شاعر مشرق علامہ اقبال ایک ایسی ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں جسے چند جملوں میں سمیٹنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ وہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفی بھی ہیں۔ ان کی شاعری صرف ان معنوں میں فلسفیانہ ہے کہ وہ زندگی کا ایک مد لل اور کلی تصور پیش کرتی ہے۔ انھوں نے لطافت شعر کو مجروح کیے بغیر اسے حکیما نہ لب ولہجہ عطا کیا۔
شاعر مشرق علامہ اقبال اردو اور فارسی دونوں زبانوں کے شاعر ہیں۔ غزل اور نظم دونوں پر طبع آزمائی کی ہے۔ لیکن ان کا فلسفہ ان کی غزلوں سے زیادہ ان کی نظموں میں ابھر کر سامنے آیا ہے۔ کیونکہ ان کا پیغام جس ربط و تسلسل کا حامل تھا اس کے لیے نظم میں زیادہ موزوں تھی۔ ان کی غزلوں میں بھی ایک طرح کا تسلسل پایا جاتا ہے۔
اقبال کی شاعری تصورات اور اظہار کی نوعیت کے اعتبار سے اپنے ما قبل اور ما بعد کی شاعری سے مختلف ہے۔ فلسفہ خودی نے ان کی شاعری کو زیادہ شہرت بخشی ، ان کے یہاں عشق ، جہد و عمل ، زماں ، ومکاں وغیرہ تصورات پائے جاتے ہیں۔ استحکام خودی میں سب سے زیادہ معاون و مددگار عشق ثابت ہو تا ہے۔ ان کے یہاں عشق اور اس کے مترادفات و لوازمات یعنی وجدان ، خودآ گہی باطنی شعور، جذب، جنون، دل، محبت، شوق، آرزومندی، درد، سوز، جستجو کا ذکر جس تکرار، تواتر، انہماک اور شدتِ احساس کے ساتھ ملتا ہے، کسی اور موضوع کا نہیں ملتا۔
عشق سے پیدا نوائے ز ندگی میں ز یر و بم
عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوز دمبدم
آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق
شاخِ گل میں جس طرح باد سحر گاہی کا نم
اقبال کے نزدیک عشق ایک عطیہ الہی اور ازلی ہے، علامہ اقبال نے عقل کے مقابلے میں عشق کو کوفوقیت دی ہے۔ چونکہ عقل کے بارے میں ان کا ماننا ہے کہ عقل کا دائرہ محدود ہے۔ اس کے آگے عقل کا بس نہیں چلتا، لیکن عشق راہ کی دشواریوں کو خاطر میں نہیں لاتا اور کسی خوف ہراس کے بغیر آتشِ نمرود میں کود پڑتا ہے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لب با م ابھی
عشق ان کے یہاں اییک زبردست محرک ہے ، اقبال کا عقیدہ ہے کہ عشق لافانی ہے۔ اور جس دل میں عشق کی آگ روشن ہو تو وہ موت کی دستر س سے باہر ہے۔ مسجد قرطبہ میں عشق کے لا زوال ہو نے کا مضمون اس طرح بیان کیا ہے۔
ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام
جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام
تندو سبک سیر ہے گر چہ زمانے کی رہ
عشق خود ایک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام
عشق کی تقدیم میں عصر رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
عشق کے مضراب سے نغمۂ تار حیات!
عشق سے نورِ حیات، عشق سے نارِ حیات
اے حرم قرطبہ ! عشق سے تیر ا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں ر فت و بود
عشق صادق عاشق کے دل میں یہ خواہش پیدا کر دیتا ہے کہ وہ خود کو اپنے محبوب کے سانچے میں ڈھال لے۔اس کی بہتر ین مثال وہ عشق ہے جو سرورِ کا ئنات ﷺ کو اللہ تعالی سے تھا، اقبال کہتے ہیں کہ مسلمان کو اپنے اندر اسی درجے کا عشق خداوندی پیداکرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس منزل میں رسول اکرم ﷺ کی اتباع کرنی چاہیے اور انہی کو مرشدِ کامل سمجھنا چاہیے۔
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمد ﷺ سے اجالا کردے
خلیفہ عبد الحکیم اپنی کتاب ـ " فکر اقبال " میں لکھتے ہیں:
"جسمانی زندگی میں حیات و موت عناصر مادی کی ترکیب و تحلیل کا نام ہے۔ لیکن جو ہر روح اس عالم کون وفساد کی چیز نہیں۔ اس کی حقیقت نہ۔ مادی ہے اور نہ زمانی و مکان، اس جو ہر روح کی بقا کا ضامن عشق ہے۔ جس کی بدولت انسان ابد پیوندہو جاتا ہے۔ محض حکمت پر موت غالب نہیں آ سکتی۔ بقا فقط عشق سے حاصل ہو سکتی ہے۔ کیونکہ عشق حقیقی ماخذ حیات بھی ہے اور مقصودحیات بھی، وہ جادۂ حیات بھی ہے اور منزل حیا ت بھی "
"بانگ درا " کی نظم "عشق اور موت" جو کہ " ٹینی سن" کی نظم کا ترجمہ ہے۔ اس کا موضوع یہ ہے کہ عشق کے فرشتے کی موت کے فرشتے سے ملاقات ہو گئی، نظم اس طرح ہے کہ موت کہتی ہے۔
اڑاتی ہو ں میں رختِ ہستی کے پرزے
بجھاتی ہوں میں زندگی کا شرارا
مگر ایک ہستی ہے دنیا میں ایسی
وہ آتش ہے، میں سامنے اس کے پارا
شرر بن کے رہتی ہے انساں کے دل میں
وہ ہے نورِ مطلق کی آنکھوں کا تارا
سنی عشق نے گفتگو جب قضا کی
ہنسی اس کے لب پر ہو ئی آشکارا
گری ا س تبسم کی بجلی ا جل پر
اندھیر ے کا ہو نور میں کیا گزارا
بقا کو جو دیکھا فنا ہو گئی وہ
قضا تھی ، شکارِ قضا ہو گئی وہ
اقبال کے عشق کی نہ ابتداء ہے اور نہ انتہا اورخود اقبال اس کی انتہا کے آرزو مند نہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک زندگی ازل سے ابد تک جستجو ہی جستجو ہے۔
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مر حلۂ شوق نہ ہو طے
نظم "پیامِ عشق " میں اقبال کا نظر یہ عشق نمایاں ہو گیا ہے کہ عشق ایک انقلاب آفریں اور ارتقا کوش جذبہ ہے۔
سن اے طبگار درد پہلو! میں ناز ہو ں تو نیاز ہو جا
میں غزنوی سومناتِ دل کا ہوں تو سراپا ایاز ہو جا
عشق دراصل محبت میں شدت کا نام ہے۔ عشق کی آخری منزل یہ کہ عاشق کی خودی معشوق کی خودی میں گم ہو جائے۔ نظم " ذوق و شوق " میں یوں نظم کیا ہے۔
فرصت ِ کشمکش مدہ ایں دل بیقرار را
یک دو شکن زیادہ کن گیسوئے تابدار را
اقبال اس عشق کے قائل ہیں جو ہجرکا طالب ہے ہمیشہ محبوب کی جدائی میں تڑپتا رہتا ہے۔
عالم سوز و ساز میں و صل سے بڑھ کے ہے فراق
و صل میں مرگِ آرزو! ہجر میں لذت ِ طلب
گرمی آرزو فراق! شورشِ ہائے و ہو فراق!
موج کی جستجو فراق! قطرہ کی آبرو فراق!
اقبال نے عشق کو خودآ گہی اور آگہی کا سرچشمہ جانا ہے۔ اور عقل کا مذاق اڑایا ہے۔ انھوں نے جگہ جگہ عشق کے ساتھ عقل کا ذکر کیاہے۔
عشق کی تیغ جگر دار اڑالی کس نے
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدۂ تصورات
الغرض اقبال کا عشق نام ہے ایک عالمگیر قوتِ حیات کا جذبہ عمل سے سر شاری کا ، حصول مقصد کے لیے بے پناہ لگن کا ، عزم و آرزو سے آراستہ جہد مسلسل کا ، بقاوار تقا کا ، جو ہر لمحہ احوال نو کا شائق ہے اسے ایک حالت پر قائم رہنا پسند نہیں۔ ہر لمحہ جہانِ نو پیدا کرنا اس کی فطرت میں داخل ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں۔
مر د خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام
حوالہ جات
1۔ فکر اقبال، ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم
2۔ تصورات عشق و خرد اقبال کی نظر میں، وزیر آغا
3۔ اقبال سب کے لیے، فرمان فتح پوری
4۔ اقبال شاعر و مفکر، نور الحسن نقوی
5۔ اقبال کامل، عبد السلام ندوی
شفا مریم (علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ)
ای-میل: shifamaryam35[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں