شیراز ہند جونپور : سطوت شاہی کے نشاں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-04-14

شیراز ہند جونپور : سطوت شاہی کے نشاں

jaunpur-up

جونپور اترپردیش کا ایک تاریخی شہر ہے جو مشرقی اتر پردیش میں واقع ہے یہ شمالی ہند کا وہ تاریخی شہر ہے جسے سلطان فیروز شاہ تغلق نے آباد کیا۔ جونا خان نے جو بعد میں السلطان المجاہد ابوالفتح محمد شاہ کا لقب اختیار کر کے سریر آرائے سلطنت ہوئے۔ اپنے نام پر اس کا نام جون پور رکھا۔ یہ شہر سلطنتِ تغلق کے بعد شاہان شرقی کا دار الحکومت رہا۔
آزاد دائرۃ المعارف کے مطابق سلطنتِ جونپور ،1394 اور 1479 کے درمیان شمالی ہندوستان میں ایک آزاد اسلامی ریاست تھی ، جس کے حکمرانوں نے موجودہ ریاست اتر پردیش میں جونپور سے حکومت کی۔ جونپور سلطنت پر شرقی خاندان کی حکومت تھی۔ خواجہ جہان ملک سرور ، خاندان کا پہلا حکمران تھا جو سلطان ناصر الدین محمد شاہ چہارم تغلق (1390–1394) کے ماتحت ایک وزیر تھا۔ 1394 میں ، دہلی سلطنت کے خاتمے کے بعد ، اس نے اپنے آپ کو جونپور کا ایک آزاد حکمران قرار دے دیا۔ اور اودھ اور گنگا کے ایک بڑے حصے ، جمنا دو آب پر اپنا قبضہ جما لیا۔ اس کے خاندان کا نام اس کے لقب ملک الشرق ("مشرق کا حکمران") کی وجہ سے رکھا گیا تھا۔ خاندان کا سب سے قابل ذکر حکمران ابراہیم شاہ تھا۔


جون پور کے شرقی حکمران سیکھنے اور فن تعمیر کی سرپرستی کے لیے مشہور تھے۔ جون پور اس دور میں ہندوستان کا شیراز کہلاتا تھا۔ جون پور میں شرقی طرز تعمیر کی سب سے قابل ذکر مثالیں ہیں عطاء اللہ مسجد ، لال دروازہ مسجد اور جامع مسجد۔ اگرچہ عطاء اللہ مسجد کی بنیاد فیروز شاہ تغلق نے 1376 میں رکھی تھی ، لیکن یہ صرف 1408 میں ابراہیم شاہ کے دور میں مکمل ہوئی۔ ایک اور مسجد ، جھنجھری مسجد بھی ابراہیم شاہ نے 1430 میں بنائی تھی۔ لال دروازہ مسجد (1450) اگلے حکمران محمود شاہ کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ جامع مسجد آخری حکمران حسین شاہ کے دور میں 1470 میں تعمیر کی گئی تھی۔


چوں کہ اس شہر میں بادشاہوں کی حکومت رہی ہے اس لئے یہاں کی تاریخی عمارتیں ہیں جو اس دور کی عظمت و شوکت کی ایک زندہ مثال ہے ہزاروں سال گذر جانے کے بعد یہ عمارتیں آج بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں، جونپور کی سیاحت کرنے والا ہر انسان اسے دیکھنے کی کی سعی ضرور کرتا ہے۔


شاہی اٹالہ مسجد:

شرقی دور کی عمارتیں جو صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اس وقت جونپور میں اپنی اسی شان وشوکت کے ساتھ موجود ہیں اس میں سب سے زیادہ اہم اور قدیم عمارت اٹالا مسجد ہے۔ یہ مسجد شہر کے محلہ رضوی خاں میں واقع ہے۔ اس تاریخی مسجد کو ابراہیم شاہ شرقی نے 1408 میں تعمیر کرایا تھا۔
اگر اس مسجد کی بنیاد کے حوالے سے بات کی جائے تو اس مسجد کی بنیاد اور ابتدائی تعمیرات کا کام فیروز شاہ تغلق نے 1364 یا 1376 کے درمیان میں کیا تھا. مگر درمیان میں خواجہ جہاں، خان جہاں، فتح خان جو سلطنت کے اہم ستون تھے ان کی موت نے ملک کے انتظام کو درہم برہم کر دیا تھا اور جدید تعمیرات کا حوصلہ بھی ختم کر دیا تھا سالوں تک اس کی تعمیر کا سلسلہ رک گیا اور 1390 میں فیروز شاہ تغلق کے انتقال کے بعد سلطنت تغلقیہ کا شیرازہ بھی چند ہی سال کے اندر بکھر گیا یہاں تک کہ سلطنت تغلقیہ کا آفتاب ہی غروب ہوگیا۔


شہزادگان تغلق کو آپسی خانہ جنگیوں اور ملک کے اندر پھیلے ہوئے شورش و فساد نے اتنا موقع نہ دیا کہ وہ تعمیری کام کو کر سکیں اور یہی وجہ تھی کہ یہ مسجد ایک مدت دراز تک یوں ہی پڑی رہی آخرکار ابراہیم شاہ شرقی نے ایک نئے حوصلے اور جدید تعمیراتی اور فنکارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے طرز کی انوکھی مسجد اور فن کا ایک شاہکار بناکر کھڑا کردیا جس کے نقشہ اور طرز آرائش کا جواب پورے ہند و پاک کیا پوری دنیا میں بھی مشکل سے ملے گا۔ شرقی دور کی عمارتوں میں سے زیادہ کوئی اور عمارت اتنی حسین اور مضبوط نہیں ہے جس میں زیادہ ایسی نئی نئی باتیں مل سکے جو فنی اور تعمیری خوبیوں کی بنا پر اس سے اچھا نمونہ پیش کر سکے یہ مسجد شرقی فن تعمیر کے آغاز اور جونپور کے خاص طرز کا نمونہ بھی ہے اور شرقی طرز تعمیر کا اولین اور بہترین شاہکار ہے۔
اس مسجد کا ایک چبوترہ ہے جس کے تین اطراف دالانیں ہیں جو دو منزلہ ہیں۔ ہر رخ کے درمیان تین پھاٹک ہیں اس کی چھت کا درمیانی حصہ محراب سے گھرا ہوا ہے جو خالص مصری طرز کا ہے۔ اس کا چوکور صحن کا قطر 170 فٹ ہے اور چاروں طرف مختلف حصے ہیں۔ تین طرف دالان نما کمرے ہیں اور مغرب کی طرف خاص عبادت گاہ کا ہال ہے۔ باہری حصے میں برآمدے ہیں جو اس وقت طلباء کے رہنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ مسجد کا گھیرا 258 فٹ ہے اندر سے دیکھنے میں اس کے تین رخ نظر آتے ہیں اور تینوں رخ کے سامنے پھاٹک ہیں۔
چنانچہ اس کے اتر دکھن کے گوشوں پر ایک بہت ہی وسیع ہال ہے جو دوسری منزل پر ہے اور اس کی دیواروں کو جھالیوں سے گھیر دیا گیا ہے تاکہ ہوا اور روشنی اس پر پہنچتی رہے یہ جالیاں بڑی مستحکم اور حسین ہیں چھت کے پتھروں میں بھی طرح۔طرح کے نقش و نگار بنے ہوئے ہیں۔اس مسجد میں عورتوں کا بھی خاص لحاظ رکھا گیا ہے جو شرقی طرز تعمیر کی ایک انفرادی خصوصیت ہے۔ عورتوں کے داخل ہونے کا راستے باہر سے الگ ہے اگر اس مسجد کے وسط میں کوئی شخص کھڑا ہو کر اس کے مرکزی محراب کو دیکھے تو اس کے ذہن میں مصری طرز تعمیر کا پورا تصور پیدا ہو جاتا ہے۔


مرکزی محراب 100 فٹ سے زیادہ اونچا ہے۔ اس کے گنبد کی اونچائی 75 فٹ ہے اور گھیرا 55 فٹ ایک اہمیت رکھتا ہے۔ یہ گنبد اندر سے 57 فٹ بلند ہے اور 30+35 فٹ مربع میں ہے۔ ہال بہت ہی وسیع اور کشادہ ہے سولہ محرابیں زمین سے ملی ہوئی ہیں جو راستے کا بھی کام دیتی ہیں۔ اور اس ہال کو کافی حسین بنا دیا ہے۔
محرابیں نقش و نگار اور بیل بوٹوں کے کام سے سجی ہوئی ہیں۔ اس کے بعد 20 فٹ کی بلندی پر ہوا روشنی اور خوبصورتی کے لیے آٹھ اور محرابیں بنائی گئی ہیں ان خوشنما محرابوں اور سنگ سیاہ کی تزئین کاری نے اس گنبد اور ہال کو جو حسن و جمال بخشا ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
مسجد کا صحن 157 فٹ مربع میں ہے مغرب طرف خاص نماز کے لیے دالان نما عمارت ہے جس پر تین بڑے۔بڑے گنبد ہیں جو ستونوں پر کھڑے ہیں ان گنبدوں کو چھپانے کے لئے گنبد کے ہر رخ پر محرابیں بنی ہوئی ہیں جن کے اوپر مصری طرز کے بیل بوٹے ہیں، دائیں بائیں دو چھوٹی چھوٹی اندر محرابیں ہیں جو ان کے چہروں کے حسن میں اضافہ کرتی ہیں اندرونی حصوں میں پورب اتر دکھن طرف قطاروں میں دالانیں ہے جس کا سلسلہ ایک پتھر کی پتلی سی دیوار کھڑی کرکے باہر تک چلا آیا ہے۔ تین پھاٹک ہیں اس میں سے اتر و دکھن کے پھاٹک گنبد بنے ہوئے ہیں البتہ پورب پر کوئی گنبد نہیں ہے سکندر لودی نے اس گیٹ کو بھی مسمار کرادیا تھا جس کو بعد میں درست کرایا گیا اور تعمیر میں آسانی کا خیال کرتے ہوئے گنبد کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔


اس مسجد کی تعمیر کے سلسلے میں بہت سے کاریگر تغلق آباد دہلی سے بلائے گئے اور کچھ کاریگر جونپور سے دہلی ٹرینگ حاصل کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے بہرحال جونپور کے کاریگروں کا اس تعمیر میں زبردست ہاتھ ہے سنگ تراشی میں جونپور کے ہندو کاریگروں نے بڑی دلچسپی سے کام لیا تھا یہ مسجد ہندو مسلم فن تعمیر کا بہترین نمونہ ہے۔


اس مسجد میں سب سے زیادہ حسین اور متاثر کرنے والا اس کا مرکزی محراب ہے۔ یہ نہایت ہی پر شکوہ اور رعب و جلال سے بھر پور ہے جس کو دائیں۔بائیں کے کشادہ اور حسین ستون اٹھائے ہوئے ہیں۔ اس کے حسن کا انحصار طرزِ تعمیر وضع قطع صناعی نقاشی نقش و نگار مصری طرز کے بیلوں خوشنما گلاب اور کنول کے پھولوں پر ہے نہ کہ اور مسجدوں کی طرح بیش بہا سنگ مرمر اور خیرہ کن رنگ و روغن پر اس کا تعلق محض چمک دمک پر ہی نہیں ہے۔ بلکہ کمال تو یہ ہیکہ خالص معمولی پتھر چونے گارے اور کنکر و اینٹ مٹی سے بے حد اچھوتے پن کا مظاہرہ کیا گیا ہے جبکہ یہ مسجد شرقی طرز تعمیر کی آغاز تھی۔


اس کے اندرونی محراب پر خط طغری میں ایک کتبہ ہے جس کے حروف بہت ہی فنکارانہ اور ابھرے ہوئے ہیں جس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم آیت الکرسی اور وہ حدیث کندہ ہے جو مساجد کے فضائل میں ہے۔ محراب کے اندر بھی آیت الکرسی سنگ موسی پر ابھری ہوئی ہے ایک اور لکھاوٹ سنگ سیاہ میں ابھری ہے جو سطح زمین سے 40 فٹ کی بلندی پر ہے اس محراب پر تین محرابی طاقوں میں لفظ اللہ بھرا ہوا ہے۔
عورتوں کی نماز کے لیے جنوب و شمال دونوں جانب دوسری منزل میں جالیوں اور خوشنما جھنجھریوں سے مرصع دو بڑے وسیع ہال کو نکالا گیا ہے۔ جس کا راستہ بھی اندر و باہر سے ہے اور یہ بات جونپور کی اٹالا مسجد کے لیے مخصوص ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ شرقی بادشاہوں کی اس بے مثال یادگار کی اہل جونپور نے قدردانی نہ کی حالانکہ ایسی عظیم و پرشکوہ اور نادر المثال مسجد جو فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے اور جس کا جواب پوری دنیا میں نہیں ہیں اگر مسلمانان جونپور محسوس کرتے تو آج اس مسجد کا ایک دوسرا نقشہ ہوتا۔


شاہی جامع مسجد:

شیراز ہند جونپور میں شرقی اور مغل دور کی تاریخی عمارتیں آج بھی اپنی لافانی خوبصورتی کے ساتھ موجود ہیں۔ انہیں میں سے ایک ہے جامع الشرق بڑی مسجد۔ یہ مسجد جونپور کی سب سے بڑی اور عالیشان مسجد ہے، جو محلہ عمر خاں میں واقع ہے۔
اس کی بلندی تقریباً 200 فٹ سے بھی زائد ہے، اس کے گنبد اور مرکزی محراب کے ستون کی دور دور تک شہرت ہے اور شرقی فن تعمیر کا اسے آخری شاہکار تصور کیا جاتا ہے۔یہ مسجد حسین شاہ شرقی کا آخری کارنامہ، کارخیر و صدقہ جاریہ ہے۔ اس پرشکوہ مسجد نے شرقی سلطنت اور جونپور کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیا۔ اس کی تعمیر ابراھیم شاہ شرقی کے نقشے کے مطابق کی گئی ہے۔دراصل اس مسجد کی بنیاد ابراہیم شاہ شرقی نے اپنے نقشے کے مطابق اپنی دور حکومت میں 1438ء میں رکھی تھی، جس کی تکمیل بعض وجوہ کی بنا پر محمود شاہ شرقی کے زمانے میں بھی نہ ہو سکی، مگر اس عالی شان مسجد کی تعمیر وقفے وقفے سے جاری رہی۔
اس مسجد کو حسین شاہ شرقی نے اپنے عہد میں 1470ء میں مکمل کرایا۔اس کے اندرونی صحن کی وسعت 219 × 217 فٹ ہے اور ہر رخ کے درمیان میں ایک بلندوبالا دروازہ ہے، اس مسجد کا پورا رقبہ 320 فٹ مشرق و مغرب پر محیف ہے جبکہ 307 فٹ شمال و جنوب پر مشتمل ہے۔ باہری دالان کی سطح کے نیچے دکانوں کی قطاریں ہیں۔سب سے اونچا ستون 84 فٹ بلند ہے، درمیانہ محراب جو اس سے متصل ہے وہ زمین سے 72 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔مرکزی محراب بڑا ہی شاہانہ اور وسیع و عریض ہے جس میں تزئین کار اور جالی کا کام نہایت صفائی سے کیا گیا ہے۔ طرح طرح کی مصری طرز کے بیلوں اور پھولوں سے مزین ہے، جو شرقی عمارتوں کا خاصہ ہے۔ اس میں نہایت حسین جھنجھریاں اور جالیاں ہیں جو نزاکت میں اپنا جواب نہیں رکھتی ہیں اور دیکھنے والا ان کے بنانے والوں کو یاد کرتا ہے۔


مورخین لکھتے ہیں کہ اس مسجد کے ساتھ ہی شرقی فن تعمیر ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا ہے، اور اس کی محض یادگار ہی جونپور میں باقی رہ جاتی ہے۔ جونپور میں مسجد اٹالہ شرقی دور کے فن تعمیر کی سنگ بنیاد اور آغاز ہے۔ ان دونوں مسجدوں کی تعمیر میں 62 سال کا وقفہ رہا ہے۔مقامی باشندہ ساجد علیم نے بتایا کہ اس مسجد کو جامع الشرق شاہی جامع مسجد کہا جاتا ہے، یہ مسجد تقریباً 750 سال پرانی ہے۔ اس مسجد میں پنج وقتہ نماز کے ساتھ ساتھ عید الاضحیٰ و عید الفطر کی بھی نماز ادا کی جاتی ہے۔۔ موجودہ وقت میں اس مسجد کی دیکھ بھال کمیٹی کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ مقامی باشندوں اور مسلمانان جونپور کے امداد سے مسجد کے دیگر اخراجات پورے کئے جاتے ہیں۔


لال دروازہ مسجد:

یوں تو اترپردیش میں جونپور شہر تاریخ کے اہم اوراق میں ایک خاص مقام رکھتا ہے یہاں پر شرقیوں اور مغلوں کی حکمرانی ہوا کرتی تھی اور اس شہر کو دارالخلافہ بھی کہا جاتا تھا اس شہر کو شیراز ہند کا لقب بھی دیا گیا اس شہر میں بے شمار علماء ومشائخ بھی پیدا ہوئے اور بیشتر نے اس شہر کو اپنا مسکن بنایا شرقی دور میں بے شمار عمارتوں کی تعمیر وجود میں آئی ان میں سے کچھ تو آج بھی اپنی قدیمی تہذیب کے ساتھ موجود ہیں اور بیشتر اپنی حالتِ زار پر آنسو بہا رہی ہیں۔
انہیں میں سے ایک عمارت 'مسجد راجے بی بی' ہے جس کا قدیمی نام 'نماز گاہ' تھا۔ اس مسجد کی تعمیر ابراھیم شاہ شرقی کے بیٹے محمود شاہ شرقی کی بیوی راجے بی بی نے سنہ 860ھ میں اپنے پیر و مرشد سید علی داؤد کے لئے کروائی تھی سید علی داؤد عربی النسل تھے جو اس وقت بادشاہ کی خاص درخواست پر ملک عرب سے جونپور تشریف لائے تھے۔ سلطان و ملکہ سید علی داؤد سے بہت عقیدت و محبت رکھتے تھے۔
سید علی داؤد کا مزار مبارک موضع سید علی پور میں واقع ہے، جو اب عوام میں سدلی پور کے نام سے معروف ہے۔
مسجد کے جنوبی سمت میں سید علی داؤد کی خانقاہ تھی تو مسجد کے شمال میں مدرسہ تھا اور اسی سے متصل ایک لعل محل بنا ہوا تھا، جس میں سرخ پتھر لگائے گئے تھے اس کے سبب دور جدید میں یہ جگہ لال دروازہ کے نام سے معروف ہو گئی۔ گذرتے دور کے ساتھ خانقاہ اور محل کا نام و نشان اب باقی نہیں رہا۔ یہ مسجد شہر سے تقریباً تین،چار کلومیٹر کے فاصلے پر محلہ بیگم گنج میں ملہنی روڈ پر واقع ہے۔یہ مسجد دیگر شرقی مسجدوں کے مقابل چھوٹی ہے اس کا باہری رقبہ 212 فٹ× 188 فٹ ہے اگر چہ اسکا طرز دوسری شرقی مسجدوں کی طرح ہے مگر مغربی دیوار کی جسامت کم ہے، جس پر گنبد کا بہت بڑا وزن ہے۔ حسین جھنجھریاں و جالیاں اس کی خوبصورتی کو دوبالا کرتی ہیں۔
اس مسجد میں بھی تین دروازے ہیں اور مسجد کا صحن کافی وسیع و عریض ہے۔مسجد کے مرکزی محراب میں سنگِ موسیٰ پر کلمہ طیبہ 'لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ' ابھرا ہوا ہے جس کا خط بے حد لاجواب ہے اور خط نسخ میں ایک جدت ہے مرکزی محراب کو ڈھانکنے والی چادر بہت حسین ہے اندرونی محراب پر آیت الکرسی اور قرآن کی دوسری آیت ابھری ہوئی ہے اس کا خط بہت ہی شاندار اور اپنی مثال آپ ہے۔ اس مسجد میں عورتوں کا خاص لحاظ رکھا گیا ہے۔ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے مؤرخ عرفان جونپوری نے کہا کہ یہ مسجد علم دوست، دور اندیش اور محمود شاہ شرقی کی اہلیہ راضیہ بی بی عرف راجے بی بی کی تعمیر کردہ ہے۔ یہ مسجد بڑی نفاست و نزاکت اور فن تعمیر کے لحاظ سے منفرد شناخت رکھتی ہے یہ لال دروازہ مسجد فن تعمیر، فن خطاطی، نقش و نگار کے لحاظ سے نمایاں مقام رکھتی ہے اور اس مسجد کے متعلق بہت سی بے بنیادی باتیں عوام میں رائج ہیں۔حالیہ دنوں میں اس مسجد سے متصل جامعہ حسینہ لال دروازہ کے نام سے ایک مدرسہ چل رہا ہے، جس میں سینکڑوں کی تعداد میں بچے دینیات کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور مسجد پنج وقتہ نمازیوں سے آباد ہے۔


ان تین مساجد کے علاوہ بھی کئی ایسی تاریخی عمارتیں ہیں جو اپنے اعلی فن، پرشکوہ تعمیر کی عمدہ مثال ہے جیسے شاہی چار انگل مسجد، شاہی محل جونپور، مقبرہ فیروز شاہ تغلق، مقبرہ شرقی، شاہی عیدگاہ، شیتلا چوکیہ دھام جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جونپور مشرقی یوپی کا ایک شاندار ، دیدہ زیب اور تاریخی شہر ہے، یہ شہر اپنے تاریخی آثار قدیمہ کی وجہ سے تاریخ کے صفحات میں اپنی ایک پہچان رکھتا ہے۔


اسی شہر کے بارے میں شاہ جہاں 'دیار یورپ شیراز ما است' جیسا تاریخی فخریہ جملہ کہا تھا، ایک لمبے عرصے تک حکومت مغلیہ اور سلطنت شرقیہ پورے جاہ و جلال کے ساتھ یہاں کا نظم و نسق سنبھالتی رہی، ان کے جدا گانہ فیصلوں اور منفرد خیالات نے اس شہر کو تاریخی بنانے میں اہم کردار ادا کیا، یہی وجہ ہے کہ ان کے عہد میں تعمیر کی گئی عمارتیں صدیاں گزر جانے کے بعد اب بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں، ان کی تابناکی شاہی در و دیوار سے جھلک رہی ہے۔
یہ سچ ہے کہ ان تاریخی عمارتوں کو مناسب توجہ نہ ملنے کی وجہ سے مستقبل میں ان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کیوں کہ عمارت ہو یا انسان سبھی کو توجہ اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس کی حیثیت اور شناخت مستحکم بنی رہے۔ ان تاریخی عمارتوں کی دیکھ بھال کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی جانی چاہئے جو اس کے انتظام و انصرام کو اپنی نگرانی میں رکھتے ہوئے اس کی حفاظت کر سکے۔ شیراز ہند جونپور کا شمار ان شہروں میں ہوتا ہے جو اپنی تہذیب و ثقافت اور تاریخی عمارتوں کی وجہ سے ایک نمایاں پہچان رکھتا ہے۔

***
علیزے نجف۔ سرائے میر، اعظم گڈھ، اترپردیش
ایمیل: alizey.najaf[@]gmail.com

An overview of Jaunpur's historic mosques. Essay by: Alizey Najaf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں