کتاب کا نام : تفہیم و تعبیر
مصنف : عبد الباری قاسمی
ضخامت : 268
قیمت : 200 روپے
ناشر : مرکزی پبلیکیشنز
عبد الباری صدیقی قاسمی کا نام عہد حاضر کے ان چند فعال اسکالرس میں شمار کیا جاتا ہے جن کی موجودگی قومی و بین الاقوامی سطح کے مستند و معتبر رسائل و جرائد اور اخبارات میں نظر آتی رہتی ہے۔ آپ کا تعلق صوبہ بہار کے سمستی پور ضلع سے ہے تاہم گزشتہ ایک دہائی سے تعلیم کے سلسلے میں دہلی و اطراف دہلی میں مقیم رہتے ہوئے علمی، سماجی اور صحافتی خدمات بحسن و خوبی انجام دیتے آ رہے ہیں۔ موصوف کی شخصیت ایک ادارے کی حیثیت رکھتی ہے یہ باتیں میں قطعی طور پر کسی بھی طرح کی خوش فہمی کا شکار ہوئے بنا کہہ رہا ہوں، یہ حقیقت پر مبنی باتیں ہیں۔ کیونکہ بیک وقت آپ ایک عالم دین، طبیب، صحافی اور ادب کے شناور کے طور پر اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ آپ کی ابتدائی اور حفظ تک کی تعلیم جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد یو پی سے ہوئی ، مزید تعلیم کے لیے ازہر ہند دار العلوم دیوبند کا رخ کیا جہاں سے آپ نے فضیلت تک کی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد دہلی یونیورسٹی دہلی کو مرکز نگاہ بنایا۔ یہیں سے آپ کو قلمی تحریک ملی جس کا آج یہ نتیجہ ہے کہ اتنی کم عمری میں تادمِ تحریر اب تک آپ کی دو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔
زیرِ مطالعہ کتاب بعنوان 'تفہیم و تعبیر' 24 مضامین کا ایک جامع مجموعہ ہے جو سات الگ الگ ابواب کے تحت ضبط تحریر لائے گئے ہیں، خیال رہے کہ ان میں بیشتر وہ مضامین ہیں جو وقتاً فوقتاً نہ صرف رسائل و جرائد میں شائع ہوئے ہیں بلکہ صاحب کتاب کے ذریعے قومی اور بین الاقوامی سطح کی سیمینارز اور کانفرنسز میں پڑھے بھی گئے ہیں۔ یعنی کہ تمام ہی مشمولات پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
کتاب کے ابتدائی تین صفحات مصنف کا پیش لفظ ہے جس میں آپ نے تمام ابواب کے حوالے سے مختصراً معلوماتی بات کرتے ہوئے اس کتاب کی تکمیل میں جتنے بھی دوست احباب اور اساتذہ کی معاونت شامل رہی ان کا خلوص دل سے شکریہ ادا کیا ہے۔ علاوہ ازیں پانچ صفحات پر نامور ادیب، محقق اور صحافی حقانی القاسمی کا مختصر اور جامع مقدمہ شامل کتاب ہے جس میں آپ نے عبد الباری صدیقی قاسمی کی علمی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے تمام مشمولات اور دوران مطالعہ جن چیزوں کی آپ نے کمی محسوس کی ان سب پر کھلے دل سے سیر حاصل گفتگو کی ہے حالانکہ حرف آخر تو کسی کی بات کو نہیں کہا جا سکتا مگر یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ موجودہ دور میں حقانی القاسمی کی رائے قابلِ لحاظ اور قابلِ احترام ضرور ہے اسی لیے متعلقہ کتاب پر ان کا قلم اٹھانا ہر طرح سے سند کا درجہ رکھتا ہے۔
باب اول سلسلۂ نثر کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ جس کے تحت چار مضامین قلم بند کیے گئے ہیں۔ پہلا مضمون بعنوان اٹھارویں صدی میں اردو نثر تحریر کیا گیا ہے جس میں آپ نے اٹھارویں صدی کے ہندوستان کی سیاسی، سماجی، معاشی اور تہذیبی تبدیلیوں کے حوالے سے بحث کی ہے کہ کس طرح نئی زبان، نئی فکر، نئے نئے علوم اور نئے جذبات اور احساسات پروان چڑھ رہے تھے کیونکہ یہ زمانہ بہت ہی اتھل پتھل کا زمانہ رہا ہے، جہاں یہ انگریز حکمرانوں کی آمد کی گواہی دے رہا ہے وہیں مغل حکومت کے خاتمے کا الارم بھی بجاتا ہوا نظر آتا ہے۔ اسی مضمون میں اول اول ان تمام مذہبی کتب پر بالترتیب مدلل انداز میں بات کی گئی ہے جن پر تادمِ تحریر نہ جانے کتنی جامعات کے مختلف شعبہ جات میں ضخیم مقالات لکھے جا چکے ہیں ان میں کربل کتھا، تفسیر مرادیہ، تفسیر رفیعی اور موضح قرآن کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
افسانوی تصانیف میں قصہ مہر افروز و دلبر، نوطرز مرصع، نو آئین ہندی، عجائب القصص، جذب عشق اور انشاء اللہ خاں انشا کی سلک گہر کو مطمح نظر بنایا گیا ہے جس میں آپ نے مذکورہ بالا تمام کتب کی اردو زبان و ادب میں اہمیت و افادیت کے حوالے سے سلسلے وار اہم گفتگو کی ہے۔ نثری دیباچہ اور تاریخی نثر پر بات کرتے ہوئے اس مضمون کا اختتام کیا گیا ہے۔
اسی طرح سے تیسرے مضمون میں فسانہ آزاد کی ادبی اہمیت کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے جس میں رتن ناتھ سرشار کے مختصر تعارف سے لے کر فسانہ آزاد کی وجہ تخلیق، پلاٹ و کردار، زبان، اسلوب، مزاح، مکالمہ، لکھنوی معاشرت کی عکاسی اورحقیقت جیسے تمام پہلوؤں پر حوالہ جات کے ساتھ تفصیلی بحث سپرد قرطاس کی گئی ہے۔ چوتھا مضمون امراؤ جان ادا : ایک مطالعہ کے نام سے سپرد قلم کیا گیا ہے جس میں جناب عبد الباری صدیقی قاسمی نے ابتدا میں امراؤ جان ادا کی علمی و ادبی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مرزا ہادی رسوا کے حالات زندگی کا مختصر نوٹ لیا ہے، اس کے بعد سن تصنیف، موضوع، مختصر قصہ، پلاٹ، تکنیک، کردار نگاری، مکالمہ نگاری، لکھنؤ کی معاشرت اور تہذیبی منظرکشی، تجسس و جستجو، واقعیت، اسلوب، ناول کا پیغام اور حرف آخر پیش کرتے ہوئے بھرپور معلوماتی جامع مضمون شامل کتاب کیا ہے۔
باب دوم 'اسالیب' کے نام سے معنون کیا گیا ہے جس کے تحت پہلے باب ہی کی طرح چار مضامین ہیں، سب سے پہلے 'نوطرز مرصع کے اسلوب کی انفرادیت ' میں صاحب کتاب نے متعلقہ کتاب کے تخلیقی پس منظر پر بات کرتے ہوئے مصنف کے حالات زندگی کی مختصر روداد بیان کی ہے، نوطرز مرصع کے عہد تصنیف، سبب تالیف، نوطرز مرصع کا ماخذ، اسلوب اور اخیر میں مختصر قصہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی بات جامع الفاظ میں مکمل کرنے کی ہر ممکن سعی کی ہے۔ دوسرا مضمون 'سر سید احمد خان کا نثری اسلوب' کے نام سے لکھا گیا ہے جس میں جدید نثر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سر سید کے اسلوب ان کی شاہکار تصانیف، سنجیدگی، تعقل پسندی، تمثیلی انداز اور خطیبانہ اسلوب پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ تیسرا مضمون 'مولوی عبد الحق کا نثری اسلوب' میں آپ نے بابائے اردو کی تحریری خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی اہم ترین تصانیف کے ناموں، سادگی و سلاست، اثر آفرینی، حقیقت پسندی، خاکہ نگاری، مقدمہ نگاری اور زبان کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ چوتھا مضمون 'غبار خاطر کا اسلوب' کے نام سے سپرد قرطاس کیا گیا ہے جس میں آپ نے غبار خاطر کی اردو ادب میں اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے سن تصنیف سے لے کر سن اشاعت تک بالترتیب ذکر تو کیا ہی ہے اس پر مستزاد یہ کہ آپ نے مولانا آزاد کے تصنیفی ادوار، آزاد کا اسلوب نگارش، غبار خاطر کی زبان، اشعار کا بر محل استعمال، عربی الفاظ و تراکیب کی کثرت، طنز و مزاح، قلمی مصوری، مناظر فطرت کی عکاسی اور آزاد کے انانیت پسند انداز پر تفصیلی بات کی ہے۔
باب سوم سلسلۂ شعر و سخن کے نام سے مخصوص کیا گیا ہے جس کے تحت 6 مضامین شامل ہیں۔ پہلا مضمون 'زہر عشق کی ادبی اہمیت' کے نام سے ہے، جس کی شروعات میں زہر عشق کی وجہ تخلیق اور اس کا مختصر قصہ بیان کیا گیا ہے۔ بعد ازاں مرزا شوق لکھنوی کے حالات زندگی ، ان کا شعری سرمایہ، مثنویات شوق، فریب عشق، بہار عشق، زہر عشق، مثنویات شوق کا ماخذ، زبان و بیان، زہر عشق کے کردار، جذبات نگاری، لکھنؤ کی تہذیبی جھلکیاں اور زہر عشق کی ادبی اہمیت کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ دوسرا 'جدید اردو غزل : ابتدا و ارتقا' کے نام سے لکھا گیا ہے جس میں جدید غزل کے آغاز و ارتقا کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کے ساتھ جدید غزل کے معرض وجود میں آنے کے اسباب و عوامل اور جدید غزل سے وابستہ ان تمام غزل گو شعرا اور ان کے نمونہ کلام پر مدلل بحث کی ہے جن میں خاص طور سے شاد عظیم آبادی، حسرت موہانی، فانی بدایونی، اصغر گونڈوی، جگر مراد آبادی، یاس یگانہ چنگیزی، فراق گورکھپوری، فیض احمد فیض اور مجروح سلطانپوری کے نام شامل ہیں۔
تیسرا مضمون ' مسدس حالی: تعارف اور امتیاز' کے نام سے سپرد قرطاس کیا گیا ہے جس میں حالی کے تخلیقی پس منظر اور مولانا الطاف حسین حالی کا شاعری کی طرف رجحان، حالی کا شاعرانہ قد، مسدس حالی کا مع اشعار بھرپور تعارف اور مسدس حالی کی امتیازی و انفرادی خصوصیات کو اپنے نوک قلم کا محور و مرکز بنایا گیا ہے۔ چوتھا مضمون' فراق گورکھپوری کی شاعری کے امتیازات' کے نام سے لکھا گیا ہے اس میں موصوف نے فراق کی شعری کائنات کے امتیازی پہلوؤں کا بڑی ہی دل جمعی اور عرق ریزی سے نہ صرف جائزہ پیش کیا ہے بلکہ کچھ ایسے پہلوؤں کو بھی نمایاں کیا ہے جن تک عام قارئین کی پہنچ نہیں تھی۔ پانچواں مضمون 'ابوالحیات حضرت مولانا قاری فخر الدین فخر گیاوی' کے نام سے ضبط تحریر میں لایا گیا ہے۔ جس میں موصوف نے فخر گیاوی کی مختلف الجہات شخصیت کا بھرپور احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ سب سے پہلے آپ نے فخر گیاوی کے ذریعے علمی میدان میں کیے گئے کارہائے نمایاں کا ذکر کیا ہے۔ بعد ازاں ان کی پیدائش، تعلیم، اصلاحی تعلق، فراغت کے بعد میدان عمل میں قدم، سجاد لائبریری، شاعری کی طرف رغبت جہاں آپ نے موصوف کے ذریعے تمام اصناف سخن میں کی گئی قلم فرسائی، نثر نگاری اور آپ کی مطبوعہ تحریروں کا بغائر جائزہ پیش کیا ہے۔
چھٹا مضمون 'مولانا احمد سعید دہلوی کی شاعری:ایک مطالعہ' کے نام سے قلم بند کیا گیا ہے۔ جسے اہلِ علم اور ادب دوست حضرات نے "سحبان الہند” کے لقب سے نوازا تھا۔ آپ بیک وقت ایک عالم دین اور پایہ کے شاعر تھے۔ اس مضمون میں جہاں آپ کے علمی و ادبی پس منظر پر روشنی ڈالی گئی ہے وہیں اردو شعر و ادب میں آپ کا کیا مقام و مرتبہ تھا اس پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ جس کا اندازہ لگانے کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ آزادی ہند کے بعد لال قلعہ میں جو سب سے پہلا مشاعرہ منعقد کیا گیا اس کی صدارت کے لیے آپ جیسی نابغہ روزگار شخصیت کا انتخاب کیا گیا تھا۔ کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتاہے کہ واقعی اس وقت یہ ذمہ داری آپ کے شایانِ شان بھی تھی۔
باب چہارم سلسلۂ نقد و تحقیق کے نام سے ہے، جس کے تحت دو مضامین شامل ہیں۔ پہلا مضمون 'مشرقی تنقید : آغاز و ارتقا' کے عنوان سے تحریر کیا گیا ہے۔ اس میں صاحب کتاب نے جہاں ایک طرف خطۂ مشرق سے تعلق رکھنے والی تمام زبانوں میں پائے جانے والے تنقیدی پہلوؤں کو نمایاں کرنے کی قابل اعتراف کوشش کی ہے ، جس میں چینی زبان میں تنقید، جاپانی زبان میں تنقید، سنسکرت میں تنقید، عربی زبان میں تنقید اور فارسی زبان میں تنقید سر فہرست نظر آتی ہیں، وہیں دوسری طرف اردو زبان میں تنقیدی نقوش کا پا جانا جس میں شاعری میں تنقید، مشاعروں میں تنقید، اساتذہ کی اصلاح میں تنقید، تقریظ میں تنقید، خطوط میں تنقید ، تذکروں میں تنقید اور ساتھ ہی ساتھ اردو زبان کے دو بڑے نقادوں کی اردو ادب میں مسلم اہمیت کے حوالے سے خلوص دل سے بات کی گئی ہے جن میں مولانا محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی کے نام لائق اعتبار ہیں۔
دوسرا مضمون 'خواجہ احمد فاروقی ایک محقق اور نقاد گر ادیب' کے نام سے لکھا گیا ہے۔ اس میں صاحب کتاب نے فاروقی صاحب کی اپنے دور کے علمی و ادبی حلقوں مسلم شخصیت پر تو گفتگو کی ہی ہے مگر میرے نزدیک آپ کا سب سے مستحسن کام وہ ہے جو فاروقی صاحب کا شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کی ترقی و فلاح کے لیے جنون کی حد تک پہنچا ہوا جذبہ رہا اور اس کو آپ نے اپنا مطمح نظر بناتے ہوئے ان کی شخصیت کے چھپے ہوئے گوشوں سے ہم سب کو روبرو کرایا ہے۔جو دور فاروقی صاحب کا تھا وہ ایسا ناسازگار تھا کہ نہ اردو کے لیے بہتر تھا نہ شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کےلیے موزوں۔ مگر آپ نے اپنی علمی صلاحیت اور حسن سلوک سے اسی شعبے میں صدر جمہوریہ سے لے کر وزیر اعظم تک کو بلوا لیا۔ جس سے یونیورسٹی اور ارد گرد کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ اور طلبہ و طالبات انگشت بد نداں رہ گئے۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ فرمائیں ایک صفحے سے چند سطور:
"مَیں اردو کی خدمت اپنا نہیں بلکہ خدا کا کام سمجھ کر کرتا ہوں۔"
( ص نمبر 174 )
اس کے علاوہ اس کتاب میں ہندوستانی زبانوں پر فارسی زبان کے اثرات، کلام اقبال میں قرآنی علوم و افکار کی ترجمانی، ذکر اقبال کا تنقیدی جائزہ، ادب اطفال : اہمیت و افادیت اور اردو کا وسیع ہوتا دائرہ اور تلفظ کی بڑھتی غلطیاں کے عنوان سے شامل مضامین قابل ذکر ہیں۔ کتاب کی پشت پر استاد محترم پروفیسر ابو بکر عباد کی قیمتی آرا اور نیک خواہشات یقیناً کتاب اور صاحب کتاب کے لیے باعث افتخار ہیں۔
کہیں کہیں کتاب میں تذکیر و تانیث کی غلطیاں ضرور در آئیں ہیں ، جنھیں امید ہے کہ آنے والے ایڈیشن میں دور کرلیا جائے گا۔ مگر مجموعی طور پر علمی و ادبی اعتبار سے اس کتاب کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، جس کے لیے برادرم عبد الباری صدیقی قاسمی صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں۔ قوی امکانات ہیں کہ آنے والے وقت میں موصوف کی اس کاوش کو علمی و ادبی حلقوں میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔
اللہ کرے کی زور قلم اور زیادہ۔ باذوق قارئین اس کتاب کو مندرجہ ذیل فون نمبر پر رابطہ کرکے حاصل کر سکتے ہیں : 9871523432
محمد انعام برنی۔ ریسرچ اسکالر، دہلی یونیورسٹی، دہلی
Email: mdinammeo[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں