے ، اُس میں کتاب کی جس خصوصیت پر رشنی ڈالی گئی ہے، اِس کا اطلاق صرف 'المامون' پر نہیں، شبلی کی تمام سوانحی کتب پر ہوتا ہے، شبلیؔ کا ارادہ پہلے عباسی خاندان کی تاریخ رقم کرنے کا تھا، بعد میں انہوں نے فرمان روایانِ اسلام لکھنے کا منصوبہ بنایا، لیکن مصروفیت کی وجہ سے یہ بھی عملی جامہ نہیں پہن سکا لہٰذا شبلیؔ نے 'ہیروز آف اسلام' سلسلہ کی پہلی کڑی کے طور پر عباسی خلیفہ مامون الرشید پر قلم اُٹھایا۔


علامہ شبلی کی طرز نگارش اپنے اندر گوناگوں پہلو رکھتی ہے ان کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ ان کی تحریروں کی اثریت کی سب سے بڑی وجہ ان کا ایجاز و اختصار ہے وہ بےجا مبالغہ آرائی سے ہمیشہ گریز کرتے تھے، انھیں یہ کمال حاصل تھا کہ وہ کوزے میں دریا کو بند کر دیتے تھے وہ موضوع جو صفحات کے محتاج ہوتے تھے وہ انھیں سطروں میں سمیٹ دیتے تھے، ان کی تحریروں میں شگفتگی اور سادگی کا عنصر بھی نمایاں ہے ان کی فکری صلاحیتیں ایسے ایسے رموز و اسرار منکشف کرتیں کہ قاری پہ ایک نئی علمی دنیا ظاہر ہو جاتی وہ بحر علم کے ایک ماہر غواص تھے، یہی وجہ تھی کہ ان کے فکر و عمل سے بر صغیر ہند و پاک کے مسلمانوں کی فکر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی انھوں نے علم کے نئے نئے زاویوں کو ہی نہیں بیان کیا بلکہ انھوں نے اردو اور فارسی ادب کو گراں قدر فائدہ پہنچایا۔ ان کی علمی تحریک ایک مدرسۂ فکر کا درجہ رکھتی ہے۔


اعظم گڈھ کی سرزمین سے اٹھنے والا یہ ذرہ نیر اعظم بن کر علمی افق پہ نمودار ہوا ان کی فکری کاوشیں اور تحقیقی و تنقیدی سرمائے سے انسان نسل در نسل مستفید ہوتے رہیں گے علم و ادب کے آسمان پہ چمکنے والا یہ روشن و تابندہ ستارہ بالآخر 18 نومبر 1914ء کو اس جہانِ فانی کو خیرباد کہہ دیا لیکن اس کی چمک آج بھی علمی گلیاروں میں موجود ہے ان کے قائم کردہ ادارے شبلی کالج اور دار المصنفین آج بھی علمی کاموں میں مصروف ہیں، اردو زبان شبلی کے احسانات کو کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی۔

***
علیزے نجف۔ سرائے میر، اعظم گڈھ، اترپردیش
ایمیل: alizey.najaf[@]gmail.com

Allama Shibli Nomani, Life and work. Essay by: Alizey Najaf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں