زین رامش : ایک منفرد شخصیت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-10-25

زین رامش : ایک منفرد شخصیت

zain-ramish

نام: پروفیسر سید زین الحق
قلمی نام: زین رامشؔ
یوم پیدائش:5جنوری 1963
والد:ڈاکٹر سید اظہار الحق آصف سہسرامی
والدہ:سیدہ نسیمہ خاتون
تصانیف: فصل خزاں (مرتب)، آصف سہسرامی کی غزلوں کا مجموعہ (مرتب)، حضرت مسرور اورنگ آبادی کا شعری انتخاب، فریب زندگی (مرتب)، منتخب غزلیں، منتخب نظمیں، منتخب انشایئے، نرملا ایک تجزیاتی مطالعہ وغیرہ۔
پتہ: شاہ ہارون، برتلا، سہسرام (روہتاس)، بہار۔


اردو فکشن کے حوالے سے عبقری شخصیت تسلیم کی جانے والی قرۃ العین حیدر نے ایک جگہ لکھا تھا کہ: "سب سے بڑے مجرم ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے خواب کھو دیے"۔
قرۃ العین حیدر کے یہاں خواب در اصل ماضی کا استعارہ بن کر سامنے آتا ہے اور لمحاتی فضا کی تشکیل کا سبب بنتا ہے۔ علمی، ادبی اور تہذیبی بنیاد پر اپنی منفرد شناخت قائم کرنے والا شہر، شہر نگاراں، سہسرام جسے ہم عروس البلاد بھی کہہ سکتے ہیں اور خوابوں اور خوشبوؤں کی سرزمین بھی۔ اس نے اپنے دامن بھر بھر کر ایسے ایسے گوہر نایاب لٹائے ہیں کہ جن سے نہ صرف ملک گیر سطح پر مختلف شہروں اور ریاستوں کو علمی و ادبی طمانیت حاصل ہوئی ہے بلکہ جنہوں نے غیر ملکوں میں بھی اپنی جلوہ سامانی بکھیری ہے۔ علم و ادب سے لے کر تہذیب و ثقافت تک کے میدان میں اور تہذیب و ثقافت سے لے کر مختلف النوع شعبہ ہائے زندگی میں انہوں نے اپنے انفراد و اختصاص کے ساتھ اپنی شناخت قائم کی سعئی مستحسن کی ہے۔اس سلسلے کا سب سے روشن پہلو یہ رہا ہے کہ انہوں نے کبھی اپنے خواب نہیں کھوئے اور اپنے ماضی اور ماضی کی طلسماتی فضا کو کبھی فراموش نہیں کیا۔
انہیں شخصیات میں سے ایک شخصیت کا نام پروفیسر زین رامش ہے، جن کا تعلق سہسرام کے ایک انتہائی اہم علی و ادبی، مذہبی اور متصوفیانہ فکر رکھنے والے خانوادے سے رہا ہے اور گنجینہ علم و ادب جنہیں وراثت میں ملا ہے۔ سہسرام سے ہجرت کے بعد وہ گیا اور پھر پٹنہ ہوتے ہوئے فی الوقت ریاست جھارکھنڈ کے شہر ہزاری باغ میں باضابطہ طور پر سکونت پذیر ہیں اور اپنی مجموعی خصوصیات کی بنیاد پر جھارکھنڈ کی سب سے اہم اور مقبول و معروف یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں بحیثیت استاد رونق افروز ہیں۔ یہاں وہ نہ صرف یہ کہ دو مرتبہ صدر شعبہ اردو رہ چکے ہیں بلکہ اس شعبے میں سب سے زیادہ مدت گزارنے کی بنیاد پر تمام اساتذہ میں سب سے سینئر کی حیثیت بھی انہیں حاصل ہے۔


ڈاکٹر عرفان کوثر نے اپنے تحقیقی مقالے میں معاصر اردو افسانہ نگاری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ:
"زین رامشؔ کی ادبی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ علم و ادب سے ان کا ایک بہت ہی مستحکم تعلق تو یہ ہے کہ وہ اعلی تعلیم کی تدریس سے وابستہ ہیں اور دوسرا یہ کہ ان کی ادبی خدمات مختلف جہتوں کا احاطہ کرتی ہے۔ انہوں نے شاعری، افسانہ نگاری، تحقیق، تنقید، تبصرہ نگاری، انشائیہ نگاری اور صحافت سے متعلق اپنی جو گراں قدر علمی و ادبی خدمات پیش کی ہیں، وہ اپنی مثال آپ ہیں اور دوسروں کے لیے مشعل راہ ہیں۔"


زین رامش نے ابتدائی تعلیم اپنے عم بزرگوار حضرت مولانا حافظ سید شاہ انوار الحق شہودی نازش سہسرامی سے حاصل کرنے کے بعد مدرسہ خانقاہ کبیریہ سہسرام سے ابتدائی درجات سے لے کر مولوی تک کا تعلیمی سفر کیا۔ اسی دوران میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایس پی جین کالج سہسرام سے آئی اے کیا۔ والد بزرگوار ڈاکٹر اظہار الحق آصف سہسرامی کی خواہشات کی تکمیل کے لیے عم محترم حضرت نازش سہسرامی کی محبت و شفقت، تعلیم و تربیت اور انتہائی مخلصانہ نگرانی کے طفیل جہد مسلسل جاری رکھی اور پھر گیا کالج، گیا سے بی اے اردو آنرس اور شعبہ اردو مگدھ یونیورسٹی سے ایم اے کی سند کے حصول میں کامیابی و کامرانی سے ہم کنار ہوئے۔ بقول زین رامش 1983 میں عم محترم حضرت نازش سہسرامی کی رحلت کے بعد برادران گرامی پروفیسر حسین الحق اور پروفیسر عین تابش کے ذریعہ محبت و شفقت، تعلیم و تربیت اور مخلصانہ نگرانی کا وہ سلسلہ جاری رہا جو عم محترم سے حاصل تھا۔ حضرت نازش سہسرامی کی رہنمائی نے اس ناچیز کو دین و دنیا کے جن بیش بہا رموز سے آشنا کرایا تھا اور سینے میں ایک قلب سلیم کا جو چراغ روشن کیا تھا اسے مزید جلا ملی۔
ایم اے کرنے کے بعد زین رامش نے باضابطہ طور پر شہر عظیم آباد سے وابستگی اختیار کی جہاں حصول رزق کے وسائل کے طور پر صحافت یعنی الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے منسلک ہوئے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات میں خدمات کی انجام دہی کا سلسلہ رہا اور ساتھ ہی خدا بخش پبلک لائبریری میں بھی عارضی طور پر خدمات انجام دینے کا موقع میسر آیا۔ اسی دوران میں انہوں نے مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ سے عالم، عربک اینڈ پرشین ریسرچ انسٹی چیوٹ سے فاضل اور ڈپ ان ایڈ اور مگدھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ 1990 میں ریڈیو کی عارضی ملازمت کو چھوڑ کر گیا کے ایک باوقار تعلیمی ادارے ہادی ہاشمی ہائی اسکول+2 کو اپنی مستقل خدمات پیش کیں۔ 1996 میں بہار یونیورسٹی سروس کمیشن کے ذریعہ اردو لکچرر کے طور پر منتخب ہونے پر ونوبا بھاوے یونیورسٹی کے جے جے کالج جھمری تلیا کے شعبہ اردو کو جوائن کیا اور پھر کچھ دنوں بعد ونوبا بھاوے یونیورسٹی ہزاری باغ کے شعبہ اردو کو اپنی خدمات پیش کیں۔
زین رامش کے تعلق سے اگر ڈاکٹر عرفان کوثر کے تحقیقی مقالے کی روشنی میں گفتگو کو آگے بڑھایا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ادب سے زین رامش کی وابستگی کا سلسلہ اولاً شاعری سے شروع ہوتا ہے۔ اپنے آبائی وطن سہسرام میں منعقد ہونے والے ایک طرحی مشاعرے (مصرع طرح: جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے) میں انہوں نے اپنی پہلی غزل پڑھی۔ یہ 76-1975 کا زمانہ تھا جب حضرت حشر سہسرامی، حضرت نازش سہسرامی، حضرت ناظم میواتی، حضرت کیف سہسرامی، حضرت عبدالسلام افسر، حضرت مانوس سہسرامی وغیرہ جیسے سینئر اساتذہ اور نابغہ باضابطہ طور پر سہسرام کےمشاعروں کی زینت ہوا کرتے تھے۔ اس وقت زین رامش کی عمر تقریباً 14-13 سال رہی ہوگی۔ اس کے اگلے سال گوپال متل اور مخمور سعیدی کی ادارت میں دارالسلطنت دہلی سے شائع ہونے والے اردو کے اہم ادبی رسالے "تحریک" (اگست1977) میں زین رامش کی نظم کی اشاعت ہوئی اور پھر یہ سلسلہ دراز ہوا۔
ڈاکٹر زین رامش کے تخلیقی ادبی سفر کا آغاز شاعری سے ہوا لیکن اس کے فوراً بعد وہ افسانہ نگاری کی جانب متوجہ ہوئے۔ پٹنہ سے شائع ہونے والے ادبی ہفتہ وار پندار کو اس وقت بڑی اہمیت حاصل تھی۔ غیر منقسم بہارو جھارکھنڈ کے بیشتر نئے لکھنے والے تواتر کے ساتھ اس میں شائع ہوتے تھے۔ زین رامش کا پہلا افسانہ 1977 کے اواخر میں شائع ہوا اور پھر تواتر کے ساتھ 1980 ان کی مختصر ترین کہانیاں شائع ہوتی رہیں۔ اسی دوران ان کی ایک کہانی "سکے" کو بہت ہی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی۔ جب ان کا رابطہ ریاستی راجدھانی گویا مرکز علم و ادب عظیم آباد پٹنہ سے ہوا تو وہاں کی شعری نشستوں نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ 1984 میں جب عارضی ملازمت کے طور پر آل انڈیا ریڈیو پٹنہ سے وابستگی ہوئی تو مشاعروں میں شرکت کا طویل سلسلہ شروع ہو گیا اور اس طرح مظہر امام، کلیم عاجز، حفیظ بنارسی، کیف عظیم آبادی، رمز عظیم آبادی، رضا نقوی واہی، عطا الرحمن عطا کاکوی، واقف عظیم آبادی، علیم اللہ حالی، طلحہ رضوی برق، لطف الرحمن، شکیب ایاز، شمیم فاروقی، جمال الدین ساحل، متین عمادی، ظہیر صدیقی، سلطان اختر، شام رضوی، اور دوسرے بہت سارے اہم شعراء کے ساتھ بار بار مشاعرہ پڑھنے کا شرف حاصل ہوا اور اس طرح غالب رجحان شاعری کی طرف منتقل ہوگیا۔ پھر چوں کہ صحافت سے بڑی گہری وابستگی رہی اس لیے صحافت کی مصروفیات نے شاعری کا موقع تو دیا، افسانہ نگاری کی مہلت ذرا کم ہی ملی۔ پھر بھی زین رامش کی ادبی خدمات کا سلسلہ افسانہ نگاری سے بالکل غیر متعلق کبھی نہیں رہا۔ ہاں اشاعتی معاملات ذرا کم طے ہوئے۔ شاید یہی وجہ رہی کہ مختلف مقامات پر زین رامش کا ذکر بحیثیت شاعر، بحیثیت ناقد، بحیثیت صحافی، یہاں تک کہ بحیثیت انشائیہ نگار اور ڈرامہ نگار وغیرہ تو خوب ہوا لیکن بحیثیت افسانہ نگار ان کا ذکر ذرا کم ہوا۔ پھر بھی پروفیسر طلحہ رضوی برق، پروفیسر انجم فاطمی، ڈاکٹر نکہت تبسم اور ڈاکٹر عبدالمنان وغیرہ نے زین رامش کی افسانہ نگاری پر اپنی انتہائی مثبت آرا جبکہ جمال الدین ساحل فخر الدین عارفی اور رتنا پرکایستھا نے تعریف و تحسین سے بھر پور تاثرات کا اظہار کیا۔


زین رامش کے تعلق سے ڈاکٹر نگار سلطانہ اپنی کتاب "بہار اور جھارکھنڈ میں اردو غزل 1960کے بعد" کے صفحہ 100 پر لکھتی ہیں:
"زین رامش کا ذکر جس طرح ریاست بہار کے معاصر شاعروں اور ادیبوں میں احترام کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسی طرح جھارکھنڈ کے ارباب قلم اور فنکاروں میں نہایت اعزاز کے ساتھ ان کا نام لیا جاتا ہے۔ انہیں نثر اور شاعری کی مختلف اصناف پر دسترس حاصل ہے۔ صحافت سے ان کی پرانی دلچسپی ہے۔ مشاعروں اور ادبی جلسوں میں ان کی نظامت کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔ وہ مختلف تنظیموں کے روح رواں ہیں۔ ان کی شخصیت میں علم کے ساتھ ساتھ حلم بھی ہے جو ان کے خاندانی پس منظر کی دلیل ہے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔۔۔۔"
وہ مزید لکھتی ہیں کہ:
"ڈاکٹر زین رامش تحقیق وتنقید دونوں شعبوں پر دسترس رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے مختلف مقالات میں اپنی تنقیدی بصیرت کا ثبوت دیا ہے۔ اس کا تفصیلی مطالعہ نئی تنقیدی دانش کا خاکہ پیش کر سکتا ہے۔ شاعری کے میدان میں زین رامش اپنی اس جدت سے پہچانے جاتے ہیں جو اردو شاعری کی روایت سے منحرف نہیں بلکہ اس کی شریک و رفیق ہے۔"
جمشید پور سے شائع ہونے والی اپنی کتاب کے حصہ اول (بعنوان جھارکھنڈ میں اردو شعر وادب کا ارتقا) میں ہزاری باغ کی علمی و ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مصنفہ ڈاکٹر نزہت پروین نے صرف تین ناموں کا ذکر کیا ہے، جس میں ناوک حمزہ پوری، ظہیر غازی پوری اور زین رامش کے نام شامل ہیں۔ زین رامش کے تعلق سے انہوں نے لکھا ہے کہ:
"زین رامش آج کی ادبی دنیا کا ایک اہم نام ہے، یہ اپنی تنقیدی صلاحیتوں کے سبب جانے جاتے ہیں۔"


دو ماہی گلبن (احمد آباد) کے ستمبر، اکتوبر 2001 کے شمارے میں شائع اپنے ایک مضمون "صنف انشائیہ اور زین رامش" میں ڈاکٹر نکہت تبسم لکھتی ہیں:
"زندگی کے تمام تر شعبوں میں کچھ ایسی شخصیات بھی ہمیں ضرور مل جائیں گی جو نام و نمود کی خواہش سے بے نیاز، صلے سے بے پروا اور احساسِ سود و زیاں سے کنارا کش ہوکر مستحسن اور صالح مقاصد کی خاطر پوری نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ با مقصد طریقے سے اپنے کام میں منہمک ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ سلسلہ علمی و ادبی سطح پر بھی قائم و دائم ہے اور اسی سلسلے کی ایک کڑی اور جہد مسلسل میں منہمک ایک ناقابل فراموش شخصیت کا نام ہے ڈاکٹر زین رامش۔"


ڈاکٹر منصور انصاری نے اپنی کتاب "بہار میں اردو ڈرامہ نگاری" میں بحیثیت ڈرامہ نگار ڈاکٹر زین رامش کی خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے:
"موجودہ مشاغل میں درس و تدریس کے علاوہ تخلیق و تنقید تحقیق اور تصنیف ترتیب کتب اور صحافت شامل ہیں۔۔۔۔ شعری اصناف ادب کے علاوہ ریڈیو سے وابستگی کے دوران صنف ڈرامہ پر ان کی خصوصی توجہ مرکوز رہی ہے اور ان کے کئی ڈرامے اور فیچر آکاشوانی کے پٹنہ اور دیگر مراکز سے تشہیر ہوئے جن میں ڈرامے 'رات کے آخری پہر'، 'کرفیو'، اور فیچر 'لہو کا رنگ ایک ہے' اور 'آزاد ہیں ہم' خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔"
زین رامش نے افسانہ نگاری پر بہت زیادہ توجہ نہیں دینے کے باوجود کئی بہت اہم افسانے لکھے۔ ان کا ایک افسانہ 'برقع' کے عنوان سے آل انڈیا ریڈیو پٹنہ سے نشر ہوا اور بعد میں ماہنامہ "مریخ" میں فخر الدین عارفی نے اسے شائع کیا۔ اس افسانے کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم رہا کہ آکاشوانی پٹنہ کے ڈرامہ سیکشن نے اسے ڈرامائی شکل دلوا کر اپنے خصوصی پروگرام میں نشر کیا اور بعد میں وہ کئی دیگر مراکز سے بھی نشر ہوا۔ یہ افسانہ در اصل طبقہ اشرافیہ کی تہذیبی وراثت کے انحطاط کی کہانی ہے۔ اسی طرح ان کا ایک افسانہ جو بیسویں صدی میں شائع ہوا۔ وہ محبت کی مصلحت پسندی اور مکاری کے رویے کی پیکر تراشی کرتا ہے۔ زین رامش کے افسانے مریخ، بیسویں صدی، عہدنامہ، کہکشاں، روحِ ادب اور تعمیر وغیرہ جیسے کئی اہم رسالوں میں شائع ہوئے۔ انہوں نے بعض ایسے موضوعات پر بھی افسانے لکھے جن پر عموماً ذرا کم توجہ دی جاتی ہے۔ مثلاً 'عہد نامہ' میں شائع ہونے والا ان کا افسانہ 'رات کے ساحل پر' جہاں ایڈز جیسی مہلک بیماری کے مسئلے کو ایک بالکل نئے تناظر میں پیش کرتا ہے، وہیں ان کا افسانہ 'میڈم رومانہ ہسیے مت' کا موضوع تو جنسی بے راہ روی ہے لیکن افسانے کا اختتام ایسے مناظر کی پیش کش پر ہوتا ہے جو انتہائی عبرت ناک ہے۔


فی الوقت زین رامش کی توجہ کا مرکز شاعری کے علاوہ پوری طرح تنقید ہے اور بالخصوص فکشن تنقید اور شاعری کی تنقید پر ان کی خصوصی توجہ ہے۔ ادب کی انتہائی ہمہ جہت شخصیت پروفیسر اسلم جمشید پوری کی نظر میں زین رامش فکشن کے ایک اہم اور معتبر ناقد ہیں۔ زین رامش کی کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ 1982 سے شروع ہوتا ہے جب ان کی مرتب کردہ پہلی کتاب 'فصل خزاں کے بعد' بہار اردو اکیڈمی کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے۔ یہ ان کے والد بزرگوار حضرت آصف سہسرامی کی غزلوں کا مجموعہ تھا۔ پھر ان کی ترتیب دی گئی کتاب (حضرت مسرور اورنگ آبادی کا شعری انتخاب)، 'فریب زندگی' شائع ہوئی اور پھر 1994 میں انہوں نے حضرت نازش سہسرامی کی غزلوں کا انتخاب 'حریم شوق' ترتیب دیا، جسے بہار اردو اکیڈمی کا مالی تعاون حاصل رہا اور اسے تخلیق کار پبلشر دہلی نے شائع کیا۔ یہ کتاب ادبی حلقوں میں کافی مقبول ہوئی اور کئی یونیورسٹیوں کے نصاب میں بھی شامل رہی۔ ان کتابوں کے علاوہ ان کی جو کتابیں شائع ہوئیں ان میں 'منتخب غزلیں'، 'منتخب نظمیں'، 'منتخب انشایے'، 'نرملا: ایک تجزیاتی مطالعہ' اور 'بہار میں اردو کا ریڈیائی ڈرامہ 1980کے بعد' اہمیت کی حامل ہیں۔ 'نرملا: ایک تجزیاتی مطالعہ' اور 'بہار میں اردو کا ریڈیائی ڈرامہ 1980کے بعد' مختلف یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل رہی ہیں۔ زین رامش کے ادبی مضامین و مقالات ملک اور بیرون ملک کے اہم ادبی رسالوں میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ اب تک تقریباً پچاس سے زیادہ عالمی اور قومی سمیناروں میں ان کی شرکت ہوچکی ہے۔ تین درجن سے زائد کتابوں پر مقدمے، پیش لفظ اور تاثرات لکھ چکے ہیں۔ تحقیق، جمشید پور، دسترس، دھنباد اور فکر وتحریرکولکاتہ کے علاوہ کئی دیگر رسائل کی مجلس مشاورت اور مجلس ادارت میں شامل رہے ہیں۔ بہار اردو اکیڈمی، بنگال اردو اکیڈمی، اردو ڈائرکٹوریٹ اور مسلم انسٹی چیوٹ کولکاتہ جیسے کئی اہم علمی و ادبی اداروں کے ذریعہ انعامات و اعزازات سے نوازے جاتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر نعیم انیس صدر شعبہ اردو کولکاتہ گرلس کالج، ڈاکٹر ندرت تزئین، صدر شعبہ اردو سنٹ کولمبس کالج ہزاری باغ، ڈاکٹر صبا فردوس اور ڈاکٹر خان جیسے کئی اہم قلم کاروں کی اہم ترین کتابوں کا انتساب زین رامش کے نام کیا گیا ہے۔ ایک درجن سے زائد تحقیقی و تنقیدی ادبی کتابوں میں بحیثیت قلم کار زین رامش کا تعارف اور ان کی علمی و ادبی خدمات کے حوالے سے تفصیلی تاثرات پیش کیے جاچکے ہیں۔ مختلف ادبی تقریبات میں کی گئی گفتگو اور خطابات سے متعلق ریکارڈنگ یوٹیوب پر موجود ہے۔ کئی علمی و ادبی اداروں میں زین رامش نے مختلف موضوعات پر لکچر پیش کیے ہیں۔ جن میں خصوصی طور پر اردو ڈائرکٹوریٹ محکمہ راج بھاشا حکومت بہار کا تذکرہ اہمیت کا حامل ہے۔ اردو ڈائرکٹوریٹ کے یادگاری خطبات کے تحت انہوں نے متعدد بار اپنے خطابات پیش کیے ہیں جن میں کیف عظیم آبادی، پروفیسر عبدالمغنی، پروفیسر اجتبی رضوی اور کلام حیدری سے متعلق ان کی گفتگو کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ زین رامش کو زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے جس کا ذکر بار بار کیا جاتا رہا ہے۔ ابھی حالیہ دنوں میں محفل یاران اردو کے زیر اہتمام 'اردو فکشن کے تعلق سے عینی شناسی کی اہمیت' کے عنوان سے زین رامش کے آن لائن خطاب کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی اور اس گفتگو کے بعد تاثرات پیش کرتے ہوئے معروف افسانہ نگار خورشید حیات اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے مقبول ادبی دانشور انیس الرحمن نے زین رامش کی زبان اور مخصوص انداز بیان پر سیر حاصل اور مثبت تبصرہ کرتے ہوئے اسے ان کا تخصیصی پہلو قرار دیا۔
دوران ملازمت بھی زین رامش نے کالج سے یونیورسٹی تک بہت سی حصولیابیاں اپنے حصے میں مختص کی ہیں۔ 1996میں جے جے کالج جھمری تلیا کا شعبہ اردو جوائن کرتے ہی وہ صدر شعبہ اردو مقرر کیے گئے اور پھر شعبہ اردو ونوبا بھاوے یونیورسٹی میں اپنی خدمات پیش کرنے کے بعد اب تک دو مرتبہ صدر شعبہ کے عہدے پر متمکن ہوچکے ہیں۔ اس دوران اب تک وہ NSS پروگرام آفیسر رہے، NCCآٖفیسر رہے، پلیس منٹ آفیسر رہے، سینیٹ اور سنڈیکیٹ کے ممبر رہے، یونیورسٹی اکیڈمک کانسل کے ممبر رہے۔ یونیورسٹی کے متعدد امتحانات کے لیے سینئر سپریٹنڈنٹ بنائے گئے۔ کالجز انسپکشن کمیٹی کے کنوینر اور ممبر مقرر ہوئے، آبزرور آف دی اگزامنر مقرر ہوئے، یونیورسٹی ریسرچ بورڈ کے ممبر رہے، یونیورسٹی سلیکشن بورڈ کے ممبر رہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ونوبا بھاوے یونیورسٹی ٹیچر ایسوسی ایشن کے دو مرتبہ وائس پریسیڈنٹ منتخب ہوئے اور کئی مرتبہ مشاورتی کمیٹی کے ممبر ہوئے۔ ونوبا بھاوے یونیورسٹی کے علاوہ کئی دیگر یونیورسٹیوں (ریاست اور بیرون ریاست) میں بھی اہم حیثیت حاصل رہی۔ مثلاً قاضی نذر الاسلام یونیورسٹی آسنسول کی مشاورتی کمیٹی کے خصوصی ممبر کا اعزاز حاصل ہوا۔ رانچی یونیورسٹی کے موڈریشن بورڈ کے ممبر رہے، کویلانچل یونیورسٹی دھنباد کے بورڈ آف اسٹڈیز میں شامل رہے، شیاما پرساد مکھرجی یونیورسٹی رانچی کی سلیکشن کمیٹی کے ممبر نامزد ہوئے اور اس طرح بہت ساری حصولیابیاں ان کے حصے میں مختص ہوئیں۔
سطور بالا میں زین رامش کے حوالے سے جو مختصر سی گفتگو کی گئی ہے وہ زین رامش کا مکمل تعارف یا ان کی شخصیت اور ادبی خدمات پر تحریر کیا گیا کوئی مضمون یا مقالہ نہیں ہے بلکہ اسے زین رامش کی منفرد شخصیت کے تعارف کا بس ایک اشاریہ تصور کیا جانا چاہیے اور آخر میں شاید اس بات کا ذکر بھی اہم ہے کہ زین رامش کی تین اور کتابیں عنقریب شائع ہوکر منظر عام پر آنے والی ہیں۔ جن میں پہلی کتاب "حضرت نازش سہسرامی:فرد اور فن" دوسری کتاب "آصف سہسرامی:شخص اور شاعر" اور تیسری کتاب "تصوف شناسی" ہے۔ یہ تینوں کتابیں 'ارم پبلشنگ ہاؤس' پٹنہ سے شائع ہو رہی ہیں۔


***
ڈاکٹر اے۔ کے ۔ علوی، علوی ہاؤس، چوکھنڈی، سہسرام، بہار۔ 821115

Mob.:09304520864


Zain Ramish, a prominent laureate. - Dr. A.K. Alavi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں