اسلام اور ہندوستان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-10-06

اسلام اور ہندوستان

islam-and-india

آج سے چودہ سو سال قبل چھٹی صدی مسیحی میں انسانیت بدترین اور تریک ترین دور سے گزر رہی تھی ، ظلم و جور ، سفاکی و بربریت کا آفتاب نصف النہار پر تھا ، جس کی تپش سے انسانیت کی رگیں خشک ہو رہی تھیں۔ ساتھ ہی ساتھ جہالت و ناخواندگی کا ہیبت ناک سایہ بھی دراز سے دراز تر ہوتا جا رہا تھا۔ سفینۂ انسانیت اس طوفان بلا خیز کی طغیانی میں کسی ناخدا کے نہ ہونے کی وجہ سے مائل بغرقاب تھا ، کیونکہ جس کی طرف بھی وہ امید بھری نگاہ سے دیکھتا، وہ اس کو ساحل مقصود تک پہونچانے کی صلاحیت سے عاری و خالی تھا۔ اس لئے کہ اس وقت دنیا کی باگ ڈور روم و فارس کے ہاتھوں میں تھی ، اگر انسانیت فارس کی طرف دیکھتی ، پیاس بجھانے کے لئے وہاں سے پانی حاصل کرنے کی تگ و دو کرتی تو فارس کے آتش پرست حکمراں پانی دینے کے بجائے انسانیت کو مجوسیت کے آتشکدہ کا ایندھن بنانے کے لئے کمر کس لیتے اور اگر روم کی طرف نگاہ اٹھاتی تو روم کے نام نہاد عیسائی حکمراں بزورِ شمشیر اس کے گلے میں تثلیث کا پھندا ڈال دیتے ، جس سے انسانیت کا دم گھٹنے لگتا۔
ستم بالائے ستم یہ کہ یونان کی مردہ و بے جان تہذیب کی خشت پر انسانیت کی بنیادیں کھڑی کرنے کی کوشش کی جاتی ، ہمارے مادرِ وطن ہندوستان کی حالت اور بھی زیادہ دگرگوں تھی ، یہاں ایک ماں باپ سے پیدا ہونے والے انسان کی ایسی طبقاتی تقسیم کی گئی تھی جس نے انسانیت کو شرمندہ کر دیا۔ الغرض ہر چہار سو، مشرق سے لے کر مغرب تک ،شمال سے لے کر جنوب تک ، ظلم و جور ، سفاکی و خونریزی، ضلالت و گمراہی کی یہی دبیز چادر تنی ہوئی تھی۔ ا نسانیت کی سیرابی کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے ، کیونکہ کسی کے پاس کچھ تھا نہیں، اس کا نقشہ قرآن کریم نے صرف ایک سطر میں نہایت ہی بلیغ انداز میں کھینچا ہے۔
﴿کسراب بقیعۃ یحسب الظمآن ماء ا۔ حتی إذا جاء ہ لم یجدہ شیئا ﴾
ضلالت و جہالت ، ناانصافی و حق تلفی ، استحصال و سفاکی ، جاہلی عصبیت وحمیت ، قبائل رقابت وعنادکی اس چلچلاتی دھوپ میں اسلام ابرِ رحمت بن کر عالم انسانیت پر سایہ فگن ہوا ، اور خوب برسا ، جس سے انسانیت نے سیرابی حاصل کی ، حتی کہ عرب کی بنجر زمین نے بھی سبزہ اگایا ، اور ہر طرف اسلامی مساوات و مواسات ، اخوت و بھائی چارگی ، اور عظمت انسانیت کے گل و لالہ ، سوسن و نسترن کھلنے اور مہکنے لگے۔ بقول مولانا حالی ؂
رہے اس سے محروم آبی نہ خاکی
ہری ہوگئی ساری کھیتی خدا کی


یہاں پر مناسب بلکہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی آمد سے ما قبل کے ہندوستان کے حالات پر بالتفصیل روشنی ڈالی جائے کیونکہ ہماری بحث کا موضوع یہاں پر ہندوستان اور ہندوستان کی تہذیب ہی ہے تاکہ یہ مدعا واضح ہو جائے کہ اسلام نے ہندوستان کو کیا دیا ، اور اس کی دیو مالائی تہذیب کو کس طرح باہمی الفت و محبت ، اخوت و بھائی چارگی ، شرف انسانیت اور عظمت بشریت میں تبدیل کر کے کس طرح سے گنگا جمنی تہذیب کی پائدار و دائمی بنیاد ڈالی۔
اسلام سے پہلے ہندوستانیوں کا مذہبی بگاڑ انتہا کو پہنچ چکا تھا اہل ہند نے شجر و حجر ، ابر و باد ، چرند و پرند، درند و بہائم ہر چیز کے آگے سر بسجود ہونا اپنا شیوہ بنا لیا تھا بقول مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندویؒ ؂
چھٹی صدی عیسوی میں بت پرستی پورے عروج پر تھی ، وید میں دیوتاؤں کی تعداد 33 تھی ، اس صدی میں 33 کروڑ ہوگئی ، اس عہد میں ہر پسندیدہ شئے ہر کشش رکھنے والی اور زندگی کی کوئی ضرورت پوری کرنے والی چیز دیو تا بن گئی تھی ، جس کی پوجا کی جاتی تھی۔
(انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر ، ص/49)


ڈاکٹر گستاؤلی بان نے "تمدن ہند" میں لکھاہے :
دنیا کی تمام اقوام میں ہندو کے لئے پرستش میں ظاہری صورت کا ہونا لازمی ہے ، اگرچہ مختلف ازمنہ میں مذہبی اصلاح کرنے والوں نے ہندو مذہب میں توحید کو ثابت کرنا چاہا ہے ، لیکن یہ کوشش بالکل بے فائدہ ہے ، ہندو کے نزدیک کیاویدی زمانہ میں اور کیا اس وقت ہر چیز خدا ہے ، جو کوئی چیز اس کی سمجھ میں نہ آئے ، یا جس سے وہ مقابلہ نہ کر سکے ، اس کے نزدیک پرستش کے لائق ہے۔


اسی طرح اہل ہند جنسی امراض ، خواہشات نفسانی ، ہوا پرستی ، اخلاقی جرائم کے تمام حدود و قیود کو توڑ چکے تھے شرم و حیاء نام کی کوئی چیز ان میں نہیں تھی ہر کوئی اپنے مطلب کا بندہ بنا ہوا تھا کیا بادشاہ کیا رعایا حضرت مولانا علی میاں ندویؒ نے لکھا ہے ؂
ایک مذہبی فرقہ کے مرد برہنہ عورتوں کی اور عورتیں برہنہ مردوں کی پرستش کرتے تھے ، مندروں کے محافظ و منتظم بداخلاقی کا سرچشمہ تھے ، اور بہت سی عبادت گاہیں اخلاقی جرائم کا مرکز تھیں ، راجاؤں کے محل اور بادشاہوں کے درباوں میں بے تکلف شراب کا دور چلتا ، اور سر مستی میں اخلاقی حدودبرقرار نہ رہتے۔
(انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر ، ص/51)


ڈاکٹر گستاولی بان نے لکھا ہے ؂
ہندوؤں کو مورتوں اور ظاہری علامات سے بے انتہا انس ہے ، ان کا کوئی مذہب کیوں نہ ہو اس کے اعمال کو یہ نہایت اہتمام سے بجا لاتے ہیں، ان کے مندر پرستش کی چیزوں سے بھرے ہوئے ہیں ، جن میں سب سے مقدس لنگم اور یونی ہیں ، جن سے مراد مادۂ خلقت کے دونوں جزو ہیں ، اشوک کے ستونوں کو بھی عام ہندو لنگم خیال کرتے ہیں ، اور اسطوانہ اور مخروطی شکلیں ان کے نزدیک واجب التعظیم ہیں۔
اس سب سے بھی بڑھ کر جو چیز زیادہ تکلیف دہ ہے وہ بنو آدم کی خوفناک طبقاتی تقسیم ہے جس کی نظیر شاید ہی دنیا کے کسی قوم میں ملے گی دیگر اقوام میں زبردستی خدمت کروائی جاتی تھی لیکن یہاں مسئلہ کی سنگینی اس وجہ سے بڑھ جاتی ہے کہ یہاں دین و مذہب کے نام پر انسانوں میں تفریق کی جاتی تھی۔


فرشتہ نے ہندوؤں کی طبقاتی تقسیم کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
"برہما" نے خدا تعالیٰ کے حکم سے انسان کو عدم سے عالم وجود میں لایا اور انہیں چار گروہوں میں تقسیم کیا ، اول برہمن ، دوم چھتری، سوم ویش ، اور چہارم شورد، برہمنوں کو عبادت ، مذہبی احکام کی نگہداشت ، قوانین خداوندی کی حفاظت سونپی گئی اور اہل دنیا کا روحانی پیشوامقرر کیا گیا ، دوسرے گروہ یعنی چھتریوں کو دنیاوی انتظام سونپا گیا ، حکومت و سیاست کی باگ ان کے ہاتھ میں دی گئی ، تیسرے گروہ یعنی ویشوں کے ذمے کھیتی باڑی اور دیگر پیشوں اور حرفتوں کا کام کیا گیا ، اور چوتھے گروہ یعنی شوردوں کو متذکرہ تین گروہوں کی خدمت گزار ی پر مقرر کیا گیا۔ (تاریخ فرشتہ ، جلد اول ص / 48)


اب ہندوستانیوں نے صنف نازک کے ساتھ جو سلوک روا رکھا تھا اس پر بھی ایک سرسری نگاہ ڈالی جائے تاکہ کوئی بھی گوشہ مخفی و پوشیدہ نہ رہے ، اور اسلام نے ہندوستان پر جو احسان کئے ہیں وہ پوری طرح سے واضح و ظاہر ہوجائیں، اور آج مسلمانوں کو جو لوگ ہادم ہند کہہ رہے ہیں ان کو پتہ چلے کہ مسلمان ہادم ہند نہیں ہے بلکہ معمار ہند ہے۔
یونیورسل ہسٹری آف دی ورلڈ میں (Ray Stradhey)ہندوستان کے بارے میں لکھتا ہے ؂
رگ وید میں عورتوں کو پست اور حقیر مقام دیا گیا ہے ، بعد میں یہ سمجھا جانے لگا کہ وہ روحانی طور پر ناقابل اعتبار بلکہ تقریباً بے روح ہے، اور موت کے بعد مردوں کی نیکیوں کے بغیر اسے بقا نہیں حاصل ہو سکتی ، اس کی ساری امیدوں کو ختم کرنے والے مذہب کے ساتھ رسم ورواج کی بیڑیوں نے یہ ناممکن کر دیا کہ عورت کسی نمایاں شخصیت کو جنم دے سکے ، عورتوں کو جنم دینے والے منونے انہیں اپنے گھر ، بستر، زیورکی محبت ، بری خواہشیں، غصہ ، بے ایمانی اور برے اطوار عطا کئے ، عورت کی فطرت میں یہ داخل ہے کہ وہ مردوں کو اس دنیا میں غلط راستہ پر ڈالے ، کوئی عقلمند عورتوں کی صحبت میں بے فکر ہو کر نہیں بیٹھتے ، بچپن کی شادی کی رسم ، بیواؤں سے نفرت ، ستی ایک ایسی سماج کے حسب حال ہیں ، جس میں عورتوں کی اہمیت بچے جننے والی مخلوق سے زائد نہیں ، شاید نوزائیدہ لڑکیوں کی موت ایک ایسی دنیا میں ان کے لئے رحمت ہے ، جس میں اسے مشکوک ، برائی کا سرچشمہ ، دھوکہ باز، سورگ کے راستہ کا روڑا ، اور نرک کا دروازہ سمجھا جاتا ہے۔
(ماخوذ از تہذیب وتمدن پر اسلام کے اثرات و احسانات ،ص/66،67)


مذکورہ بالا احوال ہندوستان میں اسلام کے قدوم میمنت سے قبل کے ہیں جس سے اس با ت کا بخوبی انداز ہوجاتا ہے کہ اہل ہند ہر اعتبار سے ہلاکت کے دہانے پر کھڑے تھے انسانیت سسک رہی تھی ، بنو آدم طبقاتی تقسیم کی پر پیچ وادیوں میں سر گرداں تھے ، بنت حوا کی چادرِ عصمت تار تار ہو رہی تھی ، حیوانیت و بہیمیت جڑ پکڑ چکی تھی ، ہر طرف شبِ دیجور کا نظارہ تھا ، جس کی تاریکی میں انسان وحشی درندے بنے ہوئے تھے ، کہیں کوئی امید کی کرن نظر نہیں آرہی تھی ، قرآن نے اس کو اپنے اچھوتے انداز میں بیان کیا ہے :
﴿ظلمات بعضھا فوق بعض، إذا اخرج یدہ لم یکد یریھا ﴾
اس شب تاریک میں ہندستان سے کوسوں دور فاراں کی چوٹی سے صبح درخشاں کے نمودار ہونے کے آثار ظاہر ہوئے جب خالقِ کائنات نے تاجدارِ مدینہﷺ کو تمام عالم کے لئے ہادی و رہبر، نذیر و بشیر بنا کر مبعوث فرمایا إنا أسلناک بالحق شاھدا ومبشرا و نذیرا اور دوسری جگہ فرمایا وما أرسلناک الا رحمۃ للعالمین اس کے بعد عالم انسانیت کی تقدیر ہی بدل گئی۔


بقول مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ ؂
آپ کی بعثت کے بعد دنیا کی رت بدل گئی ، انسانوں کے مزاج بدل گئے ،د لوں میں خدا کی محبت کا شعلہ بھڑکا ، خدا طلبی کا ذوق عام ہوا ، انسانوں کو ایک نئی دھن لگ گئی۔ جس طرح بہار یا برسات کے موسم میں زمین میں روئیدگی ، سوکھی ٹہنیوں اور پتیوں میں شادابی اور ہریالی پیدا ہوجاتی ہے ، نئی نئی کونپلیں نکلنے لگتی ہیں اور در و دیوار پر سبزہ اگنے لگتا ہے ، اسی طرح بعثت محمدی کے بعد قلوب میں نئی حرارت ، دماغوں میں نیا سودا سما گیا ، کروڑوں انسان اپنی حقیقی منزل مقصود کی تلاش اور اس پر پہنچنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے ہر ملک اور قوم میں طبیعتوں میں یہی نشہ اور ہر طبقے میں اس میدان میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کا یہی جذبہ موجزن نظر آتا ہے عرب و عجم ، مصر و شام ، ترکستان اور ایران و عراق و خراسان ، شمالی افریقہ اور اسپین اور بالآخر ہمارے ملک ہندوستان اور جزائر شرق الہند سب اسی صدائے محبت کے متوالے اور اسی مقصد کے دیوانے نظر آتے ہیں ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے انسانیت صدیوں کی نیند سوتے سوتے بیدار ہوگئی، آپ تاریخ وتذکرے کی کتابیں پڑھئے تو آپ کو نظر آئے گا کہ خدا طلبی اور خداشناسی کے سوا کوئی کام ہی نہ تھا شہر شہر ، قصبہ قصبہ ، گاؤں گاؤں بڑی تعداد میں ایسے خدا مست ، عالی ہمت ، عارف کامل ، داعی حق اور خادمِ خلق ، انسان دوست ، ایثار پیشہ ، انسان نظر آتے ہیں جن پر فرشتے بھی رشک کریں، انہوں نے دلوں کی سرد انگیٹھیاں گرما دیں، عشق الٰہی کا شعلہ بھڑکا دیا ، علوم وفنون کے دریا بہا دئیے، علم و معرفت ، اور محبت کی جوت جگا دی ، اور جہالت و وحشت ظلم و عداوت سے نفرت پیدا کردی ، مساوات کا سبق پڑھایا ، دکھوں کے مارے اور سماج کے ستائے ہوئے انسانوں کو گلے لگایا ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بارش کے قطروں کی طرح ہر چپۂ زمین پر ان کا نزول ہو ااور اس کا شمار نا ممکن ہے۔
(صفحہ 425، نبی رحمت )


اس طرح انسانیت صدیوں کی گہری نیند سے عروس نَو کی طرح انگڑائی لے کر بیدار ہوئی ، ہر طرف عظمت انسانیت کے نغمے گنگنائے جانے لگے اور نبی پاکؐ کی شخصیت نے عالم انسانیت پر گہرے نقوش ثبت کئے۔
مستشرق مائیکل ہارٹ رقمطراز ہے ؂
ممکن ہے کہ انتہائی متاثر کن شخصیات کی فہرست میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا شمار سب سے پہلے کرنے پر چند احباب کو حیرت ہو اور اکچھ معترض بھی ہوں، لیکن یہ واحد تاریخی ہستی ہے جو مذہبی اور دنیاوی دونوں محاذوں پر برابر طور پر کامیاب رہی۔


وہ آگے لکھتا ہے ؂
ہم جانتے ہیں کہ ساتویں صدی عیسوی میں عرب فتوحات کے انسانی تاریخ پر اثرات ہنوز موجود ہیں، یہ دینی اور دنیاوی اثرات کا ایسا بے نظیر اشتراک ہے جو میرے خیال میں حضرت محمدؐ کو انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ متاثر کن شخصیت کا درجہ دینے کا جواز بنتا ہے۔
(سو عظیم آدمی ، ص/ 25، 29)


جب کاروان اسلام نے مکہ سے رخت سفر باندھا ، اور عجمی ملکوں کی طرف رخ کیا ، عراق و ایران اور افغانستان کے راستہ ہندوستان پہنچا، یہاں طرحِ اقامت ڈال کر بود و باش شروع کی ، پھر دھیرے دھیرے ، رفتہ رفتہ اپنی ایمانی شمشیر سے دیو مالائی ہندو یا نہ تہذیب پاش پاش کردیا ، پھر ایمان اور اتحاد واتفاق ، الفت و محبت ، ہم آہنگی و یک رنگی کی خشت پر عظیم الشان گنگا جمنی تہذیب کے قصر ہائے فلک بوس تعمیر کئے سابق وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اس روز روشن کی طرح عیاں اور دودو چار کی طرح واضح حقیقت کا اعتراف کچھ اس انداز میں کیا ہے۔
ہندوستان کی تاریخ میں شمال مغربی ہند کے فاتحین اور اسلام کی آمد کی بڑی اہمیت ہے ، اس نے ہندو معاشرہ کے فساد کو ظاہر کر دیا اس نے طبقاتی تقسیم ، چھواچھوت اور ہندوستان کی دنیا سے علیحدگی کو بھی نمایاں کردیا ، اسلامی اخوت و مساوات نے جس پر مسلمانوں کا ایمان و عمل تھا ، ہندوؤں کے ذہنوں پر بڑا گہرا اثر ڈالا اور اس سے خاص طور پر محروم لوگ زیادہ متاثر ہوئے جن پر ہندوستانی معاشرہ نے برابر اور انسانی حقوق سے استفادہ کا دروازہ بند کر رکھا تھا۔
(ہندوستان کی کہانی ، 2/225)


سروجنی نائڈو نے اسلامی مساوات کا کچھ ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے ؂
یہ پہلا مذہب تھا ، جس نے جمہوریت کی تبلیغ کی اور اس پر عمل کیا ، مسجد میں اذان کے ساتھ عبادت کرنے والے جمع ہوجاتے ہیں اور دن میں پانچ بار اللہ اکبر کے اعلان پر ایک ساتھ جھکتے ہیں ، اسلامی جمہوریت پر عمل کرتے ہیں، میں نے بار بار محسوس کیا ہے کہ اسلام اتحادِ عمل سے ایک انسان کو دوسرے انسان کا بھائی بنا دیتا ہے جب آپ لندن میں کسی مصری ، الجیریائی ، ہندوستانی سے ملتے ہیں تو اس کی اہمیت نہیں ہوتی کہ ایک کا وطن مصر ہے ، اور دوسرے کا ہندوستان۔
(ماخوذ از تہذیب و تمدن پر اسلام کے اثرات واحسانات ، ص/48)


سید مجاور حسین اسلام کے ہندوستان پر اثر انداز ہونے کا نقشہ کچھ ان الفاظ میں کھینچتے ہیں ؂
یہ عوامل باہمی یگانگت کی راہ ہموار کرتے رہے اور فاتح و مفتوح کو اس طرح ایک دوسرے کے نزدیک آنے کا موقع دیا کہ آگے چل کر فاتح و مفتوح کا احساس بھی فنا ہوگیا ، اور قومیت کے شعور نے اس کی جگہ لے لی ، مذہبی اعتبار سے جو باہمی اختلاف تھا وہ بھی ہندوستان کے روادارانہ مزاج کی وجہ سے نقطۂ اختلاف پر توجہ دینے کی بجائے ان چیزوں کی طرف متوجہ ہوا جو باہم مشترک تھیں، دلچسپ بات یہ تھی کہ ہندوستان میں ہندو مذہب کے علاوہ اور بھی کئی مذہب آئے۔ بدھ اورجین نے یہی کی سر زمین میں جنم لیا۔ عیسائی اور زرتشی باہر سے آئے لیکن ان میں سے کسی کو وہ ہر دلعزیزی حاصل نہ ہو سکی جو اسلام کے ماننے والوں کو ہوئی۔
(اردو شاعری میں قومی یکجہتی کے عناصر، ص/59۔60)


ڈاکٹر تارا چند نے اس کو اور بھی واضح الفاظ میں بیان کیا ہے ؂
اس طرح عربوں کے اثرات ہندوستانی تہذیب پر پڑنے لگے تھے ، اور باہمی میل جول کا سلسلہ دراصل شمالی ہند میں 712ء سے پہلے ہی شروع ہوگئے تھے۔ (اسلام کا ہندوستانی تہذیب پر اثر ، ص/56)


جناب این۔ سی۔ مہتا صاحب اسلام کی کشش و جاذبیت اور نہاخانۂ دل میں آشیاں تعمیر کرنے کی صلاحیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ؂
یہ حقیقت اکثر نظر انداز ہوجاتی ہے کہ خیالات خواہ کتنے ہی اعلیٰ ہوں، اسی حد تک قابل قدر ہیں جب تک وہ قابل عمل ہوں، یہ صحیح ہے کہ ساتویں صدی میں اسلام نے جن خیالات کی اشاعت کی ، ان سے ہندوستان ، ایران ، روم اور یونان کے قدیم تمدن ناواقف تھے ، اسلام تخیل کی کوئی جدت نہیں ، بلکہ اس کے لئے باعث فخر بات یہ ہے کہ اس نے اپنے پیش کردہ خیالات کو لوگوں کے دلوں میں اتار کر ایک عظیم الشان انقلاب برپا کردیا۔
(ہندوستان کے عہد وسطیٰ کی ایک ایک جھلک، ص/309)


جناب کے۔ ایم۔ پنیکر مسلمانوں کی رواداری ، اور مسلمان بادشاہوں کے مساوات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ؂
اگر تحقیق کی جائے تو یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ مسلمان حکمراں ہندو مذہب کو تحقیر کی نظر سے دیکھتے تھے ، علاء الدین خلجی اور فیروز تغلق متعصب حکمراں سمجھنے جاتے ہیں ، لیکن ان دونوں نے بھی ہندوؤں کے مذہبی پیشواؤں کی بڑی عزت و توقیر کی ، چینیوں کے ماخذ سے پتہ چلتا ہے کہ علاء الدین نے اچاریہ مہاسین کو کرناٹک سے اپنے دربار میں مدعو کیا۔
(ہندوستان کے عہد وسطی کی ایک ایک جھلک، ص:346)


اس طرح مسلمانوں نے ہندوستان کے قدیم تہذیب و تمدن کو از سر نو جام زندگی پلایا ، اور انسانیت مخالف رسوم و رواج کی بیخ کنی کرنے کی ہر ممکن سعی و کوشش کی ، عورتوں کو ان کا مقام و مرتبہ عطا کر کے ستی کی رسم کو ختم کرنے کے لئے تمام دستیاب وسائل استعمال کئے، طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے کے لئے مساوات کا سبق پڑھایا، مزید بر آنکہ قطب مینار کی رفعت و بلندی ، تاج محل کا حسن و جمال ، لال قلعہ کا جاہ و جلال، چار مینار کی شان و شوکت ، جامع مسجد کا تقدس و پاکیزگی ، اور نہ جانے کتنے دلکش لعل و گوہر سے گیسوئے ہند کو آراستہ و پیراستہ کر کے گنگا جمنی تہذیب کی دیواریں کھڑی کیں، مسلمانوں کے ذریعہ اہل ِہند کو عطا کردہ سب سے قیمتی تحفہ یہ ہے کہ اسلام نے ہندوستان کو جنت نشاں اور سونے کی چڑیاں بنا کر دوسروں سے آنکھ میں ڈال کر بات کرنے کا سلیقہ سیکھایا، اس مشترکہ تہذیب پر سید صباح الدین عبدالرحمن نے اس طرح روشنی ڈالی ہے ؂
مسجدوں اورمقبروں کے بنانے میں تو مسلمانوں نے اپنے روایاتی تصورات کو حتی الامکان برقرار رکھا ، لیکن غیر مذہبی قسم کی عمارتوں میں ہندوستانی طرز تعمیر کے محاسن سے بے تکلف فائدہ اٹھاتے رہے۔
(تمدنی جلوے ، ص/ 150)


اس کے علاوہ بھی کئی ایک ہندوستان کی چیزیں عربوں کو پسند آئیں جس کا انہوں نے کھلے دل سے اعتراف بھی کیا سلیمان تاجر کا قول ہے ؂
یہاں جیسے کپڑے بنے جاتے ہیں ویسے کہیں نہیں بنے جاتے اور اتنے باریک ہوتے ہیں کہ ایک 'پورا کپڑا' یا 'تھان' ایک انگوٹھی میں آ جاتا ہے۔
(ماخوذ از عرب وہند کے تعلقات، ص/59)


مسلمانوں نے اپنے آٹھ سو سالہ دور حکومت میں ایک سے بڑھ کر ایک کارہائے نمایاں انجام دئیے جس سے کوئی بھی مورخ چشم پوشی کی جرات نہیں کر سکتا ہے اس درمیان مسلمانوں کے ہاتھوں سے لمحہ بھر کے لئے بھی عدل و انصاف صداقت و حقانیت ، اخوت و بھائی چارگی ، رعایا پروری و عدل گستری ، الفت و محبت ، مساوات و مواسات باہمی میل جول کا دامن چھوٹنے نہ پایا، انہی اسباب ولواعت کی بنا پر ہندوستان نے برق رفتاری سے تعمیر و ترقی کے منازل و مراحل طے کئے حتی کہ ہندوستان کو سونے کی چڑیاں کہاجانے لگا جس کی چمک دمک سے ہر کسی کی آنکھیں خیرہ ہونے لگیں۔

***
شاداب ابراہیم ندوی۔ جمال پور، دربھنگہ، بہار۔
ibrahimmdshadab786[@]gmail.com

Islam and India. - Article by: Shadab Ibrahim Nadwi

1 تبصرہ: