مصر کی ملکہ کلو پیٹرا کو آج تک دنیا کی حسین ترین عورت سمجھاجاتا ہے ممکن ہے بعض لوگوں کو اس سے اختلاف ہو ۔ لیکن اس حقیقت سے مجال انکار نہیں کہ اس حسین ملکہ نے اپنے حسن و جمال، اپنی خونخوار فطرت اور اپنی محبت کے افسانوں کی بدولت دنیا کی تاریخ میں ایک ناقابل فراموش حیثیت اختیار کرلی ہے ۔
ابھی وہ سولہ سترہ سال کی ہی کی تھی کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ان دنوں مصر میں بھائی بہن کی شادی کا رواج عام تھا۔ کلو پیٹرا کا باپ مرتے وقت وصیت کرگیا تھا کہ اس کی شادی اس کے چھوٹے بھائی کے ساتھ کردی جائے ۔ لیکن بھائی نے تخت پر بیٹھتے ہی کمال عیاری سے کام لیا اس نے امیروں وزیروں کو اپنے ساتھ ملاکر بہن کو تخت و تاج سے محروم کردیا اور وہ مصر سے نکل جانے پر مجبور ہوگئی ۔
کلو پیٹرا مصر سے نکل کر چند وفادار ہمراہیوں کے ساتھ شام پہنچی۔ اس کے سینے میں انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی۔ شام سے اس نے جولیس سیرز کو ایک پیغام بھیجا۔ جولیس کے کانوں تک اس کے حسن عالمتاب کی شہرت پہنچ چکی تھی۔ وہ لاؤ لشکر لے کر چل پڑا ۔ نام کا شیدا تو پہلے ہی تھا۔ صورت دیکھ کر اور بھی دیوانہ ہوگیا۔ کلو پیٹرا نے اپنے حسن کے جادو سے جولیس سیرز کو اپنا بندہ بے دام بنالیا اور وہ دل وجان سے اس کی امداد پر آمادہ ہوگیا ۔
کلو پیٹرا کے عاشقوں میں بیسوں شہزادے اور سینکڑوں جرنیل اور سردار شامل تھے ۔ باہمی رقابت کا یہ عالم تھا کہ آپس میں کت کٹ کر مررہے تھے۔ مگر جس وقت انہیں جولیس سیرز کی کامیابی کا حال معلوم ہوا۔ تو سب کے سب متحد ہوکر اس کے ساتھ جنگ کرنے کو تیار ہوگئے ۔ مرائے نامی ایک مشہور باغی رومن سردار سپہ سالار بن گیا۔ کئی ماہ تک جنگ و جدل کا ہنگامہ گرم رہا اور مقتولوں کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچی۔
کلو پیٹرا کو اس قتل و خون سے بے حد مسرت ہوتی تھی۔ بعض مورخوں نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ وہ اپنے عاشقوں کے خون سے غسل کیاکرتی تھی ۔ اس کی اس خواہش نے جولیس سیرز کو بھی حد درجہ کا بے رحم اور خونخوار بنادیا تھا۔ وہ کلو پیٹرا کے عاشقوں کو گرفتار کرکے لاتا۔ کلو پیٹرا انہیں طرح طرح کی اذیتیں دے کر مرواتی اور ان کی آہ و بکا سن کر قہقہے لگاتی۔ جولیس سیرز جنگ و جدل میں مصروف رہتا اور کلو پیٹرا اس کے محل میں عیش کرتی تھی ۔ جولیس سیرز اس کی ہر حرکت کو نظر انداز کردیتا تھا۔ حتی کہ اس نے جولیس کی کئی بیویوں کو دریا میں ڈبو کر مروادیا۔
آخر جنگ ختم ہوگئی۔ جولیس سیرز کا میاب و کامران ہوا۔ مگر لوگ کلو پیٹرا کی حرکات سے اس قدر ناراض ہورہے تھے کہ شہنشاہ نے کلو پیٹرا سے چھٹکارا حاصل کرلینے ہی میں مصلحت سمجھا۔ ادھر کلیو پیٹرا کا بھائی لرزہ براندام تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر بہن کے مطالبات منظور نہ کئے تو جولیس سیرز مصر کی اینٹ سے اینٹ بجادے گا۔ آخر وہ کلو پیٹرا کو مصرلے گیا جہاں بہن بھائی کی شادی ہوگئی ۔
جولیس سیرز واپس تو آگیا لیکن دل کو قرار نہ تھا۔ ادھر کلو پیٹرا بھی اس کے بغیر نہ رہ سکتی تھی ۔ دونوں کے عشق و محبت کے حالات پہلے ہی طشت از بام ہوچکے تھے۔ لیکن کلو پیٹرا نے کسی بات کی پرواہ نہ کی ۔ وہ سیر کے بہانے روم جاپہنچی ۔ وہاں اپنے شوہر کو زہر دے کر مار ڈالا۔ اور جولیس سیرز کے ساتھ گلچھڑے اڑانے لگی۔ لیکن جولیس سیرز کی یہ عیش پرستی آخر رنگ لائی۔ بغاوت کی آگ بھڑک اٹھی۔ اور جولیس سیرز باغیوں سے لڑتا ہوا مارا گیا۔
جولیس سیرز کے موت کے صدمہ سے کلو پیٹرا کے ہوش و حواس جاتے رہے ۔ وہ بہت عرصہ تک پاگلوں کی طرح گلی کوچوں میں پھرتی اور جنگل بیابانوں کی خاک چھانتی رہی ۔ آخر عشق کا بھوت اترا تو وطن کی سوجھی اور مصر کو لوٹ آئی۔
روما میں خانہ جنگی اور بغاوت کا سرغنہ جولیس سیرز کا مشہور جرنیل انطونی تھا۔ وہ بھی کلو پیٹرا کو دل دے بیٹھا تھا۔ جولیس سیرز کی موت سے میدان صاف ہوگیا۔ تو اس نے کلو پیٹرا کو شادی کا پیغام بھیجا۔ کلو پیٹرا ایک آراستہ اور پیراستہ جہاز پر سوار ہوکر اپنے عاشق کی ملاقات کو آئی۔ انطونی محبت میں دیوانہ ہورہا تھا۔ وہ روما کو خیرباد کہہ کر مصر آگیا دن عید اور رات شب برات کی مانند گزرنے لگی۔ ان کی والہانہ محبت کے چرچے اس قدر بڑھے کہ لوگوں نے ان کی پرستش شروع کردی۔
یکایک ان کی حسین اور خوش گوار زندگی میں ایک انقلاب پیدا ہوگیا۔ انطونی کی گرمجوشی سردمہری میں تبدیل ہونے لگی۔ اس کے حسن پرست دل کو کسی اور حسینہ کی تلاش ہوئی۔ اس کی نئی محبوبہ اوکٹویہ نہایت حسین اور شباب کی تمام رعنائیوں کی مالک تھی۔ انطونی کلو پیٹرا کو چھوڑ کر اس کی زلفوں کا اسیر ہوگیا۔ لیکن کلو پیٹرا اب بھی اسے اپنے دل کی تمام گہرائیوں سے چاہتی تھی ۔ آخر اس کی سچی محبت نے اثر دکھایا اور انطونی پھر اسی کا ہوگیا۔
لیکن اب انطونی کے دل میں سلطنت کی ہوس پیدا ہوگئی اور وہ ایک جرار فوج لے کر روما پر چڑھ دوڑا۔ کلو پیٹرا نے اس کی ہر طرح امداد کی ۔ مگر کامیابی نہ ہوئی اور اسے شکست کھاکر واپس لوٹنا پڑا ۔ اب تو کلو پیٹرا ندامت سے کٹ گئی ۔ اس کی محبت بھی اسے ایک شکست خوردہ بھگوڑے سے ملاقات کرنے پر مائل نہ کرسکی ۔ چنانچہ اس نے ملاقات سے انکار کردیا۔ اس انکار کا انطونی کو اس قدر صدمہ ہوا کہ وہ دوسرے دن اس دار فانی سے کوچ کرگیا۔ اور ادھر کلو پیٹرا نے شکستہ دل ہوکر اپنے سینہ کو سانپ سے ڈسوالیا۔
یہ تھا اس خونخوار حسینہ کا انجام!
ماخوذ از کتاب: بڑے آدمیوں کا عشق۔ تالیف: خوشتر گرامی
ناشر: پریم شاستر بک ڈپو، لاہور (سن اشاعت: طبع سوم 1937ء)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں