رفیق جعفر سے ایک ملاقات - شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد میں پروگرام - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-12-02

رفیق جعفر سے ایک ملاقات - شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد میں پروگرام

rafiq-jaffar-university-of-hyderabad-program

شعبہ اردو ، یونیورسٹی آف حیدرآباد میں بتاریخ 21 نومبر 2022ء بروز پیر دوپہر 3:30 بجے ایک تقریب بعنوان "شاعر سے ایک ملاقات" منعقد ہوئی۔ جس میں اردو کے ممتاز شاعر و ادیب جناب رفیق جعفر(پونے) نے خصوصی طور پر شرکت کی۔
صدر شعبہ اردو پروفیسر فضل اللہ مکرم صاحب نے رفیق جعفر صاحب کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ رفیق جعفر صاحب حیدر آباد کے ہی ہیں لیکن یہ پونہ میں رہتے ہیں۔ اس سے پہلے 30 برس تک ممبئی میں تھے۔ وہاں انھوں نے صحافت کا پیشہ اختیار کیا پھر فلم کو ذریعہ معاش بنایا۔ اوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے رفیق جعفر نے اردو زبان میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی ، زبان سے محبت اور ادب سے لگاؤ بچپن ہی سے رہا۔ حیدر آباد میں انھوں نے اردو اخبارات کے لئے رپورٹنگ بھی کی۔ ہفتہ وار "ونگس" کے نام سے اخبار نکالا۔ شاعری بھی کرتے رہے لیکن 1972ء میں یہ تلاش معاش میں ممبئی چلے گئے۔ جدوجہد یہاں بھی تھی اور وہاں بھی روداد زندگی طویل ہے۔ میں تو انھیں صرف چار ایک برس سے جانتا ہوں مگر یہاں صحافتی اور ادبی حلقے کے تقریباً تمام مشہور ہستیوں سے ان کے تعلقات رہے ہیں۔
اس سے پہلے کہ ہم ان کی جدو جہد کی روداد ان ہی کی زبان میں سنیں ، ہمارے ساتھ تین اور مہمان خصوصی پروفیسر شمش الہدی دریابادی صدر شعبہ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، نامور طبیب و مزاح نگار ڈاکٹر عابد معز اور نامور سرجن ڈاکٹر عمر بن حسن (سابق اسسٹنٹ پروفیسر دکن کالج آف میڈیکل سائنس حیدرآباد) کا بھی استقبال کرتے ہیں۔

rafiq-jaffar-university-of-hyderabad-program-1

پروفیسر شمس الہدی دریابادی نے پہلے صدر شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدر آباد کا شکریہ ادا کیا اور مبارکباد دی کہ انھوں نے رفیق جعفر صاحب جیسی شخصیت کو اعزاز بخشا پھر انھوں نے تعلیمی مسائل پر موثر تقریر کی۔ ان کے بعد ڈاکٹر عابد معز کو اظہار خیال کے لئے مدعو کیا گیا۔
ڈاکٹر عابد معز نے رفیق جعفر صاحب کی ادبی صلاحیتوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور کہا کہ ان کی تین کتابیں یادگار اس لیے بھی ہیں کہ انہوں نے ممبئی اور پونہ میں رہ کر حیدرآباد کے ادیبوں پر کام کیا۔ ایک کتاب "اردو ادب کے تین بھائی" (محبوب حسین جگر، ابراہیم جلیس، مجتبی حسین)، دوسری کتاب "طنز و مزاح کے تین ستون" اور تیسری کتاب "عابد معز کی ادبی شناخت"۔ یہ نہ صرف نقاد و محقق ہیں بلکہ شاعر بھی بہت اچھے ہیں۔ آج برسوں بعد ان کو سننے کا موقع مل رہا ہے۔


بعد ازاں رفیق جعفر صاحب کی شال پوشی کی گئی اور پروفیسر سید فضل اللہ مکرم صاحب نے رفیق جعفر صاحب سے گزارش کی کہ آپ اپنی زندگی کی جدو جہد کے بارے میں کچھ کہیں۔ رفیق جعفر نے اپنے مخصوص پر اثر انداز میں محسن بھوپالی کے شعر سے گفتگو کا آغاز کیا:
نہ جہد مسلسل نئی ہے نہ جبر وقت نیا
تمام عمر گزاری ہے امتحان کی طرح
انہوں نے سب سے پہلے شعبہ اردو کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عاجزانہ انداز میں کہا کہ شعبہ کے ذمہ داران نے اس کم علم شخص کو ایک ایسی جگہ بلایا جو حیدر آباد ہی نہیں بلکہ ملک کی ایک بڑی دانش گاہ ہے۔ جہاں یہ شخص آنے کے لئے برسوں ترستا رہا ہے۔ اس وقت بھی میری ہمت نہیں ہو رہی تھی یہاں آنے کی، جب میں حیدر آباد میں صحافتی اور ادبی حلقوں میں فعال تھا۔ خیر یہ موقع پانچ دہائیوں بعد ہی سہی اللہ نے دیا۔ شکر ہے رب کا کہ تقریباً آدھی صدی سے صرف اردو کی روٹی کھا رہا ہوں اور بال بچوں کو کھلا رہا ہوں۔ یہ احسان ہے اس شہر حیدرآباد کا کہ مجھ کم تر کو خوب تر بنایا۔ حیدرآباد کا ادبی ماحول میرا استاد ہے۔ برسوں پہلے کی وہ تربیت ممبئی کی جدوجہد میں بھی کام آئی اور وہاں کے حیدرآبادیوں نے میرا ساتھ بھی دیا۔ یہ اردو ہی ہے جو ذریعہ عزت بنی اور ذریعہ شہرت بھی۔ دولت جو قسمت میں تھی اس کو ملنا ہی تھا ملی۔
یہ اردو ہی تھی جس کی وجہہ سے میں ریڈیو سیلون کے مشہور اناونسر "امین سیانی" کے گروپ آف رائیٹرز میں شامل ہوا۔ اور اردو زبان اور شعر و ادب نے ہی مجھے فلم انڈسٹری میں پہنچایا۔ اسسٹنٹ ڈائیرکٹر بنایا، اسسٹنٹ رائٹر بنایا، ڈائیلاگ رائٹر بنایا۔ ہاں یہ ہوا کہ مسلسل کام نہیں ہوتا تھا میں بار بار بیروزگار ہوتا، لیکن ہر حال میں زندگی کی دھوپ میں اردو ادب ہی میرا سائبان بنا۔ خیر 50 برس کی جدو جہد پندرہ منٹ میں سنائی نہیں جا سکتی۔ خدا کا فضل ہے کہ مجھے میرے حصے کی شہرت ملی ہے، سمیناروں میں بلایا جاتا ہوں۔ ادبی نشستوں میں کبھی صدارت کے لئے تو کبھی بطور شاعر شرکت کرتا ہوں۔ آل انڈیا مشاعرے چار پانچ بڑے ملکوں میں بھی پڑھے ہیں۔ شاعری کا ایک مجموعہ اور ایک تحقیق اور ایک تنقید کا مجموعہ شائع ہوا ہے۔ ای۔ ٹی وی اردو کا مشہور سیرئل "ہماری زینت" کے مکالمے لکھے ہیں جسے غالباً 2001 میں دی بیسٹ سرئیل کا ایوارڈ ممبئی کے مشہور ادارے "راپا" کی طرف سے ملا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی میں جو قلم کو ذریعہ معاش بنایا ، کامیاب نہیں تو ناکام بھی نہیں ہوں۔
جناب رفیق جعفر نے طالب علموں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہر حال میں جینا سیکھیں، تعلیم حاصل کرکے مہذب زندگی گزاریں، نا انصافیوں کو ناکامی نہ سمجھیں، سوال کرتے رہیں۔ اپنے اساتذہ سے علم حاصل کرنے جتن کرتے رہیں۔ بقول امجد حیدر آبادی کام کرنا ہی کامیابی ہے۔


صدر شعبہ اردو پروفیسر سید فضل اللہ مکرم نے رفیق جعفر صاحب سے کلام سنانے کی فرمائش کی اور انھوں نے اپنی نظمیں اور غزلیں سنائی۔ سامعین میں طلباو طالبات اور ریسرچ اسکالرز کی کثیر تعداد کے علاوہ شعبہ کے اساتذہ میں پروفیسر حبیب نثار، ڈاکٹر عرشیہ جبین، ڈاکٹر اے آر منظر، ڈاکٹر محمد کاشف، ڈاکٹر نشاط احمد اور ڈاکٹر رفعیہ بیگم موجود تھیں، جو رفیق جعفر کے کلام سے محظوظ بھی ہوئے اور انہیں داد سے بھی نوازا۔


رفیق جعفر کے چند منتخب اشعار پیش ہیں:

rafiq-jaffar-university-of-hyderabad-program-2

پھر زندگی کی فلم ادھوری ہی رہ گئی
وہ سین کٹ گئے جو کہانی کی جان تھے


جب بھی ہوتے ہیں شہر میں دنگے
زندگی زندگی سے ڈرتی ہے


گھر بیٹھ کے ہم کو تو مقدر نہیں ملتا
ہیرا تو بڑی چیز ہے پتھر نہیں ملتا


دوست بازو ہیں مرے اور میرے پیچھے بھی
پیٹھ پر ہو نہ کہیں وار خدا خیر کرے


اپنی دھرتی سونا چاندی ہیرے موتی والی ہے
ایسی دھرتی چھوڑ کے یارو دور وطن سے جائے کون


Rafeeq Jaffar felicitation program at University of Hyderabad.

1 تبصرہ: