نصرت ظہیر کی خاکہ نگاری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-12-26

نصرت ظہیر کی خاکہ نگاری

Nusrat Zaheer

خاکہ کے لغوی معنی ڈھانچہ، چربہ، وہ نقشہ جو صرف حدود کی لکیریں دیکھ کر بنایا جائے۔ انگریزی میں اسے اسکیچ Sketch کے نام سے جانا جاتا ہے۔ خاکہ سے خاکہ اتارنا، خاکہ اڑانا، خاکہ کھینچنا، جیسی اصطلاحات وضع کی گئی ہیں اور خاکہ نگاری کے لیے خاکہ اتارنا، خاکہ اڑانا، نقل اتارنا، نقشہ کھینچا، کچا نقشہ کھینچنا، کچا نقشہ بنانا، مضحکہ اڑانا اور خاکہ کھینچنا، تصویر کا نقشہ بنانا وغیرہ جیسی کچھ مزید اصلاحات بھی اردو میں مستعمل ہیں۔ خاکہ کھینچنا دراصل خاکہ نگاری کا اصل مفہوم پیش کرتا ہے۔ اصل میں خاکہ لکھنا، کسی شخص کے حلیے، آداب و اطوار، وضع قطع اور خوبیوں و خامیوں کا ایسا نقشہ تیار کرنا ہوتا ہے، جس سے اس کی پوری شبیہ مع شخصی کوائف و احوال کے بیک نظر سامنے آجائے، جس طرح ایک آرٹسٹ کسی انسان کے چہرے کا اسکیچ اپنی پنسل یا برش سے بناتا ہے اور وہ کوشش کرتا ہے کہ اس شخص کے چہرے کے پورے نقوش، یعنی آنکھ، کان، ناک، پیشانی، بال وغیرہ ہو بہو ویسے ہی اتریں جس طرح وہ ظاہری طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح خاکہ نگار صاحب خاکہ کی ایسی مجموعی تصویر پیش کرتا ہے، جس میں اس شخص کی چال ڈھال، بات چیت، رہن سہن، وضع قطع، ملبوسات کے ساتھ ساتھ اس کی فکری و فنی خوبیاں سامنے آجائیں اور ساتھ ہی اس کے عیب و ہنر سے بھی قاری واقف ہو جائے۔


خاکہ کے معنی کچا نقشہ، ڈھانچہ یا لکیروں کی مدد سے بنائی ہوئی تصویر کے ہیں۔ خاکہ کے لیے اردو میں مرقع، شخصی مرقع، چہرہ بشرہ، قلمی تصویر، جیتی جاگتی تصویر جیسی اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں۔ لیکن ادبی اصطلاح میں خاکے سے مراد وہ تحریر ہوتی ہے جس میں نہایت اختصار کے ساتھ اشارے کنایے میں کسی شخصیت کا ناک نقشہ، عادات واطوار کردار کو سیدھے سادے انداز میں مبالغے کے بغیر اس طرح پیش کیا جا تا ہے کہ اس کی چلتی پھرتی تصویر سامنے آ جاتی ہے۔ خاکہ کسی شخص سے وابستہ عقیدت، محبت، احترام، انسیت، دوستی، دلچسپی اور یادوں کی ایک ایسی لفظی تصویر ہوتی ہے جو کسی جگہ نہایت بے ساختہ انداز میں شروع ہوتی اور غیر روایتی انداز میں کہیں ختم ہوجاتی ہے۔ بقول خواجہ نثار احمد فاروقی "خاکہ شخصیت کی عکاسی کا نام ہے۔ اچھا خاکہ دراصل کسی کی معروضی شخصیت کا مطالعہ ہے۔"


خاکہ کی تعریف کرتے ہوئے صابر علی سیوانی اپنے مضمون "اُردو خاکہ ک ارتقائی سفر" (مشمولہ ایوانِ اُردو، ایریل 2021) میں لکھتے ہیں:


"خاکہ در اصل خاکی پتلے (انسان) کی ساخت، پرداخت، وضع قطع، خدو خال، رہن سہن اور اس کے عیب و ہنر کا ایماندارانہ بیان ہوتا ہے، جس کی روشنی میں صاحب خاکہ کی شخصیت کی پوری شبیہ ہو بہو سامنے آجائے جیسا وہ واقعتاً ہے۔ اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ خاکہ نگار صاحب خاکہ کو اچھی طرح جانتا ہو۔ اس کی زندگی کے نشیب و فراز، اس کی خوبیوں اور خامیوں سے واقف ہو اور اس کا اظہار نہایت دیانت داری سے خاکے میں کرے، جس کے نزدیک مصلحت پسندی نہ ہو۔"


اُردو میں خاکہ نگاری کے ابتدائی نقوش ہمیں محمد حسین آزاد (1830ء-1910ء) کے یہاں "نیرنگِ خیال" (1880ء) اور "آب حیات"(1880ء) میں ملتے ہیں۔ کچھ حد تک اسی موضوع سی ملتی جلتی ایک کتاب "1261ھ میں دہلی کی ایک شام" فرحت اللّٰه بیگ (1883ء-1947ء) کی بھی ہے۔ جس میں جابجا شعرائے اردو کے خاکے بکھرے پڑے ہیں۔ (سب سے پہلے یہ تحریر رسالہ "اردو ادب" میں جولائی 1927ء کو شائع ہوئی، اس کے محض ایک سال بعد یعنی 1928ء میں خواجہ حسن نظامی نے اسے کتابی شکل میں "دلی کی آخری شمع" کے نام سے شائع کیا تھا۔) لیکن اردو ادب میں باقاعدہ طور پر خاکہ نگاری کی شروعات مرزا فرحت اللّٰه بیگ کے خاکے "نذیر احمد کی کہانی کچھ میری کچھ ان کی زبانی" (اشاعت اول، سہ ماہی رسالہ 'اُردو' اورنگ آباد، جولائی 1928ء اور بعد میں یہ خاکہ کتابی شکل میں علی گڑھ سے شائع ہوا۔) سے ہوتی ہے۔ فرحت اللّٰه بیگ نے بعد میں وحیدالدین سلیم کی فرمائش پر ان کا خاکہ "ایک وصیت کی تعمیل میں" (1929ء مشمولہ رسالہ 'اردو') لکھا، لیکن یہ خاکہ ڈپٹی نذیر احمد کے خاکے کی طرح شہرت و عظمت کی بلندیوں کو نہ پہنچ سکا۔ کچھ تخلیق کاروں نے انفرادی طور پر بہت اچھے خاکے لکھے، لیکن ان کے کوئی خاکوں کے مجموعے نہیں ہیں۔ ایسے ادیبوں میں عصمت چغتائی کا اپنے بھائی عظیم بیگ چغتائی کے لیے لکھا گیا خاکہ "دوزخی"، اور اسرار الحق مجاز پر لکھا گیا خاکہ، علی سردار جعفری کا مخدوم محی الدین پر لکھا ہوا خاکہ، دیوندر ستیارتھی پر لکھا گیا ساحر لدھیانوی کا خاکہ بہت مشہور ہے۔ کنہیا لال کپور نے بھی دیوندر ستیارتھی کا خاکہ "جہانِ گرد" کے نام سے لکھا ہے۔ جن لوگوں نے خاکہ نگاری کی روایت میں نام پیدا کیا اور اس صنف کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ان کے نام اور خاکوں کے مجموعے ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں۔ مولوی عبد الحق "چند ہم عصر"، رشید احمد صدیقی" گنج ہائے گراں مایہ" اور "ہم نفسانِ رفتہ" اشرف صبوحی "دلی کی چند عجیب ہستیاں"، اور "غبارِ کارواں"، چراغ حسن حسرت "مردم دیدہ"، شاہد احمد دہلوی "گنجینہ گوہر"(1962ء)، سعادت حسن منٹو "گنجے فرشتے"(1952ء)، "لاؤڈ اسپیکر (1955ء)" اور "شخصیتیں" (1956ء)، منٹو نے عصمت چغتائی، کرشن چندر اور آغا حشر کاشمیری سمیت کئی لوگوں کے خاکے لکھے ہیں۔ ضیاءالدین برنی "عظمت رفتہ"، عبد المجید سالک "یارانِ کہن"، اخلاق احمد دہلوی "اور پھر بیاں اپنا"، "پھر وہی بیاں اپنا"، رئیس احمد جعفری "دِید و شُنید"، شورش کاشمیری "نورتن" اور "چہرے"، شوکت تھانوی "شیش محل" اور "قاعدے بے قاعدے"، جلیل قدوائی "چند اکابر چند معاصر"، ابراہیم جلیس "آسماں کے باشندے"، عبدالسلام خورشید " وہ صورتیں الٰہی"، اعجاز حسین "ملکِ ادب کے شہزادے"، غلام السیدین "اہل صفا"(آندھی میں چراغ)، علی جواد زیدی "آپ سے ملیے"، مالک رام "وہ صورتیں الٰہی"، خواجہ احمد فاروقی "یاد یارِ مہرباں"، صالحہ عابد حسین "جانے والوں کی یاد"، عبدالماجد دریا آبادی "ماضیات ماجدی"، جگن ناتھ آزاد "آنکھیں ترستیاں ہیں"، عوض سعید "خاکے"، اقبال متین "سوندھی مٹی کے بت"، یوسف ناظم "سائے اور ہم سائے"، "ذکرِ خیر" اور "علیک سلیک"، فکر تونسوی "خد و خال"، مجتبیٰ حسین "آدمی نامہ"، "سو ہے وہ بھی آدمی"، "چہرہ در چہرہ" اور "آپ کی تعریف"، ڈاکٹر محمد اسلم پرویز "گھنے سائے" (خاکوں اور شخصی مضامین کا مجموعہ 2010ء)، منظور عثمانی "ہیں خواتین کچھ نظر آتی ہیں کچھ"، انجم عثمانی "شگفتگی کی تلاش میں" (2015ء)، خالد محمود "شگفتگی دل کی"، ابن کنول "کچھ شگفتگی، کچھ سنجیدگی" (2020ء)، سہیل انجم "نقشِ بر آب" (2015ء) اور "نقشِ بر سنگ"(2021ء)، ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی "آسماں کیسے کیسے" (2022ء) وغیرہ اہم اور قابلِ ذکر خاکوں کے مجموعے ہیں۔


نصرت ظہیر (1951ء-2020ء) کا خاکوں پر مشتمل کوئی مجموعہ نہیں ہے، بلکہ ان کے پانچ انشائیوں اور مضامین کے مجموعوں میں جابجا ان کے لکھے گئے خاکے بکھرے ہوئے ہیں۔ ممکن ہے کہ نصرت ظہیر کی تمام غیر مطبوعہ تحریروں کو کھنگالنے پر ان کے کچھ مزید خاکوں کا بھی سراغ ملے، لیکن میری دو سال کی حتی المقدور کوشش کے باوجود مجھے ان کے صرف دس ہی خاکے مل سکے۔ جن کی تفصیل یہ ہے۔ تحت اللفظ (1992ء) میں تین خاکے ہیں۔ "مولوی یٰسین"، "منشی ثناء احمد صبر و عصر" اور "ایک آنچ کی کسر" (الیاس تیاگی کا خاکہ)، بقلم خود (1997ء) میں بھی تین ہی خاکے ہیں۔ "بڑے بھائی جان"، "شاعر صحافی اور مجاور" اور "لمبا رام، "جان ہے تو جہان ہے پیارے" ایک انشائیہ ہے۔ "ایک آنچ کی کسر" نامی انشائیہ جو کہ تحت اللفظ میں شامل ہے اور اس کا دوسرا حصّہ بقلم خود میں موجود ہے، اسی انشائیے کے پہلے حصے میں الیاس تیاگی کا خاکہ ہے۔ خراٹوں کا مشاعرہ (2002ء) میں صرف دو خاکے ہیں۔ "الارم گھڑی" اور "میاں اسلام کی گھڑی"، کیونکہ "کالج کے مینار" یہ مولوی محمد یٰسین کا خاکہ ہے جو تحت اللفظ میں "مولوی یٰسین" کے نام سے شامل ہے اور "بڑے بھائی جان" بھی بقلم خود میں شامل ہے۔ نمی دانم (2008ء) میں ایک بھی خاکہ نہیں ہے۔ جبکہ ہزار باتیں (2019ء) میں شجاع خاور پر صرف ایک خاکہ "اور دلّی خاموش ہوگئی ! " کے نام سے ہے۔ "شارب ردولوی ادبی سفر کے پچاس سال" (2012ء) نامی کتاب میں (مرتب ڈاکٹر حسن مثنیٰ میں صفحہ نمبر 311 پر) پروفیسر شارب ردولوی کا ایک خاکہ نصرت ظہیر نے بھی لکھا ہے۔ اس طرح سے نصرت ظہیر کے خاکوں کی تعداد کل دس بنتی ہے۔ واضح رہے کہ انہوں نے مشہور رسالہ "انشاء" کے مدیر ف س اعجاز اور بچوں کے ادیب محمد خلیل پر بھی ایک ایک خاکے لکھے ہیں، لیکن تلاشِ بسیار کے باوجود مجھے ان خاکوں تک رسائی نہیں مل سکی۔ اگر بعد میں یہ دونوں خاکے بھی دستیاب ہوجاتے ہیں، تو ان کے خاکوں کی تعداد ایک درجن پہنچ جائے گی۔


نصرت ظہیر نے مولوی یٰسین کا خاکہ کھینچتے ہوئے لکھا ہے:
"مولوی یٰسین ہلالی۔۔۔۔ پچپن ساٹھ کا سن، دبلا پتلا جسم، سانولا رنگ، کثرت پان سے سیاه دانت، بدن پر میل سے چکٹ اور پیک سے گلزار کرتا پاجامہ، پیروں میں سلیم شاہی جوتی، سر پر کبھی ٹوپی تو کبھی سر سے دو گنے وزن اور حجم کی پگڑی اور یہ سب جوڑ کر بمشکل چار فٹ کا قد اور کلو گرام میں عمر سے آدھا وزن یہ تھے مولوی یٰسین ! دیکھنے میں انتہائی نحیف و نزار اور معمولی انسان نظر آتے تھے مگر ہیبت کا یہ عالم تھا کہ جب کلاس لینے کے لیے ٹیچرز روم سے باہر نکلتے تو ہرطرف خاموشی چھا جاتی تھی۔ بچے اپنی اپنی کلاسوں میں چلے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ امرود اور جامن کے درختوں پر چہچہانے والی چڑیاں بھی خاموش ہو جاتی تھیں۔ "


مذکورہ بالا اقتباس سے مولوی یٰسین کی جسامت، گیٹ اپ، قد کاٹھی، حلیٰ بشریٰ، رعب و دبدبہ، ظاہری طور طریقہ، عادات و اطوار، جسمانی ساخت، بناوٹ و ڈھانچہ اور ان کے رہن سہن وغیرہ پر روشنی پڑتی ہے۔ میرے خیال سے ایک استاد کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے استاد کی عدم موجودگی میں ان کے طلبا انہیں خیر کے کلمات سے یاد کرتے رہیں۔ یہی وجہ ہے مولوی یٰسین کی وفات کے وقت نہ صرف بچے بلکہ بقول نصرت ظہیر اس کالج کے چرند و پرند بھی اداس ہو گئے:


"جس روز مولوی یٰسین کا انتقال ہوا۔ پورا کالج سوگ میں ڈوبا تھا۔ ہر نگاہ چھوٹے سے قد کے اس آدمی کو ڈھونڈ رہی تھی جس کے بغیر کالج کا تصور بھی مشکل تھا۔ تمام طلباء پلے گراؤنڈ میں جمع تھے۔ ہرطرف خاموشی تھی۔ یہاں تک کہ امرود اور جامن کے درختوں پر بھی خاموشی چھائی تھی۔"


منشی ثناء احمد صبر و عصر کا خاکہ پیش کرتے ہوئے نصرت ظہیر نے لکھا: "چوتھائی صدی پہلے انہیں ایک ٹوٹے پھوٹے مکان میں انتہائی ضعیفی کے عالم میں دیکھا تھا۔ ایک کھرّی چارپائی پر اکڑوں بیٹھے تھے۔ عمر پچھتر کو پار کرچکی تھی۔ بصارت اور سماعت نے جواب دے دیا تھا۔ کوئی پرسان حال نہ تھا۔ (سوائے عبدالقیوم شاعر کے جو پابندی سے ان کی خدمت کے لیے آتے رہتے تھے) نہ کوئی آمدنی تھی نہ ذریعہ معاش تھا۔ کئی جسمانی اور روحانی تکلیفوں میں مبتلا تھے۔ مگر مفلسی اور حالات کی چکی میں پستے ہوئے بھی مشق سخن جاری تھی۔ کوئی بھولا بھٹکا ملنے آجاتا تھا تو اسے اپنا حال بعد میں، تازہ اشعار پہلے سناتے تھے۔"


اس اقتباس سے منشی ثناء احمد صبر و عصر کی غربت و مفلسی کا پتہ چلتا ہے اور یہ بھی کہ انسان کبھی کبھی کس حد تک اکیلا ہوجاتا ہے۔ غمِ جاناں اور غمِ دوراں کو بھلانے کے لیے کسی بھی شوق کو اپنا مشغلہ بنا لیتا ہے۔ اسی خاکے میں نصرت ظہیر نے منشی ثناء احمد کے دو دو تخلص اختیار کرنے کی وجہ بھی بتائی ہے۔ واضح رہے کہ منشی ثناء احمد صبر و عصر سہارنپوری پر عبد الرحمٰن شافی کا دو صفحے کا ایک مضمون "اردو دنیا" اپریل 2022ء کے شمارہ میں بھی شائع ہوا ہے۔ "ایک آنچ کی کسر" میں نصرت ظہیر نے الیاس احمد تیاگی کے بارے میں لکھا ہے:


"بھائی الیاس میں ایک خاص وصف یہ ہے کہ جب بھی انہیں کوئی نیا شوق ہوتا ہے تو اسے انتہا تک پہنچا دیتے ہیں۔ کیمیا کے بارے میں بھی یہی ہوا ( ہماچل پردیش کے عوام کی قسمت میں کیا لکھا ہے یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔) اس فن میں وہ ان منزلوں تک پہنچ گئے، جہاں فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں، بلکہ سچ پوچھئے تو وہ خود بھی جلتے جلتے رہ گئے۔"


نصرت ظہیر نے "لمبا رام" کا خاکہ کھینچتے ہوئے قومی اور بین الاقوامی سطح پر کھیل کے بورڑوں میں ہو رہی دھاندھلی، گڑبڑی اور کرپشن کی طرف بہت ہی عمدہ انداز میں طنزیہ اشارہ کیا ہے:


"ایک طرف تو اتنی دوڑ دھوپ ہوتی ہے اور دوسری طرف معاف کرنا، تم جیسے ناشکرے لوگ ہیں۔ جو دھوپ میں دوڑ دوڑ کر تمام سرکاری سہولتوں پر پانی پھیرتے ہوئے خود ہی کھلاڑی بن جاتے ہیں اور دیہات میں پڑے پڑے مفت میں قومی ریکارڈ توڑتے رہتے ہیں، جس سے وزارت کھیل کود کے کروڑوں روپے کا خرچ بے کار چلا جاتا ہے۔ یہ تو کوئی اچھی بات نہ ہوئی لمبا رام۔ بھلا ہو وزارت کھیل کود اور اس کی اسپورٹس اتھارٹی کا جس کے افسر تمہیں راجستھان کے کسی گاؤں سے پکڑ کر لے آئے، ورنہ تم تو سرکاری اجازت کے بغیر ہی عالمی ریکارڈ توڑ دیتے۔"


نصرت ظہیر نے شجاع خاور کا ایک بہت ہی معلوماتی خاکہ لکھا ہے۔ جس سے نہ صرف دونوں کے تعلقات پر روشنی پڑتی ہے، بلکہ شجاع خاور کے فالج زدہ جسم اور ان کے حالتِ زار پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔


"شجاع کو میں نے کافی قریب سے دیکھا سمجھا اور جانا ہے۔اتنے نزدیک سے تو نہیں جس کا دعویٰ اور لوگ کرسکتے ہیں۔ پھر بھی خاصی قربت اور قربت سے کہیں بڑھ کر انسیت تھی، جس کا احساس خود انہیں بھی تھا۔ سولہ سال پہلے کی ایک منحوس صبح کو فالج کی شکل میں نازل ہونے والی موت سے قبل بھی اور اس موت کے بعد پھر سے زندہ ہونے کی کوشش کے سولہ برسوں میں بھی۔ میں ایک عجیب ذہنی کیفیت سے دو چار تھا۔ اور میں ہی کیا۔ پوری اردو دنیا ایک عجیب منظر دیکھ رہی تھی۔ایک شاعر ہے، جو کبھی کا فوت ہو چکا مگر اس کا جسم ابھی تک سانس لے رہا ہے۔ ایک ادیب ہے جو کبھی کا عرصۂ گزراں بن چکا، مگر ہر ادبی محفل میں بہ نفسِ نفیس موجود ہے۔ ایک قلندر ہے جو واصلِ حق ہونے کے بعد بھی حواسِ خمسہ کی گرفت میں ہے۔ ایک عارف کامل ہے، جس کے لبوں پر ہمہ وقت سجا رہنے والا تمسخرانہ تبسم نہ جانے کس راز کی تفسیر بنا رہتا ہے اور کسی کی سمجھ میں نہیں آ تا ! ایک صوفی ہے جو پوری صفائی سے نہیں بول پاتا، مگر اس کے ہر مبہم و موہوم جملے میں معنی اور وضاحتوں کے چشمے ابلتے رہتے ہیں۔"


نصرت ظہیر کے منجملہ دس خاکوں میں سے کچھ ہی پر گفتگو کی گئی ہے، کیونکہ ان کے انشائیوں کی طرح ان کے خاکوں میں وہ ندرت، شگفتگی اور لطافت کی کمی کھٹکتی ہے۔ نصرت ظہیر کا جتنا طبعی میلان اور ذہنی مناسبت انشائیوں میں نظر آتی ہے وہ ان کے خاکوں میں مفقود ہے۔


نصرت ظہیر کی مجموعی خدمات کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ واقعی انہوں نے بہت ہی محنت اور لگن سے اپنا کام کیا ہے اور یہ جن شعبوں سے بھی منسلک ہوئے ان میں جدت وانفرادیت کو بھی ملحوظ رکھا، چاہیے وہ صحافت ہو، خاکہ نگاری ہو، شاعری ہو، کالم نگاری ہو، طنز و مزاح نگاری ہو یا پھر اسکرپٹ رائٹنگ۔ نصرت ظہیر کی انہیں مذکورہ صفات کے پیشِ نظر میں نے انہیں ہمہ جہت صلاحیت کا مالک قرار دیا ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ آنے والے برسوں میں نصرت ظہیر کی مجموعی تخلیقات پر مزید اظہارِ خیال کیا جائے گا۔


حوالہ جات :
(1) تحت اللفظ : نصرت ظہیر، دنیا پبلی کیشنز نئی دہلی، 1992ء
(2) بقلم خود : نصرت ظہیر، اسکائی گروپ، پبلی کیشنز، نئی دہلی، 1996ء
(3) خراٹوں کا مشاعرہ : نصرت ظہیر، مکتبہ پیام تعلیم، نئی دہلی، 2002ء
(4) نمی دانم : نصرت ظہیر، پینگوئن بکس، پبلیشر، پینگوئن گروپ، انڈیا 2008ء
(5) ہزار باتیں : نصرت ظہیر، عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی 95، ایڈیشن، 2019ء
(6) شارب ردولوی ادبی سفر کے پچاس سال : ڈاکٹر حسن مثنیٰ، حسامی بک ڈپو، مچھلی کمان، حیدرآباد (2012ء)

***
محمد اشرف یاسین (دہلی)

Email: mdashrafyaseen[@]gmail.com

محمد اشرف

Nusrat Zaheer as a khaaka nigar. - Essay: Mohd Ashraf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں