باتیں بلقیس بانو ، ہیٹ اسپیچ ، سپریم کورٹ اور نفرت بازوں کی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-10-24

باتیں بلقیس بانو ، ہیٹ اسپیچ ، سپریم کورٹ اور نفرت بازوں کی

bilquis-bano-case-sc

بات 'ہیٹ اسپیچ' اور سپریم کورٹ کی کریں گے ، اور بلقیس بانو کی بھی!

ادب میں مابعد جدیدیت کی ہوا چلی تھی تو لفظوں کے معنی بدلنے لگے تھے ، لیکن فکری اور نظری اختلاف کے اِس دور میں لفظوں کے معنی بدلے ہی نہیں جا رہے ہیں ، لوگوں پر نئے معنیٰ ، جو پہلے معنی کی تقریباً ضد ہوتے ہیں ، تھوپے جا رہے ہیں !
اب یہی دیکھ لیں کہ وہ جو زانی ہیں ، ریپسٹ ہیں ، قاتل ہیں ، اور مذہب کی بنیاد پر ایک حاملہ خاتون کے ساتھ بدترین فعل ، اور اس کی تین سال کی بیٹی کو ، پتھر پر جیسے کپڑا پٹکا جاتا ہے ، اس طرح پٹک پٹک کر قتل کرنے ، اور پیٹ سے جنین نکال کر ترشولوں پر اچھالنے کے مجرم ہیں " اچھے چال چلن " کی سند پا رہے ہیں۔ اور سند ہی نہیں پا رہے ہیں باقاعدہ جیل کی سلاخوں سے باہر آ رہے ہیں ، بری کیئے جا رہے ہیں ، ہار اور پھول سے لادے جا رہے اور مٹھائیاں کھا کر خوشیاں منا رہے ہیں !
ذکر مظلوم خاتون بلقیس بانو کا ہے کہ ایک لمبی اذیت سے گذرنے ، اور طویل مدت کے بعد انصاف پانے کے بعد اب وہ پھر سے ڈری اور سہمی ہوئی ہے ، اس لیے کہ اس کے مجرم آزاد کر دیے گیے ہیں۔ یقیناً اس کی آنکھوں کے سامنے گجرات 2002ء کا وہ خونی منظر کسی فلم کی طرح گھوم رہا ہوگا ، جس میں یہ گیارہ مجرمین جو " اچھے چال چلن " کی سند پا کر رہا ہوئے ہیں ، خوف ناک کردار ہیں ، ایسے کردار جن کا بلقیس بانو کی دنیا کو اجاڑنے میں گھناؤنا ہاتھ ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ 15، اگست کے روز ، آزادی کے امرت مہوتسو پر ، گجرات کی سرکار نے بلقیس بانو کے مجرموں کو " اچھے چال چلن " کی سند دے کر رہا کر دیا تھا ، لیکن یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ فیصلہ گجرات سرکار کا تنہا لیا گیا فیصلہ نہیں تھا ، اُسے مرکزی وزارتِ داخلہ کی اجازت یا منظوری حاصل تھی۔ آسان لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ گجرات کی حکومت نے مرکزی حکومت کی مرضی سے بلقیس بانو کے مجرموں کو رہا کیا تھا۔ 15، اگست سے لے کر 18، اکتوبر تک مرکزی سرکار اپنے ہونٹ سیئے ہوئے تھی ، بلقیس بانو معاملہ میں اس کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تھا ، اور نہ ہی اس معاملہ میں اس کا ہاتھ ظاہر ہوا تھا ، لیکن جب بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی کے خلاف ، سپریم کورٹ میں ترنمول کانگریس کی رکن راجیہ سبھا مہوا موئترا ، سی پی ایم کی شبھاسنی علی ، سماج سیویکا ووکھین ورما اور سرفروشی فاؤنڈیشن سے وابستہ و گجرات فسادات پر آنکھیں کھولنے والی کتاب " اناٹومی آف ہیٹ " کی مصنفہ ریوتی لال کی درخواست پر شنوائی ہوئی تو پتہ چلا کہ مرکزی وزارتِ داخلہ ، مطلب مرکز کی نریندر مودی کی سرکار ، ان مجرموں کی رہائی کے پیچھے ہے !


گجرات حکومت نے اور خود مرکزی سرکار کی طرف سے اس کے ایک افسر نے ، سپریم کورٹ میں جو حلف نامے داخل کیے ، ان سے جہاں مرکزی حکومت کا کردار سامنے آیا ، وہیں اِن مجرموں کے " اچھے چال چلن " کا سچ بھی جگ ظاہر ہوگیا ، اور اس سوال کا جواب بھی سامنے آ گیا کہ کیا یہ واقعی میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے ؟ اس سوال کا جواب آپ کے سامنے رکھیں گے ، لیکن اس سے پہلے سپریم کورٹ کے اُن سخت ریمارکس پر ایک نظر ڈال لی جائے ، جو اس نے " ہیٹ اسپیچ " یعنی " نفرت کی بولی " کے تعلق سے ، جمعہ کے روز دیئے ہیں۔


یہ بتا دیں کہ جب سے مودی اقتدار میں آئے ہیں ، یعنی 2014ء ، تب سے ملک بھر میں اشتعال انگیزی زوروں پر ہے ، سیاست داں ، دھرم گرو اور پرچارک " نفرت کی بولی " بولنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے کوشاں ہیں۔ میرا یہ ماننا ہے کہ " نفرت کی بولی " سارے تشدد کی ، چاہے وہ گروہی ہو ، فرقہ وارانہ ہو یا ذات پات کی بنیاد پر ہو ، جڑ ہے۔ تشدد خبیث کاموں میں سے ایک ہے ، اس لیے " نفرت کی بولی " کو " اُم الخبائث " کہا جا سکتا ہے۔ گودھرا میں 27 ، فروری 2002ء کے روز سابرمتی ایکسپریسس کی بوگی نمبر ایس - 6 میں آگ لگی یا لگائی گئی تھی ، جس میں ایودھیا سے آنے والے 59 کارسیوک جل کر مر گئے تھے۔ الزام گودھرا کے مسلمانوں پر لگایا گیا تھا ، اور " نفرت کی بولی " بولی جانے لگی تھی۔ مرنے والوں کی " شو یاترا " نکالی گئی تھی ، اور اشتعال انگیز باتیں کہی گئیں اور نعرے لگائے گئے تھے۔
اگر یہ نعرے نہ لگتے ، اشتعال انگیز باتیں نہ کہی جاتیں ، نفرت کو فروغ نہ دیا جاتا ، تو نہ گجرات کے فسادات ہوتے اور نہ ہی بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری کی جاتی ، اور نہ ہی اس کے گھر کے چودہ افراد ، جن میں عورتیں اور بچے بھی تھے ، قتل کیے جاتے۔ لہٰذا بلقیس بانو کا معاملہ " ہیٹ اسپیچ " سے ہی پیوست ہے۔
گیارہ مجرمین جو بری کیے گیئے ہیں ، نفرت کی باتیں سن کر ہی قتل و غارت گری پر اتارو ہوئے تھے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ " ہیٹ اسپیچ " اور " تشدد " میں چولی اور دامن کا ساتھ ہے۔ دہلی فسادات کی مثال لے لیں ، اگر انوراگ ٹھاکر ، پرویش ورما اور خود امیت شاہ اور نریندر مودی نے الیکشن مہم میں اشتعال انگیز بیانات نہ دیئے ہوتے ، اگر " دیش کے غداروں کو ، گولی مارو سالوں کو " جیسے نعرے نہ لگتے اور یوگی آدتیہ ناتھ ' گن اور گولی ' کی باتیں نہ کرتے ، تو یقیناً دہلی میں تشدد نہ ہوتا۔
اب تو " نفرت کی بولی " یوں بولی جا رہی ہے جیسے کہ اس کی پوری چھوٹ ہو۔ دہلی میں ایک " ہندو سبھا " میں پرویش ورما نے ، جو مودی حکومت میں وزیر ہیں ، مسلمانوں کے " معاشی بائیکاٹ " کا باقاعدہ اعلان کیا اور وہاں موجود لوگوں سےحلف دلوایا۔ اسی " ہندو سبھا " میں دو دھرم گرو بھی شریک تھے ، ان کی زبان نفرت سے بھری ہوئی تھی۔
بی جے پی کے ایک ایم ایل اے نند کشور گرجر نے کھلے عام کہا " ہم جہادیوں کو قتل کر دیں گے "، جہادی سے ان کی مراد مسلمان تھے۔ ایک دھرم گرو جگت آچاریہ یوگیشور نے کہا ، " ضرورت پڑنے پر ان کے ہاتھ کاٹ لو ، سر تن سے اتار لو "، ایک مہنت نول کشور داس نے کہا کہ ہندو اپنے گھروں میں بندوقیں رکھیں چاہے بغیر لائسنسس کی ہوں۔


یہ نفرت بھرے بیانات ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف ماحول تیار کر رہے ہیں۔ اور اس کے بد نتائج سامنے آئے ہیں۔ مساجد کے اندر گھس کر توڑ پھوڑ کی گئی ہے ، پیشاب کیا گیا ہے۔ مدھیہ پردیش میں گربا کے بہانے مسلم نوجوانوں کو وحشیوں کی طرح پیٹا گیا ہے ، گجرات میں تو مسلم نوجوانوں کو کھمبے سے باندھ کر ، لوگوں کے ساتھ مل کر پولیس نے پیٹا ہے۔ اور ابھی کل جمعہ 21 ، اکتوبر کے روز ، بنگلورو میں سنگھی ٹولے نے دو مسلم نوجوانوں کو بری طرح پیٹا اور یہ سمجھ کر کہ دونوں مر گئے ہیں ، انہیں راستے پر چھوڑ گئے۔ دونوں مسلم نوجوان گھر گھر جا کر بیڈ شیٹ فرخت کرتے تھے ، انہیں روکا گیا اور کہا گیا کہ یہ ہندوؤں کا علاقہ ہے یہاں مسلم کاروبار نہیں کر سکتے۔
کیا یہ پرویش ورما کی اشتعال انگیزی کا نتیجہ نہیں ہے ، جس نے کہا تھا کہ نہ مسلمانوں کو کچھ بیچا جائے اور نہ ان سے کچھ خریدا جائے ؟ بالکل ہے ، لہٰذا اس معاملے کا مقدمہ ورما پر بھی بننا چاہیے۔ پِٹائی کا جواز دیا جاتا ہے کہ گربا میں آئے یہ مسلمان جھگڑا کریں گے ، عورتوں کو بہکائیں گے ، اور تمہارا جینا اجیرن بنادیں گے۔ یہ ہندوؤں کو تشدد کے لیے اکسانے کا ایک بھیانک طریقہ ہے ، اور ادھر مسلمان اپنوں کی پِٹائی سے مشتعل ہوں گے۔ اس کے بعد یہ دونوں آمنے سامنے آ جائیں گے۔ جھگڑے میں مریں گے عام لوگ ، اور اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر مزے اڑائیں گے یہ "نفرت کی بولی " بولنے والے سیاست دان۔


گجرات کی عدالت نے کھمبے سے مسلمانوں کو باندھ کر پیٹے جانے کا سخت نوٹس لیا ہے اور پولیس کے خلاف نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ سپریم کورٹ نے کئی ہدایتیں دی ہیں : ریاستی حکومتیں کسی بھی نفرت آمیز بیان کے خلاف ازخود نوٹس لیں اور کارروائی کریں ، کارروائی کے لیے افسران حکومت یا عدالت کی ہدایت کا انتظار نہ کریں ، شکایت کے اندراج کا انتظار کیے بغیر کارروائی شروع کر دیں ، اشتعال انگیزی کرنے والوں کا مذہب نہ دیکھیں اس پر کارروائی کریں۔ اور یہ انتباہ بھی دیا ہے کہ اگر افسران اور حکومتیں ہدایات کے مطابق کارروائی نہیں کرتی ہیں تو سپریم کورٹ اسے توہینِ عدالت سمجھ کر کارروائی کرے گی۔
سپریم کورٹ کے " نفرت بازوں " کے خلاف سخت ریمارکس ہیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ ، کیا مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتیں اس سرزنش پر کان دھریں گی ؟ بلقیس بانو کے معاملے میں مرکز اور گجرات کی سرکاریں ہی ہیں جو آنکھوں پر پٹّی باندھ کر مجرموں کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔
حیرت انگیز امر ہے کہ بلقیس کے جو مجرم ہیں وہ آج بھی لوگوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں ، اسی لیے بلقیس اور اس کا خاندان خوف کے سائے میں جی رہا ہے۔ جو حقائق سامنے آئے ہیں ان سے پتہ چلا ہے کہ یہ جو مجرم رہا کیے گئے ہیں ایک ایک ہزار دن سے پیرول اور فرلو پر باہر تھے ، اور یہ لوگوں کو دھمکیاں دیتے پھرتے تھے ، ان میں سے کئی ہیں جن کے خلاف پولیس میں شکائتیں درج ہوئی ہیں ، دست درازی کی بھی شکایت درج ہے۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ان مجرموں کا " چال چلن " کسی بھی پہلو سے " اچھا " نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تمام باتیں خود گجرات سرکار کے حلف نامہ سے ظاہر ہوئی ہیں ، اس کے باوجود " اچھا چال چلن " کہہ کر رہا کیا گیا !


تو سپریم کورٹ کی سرزنش کے بعد کیا ان سے امید باندھی جا سکتی ہے کہ یہ " نفرت بازوں " پر ایکشن لیں گے ؟ ایک اچھی بات ، " واقعی اچھی بات " یہ ہوئی ہے کہ ملک کی ہندو خواتین بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی کے خلاف سرگرم ہوئی ہیں ، ان کے نام اوپر دیے گئے ہیں۔ خواتین کی ایک اور تنظیم نے مجرموں کے خلاف عدالتِ عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے ، جگہ جگہ لوگ اس کے خلاف آوازیں بھی اٹھا رہے ہیں۔ ہاں ! کچھ سیاست داں خاموش ہیں۔ کانگریس اور راہل گاندھی نے آواز اٹھائی ہے ، شردپوار نے آواز اٹھائی ہے ، ادھو ٹھاکرے رہائی کے خلاف بولے ہیں ، لیکن ' چھوٹے مودی ' اروند کیجریوال نے اب تک کسی بھی طرح کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔ وہ گجرات کا الیکشن لڑ رہے ہیں اور متمنی ہیں کہ مسلمانوں کے ووٹ انہیں ملیں۔ جناب ! مسلمان آپ کو ووٹ دے سکتا ہے ، مگر آپ اس کے لیے اپنی زبان تو کھولیں۔ بغیر زبان کھولے اس سے ووٹ مانگنا ' بے شرمی ' اور نری ' بے حسی ' ہے۔



Bilkis Bano gang rape 2002 case: Supreme Court to hear fresh plea. Analysis: Shakeel Rasheed, Mumbai.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں