علامہ حیرت بدایونی - خاکہ از جوش ملیح آبادی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-10-19

علامہ حیرت بدایونی - خاکہ از جوش ملیح آبادی

allama-hairat-bidayuni

دکن کا ادبی پس منظر ہمیشہ شاندار ہی رہا ہے جس سے پورے ملک نے کل بھی استفادہ کیا تھا اور آج بھی کر رہا ہے۔ حیدرآباد دکن میں امجد حیدرآبادی کے بعد جس عظیم شخصیت کا نام ہمیشہ سرِفہرست رہا وہ علامہ حیرت بدایونی ہیں۔ انہوں نے شمال اور جنوب کے حسین ادبی امتزاج کے ذریعے ایک انوکھا شعری مزاج عطا کیا جس میں علامہ نے روایتی انداز شاعری کو باقی رکھنے کے باوجود اس میں جدید سوچ و فکر کو جگہ دی تھی۔ بدایونی ہونے کے باوجود علامہ نے حیدرآباد پر اور حیدرآبادیت پر نہ صرف فخر کیا بلکہ بارہا اس کا تحریری اور تقریری اظہار اور اعتراف بھی کیا جو ان کی ادبی عظمت کی دلیل ہے۔ علامہ کی اولاد میں عالمی شہرت یافتہ ادیبہ پدم شری ڈاکٹر جیلانی بانو اور حیدرآباد ہی کے ممتاز ادیب، ڈراما نگار اور خاکہ نویس احمد جلیس شامل ہیں۔ جوش ملیح آبادی نے اپنی یادگار تصنیف "یادوں کی برات" میں علامہ حیرت بدایونی پر جو مختصر خاکہ لکھا ہے، وہ ذیل میں پیش ہے۔


الگنی پر لٹکے ہوئے مفلر کی طرح، دبلے پتلے اور غزل کے اس بیمار غم کے مانند نحیف و زار، جو، ہر آن کراہتا رہتا ہے کہ "اجل سمجھتی ہے مجھ کو غبار بستر کا"
گورے چٹے، اور بڑھاپے کے باوجود، ایسا بھبوکا سا رنگ رکھنے والے کہ عمر اور ریش، دونوں کی درازی ، اس کو بجھا نہ سکی ہے اور چہرے کا وہ عالم ہے کہ حضرت مسیح کے حواری معلوم ہوتے ہیں۔


مزاج میں اس قدر ظرافت اور شوخی ہے کہ روتوں کو ہنسا دیں، اور مدرسوں کے لڑکے ان کے روبرو اپنی چھلبل بھول جائیں۔ ہر چند قدیم شاعری سے وابستہ ہیں، پھر بھی نہایت آب دار شعر کہتے ہیں۔ رہتے والے ہیں بدایوں کے۔ جہاں کے للا مشہور ہیں۔ مگر حیدرآباد دکن میں رہتے جگ بیت چکا ہے، پھر بھی زبان کی شستگی وہی ہے جو پہلے تھی اور جب دکنی اردو بولنے پر اتر آتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ وہیں کے قدیم باشندے ہیں۔


کئی برس کی بات ہے کہ میں حیدرآباد گیا تھا، انہوں نے میری نہاری کی دعوت کی تھی۔ مانی جائسی بھی میرے ہم راہ ان کے وہاں گئے تھے۔ نہاری کے واسطے جب تڑکے ان کے وہاں پہنچے ، اور ان کے ملاقات کے کمرے میں قدم رکھا تو، اندر سے علامہ کی آواز آئی "کیا لائی ہو بیوی؟"
بیوی نے کہا: "وضو کے لئے گرم پانی"۔
انہوں نے بڑے مزے کے ساتھ کہا: "ایک زمانہ وہ تھا کہ جب مجھ پر غسل واجب ہو جاتا تھا، تم میرے لئے نہانے کے لئے پانی گرم کر کے آواز دیا کرتی تھیں کہ آؤ پانی طیار ہے ، اور اب یہ دور آچکا ہے کہ وضو کا پانی لئے سامنے کھڑی ہو"۔
یہ سن کر میرا قہقہہ نکل گیا۔ اور ان کی بیوی کی آواز آئی: "بھاڑ میں جائیں ایسی بے غیرتی کی باتیں"۔
میرا قہقہہ سن کر، وہ ہنستے ہوئے باہر آ گئے ، اور زنانے کے دروازے کی طرف منہ کرکے کہا: بیوی شرمانا نہیں ہماری تمہاری باتیں جوش صاحب کے کانوں تک نہیں پہنچی ہیں۔


نہاری کے بعد میں نے کہا: سنو علامہ صاحب آپ کے گھر آتے آتے ، موٹر میں ایک قصیدہ ہو گیا ہے۔ آپ کی شان میں، جس کے چند مصرعے مانی کے ، اور باقی اشعار ازیں خاکسار ہیں، جس کے قوافی "یہاں "، "وہاں" ہیں، اور ردیف ہے "ہیں علامۂ حیرت بدایونی"۔
انہوں نے کہا اللہ اکبر، ایسی شیطان کی آنت کی سی لانبی ردیف ، اس دراز قامت ردیف نے اچھے شعر تو کہنے نہیں دئے ہوں گے۔ خیر سنائیے۔ میں نے کہا سنیے:
مکاں ہیں حضرتِ علامۂ حیرت بدایونی
زماں ہیں حضرتِ علامۂ حیرت بدایونی


انہوں نے کہا واللہ کمال کر دیا، میری ایک ذات میں زمان و مکان، دونوں کو یک جا کر دیا ہے۔ میں نے کہا اب شعر سنیے:
نہایت نیک طینت ہیں مگر حد سے سوا کچھ بد
گماں ہیں حضرت علامۂ حیرت بدایونی


وہ یہ شعر سن کر پھڑک گئے اور کہنے لگے "بد گماں" کے دو ٹکڑے کر کے پہلے مصرع میں "بد" اور دوسرے میں "گماں" لانا انتہائی مشاقی کی بات ہے۔ میں نے کہا اور سنیے اور سر دھنیے:
بڑی سنگین ہیں لیکن قمر چہروں کے جھرمٹ میں
کتاں ہیں، حضرت علامۂ حیرت بدایونی


سبک روحی میں ہیں یکتا، مگر میزان محشر میں
گراں ہیں، حضرت علامۂ حیرت بدایونی


مجسم داد رے ہیں رات بھر، اور صبح کو یک سر
اذان ہیں، حضر ت علامۂ حیرت بدایونی


خضاب و خندۂ و خوش لہجگی کے فیض سے اب تک
جواں ہیں، حضرت علامۂ حیرت بدایونی


جو مسجد میں پکارا، مے کدے سے یہ صدا آئی
یہاں ہیں، حضرت علامۂ حیرت بدایونی


جھکے سجدے میں، اور کعبے میں پہنچے، لوگ چیخ اٹھے
کہاں ہیں حضرت علامۂ حیرت بدایونی؟


پوچھیے نہیں، علامہ کا کیا عالم ہوا؟ یہ اشعار سن کر، قہقہے مار کر ، میرے سینے سے چمٹ گئے اور کہنے لگے: خدا کی قسم دنیا میں کوئی اس ردیف کے ساتھ ایسے شعر نہیں کہہ سکتا، اس قدر مزا آیا کہ غسل واجب ہو گیا، بیوی نہانے کے لئے پانی گرم کر دو۔


ہم بچھڑے ہوئے شاید اب کبھی نہیں مل سکیں گے اور ایک دوسرے کو دیکھے بغیر کوچ کر جائیں گے۔
کھڑکیاں چھو پی گئیں روزن در بند ہوئے ، ہم نظر بند ہوئے!!

***
ماخوذ از کتاب: یادوں کی برات
مصنف: جوش ملیح آبادی۔ ناشر: شانِ ہند پبلی کیشنز، نئی دہلی (سن اشاعت: 1990ء)

Allama Hairat Bidauni, a sketch by Josh Maleehabadi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں