بارش کا موسم کس قدر حسین اور کس قدر خوبصورت ہے ، ہر شخص بارش کے موسم سے لطف اٹھاتا ہے ، کسان ہل اور کدال لے کر کھیتوں کی طرف بھاگتا ہے ، مالی اپنے باغیچے اور پھولوں کو سنوارتا ہے ، عاشق یاد ماضی میں غوطہ زنی کرتا ہے ، شاعر بارش اور اس کی بوندوں کو اشعار کے قالب میں ڈھالتا ہے ، سورج بادلوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتا ہے ، کبھی کبھار قوس و قزح اپنی جاذب نظر اور دلکش رنگوں کے ساتھ افق پر نمودار ہوتا ہے ، بارش کی ہلکی ہلکی بوندیں مٹی کو مہک دار بناتی ہیں، بجلی چمکتی ہے ، بادل گرجتے ہیں ، موسلا دھار بارش ہوتی ہے:
کس قدر حسن وجمال کا شاہکار ہے یہ موسم!
جب خزاں رسیدہ گلستانوں میں بہار آ جاتی ہے ، فصل بہار کی منتظر کلیاں مسکرانے لگتی ہیں ، مرجھائے ہوئے پھول کھلنے لگتے ہیں ، کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں ، پتے اور گل خوشی سے جھومتے اور لہراتے ہیں ، پھول مسکراتے ہیں ، بوٹے جاگ جاتے ہیں ، غنچے چٹکنے لگتے ہیں ، پتے شاد ہو جاتے ہیں ، پھولوں میں دلکشی اور تازگی آجاتی ہے ، ہر دل میں اک خوشی ہوتی ہے ، ہر شئے خوبصورت اور ہر منظر رنگین نظر آتا ہے ، مٹی کی خوشبو حواس پر چھا جاتی ہے ، دل فرحت وانبساط سے مچلنے لگتا ہے ، بارش کی ہلکی ہلکی گرتی ہوئی بوندوں سے نکلنے والی آواز موسیقی سے زیادہ دلفریب ہوتی ہے اور انسان چاہتا ہے کہ وہ ہر طرح کے فکر و خیال سے آزاد ہو کر کھلے آسمان کے نیچے کھڑے ہو کر ان پرکشش قطرات کو اپنے نہاخانۂ دل میں سمو دے ، اور دل ٹھنڈک ، راحت ، اطمینان ، اور سکون کی لذات سے جھوم اٹھے۔
ہمارے استاد ارقم شفیق صاحب اپنے غیر مطبوع افسانہ *ساون کےبادل* میں لکھتے ہیں بارش کے موسم میں دل کے اندر مقناطیسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ، دل ہر شئے کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتا ہے ، دل میں پرکشش خیالات جنم لیتے ہیں ، نئی نئی امنگیں انگڑائیاں لیتی ہیں ، چاہتوں کا اجتماع ہوتا ہے ، آرزؤں کی مجلسیں سجتی ہیں ، تمنائیں جاگ اٹھتی ہیں ، آنکھوں میں تجسس پیدا ہوتی ہے ، نگاہیں دلفریب مناظر کی تلاش میں لگ جاتی ہیں ، اور ہواؤں کا جھونکا جسم سے ٹکراتے ہی جسم کے اندر ایک عجیب سی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔
اسی طرح شفیق صاحب اپنی دوسری غیر مطبوع اور غیر منشور افسانہ *بارش ، شاعری ، چائے اور میں* میں رقمطراز ہیں:
بارش کی ہلکی ہلکی بوندیں ، چائے کا ایک کپ ، بھینی بھینی ہوائیں ، مٹی سے پھوٹنے والی مہک دار خوشبو ، شاعری کی کتاب ، ماضی کی یادیں ، بیتی ہوئی باتیں ، تنہائی اور ہونٹوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ ایک ساتھ جچتے بہت ہیں۔
بارش کے تئیں بڑی خوبصورت باتیں کہی گئیں ہیں ، کہا گیا ہے یہ وہ موسم ہے کہ اس کے آتے ہی دل میں پنپ رہے تمام شکوے ، گلے مٹ جاتے ہیں ، کدورتیں اور نفرتیں ختم ہو جاتی ہیں ، اور دل چاہتا ہے کہ سدا یہ خوبصورتی قائم رہے ، پیار ، محبت ، الفت ، قربت کی فضا یونہی برقرار رہے ، اور ٹپ ٹپ بارش کی صدائے دلنواز سے دل بہلتا رہے ،
بارش کی طلب ایسی طلب ہے جس کی طلب ہر کسی کو ہوتی ہے ، بہت کم ہوں گے ایسے لوگ جنہیں بارش کے قطرات سے کوفت ہوتی ہو ، ورنہ اکثر وبیشتر بارش کے منتظر ہوتے ہیں ، کچھ لوگ بارش کو تفریح طبع کا باعث سمجھتے ہیں ، کسان کا دل بارش سے ایسے ہی مطمئن اور خوش ہوتا ہے جیسے بنجر زمین بارش سے سیراب ہو کر سرسبز و شاداب ہو جاتی ہے ، اور ہر چہار جانب ہریالی ہی ہریالی کا منظر دکھائی پڑتا ہے ، چھوٹے چھوٹے بچے بارش میں خوب کھیلتے ہیں اور انجوائے کرتے ہیں کاغذ کا ناؤ بنا کر پانی میں تیراتے ہیں ، اور پانی میں اچھل کود کرتے ہیں ، گویا کہ بارش ہر اعتبار سے انسانیت کے لئے رب عظیم کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے ، اور صرف انسانوں ہی کے لئے نہیں بلکہ اس کرۂ ارض پر بسنے والی ہر جاندار مخلوق کے لئے رب کریم کا عظیم انعام اور عطیہ ہے، کیونکہ پانی کے بغیر کوئی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا ، مختصر وقت کے لئے بھی پانی نہ ملے تو انسان ہی نہیں حیوانات بھی زندگی کی نعمت سے محروم ہوجاتے ہیں اور نباتات سے ان کی رونق اور سرسبزی و شادابی چھن جاتی ہے ، پھر وہ پژمُردگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
الغرض قدرتِ الٰہی کی عظیم نشانیوں میں ایک اہم نشانی آسمان سے بارش کا نزول ہے جو انسانوں کے علاوہ روئے زمین پر بسنے والی دیگر مخلوقات کی زندگی اور بقاء کا ایک اہم عنصر ہے۔
مسعود عبدالغفار (بلرام پور، اترپردیش)
Email: ansarimaswood11[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں