تبصرہ کتاب - راستے خاموش ہیں از مکرم نیاز - مبصر سید عینین علی حق - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-11-06

تبصرہ کتاب - راستے خاموش ہیں از مکرم نیاز - مبصر سید عینین علی حق

raaste-khamosh-hain-short-stories-by-mukarram-niyaz

سوشل میڈیا کا جہاں وسیع و عریض ہے، یہاں بے شمار تعلقات بنتے ہیں اور پروان چڑھتے ہیں۔ میری فیس بک فرینڈ لسٹ میں بھی قابل قدر بڑے بھائی سید مکرم نیاز ہیں، جن سے میری گفتگو کا سلسلہ فیس بک سے ہی شروع ہوا تھا، غالباً 2013میں انہوں نے اپنے ویب پورٹل ''تعمیرنیوز'' پہ میری ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ تب سے لیکر آج تک الیک سلیک جاری ہے۔ ان کی تحریریں بھی نظر سے گزرتی رہتی ہیں اور وہ بھی میری پوسٹ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں، البتہ میرے اور مکرم نیاز بھائی کے مابین نظریاتی اختلافات رہے اور صحت مند بحث بھی سوشل میڈیا پہ ہوتی رہی ہے۔ یوں تو مکرم نیاز سے ملاقات کا کبھی اتفاق نہیں ہوا، دلچسپ بات یہ ہے کہ میرے تقریباً ڈھائی سالہ حیدر آباد قیام کے دوران بھی ان سے ملاقات ممکن نہیں ہوسکی۔ ظاہر ہے سبھی کی اپنی مصروفیات ہوا کرتی ہیں۔


مکرم نیاز بھائی ان لکھاریوں میں ہیں جو تمام موضوعات پر طبع آزمائی کرتے اور اس کے ساتھ انصاف بھی کیا کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے افسانوی مجموعہ ''راستے خاموش ہیں'' کا شور و غوغا تھا اور اب ان کی دو دیگر کتابیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان میں ایک تبصروں اور تجزیوں پر مبنی کتاب ''فلمی دنیا:قلمی تجزیے'' اور دوسری "حیدر آباد کچھ یادیں کچھ جھلکیاں" شامل ہیں۔ کئی ماہ قبل انہوں اپنا پہلا افسانوی مجموعہ ''راستے خاموش ہیں'' بذریعہ ڈاک مجھے بھیجا، لیکن میری نا اہلی مصروفیات کے سبب پڑھ نہ سکا۔
8 اکتوبر جب میری تنہائی اور بے سکونی بے پناہ پریشان کر دیا تو دل چاہا کچھ پڑھ لیا جائے، سامنے رکھی متعدد کتابوں میں سے میری آنکھیں دو افسانوی مجموعے پر جا کر ٹنگ گئیں، ان میں مکرم نیاز کا مجموعہ ''راستے خاموش ہیں'' اور دوسرا نورین علی حق کا کچھ دنوں قبل ہی منظر عام پر آیا افسانوی مجموعہ '' تشبہ میں تقلیب کا بیانیہ'' تھا۔


زیر مطالعہ ''راستے خاموش ہیں'' افسانوی مجموعے میں بے شمار تجربے کیے گئے ہیں، بنیادی طور پر یہ کتاب دیگر کتابوں کی بہ نسبت بالکل ہی منفرد ہے۔ کتاب کے آغاز میں ہی دو اننتساب کا التزام کیا گیا ہے، اس کے علاوہ افسانوں سے قبل کئی تحریریں شامل کی گئی ہیں، لیکن ان میں مکرم نیاز کی تحریر 'جو کہا نہیں وہ سنا کرو' قابل مطالعہ ہے۔ در اصل اس تحریر کا مقصد افسانے کے فن،کتاب کی اشاعت کے حوالے سے چند باتیں اور لواحقیقن کا اظہار تشکر ہے، لیکن یہ تحریر اپنے سحر میں اس طریقے سے مقید کرتی ہے کہ جیسے یہ کوئی عام تحریر نہیں بلکہ ایک افسانہ ہی ہو، افسانوی مجموعے میں مکرم نیاز کی فنکاری کے نمونے آغاز سے ہی عروج پر نظر آتے ہیں۔ دوسری تحریر علامہ اعجاز فرخ کی ہے، جس میں انہوں نے مکرم نیاز کے خاندانی پس منظر پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ مکرم نیاز کا ادبی ذوق و شوق ان کے بڑوں کا ہی ثمرہ ہے، جس کا انہوں نے اظہار اپنی تحریروں کے ساتھ ساتھ انتساب میں بھی کیا ہے۔ یوں تو مکرم نیاز بنیادی طور پر ایک انجینئر ہیں، اردو ان کی مادری زبان ہے اور اردو ادب ان کا عشق۔ اگلا مضمون اسلام آباد سے محمد حمید شاہد کا ہے، جس میں انہوں نے مکرم نیاز کی کہانیوں پر مختصراً اور لیکن اہم باتیں کی ہیں۔


لاہور سے نعیم بیگ نے بغیر کسی تمہید کے براہ راست مکرم نیاز کے فن اور ان کے افسانوں پر گفتگو کی ہے۔ جرمنی سے عشرت معین سیما کا ایک رسمی تبصرہ بھی مجموعے کی اہمیت ثابت کرتا ہے۔ مجموعے میں افسانہ 'خلیج' پر ایک بھرپور تجزیہ شامل ہے، ڈاکٹر ارشد عبدالحمید ٹونک راجستھان نے غیر جانبدارانہ طور سیر حاصل تجزیہ کیا ہے۔
"تیری تلاش میں":
"نہ کوئی کسی کا وفا دار ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی کسی کا رشتہ دار۔ یہاں سبھی غرض مند ہوتے ہیں، سب ایک دوسرے سے سودا کرتے ہیں۔ اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے"۔ کہانی 'تیری تلاش میں کے ابتدائی جملے ہی قاری کو اپنی جانب متوجہ کرلیتے ہیں۔ مذکورہ بالا اقتباس سے کہانی کا پورا تانا بانا بن دیا گیا ہے۔ کہانی معاشرے اور رشتوں کی شکست و ریخت کا المیہ ہے۔ جس سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقی زندگی میں انہی تجربات سے گزرنا ہوتا ہے۔ کہانی فنی اعتبار سے لاجواب ہے اور جدیدیت اور مابعدجدیدیت کا حسین سنگم۔ "آگہی": اس کہانی میں بھی رشتوں کے تقدس کی بحالی اور حالات حاضرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ علامت کا استعمال کرکے داخلی کش مکش کو ہنر مندی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔"خلیج": جیساکہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ مکرم نیاز کے افسانے سماج اور خاندانی پس منظر میں ہی گھوم رہے ہوتے ہیں اور کہانی اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔ خلیج معاشرے کے مختلف پہلوؤں کے در وا کرتی ہے۔ خصوصاً نئی نسل کی بے راہ روی اور جنریشن گیپ افسانے کو جدید تناظر میں دیکھنے اور پرکھنے کی دعوت دیتا ہے۔ زبان و بیان میں کسی قسم کا نسخ نہیں نکالا جا سکتا البتہ کہانی کا ابہام قاری کو پریشان ضرور کرتا ہے۔


"راستے خاموش ہیں": مکرم نیاز کی کہانیوں میں ان کے مشاہدے کا عمل غالب نظر آتا ہے، جس کے نتیجے میں یہ کہانی متاثر ہوتی ہے لیکن کہانی کا موضوع عہد حاضر کے مطابق کافی اہمیت کا حامل ہے۔ صرف آبائی سرزمین چھوڑنے کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ اس مقصدیت پسند زمانے کے حوالے سے بھی یہ تلخ حقیقت ہے کہ انسان کا کوئی پاس و لحاظ نہیں رکھا جاتا بلکہ ثروت مند حضرات اور عہدوں کی پرستش کی جاتی ہے۔


"سوکھی باؤلی": نسلوں کے مابین ایک خلا نمایاں ہے۔علامت، استعارے اور تجریدیت سے لبریز کہانی مختلف معنی و مفہوم وضع کرتی ہے۔ "شکست نا تمام": مکرم نیاز کی کہانیاں تجربات اور مشاہدات کی غماز ہیں۔ اس کہانی کا موضوع بھی منفرد ہے۔ انسانی رشوں کی قدر و منزلت کو ثابت کیا گیا ہے۔"زمین": تمام کہانیوں میں سب سے طویل کہانی ہے۔ مکرم نیاز کا فن کافی عروج پر نظر آتا ہے اور کئی اہم نمائندہ افسانوں کی یاد بھی تازا ہو جاتی ہے۔"گلاب کانٹے اور کونپل": مذکورہ کہانی قومی یکجہتی، فرقہ وارانہ تشدد اور تابناک مستقبل کے تناظر میں عمدہ افسانہ ہے۔ "اداس رات کا چاند": مختصراً مگر موجودہ عہد کی نمائندہ کہانی ہے۔ تعلیم نسواں کا موضوع کل بھی اہم تھا اور آج بھی اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن لڑکیوں کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے منفی اثرات پر بھی مکرم نیاز نے بہت ہی خوبصورتی سے کاری ضرب لگائی ہے۔ اس دوغلے معاشرے میں لڑکی کی تعلیم اور بڑھتی عمر پر اعتراض تو ہوتا ہے مگر یہ بھی خواہش رہتی ہے کہ لڑکی ملازمت کر رہی ہو اور بھاری بھرکم جہیز بھی لائے۔ "بے حس": مذکورہ افسانہ عالمی اور قومی صورت حال کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ جس کا کردار بنیادی طور پر ایک قلم کار ہے۔ ظلم کے آگے سر تسلیم خم کرچکے صحافیوں، ادیبوں اور دیگر طبقات کے لیے ایک پیغام کی حیثیت رکھتی ہے۔ مکرم نیاز کے بیانیے میں تسلسل اور روانی کا جواب نہیں۔ "کرن": یہ موضوعات اصلاحی نوعیت کے ہیں اور ان پر ادبی اور مذہبی سطح پر خوب گفتگو ہوتی رہتی ہے، لیکن سماج کی بے راہ روی کا عالم یہ ہے کہ زندگی کا مقصد و منشا ہی نام و نمود رہ گیا ہے۔ فنکار کا ٹریٹمنٹ قابل ستائش ہے۔ "درد لا دوا": مکرم نیاز اپنی کہانیوں میں جن کیفیات کا تذکرہ کرتے ہیں وہ معاشرے میں پھیلی بدترین خامیاں ہیں۔ ایک فنکار کے ذریعہ اسپتال اور محکمہ پولیس کے اصول و ضوابط پر انگشت نمائی کی ہے۔ "ایک وائلن محبت کنارے": مجموعے کی آخری کہانی ہے جو فن کی سطح پر اپنا زبردست چھاپ چوڑتی ہے۔ یہ افسانہ بھی نسلوں کے مابین فاصلے کی داستان بیان کرتا ہے۔ اس افسانوی مجموعے میں مکرم نیاز کی یہ سب سے پرانی کہانی ہے۔ جوکہ مئی1989میں شائع ہوئی۔ اس کہانی کو پڑھ کر مجھے تعجب ہوا کہ اۤخر مکرم نیاز نے اپنا پہلا مجموعہ لانے میں 33برسوں کا وقت کیوں لیا۔


حیدر آبادی اثرات بھی افسانوں پر نمایاں ہیں۔ کہیں کہیں پروف کی غلطیاں بھی رہ گئی ہیں۔ تبصروں کو شامل کرنے میں صرف ستائش کو ملحوظ نظر نہیں رکھا گیا ہے، ان تحریروں کو بھی فراخ دلی سے شامل کیا ہے جس میں کہانیوں اور فنکار کے فن پر اصلاحی نوعیت کے مشورے دیے گئے ہیں۔ کہانیوں کے اختتام پر مکرم نیاز سوشل میڈیا پر اپنی گرفت کا مظاہرہ کرتے ہیں، فیس بک پر شیئر کیے گئے تبصروں اور ساتھ ہی کیو آر کوڈ بھی دے دیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مصروفیات مثلاً تعمیر نیوز، تعمیر یو ٹیوب، اردو کارٹون دنیا اور اپنے دیگر کارناموں کو بھی پیش کیا ہے۔ کتاب کا سرورق نہایت ہی پرکشش ہے جب کہ بیک ٹائٹل پر پروفیسر شافع قدوائی کی تحریر موجود ہے۔ مجموعی طور پر یہی کہنا چاہوں گا کہ مکرم نیاز اپنے افسانوی سفر کو جاری رکھیں۔

***
سید عینین علی حق ، نئی دہلی
alihaq_ainain[@]yahoo.com
موبائل : 9268506925,9868434658
سید عینین علی حق

A review on Raaste khamosh hain, a collection of short stories by Mukarram Niyaz. Reviewer: Syed Ainain Ali Haque

1 تبصرہ: