منٹو اور بلراج مین را کی تخلیقات میں اشتراک کے پہلو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-03-08

منٹو اور بلراج مین را کی تخلیقات میں اشتراک کے پہلو

manto-and-balraj-menra

مین را اور منٹو کے تخلیقی مسائل و میلانات میں اشتراک کے پہلو تلاش کئے جاسکتے ہیں۔ یہاں ان ادبی تحقیقی کار گذاریوں کا ذکر مقصود ہے ، جو مین را کے ذریعہ منٹو کے سلسلے میں سامنے آئیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ بعض لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ مین را نے منٹو کے تعلق سے کیا کام کیا ہے۔
اسٹیج پر بیٹھ کر منٹو سے قربت کا اظہار کرنا ایک فیشن سا ہوگیا ہے۔ ایک جلسہ میں تو مین را موجود تھے لیکن اسٹیج سے مین را کی دبلی اور نحیف شخصیت کہاں دکھائی دیتی۔ وہاں سے تو صرف عہدوں پر فائز لوگ نظر آتے ہیں۔ میں نے ایسے شخص کو منٹو پر گفتگو کرتے سنا ہے جس نے منٹو کی ایک کہانی بھی ٹھیک سے نہیں پڑھی۔ مین را کو دیکھ کر ایک شخص کہنے لگا کہ مین را کا تھیلا اسی طرح کاندھے پر ہے۔ میں یہ سن کر حیران تھا۔ مین را نے کہا چلو سرور بھاگو یہاں سے۔ میں نے ضروری سمجھا کہ"منٹو اور مین را " کے عنوان سے چند حقائق کی یاد تازہ کی جائے اور نئی نسل کو بتایاجائے کہ اسٹیج کی چمک دمک سے وقتی طور پر لوگوں کو مرعوب کیاجاسکتا ہے، لیکن وہی کام باقی رہ جاتا ہے جس میں ذہانت اور جذبے کی صداقت ہوتی ہے۔
منٹو سے مین را کی قربت اورمحبت کا ایک اہم حوالہ"شعور" کا "سوگندھی نمبر " ہے۔ منٹو کی کسی کہانی کے کردار پر مرتب ہونے والا اپنی نوعیت کا یہ پہلا گوشہ تھا۔ کردار کو زندگی تو پوری کہانی کے سیاق سے ملتی ہے لیکن کہانی سے الگ کرکے اسے "شعور" کے ذریعہ جو زندگی ملی اس میں مین را کے مطالعے اور ذہانت نے اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ جب"ہتک " میں نے پڑھی اور سوگندھی کو دیکھا تو میں بتا نہیں سکتا کیا کیفیت تھی مجھ پر۔ میں منٹو صاحب کا مقروض ہوگیا ان دنوں انتظار حسین دہلی میں تھے۔
"سوگندھی" پر شعور کا نمبر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ پورا پرچہ سوگندھی پر ہے۔ کمال ہوگیا ، مین را نے بتایا کہ عصمت چغتائی بھی تھیں۔ مین را نے شعور کا یہ شمارہ ان الفاظ کے ساتھ عصمت چغتائی کی طرف بڑھایا’ منٹو کی ایک نئی کہانی عصمت چغتائی کی نذر"‘۔ عصمت چغتائی کہنے لگیں جب یہ کہانی چھپی تھی تو تم پیدا نہیں ہوئے تھے۔ سیمینار کے دوسرے دن عصمت چغتائی نے مین را سے کہا کہ میں تمہاری شکر گزار ہوں کہ تم نے واقعی مجھے ایک نئی کہانی دی ہے۔ مین را نے منٹو کی شخصیت اور فن کو جس طرح اسے انگیز کیا ہے اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ ایک افسانہ نگار، ایک ادبی صحافی ، ایک ادبی محقق، ایک ادبی قاری، ان تمام حوالوں سے مین را اور منٹو کا مضبوط رشتہ قائم ہے۔ مین را نے منٹو کو علمی مشغلے کے طور پر موضوع نہیں بنایا۔ منٹو کی فکری اور حسی دنیا اگر کسی قاری نقاد اور محقق، کو کچھ تبدل نہ کرے تو ایسی قرات اور تحقیق تکنیکی عمل بن جاتی ہے۔ اس عمل کی بھی افادیت ہے مگر سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا ملا۔ مین را کا مسئلہ صرف لفظ کی تحقیق نہیں بلکہ اسی شدت اور حرارت تھی جس نے مین را کو منٹو کے تعلق سے بے چین رکھا۔ بہت سے لوگ منٹو کے لفظ کی تحقیق میں ایک منزل سے آگے نہیں جاسکے۔ منٹو سے مین را کی یہ داخلی نسبت تھی کہ انہوںنے پاکستان جاتے ہی ان کی قبر پر حاضری دی۔


مین را نے بتایا کہ اس وقت منٹو صاحب کی قبر کچی تھی افسوس ہوا کہ منٹو صاحب کو مرے پانچ سال ہوگئے اور قبر کچی ہے دوسرے دن مین را کو انتظار حسین ، شہزاد احمد، ناصر کاظمی، نویدانجم اور عزیز الحق ملے اور ان سے اپنی برہمی کااظہار کیا۔ مین را نے کہا کہ منٹو دہلی میں مرا ہوتا تو میں اپنے خرچ سے قبر پکی کروادیتا اور اس بات پر ان لوگوں نے کہا کہ یہ ان کی بیٹیوں کا مسئلہ ہے۔ مین را جب ۱۹۸۸ء میں لاہور گئے تو میانی صاحب( وہ قبرستان جہاں منٹو دفن ہیں) گئے تو ان کے ساتھ کشور ناہید تھیں۔ مین را بتاتے ہیں کہ قبر پکی ہوچکی تھی لیکن کتبہ کے حروف مٹ گئے تھے تو ہم دونوں نے سخت گرمی میں چھتری تان کر کتبہ کو کالاکیا اور اس کی سنگ سازی کی تو الفاظ نمایاں ہوگئے۔ اس کی تصویر دستاویزی ہندی میں موجود ہے۔ تو منٹو کے ساتھ مین را کے عشق کی یہ بھی ایک داستان ہے۔ مین را نے ۱۹۸۶ء کے آس پاس منٹو پر کام کرنا شروع کیا تھا۔ اپنے لاہور کے سفر(1988) میں انہوںنے منٹو کی کچھ کہانیاں وہاں کے ادبی رسالوں میں تلاش کرنا شروع کیں۔1952سے 1955تک رسالوں کی فائلوں کو دیکھا۔1986 میں منٹو کے انتقال کو31سال ہوگئے تھے۔ مین را کو منٹو کی دو کہانیوں"پھوجا حرام دا" اور "شاہ دولہے کا چوہا"‘ کی خاص طور پر تلاش تھی۔ منٹو کی زندگی میں اور منٹو کے انتقال کے بعد جو کچھ چھپا تھا اس میں یہ کہانیاں نہیں تھیں مین را کو پرانے رسالوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے یہ کہانیاںمل گئیں اس سفر میں 16 مزید کہانیاں ملیں ان میں آٹھ غیر مطبوعہ اور آٹھ گمشدہ تھیں۔ مین را نے بتایا کہ آٹھ غیر مطبوعہ کہانیاں منٹو کے ایک بریف کیس میں ملیں، منٹو ان دنوں دو کتابیں چھاپنا چاہتے تھے۔ ایک کا نام ہے ’گلاب کا پھول اور دوسری کا نام’تن بکشیاں‘ یہ کہانیاں ان ہی کے لئے منٹو صاحب نے رکھی تھیں۔ ان کتابوں کا اشتہار ادب لطیف میں بھی آیا تھا۔ جو مین را کی نظر سے گذرا مگر کتابیں نہیں چھپی تھیں۔ مین را نے ان دونوں عنوانات کے تحت ان 18کہانیوں کو دستاویز میں شائع کیا۔


ہندی میں دستاویز کے نام سے منٹو پر مین را نے جو کام کیا ہے وہ تاریخی نوعیت کا ہے اردو والوں نے اس سے کتنا استفادہ کیا یہ مسئلہ اردو والوں کا ہے ہندی کے قارئین کے لئے دستاویز کی یہ جلدیں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ مین را بتاتے ہیں کہ ان جلدوں کو بنانے میں آٹھ سال لگ گئے۔ مین را نے 2000 صفحات اپ نے ہاتھ سے لکھ کر کاتب کو دئیے تاکہ غلطیاں نہ رہیں۔ دستاویز کی ابتدائی دو جلدیں کہانیوں پر مشتمل ہیں اور ہر جلد میں تین حصے ہیں جنہیں مختلف موضوعات کی بنیاد پر قائم کیاگیا ہے۔ جیسے"پاتال" اس میں جو رنڈیوں کے بارے میں کہانیاں ہیں اوردوسرا"جنگل" ہے یہ کہانیاںsexکے بارے میں ہیں۔


منٹو کی عتاب زدہ کہانیاں جو قانونی گرفت میں آئی تھیں ، ان پر مین را نے منٹو تھیمز کے نام سے فولیو چھاپا تھا۔ جس کی قیمت1800 روپے تھی حالانکہ اس کی لاگت28سو روپے تھی فولیو کو رام چندرن نے بنایا تھا۔( اس کی21کاپیاں چھپی تھیں) ان فولیوز کی کتابی شکل میں اشاعت مشکل تھی اس لئے ان کہانیوں کی رام چندرن نے الگ سے ڈرائنگس بنائیں جو دستاویز اردو میں موجود ہے۔ مین را کا کہنا ہے کہ دستاویز اپنے مواد کے اعتبار سے ایسی کتاب ہے جو منٹو صاحب کو ترتیب دینی چاہئے تھی مگر یہ کام میں نے کیا۔ دستاویز ہندی کا انتساب موپاساں کے نام ہے۔ مین را اس کا سبب یہ بتاتے ہیں منٹواپنی تحریر میں موپاساں کے قرییب ہے موپاساں کی موت1893میں ہوئی اور منٹو کی پیدائش1912 سے پہلے کا یہ واقعہہ ہے۔ لیکن اپنے رویے اور موضوع کے حساب سے منٹو موپاساں کے قریب ہے۔
اس میں شک نہیں کہ موپاساں اور منٹو کی زندگی ایک دوسرے سے مختلف ہے ایک کا تعلق فرانسیسی سماج سے ہے دوسرے کا ہندوستانی سماج سے۔ رنڈی دونوں کے یہاں ہے دونوں کی کچھ نفسیات یکساں ہوں گی۔ ممتاز شیریں نے شاید پ ہلی مرتبہ منٹو کے افسانے کو موپاساں کی فکر سے قریب بتایا تھا۔ مین را بتاتے ہیں کہ میں نے بیدی صاحب سے کہا تھا کہ منٹو کی کہانی"میرا نام رادھا" ہے۔ سومرسٹ ماہم کی کہانی Rainسے بڑی ہے تو بیدی صاحب نے میری بات سے اتفاق کیا تھا۔ یہ بھی دیکھئے مین را منٹو کی ایک کہانی کے سلسلے میں اپنی رائے کی تائید بیدی سے چاہتے ہیں اور اتنے دن گزر جانے کے بععد بھی اس کا ذکر ضروری سمجھا۔ میری مرتبہ کتاب’سرخ و سیاہ‘ میں صفحہ881 پر دو آٹو گراف اور ایک خط شامل ہے۔ پہلا آٹو گراف فیض کا ہے اور دوسرا حفیظ جالندھری کا۔ فیض کے آٹو گراف کا قصہ یہ ہے کہ1953میں فیض دہلی آئے تو مین را نے آٹو گراف بک ان کی طرف بڑھا دیا اور فیض سے کہا کہ آپ منٹو کے بارے میں کچھ لکھئے۔ انہوں نے لکھا:
"منٹو اگر اتنا بڑا انسان بھی ہوتا جتنا بڑا فن کار تھا تو شاید ہمیں اس کا ماتم اتنی جلد نہ کرنا پڑتا۔"
اسی طرح مین را نے حفیظ جالندھری سے درخواست کی۔ حفیظ جالندھری نے ایک شعر لکھا:
اسی کی شرم ہے میری نگاہ کا پردہ
وہ بے حجاب سہی ،میں تو بے حجاب نہیں


دستاویز ہندی سے اردو والے کم ہی واقف ہیں لیکن ہندی کے قارئین اسے بلراج مین را کی ایک بڑی عطا کے طور پر دیکھتے ہیں۔ میں نے کئی ہندی کے ناقدین کو یہ بھی کہتے سنا کہ مین را نے منٹو کو ہندی والوں کے حوالے کردیا۔ اس میں شک نہیں کہ دیوناگری میں منٹو کو قارئین کی بڑی تعداد مل گئی۔ دنیا کے ادب کو پڑھ کر ہم نے اسے اپنابنالیا ہے ، ہندی سے تو اردو کا لسانی رشتہ بہت مضبوط ہے۔ اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ منٹو کا متن اردو میں ہے اور وہ بنیادی طور پر اردو کا ادیب ہے۔ یہ ممکن ہے کہ منٹو کامتن اردو میں صحت کے ساتھ شائع نہ ہوا ہو ، یہ بھی ممکن ہے کہ منٹو کو مین را جیسا مرتب نہ ملا ہو لیکن منٹو اول و آخر اردو کا ہی ادیب ہے۔ میںنے یہ باتیں یوں ہی نہیں لکھی ہیں مجھے ایسے لوگ ملے جو مین را کے اس جذبے اور ذہانت کو اپنی ذہنی تنگنائی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔


بلراج مین را نے شرودت کے ساتھ دستاویز کو ترتیب دینے کا منصوبہ بہت سوچ سمجھ کر بنایا تھا۔ یہ کام وہ اردو کے لئے بھی کرسکتے تھے۔ مگر ہندی کے قارئین کے لئے یہ وقت ضرور تھی۔ مین را نے بتایا کہ شرودت نے راج کمل سے بات کرلی بلکہ ان کا جملہ تھا کہ شرودت نے پبلشر کو ڈھونڈا۔ دستاویز ہندی کا پہلا ایڈیشن1993میں آیا۔ میرے پاس جو ایڈیشن ہے وہ2004کا ہے جسے تیسرا ایڈیشن قرار دیا گیا ہے۔ اسی سے دستاویز ہندی کی مقبولیت کا اندازہ کیاجاسکتا ہے۔ دستاویز کے پانچوں جلدوں کے سرورق پر منٹو کی تحریر کا عکس موجود ہے۔ سعادت حسن منٹو اور دستاویز کو دیوناگری میں موٹے حروف کے ساتھ لکھا گیا ہے اور دائیں بائین ، اوپر نیچے منٹو کی اردو تحریردیوناگری جلی حروف کے ساتھ دلکش معلوم ہوتی ہے۔ درمیانی حصے میں منٹو کا اسکیچ ہے۔


دستاویز کی ہر جلد میں مرتبین کی چھوٹی بڑی تحریر شامل ہے۔ کہیں تو بلراج من را، شرودت کے نام ایک ساتھ ہے اور کہیں کسی کا نام نہیں ہے۔ مین را سے اس بارے میں جب میں نے وضاحت چاہی تو انہوں نے کہاکہ سرور یہ تمام چھوٹی بڑی تحریریں میری ہیں۔ شرد میرا دوست ہے اس کا نام میرے ساتھ آنا چاہئے۔ اردو کے عام قارئین کی نظر میں یہ تحریریں نہیں ہیں۔ لہذا انہیں اردو میں شائع ہونا چاہئے۔ مین را کی اس بارے میں رائے مختلف تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہر تحریر اردو میں آجائے اس کی ضرورت نہیں ہے۔تلاش گمشدہ کے نام سے جو میں نے لکھا ہے اسے آپ اپنی کتاب میں شامل کرسکتے ہیں۔ میں نے ان کی رائے کے مطابق اس حصے کو کتاب میں شامل کرلیا ہے۔


دستاویز ہندی میں تلاش گمشدہ کے عنوان سے مین را نے منٹو کی کہانیوں کی تلاش کا جو قصہ بیان کیا ہے وہ بطور خاص توجہ طلب ہے۔ وہ نہ تو سکہ بند محقق ہیں اور نہ نقاد لیکن گمشدہ متن کی تلاش اور اس کی تصحیح و ترتیب کے تعلق سے جو گفتگو کی ہے وہ معروضیت ، احتیاط اور حساسیت کا اعلی ترین نمونہ ہے۔ یہ وہ تحقیق نہیں جو کسی انعام یا ڈگری کے لئے عمل میں آتی ہے۔ عموماً تحقیق کا عمل ایک خشک علمی مشغلہ بن جاتا ہے۔ متن کی تلاش اور قرأت میں محقق کا وجدان شامل نہیں ہوتا۔بلراج مین را کے ہاں وجدان کا عمل تحقیق کر پر قوت بنادیتا ہے۔ اسی لئے مین را ذمہ دار مرتب متن کے ساتھ ساتھ ایک حساس قاری معلوم ہوتے ہیں۔ جو لفظ کی صحیح قرات کرنے کے بعد مطمئن نہیںہوتا بلکہ ان سے آگے بھی دیکھتا ہے۔ مین را نے منٹو کی گمشدہ کہانیوں کے ایک ایک لفظ سے مکالمہ قائم کیا ہے۔ اس عمل میں ایک روشنی کا احساس ہوتا ہے اور مین را کا پورا تحقیقی و تنقیدی طریقہ کار ایک صوفی کے دھیان گیان جیسا معلوم پڑتا ہے۔ اگر سادھنا اور ریاضت تصوف کی روح ہے تو یہ مین را کی تلاش گمشدہ کہانی میں پوشیدہ ہے۔ کوئی اور ہوتا تو تحقیق کی زبان کے چکر میں آکر زبان کو خشک بنا دیتا۔

***
ماخوذ از کتاب: بلراج مین را ایک ناتمام سفر - (سنہ اشاعت: 2015)
مصنف : سرور الھدیٰ

Manto and Balraj Menra. Essay by: Rasheed Mosavi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں