اسلام میں خدمت خلق کا تصور - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-01-20

اسلام میں خدمت خلق کا تصور

concept-of-social-welfare-in-islam

اسلام ایک دین فطرت ہے اس لیے اس نے اس کی تمام ضروریات اور حاجات کی تکمیل کاپورا بندوبست کیا ہے۔ یہ بندو بست اس کےتمام احکام واوامر میں نمایا ں ہے۔اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو سراپا خیر و رحمت ہے، حسن سلوک خیر خواہی سے عبارت ہے دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ اور مخلوق خدا کی خدمت اس کا طرۂ امتیاز ہے، یہی وجہ ہے کہ اس دین کو رحمت اس کے خدا کو رحمن ورحیم اور اس دین کے نبی کو رحمۃ اللعالمین کہا گیا ہے۔


اسلام میں احترام انسانیت اور خلق خدا کے ساتھ ہمدردی وغمخواری کوبڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے کلام اللہ اور احادیث مبارکہ میں جگہ جگہ خدمت انسانیت کو بہترین اخلاق اور عظیم عبادت قرار دیا ہے، اسلام نے روزِ اول سے انبیاء کرام کے اہم فرائض میں اللہ کی مخلوق پر شفقت ورحمت او ران کی خدمت کی ذمہ داری عائد کی۔اس ذمہ داری کو انہوں نے نہایت عمدہ طریقہ سے سرانجام دیا۔اور نبی کریم ﷺ نے بھی مدینہ منورہ میں رفاہی، اصلاحی اور عوامی بہبود کی ریاست کی قائم کی۔بالجملہ اسلامی تعلیمات میں خدمت خلق پر غیر معمولی توجہ مرکوز کی گئی ہے، اور خدمت خلق دعوتی نقطۂ نظر سے بھی کافی مفید ہے، لہذا موجودہ ہندوستان میں اس کی اہمیت اظہر من الشمس ہے ، اور انسانیت کی خدمت میں کس کو کلام ہو سکتا ہے۔


خدمت خلق کے پیچھے دراصل اپنائیت کا جذبہ کار فرما ہے ، جتنا قریبی شخص ہوگا خدمت کا جذبہ اتنا ہی شدید ہوگا ، اور یہ خذبہ انسان کی فطرت میں ودیعت ہے، لیکن کبھی کبھی ذاتی اغراض، گروہی مفادات اور نفسانی خواہشات اس جذبے پر غالب آجاتی ہیں ، چنانچہ اسلام نے ان مفاسد کے خاتمے کے لیے خدمت خلق کو عبادت ،تقرب الی اللہ اور رضائے الہٰی کے حصول کا اہم ذریعہ قرار دیا۔ اور خدمت خلق دراصل خوف خدا ہی کا نتیجہ ہے۔
لہذا خدمت خلق کے لیے تزکیۂ نفس، تصفیۂ قلب اور تہذیب اخلاق نہایت ضروری ہے۔
البتہ یہ پیش نظر رہے کہ خدمت کرنا الگ چیز ہے اور خدمت لینا الگ، جہاں خدمت لی جاتی ہے وہاں بسا اوقات جبر کا عنصر شامل ہو جاتا ہے جو اسلامی مزاج کے خلاف ہے۔


خدمت خلق اخلاقیات کا اہم باب ہے، چنانچہ دیگر تمام مذاہب میں بھی اس کی تعلیمات ملتی ہیں، لیکن اسلام نے جس جامعیت اور ہمہ گیریت کے ساتھ اس پر زور دیا ہے وہ اسلام ہی کا خاصہ ہے۔ حتی کہ اسلام نے مخلوق کی خدمت کو خالق کی خدمت سے تعبیر کیا ہے۔
اسلام میں عبادت کی دو قسمیں ہیں:
(1) بدنی(2) مالی۔
اور مالی عبادت کا اہم مقصد خدمت خلق ہے، لہذا قرآن میں متعدد مقامات پر نماز کے ساتھ ساتھ زکوۃ کا حکم دیا گیا۔ اور مالی عبادت کبھی کبھی بدنی عبادت کا بدل بن جاتی ہے، یا بدنی عبادت میں جو نقص رہ جاتا ہے اس کی تلافی مالی عبادت کے ذریعے ہو جاتی ہے۔
بعض لوگوں کے پیش نظر صرف اپنے مفادات اور اپنی خواہشات ہوتی ہیں ، دوسروں سے تو فائدہ اٹھاتے ہیں، لیکن کسی کے کام آنا نہیں چاہتے۔ یا بعض لوگوں میں خدمت کا جذبہ تو ہوتا ہے لیکن نظر محدود ہوتی ہے۔ چنانچہ اسلام اس تعصب اور تنگ نظری کے بر خلاف پورے معاشرے، پوری امت کی خدمت کا سبق دیتا ہے اور تمام مخلوقات کو اللہ کا کنبہ قرار دیتا ہے۔
چنانچہ ہر مستحق کی خدمت ہونی چاہیے، لیکن اسلام میں صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ مرحلہ وارمستحقین کی پوری فہرست بیان کر دی گئی ہے۔ ( والدین، خویش و اقارب ، یتامیٰ ،مساکین، پڑوسی ،مسافر، غلام و محکوم وغیرہ)


خدمت خلق کا جذبہ اور اس کی آرزو تو ہر ایک کو ہوتی ہے لیکن عملی طور پر پیش قدمی کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ حالانکہ اس کے بغیر معاشرے کی مشکلات دور نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ اسلام نے خدمت خلق کے طریقے بھی تفصیل سے بیان کر دیے ہیں تاکہ ہر شخص اپنی وسعت کے بقدر انسانیت کی خدمت کر سکے، مثلاً : مالی تعاون، حسن سلوک ( محبت، ہمدردی، دلجوئی وغیرہ) ، معذور کی مدد کرنا، راہگیر کی رہنمائی کرنا، تکلیف دہ چیز دور کرنا ، اس کے علاوہ احادیث نبویہ میں اور بھی بہت سے طریقے بیان کیے گئے ہیں۔ اور نوع انسانی کی چھوٹی سی خدمت کو بھی صدقہ اور تقرب الی اللہ کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔


بعض اوقات انسان وقتی مدد کا سخت محتاج ہوتا ہے۔ اور کبھی کبھی مدد کرنے والا بھی وقتی طور پر ہی کچھ مدد کرنے کے قابل ہوتا ہے ، اسلام نے اس نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے وقتی خدمت کی اہمیت کو بھی تبکید کے ساتھ بیان کیا۔ مثلاً : کھانا کھلانا ، پانی پلانا، کپڑا پہنانا، ضرورت مند کی حاجت پوری کرنا، مریض کی عیادت و خدمت کرنا وغیرہ۔
جزوی یا وقتی مدد و خدمت معاشرے کے مسائل کے لیے کافی نہیں ہے، بلکہ ان کی محتاجی، تنگدستی اور مجبوری کو دور کرنے کے لیے منظم کوشش کی جانی چاہیے، ان کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے وسائل کی فراہمی ہونی چاہیے۔ مثلاً : مسکین، بیوہ، یتیم وغیرہ کو روزگار فراہم کرنا، یا ان کو کوئی ہنر سکھا دینا وغیرہ ، یہ بھی معاشرے کی بڑی خدمت ہے۔


اسلام نے انسان کی وقتی خدمت کی ترغیب کے ساتھ ساتھ خدمت کے بعض متعین پہلو بھی بیان کیے ہیں ، یہ وہ پہلو ہیں جو معاشرے کو اوپر اٹھانے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ مثلاً: مالی تعاون کرنا، قرض کے ذریعے مدد کرنا، ضرورت کی چیزیں ہبہ کرنا، کوئی چیز عاریتاً دینا، کاروبار میں شریک کرنا، مشورہ دینا، مظلوم کی حمایت کرنا وغیرہ۔
بسا اوقات ایک ہی چیز کی کئی افراد کو ضرورت ہوتی ہے ، رفاہی خدمات بڑے پیمانے پر لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کے لیے انجام دیں جاتی ہیں۔ اس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں۔ مثلاً : صفائی ستھرائی کا انتظام، کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرنے کا انتظام، مسافر خانے، شفا خانے وغیرہ کی تعمیر، عبادت و بندگی، تعلیم و تربیت، تبلیغ و دعوت جیسے دینی مقاصد کے لیے مراکز کا قیام، شجر کاری وغیرہ۔ اسی کے ساتھ ساتھ اسلام نے عوامی ملکیت کی کسی بھی چیز کو نقصان پہنچانے سے شدت کے ساتھ منع فرمایا۔


بہت سی چیزیں شخصی تعاون کے زمرے میں آتی ہیں ، لیکن کسی ایسے ادارے کا قیام جس سے بہت سے حاجت مندوں کی حاجت پوری ہو ایک پورے طبقہ کے ساتھ تعاون ہے ، رفاہی ادارے اور تنظیمیں کسی فرد کے بجائے پورے معاشرے کو اوپر اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں ، چنانچہ ان کی اہمیت و افادیت مسلم، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ دینی اور اصلاحی اداروں کی گراں قدر خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
معاشرہ، خاندان کے افراد کے ایک دوسرے پر متعدد حقوق ہوتے ہیں ، لیکن ان کی ادائیگی یا وصولیابی میں کبھی کبھی بڑی بے اعتدالیاں ہوتی ہیں ، لہذا اسلام نے ہر طرح کی افراط و تفریط سے مکمل اجتناب کی تعلیم دی۔ بعض اوقات انسان اپنے مخصوص مزاج یا ذاتی رنجش کی وجہ سے قرابت داروں کا حق فراموش کر دیتا ہے ، حالانکہ غیروں کے ساتھ قدم قدم پر محبت و سخاوت کا مظاہرہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ یا کبھی کبھار اپنے اہل و عیال میں اتنا مشغول ہو جاتا ہے کہ دوسروں کے حقوق کی اسے کوئی پرواہ ہی نہیں ہوتی۔ اور یہ دونوں چیزیں ہی غیر فطری طرز عمل ہیں ، اسلام نے اس سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔


اسلام نے محتاجوں کی مدد و خدمت پر کافی زور دیا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ طبقہ ہمیشہ محتاج ہی بنا رہے اور اوپر اٹھنے کی کبھی کوشش نہ کرے۔
اسلام میں دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کرنا ناپسندیدہ عمل ہے، لیکن اگر کوئی ناگہانی مصیبت کا شکار ہو جائے یا فقر و فاقہ سے مجبور ہو جائے تو بقدر ضرورت دوسروں سے مدد طلب کر سکتا ہے۔
اسلام نے عقائد کے بعد اعمال صالحہ پر کافی توجہ دی ہے ، لیکن بعض اعمال زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ، جبکہ بعض کی اہمیت نسبتاً کم ہے ، اس کا لحاظ ضروری ہے۔ خدمت خلق تقرب الی اللہ کا ایک ذریعہ ہے ، لہذا آسے ذریعہ ہی سمجھا جائے ، اصل کا درجہ نہ دیا جائے۔


اسلام میں صرف کسی عمل کا اچھا ہونا ہی کافی نہیں، بلکہ نیت بھی درست ہونی چاہیے ، تبھی اس کے ذریعہ اللہ کا تقرب حاصل ہو سکتا ہے، البتہ اگر دوسروں کو ترغیب دلانا مقصود ہو تو اعلانیہ بھی کیا جا سکتا ہے ، لیکن اگر کوئی شہرت، نیک نامی یا دیگر اغراض و مقاصد کے لیے خدمت کرتا ہے تو اللہ کی نظر میں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ اور اسی طرح کسی کی خدمت کرکے احسان جتانا ، یہ بھی مذموم فعل ہے اور اپنی نیکی کو ضائع کرنے کے مرادف ہے۔

***
عبید اللہ رحمانی جےپوری (دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ)
ای-میل: ubaid966751[@]gmail.com

The concept of social welfare in Islam

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں