گلبرگہ : سات گنبدوں کا شہر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-03-24

گلبرگہ : سات گنبدوں کا شہر

gulbarga-seven-tombs-city

گلبرگہ شہر سے ہماری واقفیت بس اتنی ہے کہ جب کبھی گرمائی تعطیلات ملتیں ہمارا رخ گلبرگہ شہر ہی کی طرف ہوتا کیونکہ وہ ہمارا ننھیال ہے۔ جب بھی ہم گلبرگہ کی بات کرتے ہمارے ابو گلبرگہ کو "گاؤں" کہہ کر ہماری والدہ محترمہ کو چڑاتے۔ جس کا نتیجہ ہمیشہ حسب توقع ہی نکلتا۔
" گلبرگہ بالکل بھی گاؤں نہیں کہلاتا۔ شہر ہے شہر۔"
" لیکن حیدرآباد کے مقابلے میں تو گاؤں ہی سمجھا جائیگا۔ " ابو چڑانے کا سلسلہ جاری رکھتے۔


"گلبرگہ شہر جسے سات گنبدوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے، ریاست کرناٹکا کا ایک تاریخی شہر ہے۔ اور یہ بنگلور سے 623 کلو میٹر اور حیدرآباد دکن سے زائد از 200 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ یہ آزادی سے قبل حضور نظام اور سلطنت آصفیہ کے زیر نگرانی ریاست حیدرآباد کا حصہ تھا۔ اسی تاریخی شہر میں قلعہ گلبرگہ بھی واقع ہے۔ یہ شہر بہمنی سلطنت کا پایہ تخت بھی رہا ہے۔ بہمنی دور میں یہاں پر اسلامی طرز پر تعمیرات کی گئیں۔۔۔"
ہماری والدہ بتانا شروع کر دیتیں اور ہم ہمہ تن گوش ہوتے۔


"۔۔۔ ان اسلامی طرز و تعمیر پر مبنی عمارتوں پر زیادہ تر گنبد نظر آتے ہیں۔ یہاں کئی بادشاہوں کے مقابر ، اولیائے کرام کے آستانے اور کئی مساجد ہیں۔ ان میں جو سب سے بڑا گنبد ہے وہ درگاہ حضرت خواجہ بندہ نواز کا ہے اس کے علاوہ قلعہ حشام میں تاریخی جامع مسجد ہے جسے گنبدوں کی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ سلطنت بہمینیہ کی یادگار ہفت گنبد بھی ہیں جسے سات گنبد بھی کہا جاتا ہے۔ گلبرگہ میں سری کشیترا گھانا پور مندر ہے سدھارتھ ٹرسٹ کا بدھا وہار بھی ہے ٹینک بینڈ روڈ پر شرانا بسویشور گارڈن ہے"۔


" امی جی آپ نے گلبرگہ کی درگاہ کا ذکر ہی نہیں کیا۔ "
ہم نے مداخلت کی تو وہ مسکرائیں اور کہنے لگیں:
"اب میں اسی طرف آ رہی تھی۔
گلبرگہ کو گلبرگہ شریف بھی کہا جاتا ہے چونکہ اس شہر میں متعدد صوفیائے کرام اور کئی اولیاء اللہ کے مزارات ہیں جن میں شہنشاہ دکن حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی درگاہ بھی شامل ہے۔ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز سلسئہ چشتیہ کے مشہور صوفی بزرگ ہیں۔ ان کے آستانے پر مسلم غیر مسلم زائرین زیارت کے لیے آتے رہتے ہیں ان کا عرس مبارک پندرہ ذیقعدہ کو منعقد ہوتا ہے اور درگاہ میں چراغاں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔"


پھر امی نے گفتگو کا سلسلہ مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا:
"اب شہر کے جغرافیہ پر ایک نظر ڈالیں تو ضلع گلبرگہ دکن کے سطح مرتفع پر واقع ہے اور دو اہم دریاؤں دریائے کرشنا اور دریائے بھیما سے سیراب ہوتا ہے۔ یہاں آب پاشی کے کئی ذخائر ہیں۔ جوار، مونگ پھلی، چاول اور دال یہاں کی اہم فصلیں ہیں۔ یہاں کے پکوان میں جوار کی روٹی ، بھنا ہوا گوشت ، پھلی کی چٹنی بہت مقبول ہیں۔ اور یہ بات بھی ہے کہ صنعتی اعتبار سے گلبرگہ ایک بسماندہ ضلع ہے"۔


"جی۔ ہم بھی یہی کہہ رہے تھے کہ ایک پسماندہ ضلع ہے۔"
والد صاحب بھی موقع دیکھ کر فقرہ کسنے والوں میں سے تھے۔
"لیکن تعلیمی اعتبار سے یہ شہر ملک میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ اس شہر میں گلبرگہ یونیورسٹی بھی ہے اور اسی طرح تین ڈنٹل کالج ،چار میڈیکل کالج اور دس انجینیرنگ کالج ہیں۔"


امی اب گلبرگہ کی تعریف میں رطب اللسان تھیں:
"شہر گلبرگہ کی تہذیب و تمدن کی بات کریں تو یہ ایک ہمہ مذہبی شہر ہے یہاں تقریباً ہر مذہب کے لوگ بستے ہیں۔ ان میں آپسی بھائی چارگی، مروت و ہم آہنگی کا برتاؤ دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں کبھی مذہب کی بنا پر جھگڑے فسادات نہیں ہوتے۔ ہر مذہب کے لوگ بلا خوف وخطر اس شہر میں رہ سکتے ہیں۔
گلبرگہ شہر رواداری اور ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک کے لیے مشہور ہے۔ یہاں اردو اور کنڑ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ چونکہ یہ شہر پہلے ریاست حیدرآباد دکن میں شامل تھا اس لیے بول چال میں دکنی زبان کا رنگ نمایاں ہے لیکن اس شہر پر مہاراشٹر اور اس کے لہجہ و بولی کا بھی اثر واضح نظر آتا ہے۔


اردو زبان و ادب کے حوالے سے بھی یہ شہر کافی زرخیز ہے۔ اس شہر کے کئی شعرا بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں جن میں سلیمان خطیب ، صغری عالم، فضل گلبرگوی، اکرام باگ وغیرہ اردو شعر و ادب میں گراں قدر اضافہ ہیں۔
سلیمان خطیب کا شعری مجموعہ " کیوڑے کابن " دکنی زبان میں لکھا گیا ہے جسے پڑھتے ہوئے قاری کو بےحد لطف آتا ہے۔ اسی شہر سے کئی اردو اخبارات بھی شائع ہوتے ہیں جن میں روزنامہ انقلاب دکن قابل ذکر ہے۔ اس کے علاوہ "کے بی این ٹائمز" بھی کافی مقبول روزنامہ ہے جو خواجہ بندہ نواز سوسائیٹی کے تحت جاری ہوتا ہے"۔


"اور آخری بات۔۔۔" یہ کہتے ہوئے امی نے ابو کو گھورا۔
"اس شہر میں اکتوبر 2019 میں ‌ایر پورٹ بھی قائم ہو چکا ہے۔ جہاں سے روزانہ بنگلور حیدرآباد اور دوسرے کئی شہروں کے لیے فلائٹس چلتی رہتی ہیں۔ تو حاصل کلام یہی ہے کہ گلبرگہ شہر روز افزوں ترقی کے منازل طے کرتا جا رہا ہے۔ اس لیے اس کو گاؤں کہنا اس کی بے عزتی کرنے کے مترادف ہے"۔‌
امی نے جیسے گفتگو کے اختتام کا اشارہ دیا۔


"واہ۔ چلیے اس بات پر کھانے میں کیا بنا ہے یہ بھی بتا دیں۔ " ہم نے امی کو دیکھا۔
"گلبرگہ کی تہاری"
"واہ۔۔ واہ ۔۔"
یہ کہتے ہوئے ہمارے منہ میں پانی بھر آیا۔ چاہے حیدرآباد کی بریانی ہو کہ گلبرگہ کی تہاری، دونوں پکوان سے ہم خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ گلبرگہ کی تہاری عام طور پر نہاری کے ساتھ کھائی جاتی ہے۔ جس کا اپنا ہی لطف ہوتا ہے۔ بہرحال اس بحث میں پڑے بغیر کہ گلبرگہ کو گاؤں کہنا مناسب ہے یا نہیں ہم تہاری پر ٹوٹ پڑے۔

***
محمد ذیشان (حیدرآباد)

Email: mohammed.zeeshan1105[@]gmail.com


Gulbarga, the city of seven tombs - Light Essay: Mohammed Zeeshan.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں