قہقہہ - افسانہ از ہاجرہ نازلی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-02-21

قہقہہ - افسانہ از ہاجرہ نازلی

پہلے ٹھیکری کے رشتے کا بہت رواج تھا، مگر اب تو اس رواج پر ہی ٹھیکرے برسنے لگے۔ بچی پیدا ہوئی اور کسی خالہ ،پھوپی، چچی، ممانی نے اپنے لڑکے کے لئے گندی ٹھیکری میں روپیہ آٹھ آنے ڈال دئیے اور کہہ دیا"یہ میری ہوگئی ۔"


لیجئے ہر طرف سے مبارک سلامت ہوئی، مونہہ میٹھا ہوا اور رشتہ منگنی سے فارغ ہوگئئے، دو معصوم بندھ گئے رواجی بندھنوں میں۔۔۔ وہ مقدس عہد جو بڑے ہوکر ان بچوں کوکرنا تھا۔۔۔ وہ ان کے والدین نے کردیا، چھٹی ہوئی ۔
اب خواہ بڑے ہوکر یہ آزاد، جواہر بنے یا بھوپت ڈاکو۔۔۔ اس سے کیا بحث ہے ۔۔۔ ماں باپ جنم کے ساتھی ہیں کرم کا کوئی سنا تھی نہیں، جو کچھ قسمت میں ہوگا ہوکر رہے گا۔۔۔ مگر جیون ساتھی کی تو سب کو ہی ضرورت ہے ۔ اس ضرورت سے تو جانور بھی مبرا نہیں ہیں۔۔ اور پھر شوہر بیوی کا تو جنتی رشتہ ہے ماں، باپ ، بھائی، بہن وغیرہ تو سب بعد کی پیداوار ہیں باوا آدم کے لئے سب سے پہلے جیون ساتھی ہی اللہ نے پیدا کیا تھا۔


لیلیٰ کے پیداہوتے ہی اس کی پھوپی نے ٹھیکری میں روپیہ ڈال کر اعلان کردیا "یہ میرے امین کی بہو ہے ۔‘]
اور پانچ برس کے ننھے سے امین نے اچھل کود کر بہو کا خیر مقدم کیا"ابا جی میری دلہن آئی، اماں نے ہمارے لئے دلہن منگائی ۔"
اب اس وقت اس کا گلا دباکر کون کہتا کہ"نامعقول ابھی سے کیا خوش ہورہا ہے ، بڑا ہوکر نہ جانے توہی کیا قیامت برپا کرے گا، ابھی بسنت کی خبر تو ہے نہیں لگا شور مچانے ۔۔۔"


وقت کے تو جیسے پر لگے ہوئے ہیں گذرتا نہیں اڑتا ہے ، یا ماہ و سال ہی سکڑ کر چھوٹے ہوگئے ۔۔ ایک ہی گردش میں روس کے اپتنک کی طرح دن رات پھک سے گزر جاتے ہیں ، دیکھتے ہی دیکھتے مہینے بنے اور مہینے جڑ کر سال ختم ۔۔ نہ جانے گذرا ہوا وقت کھوجاتا ہے، لاکھ ڈھونڈتے رہ جاؤ۔ ماضی اندھیروں میں گم ہوا اور حال کی تلخیاں مستقبل سے خوف زدہ رکھتی ہیں۔ اس زمانے میں ہر گذرنے والا لمحہ آنے والے تلخ لمحوں کی نشان دہی کرجاتا ہے ۔
کل کے بچے۔۔۔آج کے نوجوان نظر آتیے ہیں، مگر وہ کل ہی بڑیے غضب کی تھی اپنی گود میں کھیلنے والے ان بچوں کا شعور وقت سے پہلے بیدار کر گئی ۔ انسانی زندگی کا نقطہ آغاز اپنی زندگی کا شعور ہی تو ہے ۔۔۔ اور یہی شعور جب بیدار ہوجاتا ہے تو زندگی میں حرکت عمل اور ارتقا شروع ہوتا ہے۔۔اور آج کے نوجوانوں کا یہی ارتقا ہمارے لے تحیر زا ہے۔۔ کس تیزی سے ترقیات کے زینے طے ہورہے ہیں ۔۔ ان لمبی لمبی چھلانگوں کا بھلابیس سال پی چھے کے لوگ کیا مقابلہ کرسکتے ہیں ۔۔۔؟
یہ نوجوان گورے کالے، سانولے ، اونچے، نیچے، رنگ برنگے ، مختلف ڈیزائن کے مختلف خانوں میں فٹ ہیں۔۔ اور ان سب کے مزاجوں کا الگ الگ ہی سیکشن ہے ،سیدھے سادھے نیک اللہ میاں کی گائے قسم کے ،چالاک، ضدی، خود سر ، مونہہ پھٹ، جیسے کسی کھونٹے بندھے ہی نہیں ۔


اس موئی"کل" کویہ کیا خبر تھی کہ گود میں شیطان پل رہے ہیں؟ وہی سانولا امین بڑے ہوکر گنے کے رس کا میل ہوکر رہ گیا۔ گہری سیاہی میں سبزی کی جھلگ، اگرچہ ناک نقشہ خاصا تھا۔ مگر جسم کے اس کولتار کو چھڑا دینا، اس کے بس میں نہیں تھا۔
مگر اس کو اپنی سیاہی کا غم نہ تھا۔۔ اکثر اس کے کانوں میں ماں، خالہ، اور پھوپی وغیر کے یہ الفاظ گونجا کرتے تھے، "مرد کی صورت نہیں دیکھی جاتی ، کمائی دیکھتے ہیں۔"


"مرد تو سانولا سلونا ہی اچھا لگتا ہے، گورا چٹا کس کام کا ساڑی شلوار پہنادو تو زنخا معلوم ہو، ذرا وقار نہیں ہوتا، سفید مرد پر۔"
"اصل چیز تو مرد کی بہادری ہے، خوبصورت مرد پر زنانہ پن برستا ہے ۔"
ظاہر ہے اس قسم کے ریمارک سن کر امین اپنی سیاہی پر خدا کے لاکھ لاکھ شکر کرتا ہوگا۔۔۔ کمانے بھرکا علم بھی اس کے پاس تھا اور کمائی بھی تھی۔ وہ اپنے آپ کو کسی ہیرو سے کم تھوڑا ہی سمجھتا تھا۔!


امین اور لیلی کے ماں باپ وطن سے دور پیٹ کے دیس میں رہتے تھے، امین کی تو سمجھو لیلیٰ سے ٹھیکری کی منگنی تھی ، اور اس کی بہن آمنہ کی منگنی کنبے کے ایک مالدار گھرانے میں ہوئی تھی ۔ بشیر پڑھا لکھا نیک سیرت لڑکا تھا اس کے ساتھ آمنہ کی منگنی آمنہ کی خوش قسمتی تھی، اچھے لڑکے قسمت سے ہی ملتے ہیں۔۔۔ امین لیلی اور آمنہ جوان ہوچکے تھے ، بیٹی پر جوانی ماں باپ کی پریشانی بن کر آتی ہے ۔۔ جوان بیٹی ماں باپ کے سینے کا پتھر ہوتی ہے ۔ جب تک یہ وزنی پتھر ہٹ نہ جائے ۔ نیندیں حرام رہتی ہیں ۔ لیلی کے باپ بھی جوان بیٹی کے فرض سے جلد سبکدوش ہونا چاہتے تھے ۔ بہنوئی سے ذکر کیا۔۔۔ انہیں کیا انکار ہوسکتا تھا۔ وہ بھی بیٹے کے سہرے کے ارمان میں تھے اور سوچتے تھے بیٹے کی دلہن اپنے گھر اور بیٹی کو پرائے گھر ایک ہی دنمیں کردیں گے کچھ خرچ ہی کی کفایت رہے گی ۔
سالے سے کہہ دیا تم وطن چلو، تیاری کرو، میں بھی ہفتے بھر میں پہنچ جاؤں گا۔


وطن پہنچ کر امین کے مونہہ کا ایسا تالہ ٹوٹا کہ سب ہی دم بخود رہ گئے ۔
اس کی ٹوٹکے بھر کی زبان ہلی مگر ہر ایک پر جیسے بم پھٹ پڑا، پہاڑسر پر آگرا ، ماں باپ کا تو جیسے دم اوپر کا اوپر رہ گیا۔ بھائی بھاوج کے سامنے ایسی رسوائی ہوئی کہ آنکھ اٹھانے کے قابل نہ رہے ۔۔۔ امین کی نامعقولیت کی انتہا تھی کہتا ہے "میں لیلیٰ سے شادی نہیں کروں گا وہ تو کالی ہے ۔۔۔"
ہائے غضب خدا کا ٹھیکری کا رشتہ اور عین شادی کے موقع پر کم بخت نے انکار کردیا۔۔۔ لیلیٰ کے ماں باپ کو تو جیسے سکتہ ہوگیا ، اک دم تو وہم رہ گئے ۔ ساری تیاری مکمل ہوچکی تھی بیٹی کا معاملہ ،نام نکل گیا تو کیا ہوگا ۔۔ ؟ کہتے ہیں نکلا گاؤں ہاتھ آجائے ، نکلا نام ہاتھ نہیں آتا۔۔۔۔۔
ماں نے رو پیٹ کر اور باپ نے آنکھیں نکال کر بیٹے کو سمجھانا چاہا۔۔ بھلا وہ بانگر و بیل کسی کے قابو کا تھا۔۔ باپ کا کرودھ اور ماں کی تملق و چاپلوسی سب ہی مسترد ہوگئے ۔۔ یہ وہی کل کا ننھا بچہ تھا جس نے اچھل کود کر شور مچایا تھا۔۔ کانوں کے پردے پھاڑے تھے ۔۔ "ابا جی ہماری دلہن آئی ۔ اماں نے دولہن منگائی۔"


اور ادھر لیلیٰ کے باپ نے سر جھٹک کر فوراً ہی ایک فیصلہ کرلیا۔ وہ بیٹی کی اس توہین پر تلملا گئے ۔۔ ۔امین ان کابھانجہ سہی مگر، بھٹ پڑے وہ سونا جس سے ٹوٹیں کان، امین کو وہ ایسا سبق پڑھانا چاہتے تھے کہ اس کے دل کی گہرائیاں تک لرز اٹھیں۔
کہتے ہیں بیٹی تو فقیر کی بھی بیٹھی نہیں رہتی، اگر لیلی کو کالی کہہ کر امین نے ٹھکرادیا تو کیا ہوا۔۔۔ لیلی وہ مہکتا ہوا پھول تھی جس کی بھینی بھینی خوشبو ہر جگہ پھیل چکی تھی وہ سانولی ضرور تھی، مگر اس کے ستواں ناک بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں، تراشیدہ لب اور موتی ایسے دانت، وہ ان لڑکیوں سے کہیں زیادہ حسین تھی جو صرف چمڑی کی سفیدی سے حسین کہلاتی ہیں، بہت سے اندھے چندھے بھی گور ہوتے ہیں، کہو وہ بھی حسین ہیں ۔ لاحول ولا قوۃ ، خالی گوری چمڑی تو حسن نہیں کہلا سکتی !
لیلی اپنے ملیح حسن کے ساتھ حسن سیرت میں بھی سیکڑوں میں انتخاب تھی ۔اور وہی اس کا اصل حسن تھا۔


عورت۔۔۔۔ جو انسانیت کی ازلی رعنائی ہے ۔۔ جو اس حیات پر ور ماحول کی نمائندہ ہے ۔۔ امین نے اس کی زندگی میں کانٹے بھرے اس کی پرسکون زندگی کو طلاطم بخشا، سماج کے زہر میں بجھے ہوئے تیروں کا ہدف بنایا۔ اس کے لئے ایسا ماحول تیار کیا جہاں انتشار اور بدنامی کے سوا اس کو کچھ حاصل نہ ہو۔
وہی لیلی جو اپنے مستقبل کا تابندہ نقش اپنے حال کے آئینہ میں دیکھتی تھی ۔ اس مجلا آئینے کو امین نے چور چور کر ڈالا ۔۔ وہی تابندہ نقش اندھا ہوکر ایک سیاہ دھبے میں تبدیل ہوگیا۔۔۔ لیلی "ٹک ٹک دیدم دم نہ کشدم ، کے مصداق رہ گئی ۔
باپ نے اپنی قرۃ العین کو دیکھا۔۔۔ اور ایک فوری فیصلے پر مجبور ہوگئے ۔ امین کے جواب دینے کے بعد سے لیلیٰ کے لئے پیاموں کی جیسے بارش ہوگئی ۔ اس جگمگاتی روشنی سے ہر ایک اپنا گھرمنور کرنا چاہتا تھا ۔۔۔ اور جب لیلی کے باپ کے فیصلے نے عملی جامہ پہنا تو امین کو دن میں تارے نظر آگئے ۔ اس نے اپنے دماغ میں ایک زبردست جھناکا سامحسوس کیا اوراس کا سر چکرا گیا۔
لیلی کے باپ نے لیلی کی شادی امین کی بہن آمنہ کے منگیر بشیر سے کردی۔


"کیا ماموں یہی جواب دے سکتے تھے۔۔۔؟" جیسے امین نے خود سے سوال کیا۔
"اس سے بہتر جواب اور ہوبھی کیا سکتا تھا !" جیسے کسی نے امین کے کان میں کہا۔
اور امین بوکھلا گیا۔۔۔ اس کی معصوم بہن آمنہ نے بھائی کی حماقت کی سزا بھگتی ۔۔۔ جیسے امین کے دل کی گہرائیاں چیخ اٹھیں۔
اگر ایک طرف اس کو خیال ہواکہ ماموں نے اپنی بہن اور معصوم بھانجی پر ظلم کیا ۔ تو دوسری طرف اس کو خود اپنے اندر سے آواز آتی تھی کہ تونے بھی اپنے ماموں اور ان کی معصوم بیٹی پر ظلم توڑا تھا۔۔اب اس گنبد کی صدا سے کیوں تلملایاجاتا ہے ۔ جیسی کہی ویسی اب سن۔۔ !دوسریے کی عزت کو پیروں میں روندتے وقت اپنی عزت کی طرف سے کیوں آنکھیں بند کرلی تھیں ؟ کسی کی بیٹی کو بدنام کرتے ہوئے، اپنی بیٹی کا خیال کیوں نہ آیا۔۔۔۔؟


آمنہ بے قصور تھی وہ چپ رہ گئی ۔ چنے کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے ۔
لیکن لیلیٰ کے باپ جانتے تھے کہ یہ ایک جذباتی جواب تھا جو امین جیسے لوگوں کو ملنا ہی چاہئے تھا ۔ لیکن بھائی کے قصور کی سزا بہن کو نہ ملنی چاہئے لہذا انہوں نے ایک بہتر لڑکا منتخب کرکے بہن بہنوئی سے آمنہ کی شادی کے لئے کہا اور دونوں نے سر جھاکر منظوری دے دی اور آمنہ کی شادی منظور جیسے ہونہار نوجوان سے ہوگئی ۔
اور امین کو لہو کے بیل کی طرح وہیں کا وہیں گردش کررہا تھا۔
لیکن ماں باپ کے لئے تو سب ہی اولاد برابر ہے ۔ دونوں ہی آنکھیں پیاری ہوتی ہیں خواہ ایک آنکھ میں آشوبب ہی کیوں نہ ہو۔۔ انہیں امین کا فکر تھا۔۔۔ جس کی آرزو ئیں اور تمنائیں وقت کے ریگستان میں دفن ہوکر رہ گئیں تھیں۔۔۔۔ آخر بڑی تک دو کے بعد امین کی منگنی ناعمہ سے ہوگئی ۔ ناعمہ کی صرف چمڑی ہی گوری نہیں تھی ۔۔ وہ ناک آنکھ سے بھی درست ایک خوبصورت لڑکی تھی ۔۔ اور جب امین کو اس حقیقت کا علم ہوا تو جیسے اس کی ساری ہی سوئی تمنائیں اور آرزوئیں کسمساکر بیدار ہوگئیں۔ اس کی آنکھوں میں رنگ و نور کے شرارے ابھرنے لگے۔ جیسے دم توڑتی امنگوں کوبیووٹی کوئن ناعمہ کا سہارا مل گیا۔۔۔۔!
دیر کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی ۔۔ گھر میں شادی کا ہنگامہ شروع ہوگیا اور ایک دن وہ بھی آگیا جب سہرے، گجرے سے آراستہ دلہا بناہوا امین خوشی کے شادیانے بجاتا بارات لے کر ناعمہ کو بیاہتے پہنچا۔۔ مگر اس نے حیرت سے دیکھا، نہ بارات کا استقبال۔۔۔۔۔۔۔۔نہ خوشی کے نغمے۔۔ نہ قہقہے اور چہچہے۔۔ یہ کیا۔۔۔۔؟ سب لوگ کچھ بیزار سے نظر آئے۔۔۔ امین نے آنکھیں گھماگھماکرہر طرف دیکھا کہیں تو خوشی کی پھلجھڑی چھوٹتی ہوئی نظر آجائے ۔۔ مگر توبہ کرو وہاں تو ہرطرف سکوت کارفرما تھا۔۔ امین کا دم گھٹنے لگا۔۔۔یہ سب کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟ یہ سب کیوں ہے۔۔۔؟ سوالیہ نشانوں کی ایک فوج سی اس کے ذہن کے پردے پرکھڑی تھی، قاضی صاحب کے نکاح کے بارے میں پوچھنے پر کسی نے بڑھ کر جیسے امین کے سینے پر توپ داغ دی۔


"ناعمہ کہتی ہے کہ میں امین سے شادی نہیں کروں گی وہ تو بہت کالا ہے ۔"
اور امین کی آنکھوں کے سامنے جیسے پوری کائنات رقص کرنے لگی، اچانک اس کے ذہن کا دریچہ کھلا اور ایک سانولا سلونا مگر بے حد تابناک چہرہ نمودار ہوا۔۔ اس کی خوبصورت آنکھوں کے گوشے طنز سے سکڑے ،ہونٹ کھلے اور منہ سے ایک قہقہہ ابل پڑا۔۔۔۔۔!

***
ماخوذ از رسالہ: بانو (نئی دہلی) - جنوری 1960ء (سالنامہ)

Qahqaha. Short Story by: Hajira Nazli.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں