وقت کا سفر - انشائیہ از محمد ذیشان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-12-15

وقت کا سفر - انشائیہ از محمد ذیشان

waqt-ka-safar

کہتے ہیں وقت کبھی ٹھہرتا نہیں۔ اور ٹھہرے گا بھی کہاں۔ ٹھہرنے کے لیے اس کو جگہ بھی نہیں ملتی۔ ہاں، نا وقت کو روک سکتے ہیں نا وقت کو آگے پیچھے کر سکتے ہیں۔ وقت ہمیشہ چلتا رہتا ہے اور ہمیں بھی وقت کے ساتھ ہی چلنا پڑتا ہے۔ بلکہ کبھی کبھی بھاگنا بھی پڑتا ہے۔ ایسے ہی وقت کے ساتھ بھاگتے دوڑتے ہمارے کچھ اگلے وقتوں کے شاعر اکیسویں صدی میں آگئے۔ مثلاً غالب میر وغیرہ۔ اب ہم دیکھیں گے کہ اکیسویں صدی میں ان شاعروں کی مصروفیات کیا رہیں گی۔ وہ کیا کریں گے اور کیا نا کریں گے۔


ایک نہایت وجیہہ سا شخص جس نے ہو بہو فواد خان جیسا حلیہ بنایا ہوا تھا، اپنی ڈی پی بدل رہا تھا کہ ۔۔۔
"آپ پھر فیس بک پر جا کر بیٹھ گئے۔ ہمیں ‌پتا نہیں تھا کہ آپ اس فیس بک کے نشہ سے اتنے مدہوش ہو جائیں گے کہ اپنے آپ کو ہی بھول جائیں گے۔ ورنہ ہم بادشاہ سلامت کو کہہ دیتے کہ یہ موا لیپ ٹاپ نا دیں"۔
"ہاے مرزا غالب۔ ۔۔۔غالب نا رہے"
"آپ کو کہا بھی تھا۔ مہینہ کا راشن ختم ہو گیا ہے۔ ہم نے لسٹ بنا دی ہے۔ جائیے اور کسی بھی شاپنگ مال سے لے آئیں"۔
مرزا غالب کی اہلیہ محترمہ نے بیوٹی پارلر سے تازہ تازہ کٹوائے گئے اپنے بالوں کو ایک ادا سے جھٹک کر کہا۔
"جی ارادہ تو باندھا تھا مگر۔۔۔
فیس بک نے غالب نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
غالب کے اس انداز پر اہلیہ محترمہ جل کر رہ گئیں۔
"ہم آپ کو گروسری لانے کے لیے کہہ رہے ہیں اور آپ ہمیں موئے شعر سنا رہے ہیں اس شاعری نے آپ کو کہیں کا نا رکھا۔ آپ اس زمانے میں بھی شاعری کر رہے ہیں۔ جبکہ ہم آپ سے کہہ رہے ہیں کہ شاعری چھوڑیے اور کچھ بزنس وغیرہ کریں۔ آگرہ کا پیٹھا بہت مشہور ہے کیوں نا آپ اس کا کاروبار کر لیتے۔ "
"لاحول ولا قوۃ۔۔۔ یہاں فیس بک پر ہماری شاعری کی دھوم مچی ہے اور تم ہمیں پیٹھے کی دوکان لگانے کے لیے کہہ رہی ہو۔
"شرم تم کو مگر نہیں آتی "
ان کے اس انداز پر انکی اہلیہ " اونہہ " کہتیں ہائی ہیل سے ٹک ٹک کرتی کٹی پارٹی میں چلی گئیں۔


"خس کم جہاں پاک " کہتے ہوئے مرزا غالب پھر سے فیس بک کھول کر بیٹھ گئے۔ فیس بک پر ایک فرینڈ ریکوسٹ آئی پڑی تھی۔ کسی میراں نامی لڑکی کی۔ غالب نے فوراً قبول کر لی۔ پروفائل فوٹو یا تصویر میں کٹرینہ کیف تھی۔ غالب نے فوراً ایک شعر داغا ؎
نازکی ان کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
لیکن وہاں سے غصہ والے تاثر کے ساتھ یہ پیغام آیا کہ کسی زمانے میں یہ ہمارا شعر ہوا کرتا تھا گو کہ اب ہم نے شاعری ترک کر دی ہے لیکن اس شعر کے سارے کاپی رائٹس (جملہ حقوق) ہمارے پاس محفوظ ہیں۔ اس کو پڑھ کر غالب نے لکھا۔
ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں کسی زمانے میں میر بھی تھا


"آج کل کیا کر رہی ہیں آپ " مرزا غالب نے دل والا ایموجی بھیج کر پوچھا۔
"ہم آج کل مزاحیہ شاعری کر رہے ہیں۔ "
"کیوں۔ اپنا پروفیشن بدل لیا۔ آپ تو کافی المیہ شاعری کرتی تھیں۔ غالب نے حیرانی والا ایموجی بھیجا۔
"جی۔ چونکہ اس میں اسکوپ کم تھا۔ لوگ اعتراض کرتے تھے کہ ہماری شاعری پڑھ کر ہنسنے والے بچے رونے لگتے ہیں۔ اس لیے ہم نے سوچا کہ رلانا آسان ہے مگر ہنسانا بہت مشکل۔ اس لیے ہم نے مزاحیہ شاعری ،اداکاری وغیرہ شروع کی ہے۔ یو ٹیوب پر ہمارا ایک چینل بھی ہے۔ لایک اور سبسکرائب کرنا نا بھولیں۔"
وہاں سے شرمانے والے ایموجی کے ساتھ جواب آیا تھا۔ مرزا غالب نے جواب میں کئی پھول بھیجے۔


وہ پھر سے فیس بک پر موجود لڑکیوں کو تاڑنے لگے۔ ایک لڑکی پروین شاکر نظر آئی۔اس نے اپنی وال پر ایک شعر لگایا تھا ؎
کیسے کہہ دوں کہ چھوڑ دیا ہے اس نے مجھے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
مرزا غالب نے فوراً ان کا ریلشن شپ اسٹیٹس دیکھا۔ وہ سنگل تھیں اس لیے فوراً فرینڈ ریکوسٹ بھیجی جو کہ کچھ تامل کے بعد قبول کر لی گئی۔
"آپ وہی مرزا غالب ہیں جو فیس بک پر چھچھوری شاعری کرنے کے لیے مشہور ہیں"۔
"جی ! خاکسار ہی ہے"۔ مرزا غالب نے ایک ادا سے کہااور دل والا ری ایکٹ بھیجا۔ اس کے جواب میں پروین نے لکھا۔
"بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے"
مرزا غالب نے پھر ہنسنے والا ایموجی بھیجا، جس پر پروین نے لکھا:
وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا؟
"مسئلہ پھول کا ہے نا خوشبو کا۔ مسئلہ ہماری بیگم کا ہے۔ " مرزا غالب نے ایک سرد آہ بھر کر کہا۔ پروین ہنسیں اور کہا۔
"غالب صاحب۔ معذرت۔ فیض احمد فیض صاحب آن لائن ہیں وہ آج کل گنج پن دور کرنے کے لیے تیل بنا رہے ہیں۔ اس کے لیے انہیں میری مدد کی ضرورت ہے۔ "
"لیکن تیل کی تو اس کو خود ضرورت ہے۔ " مرزا غالب نے شوخی سے کہا تو پروین شاکر ہنس کر خدا حافظ کہہ گئیں۔


مرزا غالب ابھی فیس بک پر ہی تھے کہ انکی اہلیہ آ گئیں۔ اور انہیں دیکھ کر آگ بگولہ ہو گئیں۔
"آپ یہیں ہیں ابھی؟" ان کی للکار پر مرزا غالب کے ہاتھوں سے لیپ ٹاپ گر گیا۔
"اٹھیے۔ ! ورنہ ہم نے ابھی آپ کو اسمبل کر کے پھر سے اٹھارویں صدی میں بھیج دینا ہے۔ غضب خدا کا۔ سارا دن بس فیس بک فیس بک۔ اسی لیے آپ کے خطوط بھی ادھورے رہ گئے۔ دیوان چھپ گئے تھے قسمت کی مہربانی سے۔ بس اب اٹھ جائے ورنہ ۔۔۔۔۔"
وہ رک گئیں اور غالب اپنے آپ کو بچاتے باہر کی جانب بھاگے۔ یہ تو تھے ہمارے مرزا غالب اور ان کا ساتھ دے رہے تھے میر تقی میر اور پروین شاکر۔ ۔۔۔۔۔
لیکن ایک اور شاعر تھے۔ خوبرو اور دلکش۔ شاداب چہرہ والے جن کی مونچھیں انکی مردانہ وجاہت کو چار چاند لگا رہی تھیں۔
خودی کو کر بلند اتنا۔۔۔
وہ ایک سالانہ جلسہ میں کرسی صدارت پر جلوہ افروز تھے اور اپنا مشہور زمانہ شعر پڑھ رہے تھے کہ لوگوں کے اس مجمع سے ایک بچہ اٹھا۔
"پچھلے پچاس سالوں سے خودی کو بلند کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ آخر کتنا بلند کریں خودی کو۔ کوی حد بھی تو ہو۔ "
علامہ صاحب بچے کی اس جراءت پر انگشت بدنداں رہ گئے۔جبکہ اس مجمع کے بڑے چھوٹے ہنسنے لگے اور کہنے لگے۔
"بچہ کا سنس آف ہیومر بہت اچھا ہے۔ "
علامہ صاحب نے غصہ سے بچے کی سمت دیکھا۔
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے


اور نئی تہذیب کے لوگ اس شعر پر تالیاں بجانے لگے۔ کچھ میڈیا کے لوگوں نے علامہ کے آگے مائک کیا۔ "آپ کو کیا لگتا ہے ہماری قوم آگے کتنی ترقی کرے گی؟"
"آج سے پچاس سال پہلے میں نے اس نو جوان نسل کو پیغام دیا تھا کہ:
نہیں تیرا نشیمن ‌قصر سلطانی کی گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر بہاڑوں کی چٹانوں میں
لیکن آج مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ کیا پیغام لیا ہے میری شاعری سے اس نسل نے۔ ایک خوددار غیرت مند قوم کا خواب دیکھا تھا میں نے ۔۔۔۔ مگر یہ قوم تو انتہائی پستی میں گر گئی۔ اس کا کوئی کردار باقی نہیں رہا۔ آج کی نوجوان نسل تو فیس بک، ٹک ٹاک میں لگی ہے۔ بھلا سوشل میڈیا سے قومیں ترقی کرتی ہیں؟ نہیں۔ بالکل نہیں"۔
علامہ کی آواز میں رنج تھا۔
"سب سے زیادہ دکھ تو اس بات کا ہے کہ۔۔۔ چھوٹے تو چھوٹے آج کے بڑوں کو بھی احساس نہیں رہا کہ ہم کیا کھو رہے ہیں اور کیا کھو چکے۔ آہ۔۔۔
میر کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا


اتنا کہہ کر علامہ رکے نہیں، مگر ان کے جانے کا اس جلسہ میں کسی نے بھی نوٹس نہیں لیا۔ کیونکہ سب کے سب آج کے جلسہ کی تفصیل فیس بک پر اپ لوڈ کرنے میں لگے تھے۔
علامہ صاحب نے واپسی کی ٹکٹ آن لائن بک کر وا دیں۔ غالب اور غالب کی اہلیہ صاحبہ بھی ساتھ ہو لیے۔ میر اور پروین نے بھی رخت سفر باندھ لیا۔ اور یوں وقت کا سفر ختم ہوا۔
لیکن وقت کے اس سفر نے سب کو یہی سبق دیا کہ سفر ترقی کا ہو تو خوبصورت لگتا ہے لیکن اگر تنزلی کا ہو تو۔۔۔ مایوسی اور دکھ کے سوا کچھ نہیں ملتا۔

***
محمد ذیشان (حیدرآباد)

Email: mohammed.zeeshan1105[@]gmail.com


Waqt ka safar. - Light Essay: Mohammed Zeeshan.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں