برطانیہ اور یورپ میں اردو زبان و ادب کا ذکر خاصا پرانا ہے۔ اگر بہت محنت سے تحقیق کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہاں ارردو کی تاریخ کم از کم دو سو سال پرانی ہے ، لیکن اس کا باقاعدہ چلن دوسری جنگ عظیم کے دوران ہوا۔ شروع میں جو لوگ اس زبان و ادب میں دلچسپی لیتے تھے وہ یا تو مغربی ادب دوست ہوتے تھے یا پھر غیر منقسم ہندوستان سے آئے ہوئے اہل قلم۔ بر صغیر کے اردو داں حضرات تھوڑی مدت قیام کرنے اور بی بی سی کی دو چار نشریات میں حصہ لینے کے بعد واپس چلے جاتے تھے۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد بڑی تعداد میں ایسے ایشیائی آئے جو بہتر زندگی اور اچھے روزگار کے متلاشی تھے۔ یہ سب زیادہ تر صنعتی علاقوں میں جابسے مگر باہمی تعلقات اور اپنی آبائی قدروں اور رسوم و رواج کی طرف ان کا جذباتی رشتہ برقرار رہا۔ مکمل اجنبیت اور تہذیبی تنہائی کی فضا کم کرنے کے لئے انہوں نے اردو شاعری اور اردو کی غیر رسمی نشستوں کی گھنی چھاؤں میں پناہ لی۔
اگر ہم قطعیت کے ساتھ کچھ کہنا چاہیں تو معلوم ہوگا کہ جس سرمایہ شعروادب کو ہم دبستان مغرب کا نمائندہ کہہ سکتے ہیں اس کی داغ بیل ۱۹۴۰ء کی دہائی میں پڑی۔ جب آبسنے والوں نے جگہ جگہ ادبی نشستوں اور مشاعروں کا سلسلہ شروع کیا۔ ۱۹۸۰ء تک یعنی شروع کے ۳۵ یا چالیس برسوںں میں یہاں زیادہ سر گرمیاں شعری نوعیت کی رہیں۔ نثر نگاری یا فکشن نگاری کی طرف باقاعدہ بلکہ سنجیدہ توجہ گزشتہ صدی کے آخری ربع سے شروع ہوئی۔ اسی لگ بھگ چوتھائی صدی ہی میں کہانی لکھنے والوں کی ایک کھیپ تیار ہوگئی اور دوچار نثر نگار بھی نظر آنے لگے۔ اب یہ کہنا آسان ہوگیا ہے کہ افسانہ نگاری نے بھی مغرب میں رفتہ رفتہ قدم جمائے ہیں اور کہانی نگاری کی صنف ایک علاحدہ وجود اختیار کرچکی ہے اس وجود کا ایک واضح رجحان بھی ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مغرب، خاص طور پر انگلستان میں اردو افسانہ ایک علاحدہ اور منفرد تشخص کا متقاضی ہے۔
اردو دنیا میں زیادہ چہل پہل شاعری کے میدان میں رہی ہے ، اس لئے فکشن کی طرف توجہ کم رہتی ہے اس کی بہت سی وجوہ ہیں پہلی تو یہی کہ شاعری کے بارے میں لکھاجاتا ہے اس کی افادیت اور قومی و ادبی تحریکوں میں اس کے کردار پر زور دیاجاتا ہے ، لیکن یہ نہیں کہاجاتا ہے کہ فکشن سے معاشرے کو کیا فائدہ ہوتے ہیں۔ تا حال کسی اہل ادب نے فکشن کی ضرورت اور افادیت پر تفصیلی محاکمے کی کوشش نہیں کی ہے عام طور پر لکھاجاتا ہے کہ کہانی کیا ہے، ناول کی خصوصیات کیا ہیں، ہمارے ادب میں شروع سے لے کر اب تک کون نمایاں اور قابلِ ذکر ادیب و ناول نگار رہے ہیں؟ معیاری رسائل و جرائد کے خصوصی افسانہ نمبر بھی شائع ہوتے ہیں جن میں مختلف علاقوں میں فکشن کی رفتار ترقی اور افسانوی رجحانات پر سیر حاصل تبصرے ہوتے ہیں لیکن کوئی ایسا بنیادی اور جامع مقالہ نہیں ملتا ہے جس میں یہ بحث کی گئی ہو کہ افسانہ کیوں لکھا جائے۔ اس کی شاجہ شاید یہ ہو کہ فکشن نگار متانت، سنجیدگی اور غوروتعمق کا مظہر ہوتا ہے اس کے افکار میں ایک نظر ہوتی ہے نوحہ کناں و ہ ذاتی غم و اندوہ کا نہیں بلکہ نباض غم دوراں کا ہوتا ہے۔ فکشن نگار شاعروں کی طرح سماج سے الگ کسی جزیرے میں"شراب، ربابے نگارے" کے علم بردار نہیں بلکہ زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مصروف دغا ہوتے ہیں وہ مرثیہ خواں گزرے زمانوں کے نہیں بلکہ نباض ماضی حال اور مستقبل کے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ غزل خواں بزم کے نہیں بلکہ حدی خواں رزم کے ہوتے ہیں لہٰذا وہ ہر ایرے غیرے کا دامن پکڑ کر کہانی کی فضیلت کا مطالبہ نہیں کرتے ہیں۔
فکشن کے ماہر چھوٹی موٹی امیدوں اور جھوٹی سچی یادوں کا ذکر کرنے کے باوجود حقائق کا عطر لے کر زندگی کی بنیادی سچائیوں کا بیان کرتے ہیں۔ شاعری میں دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں مگر عنصر سب جگہ انفرادی غم و اندوہ کا ہوتا ہے۔ اس کے بر خلاف فکشن نگار سچائی اور ضمیر آرائی کا دعویٰ نہیں کرنے باوجود دوڈزورتھ کے اسکائی لارک کی طرح زمین سے اٹھ کر اور بلند ترین فضاؤں میں پرواز کے دوران بھی مٹی سے اپنا رشتہ برقرار رکھتے ہیں۔ فکشن نگار چھوٹی چھوٹی نیم سچائیوں کو لے کر بڑی حقیقتوں کے شارح بن جاتے ہیں۔ اس عمل میں کبھی کبھی تو ان لوگوں نے پوری عصری تاریخ ہی کو بدل ڈالا۔ اگر زندگی حقائق کی سنگینیوں سے ہی عبارت ہے تو اس کی تمام وکمال تفسیر و ترجمانی فکشن ہی میں کی جاسکتی ہے اور کی گئی ہے۔ اسی اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا شاید یہ نتیجہ ہے کہ اپنے تمام ناسپاس گزاریوں کے باوجود اہل قلم کسی کہانی کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ یہ لوگ جہنم بھردیں گے۔
ایک دلچسپی اور تعجب کی بات یہ ہے کہ شاعری کی ریل پیل کے باوجود اردو ادب کی تاریخ میں اففسانہ نگاری نے بڑی سریع الاثر ترقی کی ہے۔ یہ ترقی ناول کے مقابلے میں افسانہ نگاری کے میدان میں بہت قابل لحاظ رہی ہے۔ یورپ کے اردو ادیبوں میں ناول نگاری کی روایت پرانی ہے لیکن ہرا بھرا میدان افسانہ نگاری ہی کا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ یہاں ناول نگار گنتی کے پانچ دس ہی ہیں لیکن سر گرم عمل اور فعال حضرات افسانہ و کہانی کے میدان میں ہی زیادہ ہیں اور خوش آئند بات یہ ہے کہ بعض بالکل ہی نئے لکھنے والوں کے نام بھی سامنے آرہے ہیں۔ فنی تقاضوں، تہذیبی شعور اور بنیادی عناصر علم و ادب سے کما حقہ ، واقفیت رکھتے ہیں کوئی عصر آفریں ناول لکھنا بہت جان جوکھوں کا کام ہے مقصود الٰہی شیخ، جتیندر بلو اور مصطفی کریم نے بہت نامساعد حالات میں ناول لکھے ہیں۔ ان میں تمام موانع کے باوجود بے بصری سے دوری کے تقاضے نمایاں ہیں۔ مقصود الٰہی شیخ بہت توجہ سے اور ایک طرح کی فطری نرم روی کے ساتھ لکھتے ہیں اور ان میں یورپ میں سر گرم تگ و تاز نسل کا تذبذبب اور بے یقینی ملتی ہے۔ جتیندر بلو نے اپنے تازہ ترین ناول وشواس گھاٹ میں کئی تہذیبوں اور ان کے مزاج کی آمیزش اور آویزش کے "مرصع غم" کا حال رقم کردیا ہے۔ مصطفی کریم اپنی دوسری تحریروں کی طرح ناول میں بھی مشاہدے ، مطالعے اور تکنیکی بصیرت سے عدم توجہی کا ایسا تاثر پیش کرتے ہیں کہ معقول اور سنجیدہ امور بھی سنی سنائی پر مبنی دکھائی دیتے ہیں۔
ناول نگاری کے بنیادی مزاحم و موانع میں مطالعہ اور موضوع زیر تحریر سے کما ینبغی واقفیت بھی ناگزیر ہے۔ بہت سے لوگ ناول شروع تو کردیتے ہیں لیکن اسے سمیٹ نہیں پاتے ہیں کسی نتیجے تک نہ پہنچ سکنے کی صورت میں نامکمل چھوڑ دیتے ہیں۔ کبھی کبھی اس طرح کے ناول کو جلدی جلدی ختم کرکے طویل کہانی یا ناولٹ کی شکل میں پیش کیاجاتا ہے۔ دو ایک اردو قلمکار ایسے بھی ہیں جو اپنی تخلیقی فضاؤں کو اچھی طرح آباد نہیں کرپاتے ہیں اور بددیانتی سے کام لیتے ہوئے دوسروں کی تحریروں کے اقتباسات یا انگریزی تصانیف کے حوالے بلا تکلف اپنے فکری سرمائے میں شامل کرلیتے ہیں۔ سب سے زیادہ اذیت کوش منزل وہ ہوتی ہے جب تخلیقی قلمکار اپنی ہی تحریر پر نظر ثانی کرتے ہوئے فضول اور غیر متعلق حصوں کومسترد کرتا ہے۔ یہ کام صرف ایک ماہر فنکار ہی کرسکتا ہے ، عام لکھنے والے اس ہمت سے کام نہیں لے پاتے ہیں۔
دنیائے شعر میں استادی و شاگردی کی بڑی طویل اور قدیم روایت رہی ہے۔ فکشن میں اس کا مکمل فقدان ہے اس وجہ سے اردو کے عام ناولوں میں بھرتی کا مواد زیادہ ہوتا ہے۔ ناول نگاری کی مقتضیات سے عہدہ برآ ہونا بہت دقت طلب ہے۔ اس کے لئے وقت اور مشاہدے کے علاوہ موضوع سے متعلق مطالعہ لازمی ہوتا ہے۔ یورپ کے زیادہ تر اردو قلمکاروں کے پاس یہ سہولیات نہیں ہیں اور خواتین تو اتنی مجبور و مصروف ہوتی ہیں کہ ان کے لئے ایک فکر انگیز ناول لکھنے کا خیال ہی ہفت خواں کے برابر ہے۔ یورپ کے اردو فکشن میں خواتین کا تقریباً اجتہادی کردار رہا ہے پھر بھی ان میں سے کسی نے ایک بھرپور ناول لکھنے کی کوشش نہیں کی ہے۔
خواتین کی مجبوریوں سے قطع نظر عام لوگ بھی اس میدان میں قدرے مضمحل اور شکستہ پا سے نظر آتے ہیں ، حالانکہ ناول میں ایک سہولت یہ ہوتی ہے کہ تخلیق کار کے پاس اظہار خیال کے وافر بہانے اور مواقع ہوتے ہیں مگر اس سے فائدہ اٹھا کر بہت سے لوگ اپنی سماجی ترجیحات ، مذہبی معتقدات یا ادب کے بارے میں ذاتی منشور بھی شامل کردیتے ہیں۔ اس کمزوری سے کوئی بھی فکشن نگار مبرا نہیں ہے۔ ناول میں یہ طرز کسی نہ کسی طرح نبھ جاتا ہے لیکن کہانیوں میں کسی مقصد کی ترویج کرنا اچھے اچھے فنکاروں کے لئے مشکل ہوجاتا ہے۔
مہارت اور کامیابی یہ ہے کہ قلمکار اپنی بات کہہ بھی دے اور یہ ظاہر بھی نہ ہوپائے کہ کہانی کار نے کس نفیس طریقے پر اپنے موقف و طرز فکر کی ترویج کردی ہے۔ ناول میں بہت سی باتیں کرداروںکی زبان سے اس طرح کہلائی جاسکتی ہیں کہ یہ سمجھنا مشکل ہوجائے کہ خود تخلیق کار کا موقف کیا ہے۔ اگر پورا ناول پڑھنے کے بعد قاری خود کسی نتیجے تک پہنچ سکے تو یہ عام طور پر اس کی صوابدید پر ہوتا ہے۔ کامیابی یہ ہے کہ لکھنے والا اپنے قاری کی انگلی پکڑ کر میلے کی سیر کرانے کا تاثر نہ دے۔
فکشن نگارشاعروں کی طرح خود میں ڈوبا اور سہارا دینے والا نہیں رہ سکتا ہے کیونکہ اس کا پہلا مقصد ظلم و زیادتی کے خلاف قلم آرائی ہوتا ہے۔وہ"فراغتیے و کتابے و گوشہ چمنے" کا طرف دار نہیں بلکہ بیشتر ہمنوا"بیا کہ قاعدۂ آسماں بگردانیم" کا ہوتا ہے۔ فکشن نگاری کے لئے ہماری جامعات میں کوئی نصاب ہی نہیں ہوتا ہے۔ ایسٹ اینگلیا یونیورسٹی میں تخلیقی نگارشات کی باقاعدہ تعلیم ہوتی ہے امریکی یونیورسٹیوں میں تقریباً ہر جگہCreative writingکے کورس ہوتے ہیں۔ ہماری ادبی دنیا میں فکشن نگار کو اپنا اسلوب اور طریقۂ اظہار خود ایجاد کرنا ہوتا ہے۔ اچھے فکشن کے لئے ضروری ہے کہ تخلیق کار معیاری اور کلاسیکی فکشن کا مطالعہ کرتا ہو یا پھر کسی تخلیقی نگارشات کے ادارے سے فیض یاب ہوچکا ہو۔ اردو میں یہ دونوں باتیں نہیں ہیں۔ تاہم ان موانع و مجبوریوں کے باوجود مغرب میں اردو افسانے کی محفلوں پر مکمل جمود کی عملداری نہیں ہے۔ یہاں کے فکشن میں ناول نگاری، قسط وار داستانوں یا ناولٹ کے بجائے مختصر کہانیوں کا ہی رواج ہے اور اس میدان میں زیادہ سر گرم عمل خواتین ہیں۔ مرد افسانہ نگار دوچار تو بہت اچھے نکل رہے ہیں باقی جو ہیں وہ مستند اور زیادہ تراتنے معمر ہیں کہ جذبات و مشاہدے سے کسبِ فیض کرکے اپنی فکر کو کوئی نیا رخ دینے پر قادر ہی نہیں رہ گئے ہیں۔
مغرب میں افسانہ یا بحیثیت مجموعی فکشن کا ذکر کرتے ہوئے یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس فن پر عورتوں کی تقریباً اجارہ داری ہے۔ مرد افسانہ نگاروں خاص طور پر مقصود الٰہی شیخ اور جتیندر بلو کے افکار پر بہت گہری چھاپ ابتدائی عمر کی تہذیبی و معاشی اقدار کی ہے ، جب کہ خواتین کی اکثریت نئے حالات ، نئے زمین و آسمان اور نئی صدی کے تناظر میں کچھ کہہ رہی ہے۔ بقول فراق ان کے صر پر خامہ میں نئے دور کی گنگناہٹیں بھی سنائی دیتی ہیں۔ محسنہ جیلانی، صفیہ صدیقی اور پروین لاشاری کی نگارشوں میں میں مختلف المزاج تہذیبوں کا سنگم دیکھاجاسکتا ہے۔ جبکہ دوسری لکھنے والیوں خاص طور پر بانوارشد، طلعت سلیم، سلطانہ مہراور رضیہ اسماعیل وغیرہ کے قلم کو تھر تھراہٹوںمیں مستقبل کے تذبذب کے علاوہ خود اعتماری کی لہریں دیکھی جاسکتی ہیں۔ حمیدہ معین رضوی، فیروزہہ جعفر اور نعیمہ ضیاء الدین بھی چاند تاروں کی دنیاؤں میں بسنے کے بجائے زمینی مسائل کی سنگلاخ چٹانوں سے دست و گریبان نظر آتے ہیں۔ فیروزہ جعفر اور ایک دوسری ان کی ہم عصر فیروز مکرجی کے بے وقت انتقال سے فکشن کی دنیا کا بڑا نقصان ہوا۔
یورپ کے اردو فکشن نگاروں نے جب بھی کہانی کے ڈھانچے کی طرف توجہ کی تو اسے اکثر و بیشتر بر صغیر کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی ، جس کی وجہ سے برطانیہ کی اردو کہانی کے بین السطور میں بر صغیر کی معاشی و سیاسی نااستواری کے ارتعاشات بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ یورپ میں اردو کہانی جیسی بھی لکھی جارہی ہے ، وہ یورپ کے عبوری دور کی رومانیت سے بالکل الگ ہے۔ اس میں حقیقت پسندی کے وہ عناصر نمایاں ہیں جنہوں نے بر صغیر میں ترقی پسند ادب کی تحریک کو جنم دیا۔ اس کہانی کے بعض پہلوخاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مثلاً یہ کہ مغرب کے لکھنے والے سماجی وعصری وقوف کی نمائندگی کرتے ہوئے واحد متکلم سے کام نہیں لیتے ہیں ، جس دور میں جدید کا فسوں طاری ہوا تھا، عام طور پر سبھی کہانی کا واحد متکلم اور حال رواں کی تصویر کشتی کرتے تھے۔ وہ ، یہ ، تھا، ہوگا قسم کے فعل اور ضمائر غائب ہوگئے۔ لکھنے والے کہتے ہیں۔۔۔۔" میں سوچ رہا ہوں۔"
ممکن ہے اس روش کا یہ نتیجہ ہو کہ بقول کسے فکشن سے واقعہ اور کہانی تو غائب ہوگئی صرف بیانیہ رہ گیا۔ مگر اس طرح کے ذاتی رنج و غم کی تنہائیاں یہاں کے لکھنے والوں کے طرز نگارش پر اپنے منحوس سائے نہ پھیلا سکیں۔ یورپ میں رہنے والے سب مردوزن متفکر و متردد، عام انسانیت کی کشمکش کے بارے میں ہیں، ان کے ساتھ ان سب کا رشتہ اردو کے شائستہ و تہذیبی سرمائے سے بھی برقرار ہے۔ یہ سب قلمکار ، خاص طور پر خواتین ، اعلی درجے کے تعلیم یافتہ ہیں۔ کشاکش اقدار نے انہیں وہ بالغ نظری اور گیرائی عطا کی ہے جس کی کمی بر صغیر کے فکشن نگاروں میں اکثر و بیشتر محسوس کی جاتی ہے۔ بر صغیر کے مسائل پر اپنی شدت کے باوجود محدود ہیں۔ پورے بر صغیر کے افسانوی سرمائے کو ایک جملے "سماج میں کرپشن بہت ہے" میں سمیٹا جاسکتا ہے لیکن مغرب میں لکھنے والے ہر کہانی کار کے تجربات و تاثرات نادر واور پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ ہر واقعے، ہر حادثے اور ہر انفرادی تجربے کو وسیع تر پس منظر میں دیکھنے کے عادی ہیں۔ اس کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو بلوغ کی ابتدائی منزلوں سے نہیں گزرنا پڑڑتا۔ یہاںوہ شکل بالکل نہیں نظر آئے گی جو دنیا کے ہر فکشن کی علت غائی سمجھی جاتی تھی۔ مثلاً یہ کہ ہرارمنی کہانی کی ابتدا اس طرح ہوتی تھی: "ایک تھا لڑکا" یورپ میں کہانی کی اٹھان یوں ہوتی ہے : وہ ایک تاریک اور طوفانی رات تھی۔"بر صغیر کے بارے میں سب کو معلوم ہے ہم شروع کرتے تھے:"کسی زمانے میں ایک بادشاہ تھا، ہمارا تمہارا خدا بادشاہ"۔۔ چین کی قدیم ہی نہین انقلاب کے بعد کی کہانیوں میں بھی بنیادی نکتہ یہ رہتا تھا کہ کسی شہر میں ایک طالب علم تھا۔ روسی کہانیوں کے بارے میں سب اردو والوں کو معلوم ہے وہ کس طرح نوکر شاہی اور بابو گیری کے چمچوں کے تذکروں سے بھرپور تھیں۔
مغرب میں اردو کہانی لکھنے والوں کو اس منزل اول سے نہیں گزرنا پڑا۔ یہاں کے لکھنے والوں کو اس سے غرض نہیں ہے کہ لڑکا لڑکی سے مل پاتا ہے یا نہیں۔ ظالم سماج رسوم و رواج سے پستی ہوئی لڑکیوں کو کنویں میں کودنے پر مجبور کرتا ہے یا نہیں اور امیر و غریب کی سدا بہار رومانی ، المناک یادودل پذیر کو کا گھیڑیاں کن منازل پر منتج ہوتی ہیں۔ یہاں مسئلہ یا یوں کہئے آویزش افکار و اقدار، تہذیبوں کے تموج و تسلسل یا سامراج کے نوجیون کا ہے۔ مسائل یا خطرات"ترے اندیشے ہیں افلاکی" کی تفسیر ہیں۔ ایک اور خوش آئندہ بات یہاں یہ رہی ہے کہ اردو فکشن نگاروں کو لاطینی امریکہ کی جادوئی حقیقت نگاری یا ملکوں و نسلوں کے عقائد و توہمات کو گھونٹ پیس کر بارہ مسالوں کی چاٹ بنانے سے بھی دلچسپی نہیں رہی ہے۔
یہ ضرور ہے کہ یورپ اور امریکہ کے اچھے فکشن نگاروں کی اگر گنتی کی جائے تو درجن دو درجن سے زیادہ نام نہ ملیں گے۔ ان کے فن، تکنیک اور زبان میں نقائص اور سقائم بھی پائے جاسکتے ہیں لیکن یہ لوگ روایات، فرسودہ نگاری کے اسیر بہرحال نہیں ہیں ، یہ سب قلمکار زوال و قدامت پسندی کو تج کر ہر لحظہ نیا طور، نئی برقی تجلی کے غماز ہیں۔ اس تابناک رجائیت اور حوصلہ مندی ہی کو مغرب میں اردو کہانی کا واضح رجحان کہاجاسکتا ہے۔
ماخوذ از کتاب: اے دانشِ حاضر
تصنیف: قیصر تمکین۔ ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی (سن اشاعت: 2008ء)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں