مومن کی فراست سے ڈرو : (حدیث، ایک مطالعہ، ایک تحقیق)
موجودہ حالات کے تناظر میں
مومن کی فراست ، مومن کی دوربین نگاہی، جو اس کو صفاء قلب کی بناء پر حاصل ہوتی ہے ،جس کو"فراست" یا "بصیرت" کہتے ہیں، یہ بڑی دولت ہوتی ہے جو مومن کو ذکر اللہ کی کثرت اور ملازمت تقوی کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے ،۔ جس کا تذکرہ احادیث مبارکہ میں آیا ہے ،جس کی طرف اس حدیث مبارکہ میں اشارہ موجود ہے۔جس کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ۔:
مومن کی فراست سے ڈرو؛ کیوکہ وہ نور الٰہی سے دیکھتا ہے "اتقوا فراسۃ المومن فإنہ ینظر بنور اللہ"۔
(ترمذی، باب ومن سورۃ الحجر، حدیث: 3127)
حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ نے" التکشف فی مہمات التصوف میں بعنوان" حال، فراست" کے تحت اس حدیث کو نقل کر کے لکھا ہے :
"ف" صفاء قلب کی بدولت جو کہ مواظبت ذکر اللہ اور ملازمت تقوی سے حاصل ہوتا ہے ، اکثر وجدانی طور پر حقائق واقعات سے ہونے لگتے ہیں، اس کو"فراست" کہتے ہیں، گویا وہ کشف کاایک شعبہ ہے ، حدیث صراحۃ ا س کی مثبت ہے اور حدیث میں "نور اللہ" عبارت اسی صفاء قلب سے ہے ، جس کا سبب ذکر وتقوی ہے۔(التکشف فی مہمات التصوف: 478، ادارہ تالیفات اشرفیہ، ملتان)
بلکہ اسی کتاب میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے" الہام" اور" فراست صادقہ" جو کہ اللہ کے متقی وپرہیزگار اور بکثرت رجوع إلی اللہ اور فناء فی اللہ لوگوں میں ظاہر ہوتی ہے ، اس کی جانب اس حدیث سے استدلال کیا ہے :
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " اللہ تعالیٰ حق بات کو عمر رضی اللہ عنہ کی زبان اور قلب پر جاری کیا" جعل الحق علی لسان عمر وقلبہ "اور ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : جب کبھی لوگوں کو کوئی (نئی ) بات پیش آئی ہے، پھر اس کے بارے میں لوگوں نے بھی کچھ کہا ہو اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی کچھ کہا ہو تو قرآن ہمیشہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی کے قول کے موافق ناز ل ہوتا۔(ترمذی ، مناقب أبی حفص عمر بن الخطاب، حدیث: 3682)
فائدہ: اسکاثبوت حدیث سے ظاہر ہے اور در حقیقت یہ انواع کشف سے ہیں، پس حدیث سے ان حالات کا ثبوت ہوتا ہے۔
(التکشف فی مہمات التصوف: 595، ادارہ تالیفات اشرفیہ، ملتان)
البتہ علماء کرام نے ظن اور فراست کے درمیان اس اعتبار سے فرق کیا ہے کہ "ظن و تخمین" غلطی اور صحت دونوں کا امکان ہوسکتا ہے، "ظن " دل کی کدورت وظلمت وتاریکی ، دل کی صفائی وستھرائی اور اس کی طہارت ونجاست ہر دو کے ساتھ ممکن ہے ، اس لئے اللہ عز وجل نے قرآن کریم میں بیشتر ظن اور گمان سے بچنے کی تاکید کی ہے "اجتنبوا کثیرا من الظن ، فإن بعض الظن اثم"(الحجرات: 12)
البتہ فراست اور مومن کی بصیرت کی خود اللہ عز وجل نے قرآن کریم میں مدح اور تعریف کی ہے ، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے : " إن فی ذلک لآیات للمتوسمین" (الحجر: 75) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے "متوسمین" کی تفسیر "متفرسین" سے کی ہے ، یعنی ان چیزوں میں اہل فراست واہل بصیرت کے لئے نشانیاں ہیں۔، چنانچہ جس کو من جانب اللہ" فراست حقیقی" اور "بصیرت ایمانی" اوردور بیں نگاہی عطا کی ہے جو صفاء قلب ، دل کی گندگیوں، گناہوں ، آلائشوں خباثتوں سے پاکیزگی پر مشتمل ہے ، دل کو طہارت اور پاکیزگی نصیب ہوتی ہے ، تو بندہ اللہ عز وجل کے اس" نور "سے دیکھنا شروع کردیتا ہے ، جو نور اللہ کہ اللہ عزوجل نے اس کے دل میں عطا کردیتے ہیں، جس کو مذکورہ حدیث میں "مومن کی فراست سے ڈرنے " کو کہا گیا ہے۔
چونکہ جب بندے کو اعمال کے نتیجے میں اللہ عزوجل سے قربت حاصل ہوتی ہے ، اس کے نتیجے میں اس کا تعلق برائیوں اور بے حیائیوں سے ختم ہو جاتا ہے ، جو اس کے لئے حق کی معرفت اور پہچان سے مانع ہوتی ہیں، حق کے ادراک اور جانکاری کے لئے رکاوٹ بنتی ہیں، اس وقت اس کو اللہ کے نور سے وافر مقدار میں نور ملتا ہے ، جس قدر اس کی قربت اور نزدیکی اللہ سے ہوتی جاتی ہے ، اس قدر من جانب اللہ اس کو وہ" نور "عطا کیا جاتا ہے ، جس نور کی روشنی میں وہ کچھ وہ دیکھ لیتا ہے ، جو دیگر لوگ اپنی باطنی نجاستوں اور خباثتوں کی نتیجے میں دیکھ نہیں پاتے، جس کو "فإنہ ینظر من نور اللہ" کہا گیا۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے "تفسیر ابن القیم" میں "فراست مومن" سے متعلق واقعات اور احوال کی روشنی میں اس کی عجیب وغریب تفسیر کی ہے ، انہوں نے سورۃ الحجر کی آیت "إن فی ذلک لآیات للمتوسمین" اس آیت کے تحت بے شمار فوائد کا ذکر کیا ہے
علامہ ابن القیم نے "مدارج السالکین" میں حضرت امام مجاہد سے "متوسمین" کی تفسیر"متفرسین" بصیرت اور فراست والے کیاہے ، جب کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے "ناظرین"(دیکھنے والے) سے اس لفظ کی تفسیر کی ہے جب کہ حضرت قتادہ نے "مقرین" (اقرار کرنے والے) جب کہ مقاتل نے "متفکرین" (غور وفکر کرنے والے سے اس کی تفسیر کی ہے )
لیکن علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ان تمام اقوال میں کوئی منافات نہیں، اس لئے دیکھنے والے جب اللہ کے نبیوں اور رسولوں کے جھٹلانے والے کے گھروں کے بقیات اور اور آثار ونشانات کو دیکھے گا، ان کے انجام کار کو دیکھے گا، اس کی وجہ سے اس کو ایک قسم کی فراست عبرت نصیحت اور تدبر وتفکر حاصل ہوگا۔" ولا تنافی بین ہذہ الأقوال ، فإن الناظر متی نظر آثار دیا المکذبین ومنازلہم، وما آل إلیہ أمرہم، أورثہ فراسۃ وعبرۃ وفکرۃ" (تفسیر ابن القیم: 336،الجامع محمد اویس الندوی، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان)
اس کی ایک مثال حدیث مبارکہ کے ذریعے بھی دی ہے :
"ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ میرے قرب کے لیے فرائض سب سے اہم حصہ ادا کرتے ہیں ، اور بندہ نفلوں سے بھی میرے قریب آتا رہتا ہے یہاں تک کہ مجھے اس سے محبت ہو جاتی ہے، پھر جب میں اس سے پیار کرنے لگتا ہوں تو میں اس کا" کان" بن جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے، "آنکھیں" بن جاتا ہوں جن سے دیکھتا ہے، "ہاتھ" بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور" پاؤں" بن جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے،پھر وہ میری ہی بات سنتا ہے میری ہی بنائی ہوئی چیزیں دیکھتا ہے میرے ہی حکم کے مطابق پکڑتا ہے اور میرے ہی حکم کے مطابق قدم اٹھاتا ہے۔"فبی یسمع، وبی یبصر، وبی یبطش ، وبی یمشی" (فتح الباری: قولہ باب التواضع، 11؍344، دا رالمعرفۃ، بیروت، 1379ھ)
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی قربت سے اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے اور جب اللہ بندہ کو چاہنے لگتے ہیں تو بندے کے تمام اعضاء اس کے حکم کے مطابق حرکت کرنے لگتے ہیں اور اس کا دل ایک صاف آئینہ کی طرح ہو جاتا ہے۔ جس میں چیزوں کے حقائق بلا کم و کاست نظر آنے لگتے ہیں اور اس کی فراست غلطی نہیں کرتی"فلاتکاد تخطئ لہ فراسۃ" ( کتاب الروح ، فصل الفرق بین الفراسۃ والظن،670،مؤسسۃ سلیمان بن عبد العزیز الراجحی الخیریۃ)
یہ علم غیب نہیں بلکہ علام الغیوب نے ایسے دل میں حق ڈال دیا ہے جو اس کے قریب ہے اور اس کے نور سے چمک رہا ہے اور اوہام و وساوس ک ے آبلہ فریبیوں سے بلند ہے، جب دل پر نور کا غلبہ ہو جاتا ہے تو اس کی کرنیں اعضاء تک بھی پہنچنے لگتی ہیں، یہی نور دل سے آنکھوں میں آتا ہے اور حقیقتوں کو ظاہر کر دیتا ہے۔"فیکشف بعین بصرہ بحسب ذلک النور" ( کتاب الروح ، فصل الفرق بین الفراسۃ والظن،670، مؤسسۃ سلیمان بن عبد العزیز الراجحی الخیریۃ)
نبی کریمﷺ کی فراست و بصیرت
رحمۃللعالمین لے صحابہ کرام کو جو مقتدی ہوتے تھے (دل کی آنکھوں سے یا نور کی فراست سے )نماز میں دیکھ لیا کرتے تھے، ایک مرتبہ آپ نے مکہ میں اپنی آنکھوں سے بیت المقدس کو دیکھ لیا، ایک مرتبہ آپ نے مدینہ میں خندق کھودتے کھودتے شام کے محل ،صنعاء کے دروازے اور کسری کے شہر دیکھے، ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں موتہ میں لڑنے والے سپہ سالاروں کو شہید ہوتے دیکھا لیا اور ایک مرتبہ حبشہ کے بادشاہ کو حبشہ میں وفات پاتے ہوئے دیکھ لیا، جبکہ آپﷺ مدینہ میں تھے ، پھر آپ نے میدان میں جا کر غائبانہ نماز بھی پڑھی" ورأی النجاشی بالحبشۃ لما مات، وہو بالمدینۃ، فخرج إلی المصلی، فصلی علیہ"۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فراست
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایران کی سرزمین" نہاوند "میں اپنے سپہ سالار اور مسلمانوں کے لشکر کو دشمن سے لڑتا ہوا دیکھا اور ہدایت فرمائی کہ پہاڑ کے آگے رہو، جبکہ آپ مدینہ میں تھے۔ ایک مرتبہ آپ کے پاس مذحج کے چند آدمی جن میں" اشتر نخعی "بھی تھے آئے، آپ نے اشتر کو خوب غور سے دیکھ کر پوچھا یہ کون ہے؟ بتایا گیا کہ یہ "مالک بن حارث "ہے، فرمایا: اسے کیا ہو گیا ہے؟ اس پر اللہ تعالی کی مار ہو، میں اس کی طرف سے مسلمانوں کیلئے ایک سخت دن دیکھ رہا ہوں۔
ایک دفعہ عمرو بن عبید،حسن کے پاس آئے فرمایا یہ نوجوانوں کا سردار ہے، اگر محدث نہیں۔ "ہذا سید الفتیان إن لم یحدث"۔
امام شافعی علیہ الرحمہ کی فراست
کہتے ہیں ایک مرتبہ امام شافعی علیہ الرحمہ اور محمد بن حسن رحمہ اللہ مسجد حرام میں بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص آیا، محمد بولے میرے خیال میں یہ بڑھئی ہے، امام شافعی ؒ نے فرمایا: میرے خیال میں لوہار ہے، پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ پہلے لو ہار تھا اور اب تاجر ہے" کنت حدادا وأنا الیوم أنجر"۔
ابوالقاسم منادی علیہ الرحمہ کی فراست
ایک مرتبہ ابو القاسم منادی کی بیمار پرسی کے لیے ان کے پاس ابوالحسن بوشنجی اور حسن لوہار آئے، انہوں نے آدھے درہم کے عوض راستے میں سیب ادھار خرید لیے تھے، جب یہ دونوں آپ کے پاس پہنچے، تو آپ نے فرمایا: یہ کیسا اندھیرا ہے؟ انہوں نے خیال کیا کہ شاید ادھار سیب خریدنے کی وجہ سے آپ نے یہ الفاظ فرمائے ہیں، چنانچہ دونوں الٹے پاؤں واپس ہو گئے اور سیب کی قیمت ادا کر کے پھر آئے، انہیں دیکھتے ہی آپ نے فرمایا کہ: اتنی جلدی انسان کا اندھیرے سے نکلنا ممکن ہے؟ مجھے اپنا حال بتاؤ۔ دونوں نے سیب کا واقعہ بیان کیا سن کر فرمایا تم میں سے ہر ایک کو اپنے ساتھی پر بھروسہ تھا کہ وہ قیمت ادا کرے دے گا اور وہ شخص تم دونوں سے تقاضا کرتے ہوئے شرمار ہا تھا۔" والرجل مستح منکما فی التقاضی"۔
ابو عثمان حمیری علیہ الرحمہ کی فراست
ابوز کر یانخشبی اور ایک عورت کے درمیان ان کے تائب ہونے سے پہلے جھگڑا تھا، یہ ایک دن ابوعثمان حیری کے پاس کھڑے تھے کہ اس عورت کا خیال آ گیا، ابو عثمان نے سراٹھا کر فرمایا تمہیں شرم نہیں آتی" فرفع أبو عثمان إلیہ رأسہ، وقال: ألا تستحی"۔
شاہ کرمانی علیہ الرحمہ کی فراست
کہتے ہیں شاہ کرمانی غضب کی فراست رکھتے تھے اور ان کی فراست اکثر صحیح ہوا کرتی تھی،شاہ صاحب فرمایا کرتے تھے جو حرام چیزوں سے آنکھ بند کر لے اور خواہشوں سے اپنا دل مار لے، دل دائمی مراقبہ سے آباد رکھے، سنت کا پا بندر ہے اور حلال کھانے کا عادی ہو، اس کی فراست کبھی غلطی نہیں کرتی۔" لم تخطیء فراستہ"۔
ایک نوجوان کی فراست
ایک نوجوان حضرت جنید بغدادی ؒ کے پاس اٹھا بیٹھا کرتا تھا۔ اور دل کے خیالات بتادیا کرتا تھا،جنید بغدادی کے سامنے بھی اس کا ذکر ہوا، توآپ نے اس سے پوچھا کہ تمہارے بارے میں لوگوں کا ایسا ایسا خیال ہے، بولا دل میں کوئی بات سوچئے ،جنید بغدادینے کہا: سوچ لیا، جوان نے وہ بات بتادی، جنید بغدادیؒ نے کہا: غلط ہے۔ بولا : اچھا پھر سوچئے۔ فرمایا: سوچ لیا، بولا: یہ بات ہے، فرمایا: غلط ہے، کہنے لگا: عجیب بات ہے، آپ بھی سچے ہیں اور مجھے بھی اپنے دل کی خبر ہے، فرمایا: تم نے تینوں دفعہ درست بتایا تھا،میں تمہیں آزمارہا تھا کہ تمہاری قلبی واردات بدلتی تو نہیں۔"لکن أردت أن أمتحنک، ہل یتغیر قلبک"۔
ایک فقیر کی فراست
ابوسعید خرازؒ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں مسجد حرام میں گیا، اتنے میں ایک فقیر آیا جو دو گدڑیاں پہنے ہوئے تھا اور بھیک مانگنے لگا، میں نے دل میں کہا، ایسے ہی لوگ لوگوں پر بوجھ ہیں فقیر نے مجھے دیکھ کر یہ آیت پڑھی: "اعلموا ان اللہ یعلم ما فی انفسکم فاحذروہ "(یقین مانو اللہ تمہارے دلوں کی باتوں سے واقف ہے۔ اسلئے اس سے ڈر جاؤ)۔ کہتے ہیں یہ سن کر میں نے دل ہی دل میں اللہ سے مغفرت کی دعا کی، پھر اس نے یہ آیت پڑھی" وہو الذ یقبل التوبۃ عن عبادہ" (اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے۔
ابراہیم خواص علیہ الرحمہ کی فراست
ابراہیم خواص کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں جامع مسجد میں تھا ،اتنے میں ایک خوبصورت اور بارعب نوجوان آیا، جس سے خوشبو آ رہی تھی، میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: میرے خیال میں یہ یہودی ہے؛ لیکن کسی کو یقین نہ آیا، خیر میں بھی چلا گیا اور وہ جوان بھی چلا گیا، پھر اس نے میرے دوستوں سے مل کر پوچھا کہ میرے بارے میں شیخ کیا فرما رہے تھے، لوگوں کو میرا خیال بتاتے ہوئے شرم آئی؛ مگر اس نے اصرار کے ساتھ پوچھا تو مجبورہو کر لوگوں نے بتایا کہ وہ آپ کو "یہودی" بتا رہے تھے ،پھر وہ میرے پاس آکر میرے ہاتھ پر جھک گیا اور مسلمان ہو گیا میں نے پوچھا مسلمان کیوں ہوئے؟ کہنے لگا :ہم نے اپنی کتابوں میں پڑھا ہے کہ سچے آدمی کی فراست غلطی نہیں کرتی ،میں نے سوچا کہ اس سلسلے میں مسلمانوں کو آزماؤں ، پھر میں نے سوچا کہ اگر کوئی سچا ہوگا تو انہیں اللہ والوں میں ہو گا ، پھر میں نے تمہارے اوپر تبلیس کی ،چنانچہ میں تمہارے پاس آیا ، آپ مجھے دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ میں یہودی ہوں، چنانچہ مجھے یقین ہو گیا کہ آپ ضرور سچے ہیں۔" فلما اطلع ہذا الشیخ علیّ وتفرّسنی علمت أنہ صدّیق"۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی فراست
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس ایک صحابی رضی اللہ عنہ آئے جو راستے میں ایک عورت کو دیکھ آئے تھے اور اس کے حسن و جمال کے بارے میں خود کر رہے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ کچھ لوگ میرے پاس اس حالت میں آتے ہیں کہ زنا کا اثر ان کی آنکھوں سے ظاہر ہوتا ہے،حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی وحی کا سلسلہ جاری ہے؟ فرمایا نہیں یہ توسچی فراست اور برہان د تبصرہ ہے۔"فقال: لا ، ولکن تبصرۃ، وبرہان، وفراسۃ صادقۃ"
ان تمام واقعات کو علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے "کتاب الروح " میں نقل کیا ہے ، یہ سارے واقعات کے لئے رجوع کیجئے( کتاب الروح ، فصل الفرق بین الفراسۃ والظن،668 تا 674،مؤسسۃ سلیمان بن عبد العزیز الراجحی الخیریۃ)
خلاف عادت چیز دیکھ کر دھوکہ نہ کھائیں:
ان حقائق کی روشنی میں یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ اگر یہ خلاف عادت چیزوں کا ظہور کسی نبی سے قبل از نبوت ہوتا ہے تو اس کو "ارہاصات"کہتے ہیں، نبوت ملنے کے بعد عادت کے خلاف امور کا اظہار ہوتاہے تواس کو "معجزہ" کہتے ہیں، اورگر کسی مومن صالح سے یہ خلاف عادت چیز کا ظہور ہوتا ہے تو اس کو "کرامات" کہتے ہیں یا اس کو کسی بھی معمولی مسلمان کی جانب سے ہو تو "معاونت " کہتے ہی، اسکے مقابل اگر خلاف عادت چیز کا ظہور کسی غیر مسلم سے ہو تو اس کو "اہانت" یا "سحر" یا "کہانت" یا"جن یاشیاطین کا خلط " کہتے ہیں۔جیسا کہ مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ نے احادیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کی ہے :
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے ابن صیاد کے قصہ میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: تجھ کو کیا نظر آتا ہے؟ کہنے لگا میرے پاس کبھی سچا خبر دینے والا آتا ہے اور کبھی جھوٹا (یہ آنے والے شیاطین تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: تجھ پر امر واقعی مشتبہ کیا گیا ہے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ " میں نے ایک بات دل میں چھپالی ہے ، بتلا کیا ہے؟ اور روایت میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت دل میں سوچ لی، "یوم تاتی السماء بدخان مبین" ابن صیاد نے کہا وہ "دخ" یعنی "دخان" ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذلیل وخواردہو تو اپنی اس حیثیت سے آگے نہ بڑھے گا۔
فائدہ : مثل حدیث سابق کے اس سے بھی معلوم ہوا کہ اہل باطل کو کشف کا ئنات واشراف خاطر ہو سکتا ہے، بس یہ علامت ولایت کی نہیں جیسا کہ عام لوگ دھو کہ میں ہیں۔
اور سادھو سنت لوگوں کے اس قسم کے مغالطہ سے لوگ بہک اور بھٹک جاتے ہیں، ابن صیاد نے بھی آپ ﷺ کی دل کی حالت معلوم کی تھی، اس نے کہا تھا کہ کچھ خبر دینے والا میرے پاس آتا ہے، جو جنات اور شیاطین ہوتے ہیں۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : : دجال آئے گا اور اسی حدیث میں ہے کہ: پھر دجال کہے گا بتلا ؤتو اگر میں اس شخص کو قتل کر دوں پھر اس کو زندہ کر دوں کیا تم میرے معاملہ (دعوئ الوہیت ) میں شبہ کرو گے ، وہ لوگ (یعنی اسکے معتقدین )کہیں گے کہ نہیں ، پس وہ اس کو قتل کر دے گا پھر زندہ کر دے گا۔
فائدہ: اکثر عام لوگ خوارق(خلاف عادت ) کو علامت ولایت سمجھتے ہیں، ہیں یہ سخت غلطی ہے، دیکھود جال سے زیادہ کون گمراہ ہوگا اور احیا ء میت (مردوں کو زندہ کرنا)سے بڑھ کر کون امر خارق (خلاف عادت )ہوگا، باوجود اتنے بڑے خارق کے صادر ہونے کے دجال کے گمراہ ہونے میں کس کو شبہ ہو سکتا ہے، اس غلطی کی اصلاح نہایت ضروری ہے۔
اس لئے انبیاء علیہ السلام کے معجزے، صالحین کی کرامات، یا مومن کی فراست وبصیرت کے صحیح ہونے کے باوجود، کسی بھی سادھو سنت یا کسی بھی جادو یا کہانت یا جنات وشیاطین کے مدد سے کام کرنے والے کے کسی بھی خلاف عادت اور عجیب وغریب امور کو دیکھ کر متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، یہ قرب قیامت میں بہت زیادہ ہوگا، بلکہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں ابن صیاد نامی ایک شخص بڑا عجیب غریب تھا،قرب قیامت میں دجال کے جو عجوبے ہوں گے وہ اس سے بھی نہایت حیرت انگیزہوں گے۔ان تمام امور کو خلط ملط نہ کیا جائے ، انبیاء کے معجزے، صالحین کی کرامات، مومن کی فراست کے صحت کے باوجود دیگر لوگوں کے صادر ہونے والے خلاف عادت امور جادو، کہانت، جنات وشیاطین سے مدد کے لئے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔
اللہ ہمیں صحیح ہدایت عطا فرمائے اور تمام خلاف شرع امور اور تمام فتنوں سامانیوں سے محفوظ فرمائے۔
رفیع الدین حنیف قاسمی
ادارہ علم و عرفان ، حیدرآباد
rafihaneef90[@]gmail.com
موبائل : 09550081116
رفیع الدین حنیف قاسمی |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں