سلام خوش نویس - اردو کا آخری خوش نویس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-10-18

سلام خوش نویس - اردو کا آخری خوش نویس

سلام خوشنویس (پیدائش: 1936ء ، وفات: 6/مارچ 2006ء)
اپنے بے مثال فن اور مخصوص مزاج کی وجہ سے ایک خاص شہرت رکھتے ہیں۔ سلام صاحب کے بارے میں مختلف باتیں مشہور ہیں۔ سلام صاحب سے کام لینا اپنے صبر کا امتحان لینا ہے۔ سلام صاحب دعوت نامے لکھتے تو خوب صورت ہیں لیکن وہ تقریب سے کچھ گھنٹہ قبل ملتے ہیں۔ اس لئے ان کی تقسیم ممکن نہیں ہوتی۔ سلام صاحب نے قلاں شاعر کا مجموعہ دو سال سے دیا رکھا ہے۔ سلام صاحب نے فلاں شاعر کا مجموعہ تو نہیں لکھا البتہ اس کی تصحیح کر کے واپس کر دیا۔ پتہ نہیں کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ؟ لیکن یہ سچ ہے کہ سلام صاحب سے ملنے سے پہلے یہ دریافت کرنا ہےحد ضروری ہوتا ہے کہ ان کا قیام کہاں ہے؟ گھر بسانے اور گھر بدلنے کے معاملے میں سلام صاحب کبھی نہیں گھبراتے۔ کبھی وہ کمیلے کی مسجد کے قریب ہیں تو کبھی مسجد معراج کے قریب۔ کبھی اکبر باغ میں ہیں تو کبھی باقر باغ میں، کبھی مغلپورہ میں تو کبھی یاقوت پورہ میں۔۔۔ لیکن یہ بھی کتنی بڑی ٹریجڈی ہے کہ ایک ایسا فن کار جس کی شہرت ملک اور ملک سے باہر ہے، اپنا ایک ذاتی مکان نہیں بنا سکتا۔۔۔ اسے روز کنواں کھودنا اور تازہ پانی حاصل کرنا ہوتا ہے۔
سلام خوش نویس سے گفتگو کے اقتباسات پیش ہیں۔


سوال:
اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں کچھ بتائیے۔
جواب:
میرا زمین دار گھرانے سے تعلق ہے۔ میرے والد زمین دار گھرانے سے بغاوت کر کے حیدر آباد منتقل ہوئے تھے۔ میرے دادا مولوی شیخ احمد صاحب کا شمار ابراہیم بٹن کے پڑے زمینداروں میں ہوتا تھا۔ میرے والد رفیق احمد صاحب نے لاہور سے منشی کا امتحان پاس کیا تھا۔ انہوں نے پولیس میں ملازمت کی۔ سید محمد ہادی ایم۔ اے (کنٹب) حیدرآباد اسکاوٹس کے ہیڈ تھے۔ وہ اس بات سے واقف تھے کہ میرے والد شاعر ہیں۔ انہوں نے انہیں محکمہ تعلیمات سے وابستہ کر دیا۔ "مرقع سخن" مرتبہ حمید الدین شاہد میں ان کا ذکر ہے۔ وہ داغ اسکول سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے ہم عصر شعراء میں غلام علی حاوی، نظیر علی عدیل ، روحی قادری ، تاج قریشی، احمد علی شاب اور قدر عریضی وغیرہ ہیں۔ انہیں روزنامہ 'میزان' سے شہرت ملی جو حبیب اللہ اوج ارم منزل سے نکالتے تھے۔


سوال:
آپ نے خوش نویسی کس سے سیکھی اور خوش نویس بننے کا فیصلہ کیوں کیا؟
جواب:
میرے والد خوش نویس تھے۔ وہی میرے پہلے استاد ہیں۔ 1952 میں میٹرک پاس کرنے کے بعد میں نے اردو شارت بینڈ سیکھا۔ میرے تایا اردو کے اسٹینو گرافر تھے، میں نے ان کے شاگرد شیخ احمد صاحب سے شارٹ ہینڈ سیکھا۔ میں تلاش معاش کے سلسلہ میں پاکستان گیا۔ زیڈ۔ اے۔ انصاری ، ڈائرکٹر پاکستان ریڈیو لاہور تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں شکیل احمد اور انور بہزاد کی خبروں کا ڈکٹیشن لے کر انہیں اسی ٹون میں سنا دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں انگریزی اسٹینو گرافر چاہیے تو میں غصے میں آ گیا۔ وہاں شوکت تھانوی ،ابراہیم جلیس ، ابن انشا اور محمود ریاض بیٹھے تھے۔ انہوں نے مجھے سمجھایا۔ محمود ریاض کا لارک پبلشرز ریڈیو پاکستان کے روبرو تھا۔ محمود ریاض اکیس ، بائیس برس کے تھے اور میں پندرہ برس کا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے کرشن چندر کا ناول "شکست" لکھنا پڑے گا۔ (میں نے انہیں بتایا تھا کہ کتابت جانتا ہوں)، میرے ساتھ رہو۔ کتاب چھپنے کے بعد معاوضہ دوں گا۔ میں نے فوراً کتابت شروع کی۔ کئی رسائل اور اخبارات سے وابستہ رہا۔ "فانوس" جو آرٹ پیپر پر رنگین شائع ہوتا تھا، اس کے علاوہ جائزہ ، نقاد، لقمان ، الماس (ہفت روزہ)، ماحول (ہفت روزہ) میں کام کیا۔ مختلف شاعروں اور ادیبوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ جلیس (ابراہیم جلیس) کی سرپرستی حاصل رہی۔ ان کی آخری کتاب "اجالے سے پہلے" مکتبہ ماحول ہی سے شائع ہوئی۔


سوال:
وہاں اور بھی اچھے خطاط ہوں گے جن سے آپ کو سیکھنے کا موقع ملا ہوگا۔
جواب:
میں سیام مرزا کے ساتھ روزنامہ "آبشار" میں کام کرتا تھا۔ ایک بار سرخی لکھی۔ عربی رسم الخط میں کشمیر لکھا تو اس کا جوڑ صحیح نہیں بیٹھا۔ وہاں عبدالرشید صاحب تھے جو سرخیاں لکھتے تھے۔ انہوں نے مجھے ایک جوڑ کو چھ مختلف جوڑ سے بتایا۔ اس ایک لفظ کشمیر کے علاوہ کچھ نہیں سیکھا۔


سوال:
جب آپ کے لئے وہاں ترقی کے مواقع تھے تو پھر ہندوستان واپس کیوں چلے آئے؟
جواب:
گھر کا بڑا لڑکا تھا۔ بہن بھائیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ والد صاحب نے کہا واپس آ جاؤ۔ میں راستے بند ہونے سے قبل واپس آ گیا۔ یہاں آکر میں نے کتابت ہی کو اپنایا۔ میں نے اردو میں ادیب، کامل، عالم ،انٹرنس سب پاس کیے۔ پھر روزگار کی وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکا۔


سوال:
روزگار کا سلسلہ کیسے شروع ہوا؟
جواب:
سب سے پہلے نیشنل بک ڈپو میں ملازمت کی جہاں اردو کی نصابی کتابیں چھپتی تھیں۔ 1961 میں محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ آندھرا پردیش میں کام کیا۔ رسالہ آندھرا پردیش کے لئے میرا انتخاب ہوا۔ نریندر لوتھر صاحب اس وقت ڈائرکٹر تھے۔ اس زمانے میں مجھے ۔/1,551 روپے تنخواہ ملتی تھی۔ پھر اردو جائیدادوں میں دس فیصد تخفیف کی افواہ گشت کرنے لگی۔ میں بمبئی چلا گیا۔ اس وقت اردو بلٹز کے ایڈیٹر انور عظیم تھے۔ میری عمر سترہ برس رہی ہوگی۔ میں پارٹ ٹائم کرتا تھا۔ اعجاز صدیقی مرحوم مدیر 'شاعر' نے مجھے کرشن چندر نمبر لکھوانے کے لئے تین ماہ تک سلور جوبلی بلڈنگ میں رکھا۔ یہ 1968 کی بات ہے۔ وہیں میری شادی ہوئی۔ میری بیوی الہ آباد کی تھیں۔


سوال:
آپ نے اچانک شادی کا فیصلہ کیوں کیا؟
جواب:
ایک طویل کہانی ہے۔ میں صرف اتنا ہی بتاؤں گا کہ میری بیوی اس وقت بیوہ تھیں۔ ان کے شوہر کا تعلق اورنگ آباد سے تھا۔ ایک دو سال کی لڑکی اور چھ مہینے کا بچہ تھا۔ پھر وہ دق کا شکار بھی تھیں۔ حالات کچھ ایسے ہوئے کہ ان کے والد کا انتقال اچانک اور میرے سامنے ہوا۔ مجھے پتہ چلا کہ وہ بے سہارا ہیں۔ میں نے انہیں دیکھا بھی نہیں تھا۔ محض ہمدردی میں ، میں نے یہ شادی کی۔


میں نے موضوع بدلنے کے لیے پوچھا۔
سوال:
آپ نے اپنا مخصوص اسٹائل کیسے بنایا؟
جواب:
خطاطی کے دو کتنے ہیں دلی اور لاہور۔ میں ان میں لاہور کو بہتر سمجھتا ہوں۔ میں نے دلی اور لاہور کے درمیان راستہ نکالا اور اپنی ایک شناخت بنائی۔ اب اسی انداز کی نقل کی جاتی ہے۔


سوال:
خطاطی کے بے شمار نمونے ہیں کیا آپ ان کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟
جواب:
صرف حیدر آباد دکن میں خط کے باون نمونے موجود ہیں۔ اس زمانے میں شاہوں کی سرپرستی تھی۔ جو مروج خط ہیں ان میں خطِ نسخ، خطِ ثلث اس پر حاوی ہونے کے بعد خطِ طغرہ پھر خط کوفی کا نمبر آتا ہے۔ حالاں کہ اسے سب سے پہلے ہونا چاہئے تھا۔ حضرت علیؓ کے خطوط خط کوفی میں بلا نقط ہوا کرتے تھے۔ کوفی میں بھی آٹھ تا دس شاخیں ہیں۔


سوال:
آپ نے صرف خط نستعلیق کو کیوں اپنایا؟
جواب:
ایسا نہیں ہے۔ میں خط نستعلیق میں اساتذہ کی فہرست میں ہوں۔۔ میں نے یہاں سے دلی تک خود کو منوایا ہے۔ جہاں تکخطِ نسخ اور ثلث کا تعلق ہے، کوئی دعویٰ کرتا ہے اپنی مہارت کا تو میں انشاء اللہ ان سے پیچھے رہنے والا نہیں۔


سوال:
آپ کن خوش نویسوں سے متاثر ہیں؟
جواب:
مولانا یوسف دہلوی، مجید دہلوی، امتیاز دہلوی، پیر جی دہلوی، لاہور کے خورشید رقم ، الیاس ر قم ، نفیس رقم ، این پروین رقم۔ عبدالمجید پروین رقم نے اقبال کا مجموعہ کلام لکھا تھا۔ ویسی کتابت آج تک کسی مجموعے کی نہیں ہوئی۔ میں خلیق ٹونکی صاحب کو بھی استاد مانتا ہوں۔ میں نے ماہنامہ "آستانہ" میں ان کی کتابت دیکھی تھی۔ ان سے ملنے کی بڑی خواہش تھی۔ 1980 میں جدہ جاتے ہوئے دلی گیا۔ خلیق ٹونکی صاحب کی خدمت میں حاضری دی۔ وہ اپنے شاگردوں کو خطاطی سکھا رہے تھے۔ میں دروازے کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ مجھ سے مخاطب ہوئے تو میں نے اپنا نام بتایا۔ بڑی محبت سے اٹھ کر گلے لگایا۔ بچوں سے کہا یہ مجھ سے اچھا نستعلیق لکھتے ہیں۔ 1990 میں عاقل صاحب نے دار العلوم میں خلیق صاحب کو بلا کر انہیں "سلطان قلم" کا خطاب دینے کا فیصلہ کیا۔ مجھ سے پوچھا کہ مجھے کوئی اعتراض تو نہیں۔ میں نے کہا مجھے خوش ہوگی لیکن یہ بھی کہا کہ حیدرآباد میں عموماً باہر والوں کی ستائش زیادہ ہوتی ہے۔ ان لوگوں نے فیصلہ کیا کہ مجھے بھی "رئیس قلم" کا خطاب دیں گے۔ اور انہوں نے خلیق صاحب کے لئے مجھ سے لکھوایا اور میرے لئے خلیق صاحب سے لکھوایا۔


سوال:
آپ کو مذہب اور ادب سے دلچسپی ہے لیکن مذہبی دلچسپی کا اظہار ورقیوں کے ذریعہ اور ادبی دلچسپی کا اظہار مراسلوں کے ذریعہ کرتے ہیں۔ خود باضابطہ شاعری نہیں کرتے؟
جواب:
مجھے شاعری سے شروع سے دلچسپی ہے۔ پھر پاکستانی ماحول میں اس ذوق کو اور جلا ملی لیکن میں شاعر نہیں بننا چاہتا، جو شاعر ہوتا ہے اس کا دامن تر بہ تر ہوتا ہے۔ میں نے امجد کی غربت اور جوش، جاں نثار اختر، نظیر حیدرآبادی، عبد الحمید عدم اور ابن انشا جیسے اچھے شاعروں کا حشر دیکھا ہے۔ اس لئے میں نے شاعری کو کیرپر نہیں بنایا۔
جواب:
لیکن بہت سے شاعر خوش حال بھی تو ہیں؟
جواب:
وہی خوشحال ہیں جنہوں نے اسے پیشہ نہیں بنایا۔ تفریح طبع کے لئے شاعری کی۔ میں مزاجاً غربت پسند ہوں ، افلاس پسند نہیں ہوں۔ جب سے شاعری شروع کی جاتی ہے اسی وقت زوال شروع ہو جاتا ہے۔


سوال:
اکثر لوگوں کو شکایت ہے کہ آپ نے ان کے مجموعوں کی خطاطی نہیں کی بلکہ اصلاح کر کے واپس کر دیا۔ حالاں کہ بطور خوش نویس آپ کو صرف خطاطی کرنا چاہئیے اور اپنے معیار کو الگ رکھ دینا چاہئے۔
جواب:
شروع سے یہ میرا رویہ ہے، جو چیز سمجھ میں نہیں آتی، میں وہ نہیں لکھتا جیسے عبد الحمید عدم کا ایک مصرعہ تھا:
سفینے کو بالآخر گھاٹ کی مٹی تو بننا ہے۔۔۔ اور زندگی رکمنی کا کولہا ہے
میں رک گیا۔ میں نے لکھا نہیں۔ حالاں کہ اس وقت چودہ پندرہ برس عمر رہی ہوگی۔ مطمئن ہونے کے بعد ہی میں نے ان مصرعوں کی کتابت کی۔ لکھتے وقت مجھ پر ادبی ذوق غالب آ جاتا ہے۔ میں نے کئی کتابیں واپس کر دیں۔ ترمیم اور تصحیح اسی وقت کی جب شاعر نے خود اجازت دی۔ مجھے کم معیار کے مجموعے کی کتابت کرنے سے شادی کا ایک رقعہ لکھنا اچھا لگتا ہے۔


سوال:
اپنے مزاج کی وجہ سے آپ کو نقصان تو بہت ہوا ہوگا؟
جواب:
یقیناً بہت ہوا ہے۔ مجھے ماسکو بلوایا گیا تھا۔ ادبی مترجم درجہ دوم کی ملازمت تھی۔ خاندان کو ساتھ رکھنے کی اجازت تھی۔ بچے کو گریجویشن ہونے تک وہاں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع تھے۔ وہاں ماسکو میں پیوپلز پبلیکیشنز ہاؤز ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا پبلیکیشنز ہاؤز۔ اس میں کام کرنے کا موقع مل رہا تھا۔ میں نے وعدہ کر لیا تھا کہ ایشین گیمس شروع ہونے سے قبل ماسکو پہنچ جاؤں گا۔ میں نے اس سلسلے میں ضرورت رشتہ کا اشتہار دے کر ایک اور شادی کر لی۔ لیکن اس در میان جدہ سے ویزا اور ٹکٹ آ گیا اور میں وہاں چلا گیا۔ وہ شادی گلے پڑ گئی۔ جدہ میں بھی بہت اچھی تنخواہ تھی۔ میری پوزیشن ایسی تھی کہ ایک ریسپشنسٹ رکھ سکتا تھا۔ شیخ مجھ سے بے حد قریب تھا۔ میں نے اپنے مزاج کی اکڑفوں کی وجہ سے وہاں استعفیٰ دے دیا۔ اب یہ نشہ بھسم ہو گیا ہے۔ بیوی کے انتقال کے بعد اور بھی بکھر گیا ہوں۔ اصل میں یہ لالچ کا انجام ہے۔ مجھے پیوپلز پبلیکیشنز میں اپنا کیریر بنانا چاہئے تھا۔ آج یہ پرنٹنگ ٹکنالوجی میں ماہر ہو جاتا اور یہاں گائیڈ کر سکتا تھا۔


سوال:
آپ کے خیال میں کتابت کا کیا مستقبل ہے ؟
جواب:
تاریک ہے۔ کمپیوٹر بہت ترقی یافتہ شکل میں ہے۔ تھوڑی بہت کمی چار پانچ برس میں پوری ہو جائے گی۔


سوال:
اس فن کو باقی رکھنے کے لئے کوئی تجویز؟
جواب:
یہ فن نابود ہونے والا ہے۔ اسے سرکاری سرپرستی حاصل نہیں ہے۔ اردو کے ذمہ دار حضرات بھی غفلت برت رہے ہیں لیکن ایک بات کا افسوس ہے کہ اس فن کے ساتھ ایک تہذیبی ورثہ ختم ہو جائے گا۔


سوال:
حیدرآباد کے خوش نویسیوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب:
ضمیر نظامی صاحب، مظہر صاحب، عبدالغفار صاحب ، عبدالجبار صاحب ، سراج الدین صاحب، جابر صاحب مجھ سے سینئر اور اچھے خوش نویس ہیں۔ ان کے علاوہ نعیم صاحب اور غالب صاحب بھی اچھے خطاط ہیں۔ میں نے 1963 سے کام شروع کیا اور تمام اساتذہ کو پیچھے چھوڑ دیا۔ صرف اپنی محنت کے بل بوتے پر۔ پچاس برس سے میرا کوئی حریف نہیں ہے۔ یہاں سے دلی تک۔۔۔ اس میدان میں کسی کا کوئی شاگرد نہیں ہے سوائے میرے شاگردوں کے۔


سوال:
کیا آپ نے اپنا فن اپنے بچوں میں بھی منتقل کیا؟
جواب:
ہاں۔ میرا بیٹا عاصم اچھا خوش نویس ہے گذشتہ سال اسے کل ہند سطح پر ادارہ ادبیات اردو سے دوسرا انعام بھی ملا ہے۔


سوال:
آپ کس سے زیادہ متاثر رہے؟
جواب:
کراچی میں رینوکا دیوی (بیگم خورشید مرزا) بیٹی کے نام پر ماہنامہ 'شبنم' نکالتی تھیں۔ بڑی۔ صاف ستھری منجھی ہوئی زبان بولتی تھیں۔ ایک عرصہ تک پاکستان ٹی وی سے وابستہ رہیں۔ شوکت تھانوی ، انشاء جی ، ابراہیم جلیس ، اعجاز صدیقی اور ظ۔ انصاری نے میرے ادبی ذوق کو نکھارا۔ ظ۔ انصاری کے ساتھ میرے شب و روز گذرے مجھے خوشی ہے کہ ان کا خاتمہ بالخیر ہوا۔ ایک بار انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تم مجھے دہریہ سمجھتے ہو؟ پلنگ کے اوپر شیلف کی طرف اشارہ کر کے کہا: دیکھو میرے سینے کو اوپر قرآن ہے۔ میں نے فوراً کہا تھا: کاش سینے کے اندر اتر جاتا۔


سوال:
کس کی کتاب لکھ کر زیادہ مسرت ہوئی؟
جواب:
مجروح سلطان پوری کا شعری مجموعہ لکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ میں نے تین روپیہ فی صفحہ کے حساب سے کتابت کی تھی مگر آج تک اس کی اجرت نہیں ملی۔


سوال:
آپ کیا کر نے کی خواہش رکھتے ہیں؟
جواب:
میں فن کتابت پر ایک اچھی کتاب لکھنا چاہتا ہوں۔

***
ماخوذ: روزنامہ "منصف" (حیدرآباد)، جمعرات، 19/مارچ 1998ء

An interview with eminent Urdu Calligrapher Salam Khushnaves. by: Prof. Baig Ehsas.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں