سپریم کورٹ کا طوق - کالم از ودود ساجد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-04-30

سپریم کورٹ کا طوق - کالم از ودود ساجد

fair-role-of-supreme-court

28 اپریل کو جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس بی وی ناگرتھنا کی بنچ نے تمام ریاستوں کی پولیس کو حکم دیا کہ نفرت انگیز تقریریں کرنے والوں کے خلاف یہ انتظار کئے بغیر فوراً ایکشن لیا جائے کہ کوئی ان کے خلاف رپورٹ درج کرائے گا۔ عدالت نے حکم کی خلاف ورزی کرنے والی ریاستوں کو توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا کرنے کا بھی انتباہ دیدیا۔۔


پولیس کے پاس سب سے بڑا حربہ یہ ہوتا ہے کہ کسی نے رپورٹ ہی درج نہیں کرائی۔ اب سپریم کورٹ کے اس واضح حکم کے بعد پولیس کے پاس کوئی بہانہ نہیں بچے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ پولیس رپورٹ درج کرانے کے بعد بھی کارروائی نہیں کرتی۔ ایسے میں تو بالکل نہیں کرتی جب معاملہ شرپسندوں کے خلاف ہو۔ اس کا سب سے بڑا تازہ ثبوت یہ ہے کہ عید کی نماز سڑکوں پر پڑھنے کے الزام میں صرف یوپی میں ہی سینکڑوں مسلمانوں کے خلاف پولیس نے رپورٹ درج کی ہے۔
پورا رمضان یہی خبریں پڑھتے ہوئے گزرا کہ بہار، بنگال، یوپی، مہاراشٹر، تلنگانہ اور گجرات میں رام نومی کے موقع پر شرپسندوں نے مسجدوں کے سامنے ٹھہر کر جی بھر کر اشتعال انگیزی کی۔ بعض مقامات سے تو آگ لگانے کی بھی خبریں آئیں۔


بہار سے یہ خبر کچھ کم تکلیف دہ نہیں تھی کہ شرپسندوں نے کلام اللہ کے نسخوں کی بھی بے حرمتی کی، لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ خبریں یہ تھیں کہ باوجود اس کے کہ گھرے ہوئے نہتے لوگوں نے سامنے سے آتی ہوئی شرپسندوں کی بھیڑ کے مقابلہ میں وہاں موجود پولیس اور دوسری فورسز سے مدد مانگی لیکن پولیس اہلکار اور دوسری فورسز کے جوان، ان نہتے لوگوں کو شرپسندوں کے رحم وکرم پر چھوڑ کر الٹے پاؤں لوٹ گئے۔
گجرات کے مختلف علاقوں میں افطار کے وقت پولیس اہلکار گھروں میں گھس گئے اور مردوں کی غیر موجودگی میں گھروں کی روزہ دار عورتوں سے مارپیٹ کی۔ انہیں افطار تک کرنے نہیں دیا گیا۔ عتیق اور اشرف کے منظم اور منصوبہ بند قتل نے تو اچھے خاصے مضبوط اعصاب والوں تک کو خوف و دہشت میں مبتلا کردیا۔ سپریم کورٹ کی ایک دوسری بنچ نے عتیق برادران کے قتل پر بھی یوپی حکومت اور پولیس سے سخت سوالات کئے ہیں۔


محض تین ہفتے پہلے ہی سپریم کورٹ کے سابق جج، جسٹس روہنٹن ایف ناریمن نے اس تفصیلی رپورٹ کا پیش لفظ لکھا تھا جو متعدد دردمند وکیلوں اور ممتاز شہریوں کے ایک موقر گروپ (سی ایل آئی) نے رام نومی کے موقع پر رونما ہونے والے پچھلے سال کے واقعات کی بنیاد پر تیار کی تھی۔
جسٹس ناریمن نے لکھا تھا کہ:
"ہندوستانی پولیس فورسز کو ہندوستانی مسلمانوں کے تئیں حساس بنانے اور ان کے ذہنوں میں یہ بات جاگزیں کرنے کی سخت ضرورت ہے کہ ہندوستانی مسلمان بھی ہندوستانی ہی ہیں۔"
جسٹس ناریمن کا یہ جملہ کوئی سادہ اور معمولی جملہ نہیں ہے۔ فی الواقع یہ ایک ثابت شدہ الزام کی بھاری بھرکم تصدیق ہے۔ ہمارے قائدین جب وزیر داخلہ سے ملنے جائیں تو انہیں جسٹس ناریمن کا یہ جملہ یاد رکھنا چاہئے۔
راجستھان ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ نے جے پور دھماکوں کے الزام میں کتنے ہی بے قصور مسلم نوجوانوں کی زندگیاں برباد کرنے والے پولیس والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد ملیانہ کے قتل عام میں مقامی عدالت نے کئی درجن نہتے مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے ملزموں کو بری کردیا اور کہا کہ پولیس نے درست طور پر تفتیش نہیں کی۔ گجرات میں 2002 کے بدنام زمانہ فسادات کے دوران نرودا پاٹیا میں ایک درجن سے زائد مسلمانوں کو زندہ جلانے کے ملزمین بھی بری کردئے گئے۔ عدالت نے کہا کہ پولیس نے درست طور پر تفتیش نہیں کی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ رہاشدہ ملزموں میں سے کئی تو ایسے ہیں جنہوں نے مختلف ویڈیوز اور اسٹنگ آپریشن میں خود تسلیم کیا تھا کہ ان مسلمانوں کو انہوں نے ہی جلایا تھا۔ رہاشدگان میں گجرات کی اس وقت کی ایک وزیر مایا کودنانی بھی شامل ہے۔اس کے خلاف تو خصوصی عدالت کی خاتون جج نے بہت سخت تبصرے کئے تھے۔


دہلی میں سی اے اے کے خلاف مظاہروں کے دوران مشرقی دہلی کے خوفناک فسادات کے مقدمات تو ابھی جاری ہیں۔جن میں وقتاً فوقتاً مسلم متاثرین کے معاملات میں پولیس کو سست رفتاری اور بے دلی کے ساتھ کی جانے والی تفتیش پر لعن طعن ہوتی رہتی ہے۔ لیکن دہلی پولیس کو لعن طعن کرنے والے انتہائی مقبول جج، جسٹس ایس مرلی دھر کا راتوں رات تبادلہ ہو جاتا ہے۔ جسٹس مرلی دھر نے نصف شب اپنے گھر پر سماعت کرکے دہلی پولیس کمشنر کو اگلی صبح دس بجے تک عدالت میں آکر یہ بتانے کی ہدایت دی تھی کہ وہ پرویش ورما اور کپل مشرا کی اشتعال انگیزی کے خلاف کوئی کارروائی کریں گے یا نہیں؟
جسٹس مرلی دھر نے اپنی عدالت میں ان دونوں کی ویڈیوز چلا کر خود دیکھی تھیں اور پولیس کو سخت سست سنائی تھیں۔


اب سپریم کورٹ میں جسٹس جوزف کی بنچ کی سخت لعن طعن کے بعد دہلی پولیس نے اقرار کرلیا ہے کہ ان دونوں کے خلاف رپورٹ درج کرلی گئی ہے۔ جامعہ تشددکے معاملہ میں پوری دنیا نے دیکھا کہ نہتے طلبہ پر کس بے رحمی کے ساتھ لاٹھی ڈنڈے برسائے گئے تھے۔ دہلی کی خصوصی عدالت نے اس سلسلہ میں ماخوذ تین مسلم نوجوان طلبہ لیڈر کو رہا کرتے ہوئے پولیس کے رویہ پر سوالات اٹھائے تھے۔ لیکن دہلی ہائی کورٹ نے پولیس کی اپیل پر ان تینوں کو پھر ماخوذ کر دیا۔
مشرقی دہلی کے فسادات کے دوران سڑک پر تڑپتے ہوئے اور پانی طلب کرتے ہوئے پانچ مسلم نوجوانوں کے منہ اور سر پر لاٹھی کی نوک چبھانے کا منظر تو بہت سوں کو یاد ہوگا۔ ایسے موقع پر جب انہیں اپنی جان بچانے کیلئے پانی کے چند قطروں کی سخت ضرورت تھی، پولیس ان سے جن گن من سننا چاہتی تھی۔ بعد میں ان میں سے ایک کی موت واقع ہو گئی تھی۔ ان کے ساتھ شرپسندوں نے مارپیٹ کی تھی۔


ممبئی میں 1992-93 کے فرقہ وارانہ فسادات کے تعلق سے قائم سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ میں جسٹس بی این سری کرشنا نے پولیس اور انتظامیہ کو لیت و لعل اور غفلت و کوتاہی کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ پولیس نے کمیشن کو مطلوب دستاویزات دینے میں کوتاہی برتی تھی۔ جبکہ عوام کے ذریعہ کمیشن کے سامنے دو ہزار سے زائد حلف نامے پیش کئے گئے تھے۔جسٹس سری کرشنا نے لکھا کہ:
"کمیشن یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہے کہ یا تو پولیس افسران اہم پہلوؤں سے لاعلم ہیں یا وہ جان بوجھ کر کچھ چھپا رہے ہیں۔"


اس سلسلہ میں بامبے ہائی کورٹ کے دو سبکدوش ججوں، جسٹس داؤد اور جسٹس سریش پر مشتمل ایک کمیٹی نے بھی سول سوسائٹی کی طرف سے تحقیقات کی تھیں۔ انہوں نے دو ہزار سے زیادہ تحریری بیانات کو جمع کیا تھا اور 234 متاثرین سے بات کی تھی۔ ان کی رپورٹ نے بتایا تھا کہ پولیس اہلکاروں نے بابری مسجد کے انہدام کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ہجوم کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ یہ مظاہرے کسی قیادت کے بغیر اچانک ہوئے تھے۔ ممبئی فسادات میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ جسٹس سری کرشنا کمیشن نے اس بدنام زمانہ وائر لیس گفتگو کا بھی ذکر کیا تھا جو فساد کے دوران پولیس والوں کے درمیان ہوئی تھی اور جس میں انہوں نے مسلمانوں کے خلاف انتہائی ناشائستہ الفاظ استعمال کئے تھے۔
فرقہ وارانہ فسادات کے بعد قائم متعدد کمیشنوں کی رپورٹس میں بھی کلیدی طور پر پولیس کے رویہ پر سوال اٹھائے گئے اور پولیس کے طریقہ کار میں اصلاحات کی سفارشات کی گئیں۔ خود پولیس میں اصلاحات کیلئے خصوصی طور پر کمیشن بھی قائم کئے گئے۔ ان کی سفارشات آج بھی سردخانوں میں پڑی ہوئی ہیں۔


مسلمانوں کے ساتھ پولیس کے معاندانہ رویہ پر 80 کی دہائی میں میرٹھ میں تعینات سینئر آئی پی ایس، وی این رائے نے تو باقاعدہ ایک کتاب لکھی تھی۔ اس میں انہوں نے میرٹھ اور اطراف کے لوگوں کے ساتھ بدنام زمانہ فورس پی اے سی کے کارناموں پر سے پردہ اٹھایا تھا۔
کورونا کے دوران بھی پورے ملک میں پولیس کا رویہ تبدیل نہیں ہوا۔ تبلیغی جماعت کے افراد کے خلاف مختلف مقدموں میں پولیس کے کردار پر عدالتوں نے سخت تنقید کی۔ اس ضمن میں سہارنپور کی سیشن عدالت اور بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ کے فیصلے کمال کے ہیں۔ اورنگ آباد بنچ نے کئی ملکی اور غیر ملکی تبلیغی افراد کو باعزت رہا کرتے ہوئے پولیس اور حکومت پر انتہائی سخت تبصرے کئے تھے۔


حکومت نے 28 اپریل کو جسٹس جوزف اور جسٹس ناگرتھنا کو اپنے فیصلہ سے روکنے کی بہت کوشش کی۔ بنچ نے اپنے حکم میں لکھا کہ جیسے ہی کہیں کوئی نفرت انگیز تقریر یا کوئی نفرت انگیز عمل واقع ہو اور جو دفعات 153A, 153B, 295A, اور 506 کے تحت قابل گرفت ہو، پولیس فوری طور پر، بغیر کسی کی شکایت کا انتظار کئے، از خود ایکشن لیتے ہوئے خطاکاروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے۔
بنچ نے تمام اعلی حکام کو یہ ہدایت بھی دی کہ وہ اپنے ماتحت افسران کو اس حکم کے بارے میں مطلع کردیں تاکہ جلد سے جلد مناسب کارروائی کے انتظامات کئے جا سکیں۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ ہم ہدایت دیتے ہیں کہ منافرت انگیز تقریر کرنے والے کا مذہب دیکھے بغیر کارروائی کی جائے تاکہ آئین ہند کی تمہید کے مطابق بھارت کے سیکولر کردار کو محفوظ رکھا جاسکے۔


یہ رٹ پٹیشن کیرالہ کے شاہین عبداللہ نے دائر کی تھی۔ مرکزی حکومت کے وکیلوں نے پچھلی سماعتوں میں متعدد بار یہ اعتراض کیا کہ آخر شاہین عبداللہ کا اس سے کیا لینا دینا اور یہ کہ خود کیرالہ میں بھی منافرت انگیزی ہوتی ہے۔ مرکز کے وکلاء نے کیرالہ حکومت سے بھی باز پرس کئے جانے کی ضد کی۔ لیکن عدالت پٹری سے نہیں اتری اور حکومت سے سخت سوالات کئے۔
جسٹس جوزف نے سماعت شروع ہوتے ہی مہاراشٹر کے وکیل سے کہہ دیا تھا کہ ہمارے احکامات کو ہلکے میں لینے کی ضرورت نہیں۔ مہاراشٹر حکومت کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ ہم نے تو ایسے معاملات میں بھی ایف آئی آر درج کرلی ہے جن پر عرضی گزاروں نے بھی توجہ نہیں دلائی تھی۔اس پر جسٹس جوزف نے ترشی کے ساتھ کہا کہ یہ کوئی احسان نہیں کیا، یہ آپ کا فرض منصبی تھا۔


مرکزی حکومت کے وکیل سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو حکم جاری کرنے سے باز رکھنے کی بڑی کوشش کی۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ کیا اب ہر معاملہ سپریم کورٹ میں ہی حل ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ کو مجسٹریٹ کی عدالت میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ لیکن جسٹس جوزف نے صاف کہہ دیا کہ جب آپ اپنا فرض ادا نہیں کریں گے اور شہری ہم سے انصاف مانگنے آئیں گے تو ہم آنکھیں بند نہیں کرسکتے۔


بہرحال اب امید کی جانی چاہئے کہ سپریم کورٹ کی اس سختی کا کچھ اثر تو ہوگا۔ چیف جسٹس کی بنچ نے تمام ریاستوں کو حکم دے ہی دیا ہے کہ اگلے تین مہینوں میں ملک بھر کے ہر تھانے میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہو جانے چاہئیں۔


میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہماری مختلف جماعتوں اورمسلمانوں کے وفود وزراء سے ملتے رہتے ہیں، آخر وہ کیوں حکومت سے پولیس اصلاحات کا مطالبہ نہیں کرتے؟ وہ پولیس کے رویہ کے خلاف نہ شکایت کرتے ہیں اور نہ ہی پولیس میں اصلاحات کی کوئی مہم چلاتے ہیں۔ رمضان میں ہی کچھ فکر مند علماء کا ایک وفد وزیر داخلہ سے بھی ملا تھا۔ لیکن وفد میں شامل ایک رکن نے وفد کی معتبریت پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا۔ انہوں نے باہر آکر دعوی کیا کہ وزیر داخلہ امت شاہ کے بارے میں جیسا سنتے تھے ویسے تو وہ نہیں ہیں۔۔۔

***
(بشکریہ: کالم ردعمل / روزنامہ انقلاب / 30 اپریل 2023ء)
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد

The fair role of the Supreme Court, advice to the Police Dept. - Column: M. Wadood Sajid.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں