ادب میں دیانت داری کا مسئلہ - از قیصر تمکین - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-12-01

ادب میں دیانت داری کا مسئلہ - از قیصر تمکین

ادب میں دیانتداری کا مسئلہ ہر جگہ ہر زمانے میں اور ہمیشہ اٹھتا رہا ہے۔ اس باب میں نظریاتی بحث بھی ہوتی ہے ، تنقید نگاری کے بلند ترین اصولوں کے حوالے بھی دیے جاتے ہیں اور فرد اور سماج کے حقوق پر روشنی بھی ڈالی جاتی ہے لیکن وہی حضرات جو نقد و نظر کے فرائض اور ادب میں منصفی کے سوال پر طول طویل مقالے لکھتے ہیں۔ بیشتر اوقات خود ان اصولوں سے کلی طور پر بے نیاز نظر آتے ہیں۔ گویا جن اصولوں کے پروانہ ہائے راہداری لے کر وہ بزم ادب میں داخل ہوتے ہیں ان کو خود ہی پرزے پرزے کرکے پھینکنے میں بھی آگے دکھائی دیتے ہیں۔


یہاں ایک مجبوری کا احساس بھی ضروری ہے۔ ادب کہیں نامعلوم جزیروں یا آدرش وادی دنیاؤں میں نہیں پرورش پاتا ہے۔ ادیب اور شاعر بھی ہماری رو زمرہ کی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں اور تمام حالات وواقعات سے اپنے ہم نفسوں کی طرح متاثر ہوتے ہیں۔ یہی بات ناقدوں کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے چنانچہ سماج کے دوسرے افراد کی طرح ان لوگوں کو بھی دوستی وضعداری اور مروت کا خیال رہتا ہے۔ یہ بات نئے ادیبوں کی ہمت افزائی کے لئے تو قابل تعریف ہے بلکہ ضروری بھی۔ لیکن بوڑھے کھوسٹ، وظیفہ یاب اور خضاب آلودہ ادیبوں و شاعروں کی دوسرے اور تیسرے درجے کی چیزوں کر آسمان پر چڑھانے کے لئے وضعداری سے کام لینا اصل احساس ذمے داری اور ادبی اصولوں سے غداری کے برابر ہے۔ جن لوگوں کو کچھ بھی پاس دیانتداری اور ساتھ ہی وضعداری نبھانے کا مسئلہ پیش آتا وہ بیشتر اوقات خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ خاموشی قابل گرفت سہی مگر ریا کاری اور بددیانتی سے بہرحال بہتر ہوتی ہے۔


ایک اچھے بلکہ بہت اچھے شاعر نے ایک وواہیات اور انتہائی مہمل کتاب لکھی اور اس کو بوطیقا اور شمس بازغہ کے پائے کی تصنیف بناکر پیش کرتے رہے، خوشامد اور ضرورت سے زیادہ مدارات اور تواضع انہوں نے ایک مستند ناقد کی بہت کی۔ ہمیں خوشی ہے کہ اس ناقد نے اپنے تعلقات کے باوجود اس کتاب پر کوئی تحریری تبصرہہ نہیں کیا کیونکہ اگر وہ صرف اتنا ہی لکھ دیتے کہ کتاب بہت ناقصد ہے تو بھی مصنف صاحب اسے کس طرح اپنی حمایت میں استعمال کرلیتے اب یہی ادیب صاحب خود اس کتاب کے ذکر پر خجل ہوتے ہیں۔


عام طور پر اہل نقد ان لوگوں کے بارے میں بہ آسانی بیباکی سے اظہار خیال کردیتے ہیں جن سے ذاتی مراسم نہیں ہوتے۔ لیکن جن لوگوں سے روز ملنا جلنا رہتا ہے یا جن سے کوئی عرض وابستہ ہوتی ہے ان کے بارے میں اردو میں تو کم از کم کوئی دیانتدارناقد نظر نہیں آتا۔ چنانچہ کبھی کبھی تو دنیائے ادب میں عجیب کساد بازاری کا سا عالم ہوجاتا ہے۔


سچ بولنے کا ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ سچی بات نہ برداشت کرنے والے ایک طرف ہوکر سچے آدمی کو "نکّو" بنا دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ بڑے بڑے ناقد جو آفاقیت، انسانیت اور ادب کے اعلی ترین مناصب کا نام لیتے اور ادب و فن میں دیانتداری کے نام پر خامہ فرسائیوں میں مصروف رہتے ہیں وہ بھی ان لوگوں کو نظر انداز کردیتے ہیں جو کبھی سچ بولنے کے مرتکب ہوتے ہوں۔


پھر بھی یہ ساری برائی یکطرفہ نہیں ہوتی۔ آلودہ اس میں فنکار خود بھی ہوتے ہیں عام طور پر معمولی سے معمولی لکھنے والا بھی اپنی ہر کاوش کو معرکہ آرا یا عصر آفریں خیال کرتا ہے۔ یہ کمزوری ان اصحاب میں زیادہ ہوتی ہے جن کے پاس مداحوں کا بڑا حلقہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی ادیب و ناقد یونیورسٹی میں صدر نشین ہو تو اس کا ہر شاگرد دنیا میں نہیں تو کم از کم ایشیا میں تو اپنے استاد محترم کو نابغہ دوراں ثابت کرنے میں ضرور مصروف رہتا ہے اس وجہ سے ادیب مذکور کو کبھی آئینہ دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ اس کے علاوہ بہت سے حضرات چمکتے دمکتے رسائل نکال کر بھی پانی جگہ پر"ادب میں قابل قدر اضافہ" قسم کی عظمت کے حقدار ہوجاتے ہیں۔ ہر وہ شخص جو"بہر خدا ہمیں بھی کہیں چھاپ دیجئے" کا ملتمس ہوتا ہے وہ چھ سات ریشمی اور چکنے چپڑے جملے مدیر اعلیٰ کی تعریف میں لکھ کر کسی نہ کسی کو نے میں اپنی غزل چھپوالیتا ہے۔ اردو ہی نہیں دوسری زبانوں میں بھی یہ روش رہی ہے کہ اکثر چلتا پرزہ ، قسم کے اصحاب عورتوں کے نام سے "گویا برقع پوش" ادب میں داخل ہوتے ہیں۔ بعد میں یہی لوگ نقاب الٹ کر سامنے آتے اور اچھے خاصے ادیبوں، مدیروں اور ناقدوں کو منہ چڑاتے ہیں۔ اس سلسلے میں بعض نفسیاتی امور بھی کارفرما رہتے ہیںجن کا تفصیلی ذکر غیر ضروری ہے۔


بات ناقدوں کی دیانت اور فنکاروں کے ضرورت سے زیادہ حساس ہونے کی تھی۔ کوئی ادب و شاعر ایسا ہوہی نہیں سکتا ہے جو تنقیدی پہلوؤں اور فنی اسقام سے مبرا ہو۔ اگر کوئی ناقد کسی فنکار کے کمزور پہلوؤں کی نشاندہی کرے تو اس کے محرکات پر غور کرنا ضروری ہے ، برا ماننے کی ضرورت نہیں۔ لیکن کیا ناقدین خود بھی مصلحت پسند یوں سے اجتناب کرکے تعمیری تنقید میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر یہ حضرات بات بات میں خفا ہوکر منہ بسورنے اور جھگڑے فساد پر آمادہ ہوجانے والوں کے رویے کی پروا کیے بغیر واقعی ادب کا محض ادبی نقطہ نظر سے محاکمہ کریں تو لکھنے والے خود بھی محتاج ہوجائیں گے۔


ناقد یا تبصرہ نگار وکیل نہیں ہوتے کہ وہ اپنے مطلب کے مضبوط پہلو دریافت کرکے کسی نہ کسی طرح مقدمہ جیت لیں، فریق مخالف کو بہر صورت زیرکرکے وہی دم لیں۔ ناقد اور مبصر سیاسی لیڈروں یا تبلیغی پلاؤ خوروں سے بھی الگ ہوتے ہیں۔ ان کا اصل کام تو حقائق کا حقائق اور واقعات کا واقعات کی نظر سے مطالعہ کرنا ہوتا ہے اور اس معاملے میں وہ علمی فراست اور فہم سے کام لے کر ہی کسی منصفانہ نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں۔


تخلیقی فنکار اور ناقد دونوں ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ تخلیقی فنکار چونکہ خالق ہوتا ہے اس لئے اس میں یونان قدیم کے اس اساطیری خلاق دیوتاؤں کی صفت بھی پائی جاتی ہے جن کے پیدا کردہ کردار بیک وقت اچھائی اور برائی کا مرکب ہوتے ہیں۔ ہم کو خود یونانی دیوتاؤں سے بھی اپنائیت یوں محسوس ہوتی ہے کہ وہ عناصر کے پر ہیبت و پرجلال دیوتا ہونے کے باوجود کسی نہ کسی"بشری"کمزوری کے حامل بھی ہوتے ہیں۔ کوئی شخس نہ تو مکمل فرشتہ ہتا ہے اور نہ مکمل شیطان۔ اس طرح کے فطری اور زندہ کردار ہم کو صرف پریم چند اور منٹو کی تخلیقات میں ملتے ہیں چنانچہ ان سب میں" حیات جاوید" کے امکانات بھی ملتے ہیں۔ دوسری طرف زنانہ ناولوں یا پھر ایم اسلم اور شوکت تھانوی کے کردار یا تو بالکل"برے" یا بالکل"فرشتہ" ہوتے ہیں۔ اس طرح ان معنوں میں ان کے کردار نقلی ، مصنوعی اور ہماری جیتی جاگتی دنیا سے ماورا ہوتے ہیں۔ اس طرح کی مصنوعی شاعری کرنے والے عام طور پر"غزلچی" ہوتے ہیں اس بارے میں راشد کے مجموعے کا پیش لفظ آج بھی حقیقت حال کا ترجمان ہے، خیروشر کے پرانے تصورات سے قطع نظر ان کی آویزش اور آویزش کے بارے میں ہمارے بہت سے حقیقت نگار اور ترقی پسند ناقدوں نے جگہ جگہ ٹھوکریں کھائی ہیں۔ یہاں ہم کو سب سے زیادہ قابل گرفت روش یعنی منٹو کو برا ٹھہرانے کی کوششوں کا ذکر کرنا پڑے گا۔ افسوس یہ ہے کہ اس بارے میں عزیز احمد اور سردار جعفری تک نے پوری طرح انصاف سے کام نہیں لیا۔


وکالت ہی کے ضمن میں دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے ایک خاص حلقے میں اقبال کی طرف ایک خاص رویہ پایاجاتا ہے اس کے بر خلاف ہندوستان کے بعض، بلکہ زیادہ نمایاں حلقوں میں، اسی شاعر کے بارے میں ایک بالکل ہی الگ روش امر مسلمہ بن چکی ہے۔ گویا اقبال یا تو کوئی ماورائے تنقید ولی روشن ضمیر اور صوفی صبافی ہے یا پھر سراسر قابل تنقیص فرقہ پرست۔ ہمارے اچھے تنقید نگار اسی ایک بدیہی مسئلے پر غور کیوں نہیں کرتے۔ ہمارے ادب میں عالمی ادبیات سے اچھی طرح متمع اور مستفید ہونے کے باوجود یہ انتہا پسندی کیوں ہے۔ کیا اہل نقد زنانہ ناول نگاروں کی طرح ہر شئے کو محض سفید و سیاہ ہی ثبات کرنا مقصد نقد سمجھنے لگے ہیں؟


مانا کہ انسانی معاشرے میں عام طور پر ، اور تیسری دنیا میں آج کل خاص طور پر بد عنوانیوںاور بد اعمالیوں کی گرم بازاری ہے اورر ادیب و شاعر معاشرے کے ہی اجزا ہیں اور اس کی کمزوریوں سے بھی پوری طرح آلودہ، مگر تنقید نگاروں کو مصلحت انگیزیوں سے کیا واسطہ؟ اگر وہ محراب و منبر سے تلقین حق و انصاف کرتے ہیں تو پھر امید ان سے یہی کی جاسکتی ہے کہ وہ اہل انصاف کی طرح دودھ کا دودھا اور پانی کاپانی الگ کرنے میں دلچسپی لیں گے۔ نقاد اپنے کو عوام الناس سے ممیز کرکے منصب منصنفی کا سنبھالتے ہیں تو پھر پریم چند کے "پنچ پرمیشور" کی طرح وہ اپنے ضمیر کی آواز سے بے چین کیوں نہیں ہوتے۔ جب کسی ادیب و شاعر کو محض اس کے سیاسی و سماجی رتبے کی بنا پر عظیم سے عظیم تر ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو پھر اہل سیاست یا زمانہ شناس اور عہدہ پرست خوشامد خوروں کی حرکات پر خندہ زن ہونا کس طرح جائز ہوسکتا ہے۔ بہت سے اچھے ادیبوں اور شاعروں کو ایک مہم کے طور پر نظر انداز کیاجاتا ہے لیکن دوسری طر ف محض رسم دنیا فیشن پرستی اور مصلحت مقاصد کی وجہ سے ہر چڑھتے سورج کی پوجا کی جاتی ہے۔ اگر یہ اعمال تنقید نگاروں کی خامہ فرسائیوں کا جزو لاینفک ہیں تو پھر ادب میں نقاد نام نظریات عالی اور آفاقی قدروں کا کیوں لیتے ہیں۔ ادیب و شاعر اگر اپنے فرائض کے سلسلے میں کوتاہیوں کا شکار ہیں تو ناقدیین ان کے مقابلے میں زیادہ غلط کاریوں کے مجرم ہیں۔


آج ان باتوں کے ذکر کی ضرورت یوں پیش آئی کہ اسٹیفن اسپنڈر کے مرنے پر عام طور پر ناقدین نے کسی خشونت آمیز مفتیٔ شرع متین کی طرح فتوے دئیے کہ وہ عظیم تو کیا کوئی بہت اچھا شاعر بھی نہیں تھا۔ یہ تمام نقاد ہی ہیں جنہوں نے اسپنڈر کی فکری ضیا باریوں سے خوب کسب ضیا میں حصہ لیا اور اس کے چراغ سے اپنے چراغ جلائے مگر اس کی زندگی میں اس بیباکی سے اظہار خیال نہ کرسکے۔ اسپنڈر کا قصور یہ ہے کہ زندگی اور ادب کے بارے میں اس کے افکار پر پرچھائیاں ترقی پسندی اور غیر جانبدارانہ سیاسی تفکرات کی بھی ملتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج سے کئی سال قبل فلپ لارکن کی موت پر بہت سے مرثیے لکھے گئے اور جو مجالس عزابرپا ہوئیں ان میں شرکت کرنے کے لئے تیسری دنیا اور خاص طور پر ہندوستان کے ادب دوستوں کے بھی پرے کے پرے دیکھے گئے۔ باتیں ہم کتنی ہی ترقی پسندی کی کیوں نہ کریں مگر اہل اقتدار اور دائیں بازو کے فیض رساں حضرات کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے اپنا آگاہ پیچھا ضرور دیکھ لیتے ہیں۔


برسبیل تذکرہ یہ بات ہمارے علاوہ کسی نے نہ لکھی اور نہ کہی کہ فلپ لارکن دوسرے درجے کا بسیار گو، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انتہائی موذی نسل پرست بھی تھا۔


***
ماخوذ از کتاب: اے دانشِ حاضر
تصنیف: قیصر تمکین۔ ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی (سن اشاعت: 2008ء)

The problem of honesty in the literature. Essay: Qaiser Tamkeen

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں