مواقع کبھی ختم نہیں ہوتے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-09-12

مواقع کبھی ختم نہیں ہوتے

opportunities-never-end

کبھی کبھی ہم زندگی کے ایسے موڑ پہ آ کھڑے ہوتے ہیں جب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ زندگی میں اب کچھ باقی نہیں رہا سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ زندگی کا مطلب ہی بےمعنی ہو چکا ہے۔ جینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسا ہم اس وقت سوچتے ہیں جب ہم زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کا مقابلہ کرتے کرتے تھک جاتے ہیں اور مشکلات ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں یا ہم اپنے کسی پیارے کو کھو دیتے ہیں یا کوئی ہمارا عرصۂ حیات تنگ کرنے میں لگا ہوتا ہے اس وقت ہم اتنے دل برداشتہ ہو چکے ہوتے ہیں کہ ہمیں محض جذباتی فیصلے ہی کارگر حل کی صورت میں نظر آتے ہیں جب کہ زندگی میں امکانات کی دنیا کبھی بھی مکمل طور سے ختم نہیں ہوتی۔ خواہ ماضی ہاتھ سے نکل چکا ہو حال کی بدحالی واضح ہو ایسے میں بھی روشن مستقبل کے امکانات ہمیشہ باقی رہتے ہیں۔ جس کو پانے کے لئے اپنی سابقہ سوچوں میں تبدیلی کرنا ناگزیر ہوتا ہے۔ ہم زندگی میں درپیش سارے واقعات کو ایک ہی نظریے سے دیکھتے ہوئے نتائج کو تبدیل نہیں کر سکتے نتیجے میں تبدیلی لانے کے لئے سوچ اور عمل میں تبدیلی لانا ازحد ضروری ہے۔ زندگی میں ہم بہت کچھ ہم دوسروں کے ساتھ پیش آنے والے حالات و واقعات سے بھی سیکھ سکتے ہیں۔ ناکامی و بربادی کے ملبے پہ کھڑے ہو کر کس طرح مستقبل کو تعمیر کیا جاتا ہے اس کی مثال دوسری عالمی جنگ میں نظر آتی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کا متاثرہ ملک جاپان جس کی فوجی طاقت اور قوت کے سامنے امریکی فوجیں بھی پرل ہاربر پہ شکست خوردہ ہوگئیں تھیں لیکن جب ایٹم بم کی وجہ جاپان جیسا عظیم ملک قیامت خیز تباہی سے جھلس گیا تھا یہ لٹل بوائے ، فیٹ مین نامی ایٹم بم جاپان کے دو بڑے شہر ہیروشیما ناگاساکی پہ ایٹم بم گرائے گئے تھے اس نے جاپانیوں کو بےدست و پا کر دیا تھا اس کی تباہی اتنی ہولناک تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں شہر قبرستان سے بھی بدتر نظارہ بن کے رہ گئے۔


جاپان کی اتنی بڑی تباہی کے کئی مہینے بعد ٹوکیو میں بڑے سے ہال میں تمام حکومتی عہدیدار سائنسدان فوجی افسر ماہرین معاشیات سماجی رہنما سبھی اس پہلو پہ مشاورت کر رہے تھے کہ امریکہ نے ایٹم بم گرا کر بڑے جنگی جرم کا ارتکاب کیا ہے اب اس کا انتقام کیسے لیا جائے۔ اس موقع پہ ہر ماہر اور زیرک انسان اپنی رائے دے رہا تھا نوجوان طبقہ کافی جوش میں تھا اور وہ اس بات کے حق میں تھے کہ امریکہ سے انتقام ہر صورت میں لیا جائے تاکہ امریکہ دوبارہ ایسی غلطی کا ارتکاب کبھی بھول کر بھی نہ کر سکے ہر کوئی اپنی تجاویز پیش کر کے اپنی جگہ پہ بیٹھ جاتا۔ اسی اثنا میں ایک نوجوان نے کہا کہ ہم نے ہاراکاری گروپ تشکیل دیا ہے (ہاراکاری ایسی موت کو کہتے ہیں جس میں جاپانی لوگ زندگی سے تنگ آ کر خود کو اذیت دے کر خودکشی کر لیتے ہیں ) ہم جاپان مخالف ممالک کو پرتشدد کارروائیوں سے عبرتناک بنا کر ہاراکاری کر لیں گے ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں اس کے لئے اجازت دی جائے۔ اسی بحث و مباحثہ کے درمیان ایک جاپانی جنرل اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ پھر وہی جنگ و جدل اور خون خرابہ کی باتیں۔ اس پر کسی نے کہا کہ بزدل ہو تم جوابا جاپانی جنرل نے کہا کہ تم کچھ بھی کہو لیکن یہ سچ ہے کہ اگر جاپان کمزور نہ ہوتا تو ایسا نہیں ہوتا اس پر نوجوان نے کہا کہ امریکہ نے ایٹم بم گرایا تھا تبھی ہم ہار گئے۔
یہ سن کر ایک مفکر نے چینخ کر ہال پہ لگی ان تصویروں کی طرف اشارہ کیا جو کہ موت کا نظارہ پیش کر رہی تھیں کہ یہ ہے جنگ کا انجام جو آپ کے سامنے ہے۔


اس پر سوال اٹھا کہ پھر کیا کیا جائے اس پر اس مفکر نے کہا کہ انتقام لینے کا ایک طریقہ اور بھی ہے ہال میں صدا گونجی وہ کیا؟ اس پر اس نے جواب دیا کہ ہم اپنے ملک کو اس قدر طاقتور بنا دیں کہ پوری دنیا جاپانیوں کی محتاج ہو جائے میرے خیال میں یہ انتقام لینے کا سب سے بہتر طریقہ ہے۔۔۔ اس کی حمایت میں کئ آوازیں گونجیں کہ وہ کیسے؟ پھر اس مفکر نے خلا میں مستقبل کو دیکھتے ہوئے کہا کہ وہ دن دور نہیں جب پوری دنیا جاپان کی اقتصادی ترقی کی مرہون منت ہو گی آئیے ہم مل کے عزم کرتے ہیں کہ ہم عظیم جاپان کی تعمیر کے لئے دن رات ایک کر دیں گے اور اپنی مصنوعات کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچائیں گے۔ ان کے اس عزم و استقلال اور تعمیری سوچ کا ہی نتیجہ ہے کہ جاپانیوں کے عزم و حوصلے کی مثال آج پوری دنیا میں دی جاتی ہے جاپانیوں کا دعویٰ سچ ثابت ہوا آج ہر گھر میں جاپانی مصنوعات کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔ اس نے اس قدر محنت کی کہ کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ہیروشیما و ناگاساکی کے شہر آج پہلے سے بھی زیادہ پررونق ترقی یافتہ اور زندگی سے لبریز ہیں۔ جاپان کی اقتصادی ترقی خود امریکیوں کے لئے بھی ایک مثال ہے۔


جاپان کی اقتصادی ترقی ہمیں سبق دیتی ہے کہ ہم اپنے مستقبل کو کبھی بھی روشن و تابناک بنا سکتے ہیں۔ اگر جاپان انتقامی سوچ کے ساتھ جنگی اقدام کرتا تو خواہ شکست سے دوچار ہوتا یا فتح سے اس کی اقتصادیات مکمل طور سے تباہ ہو چکی ہوتی عالمی سطح پہ اس کی کوئی حیثیت نہ ہوتی اس کے عوام جنگ سے بیزار ہو کر اپنے ہی حکام کے خلاف بغاوت پہ آمادہ ہو جاتے ایسے میں جاپان کے لئے بیرونی دشمنوں کے ساتھ اندرونی مخالفین سے نمٹنا بالکل بھی آسان نہیں ہوتا۔


زندگی کو ہمیشہ ایک ہی سوچ اور ذہنیت پہ اٹل ہو کر جینے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے ہمیشہ اپنے رویوں اور فیصلوں میں لچک کی گنجائش رکھنی چاہئے اور انا کی زد میں آ کر کبھی کسی فیصلے پہ مصر ہونے سے گریز کرنا چاہئے جیسا کہ جاپان نے کیا اس نے اپنی توجہ جنگ و جدل اور انتقامی سوچ سے ہٹا کر ملک کی از سر نو تعمیر پر لگا دی اور اپنے ملک کا تعمیری ڈھانچہ مضبوط سے مضبوط بنانے کے لئے اس نے اپنے آپ کو وقف کر دیا وہاں کا تعلیمی نظام تہذیب و ثقافت اور بدلتی دنیا کے تقاضوں کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ میں نے ایک جگہ پڑھا تھا کہ جاپان کے اساتذہ اس کام میں بالکل عار نہیں محسوس کرتے کہ وہ کلاس روم میں فرش یا بنچ وغیرہ کو صحیح ترتیب میں لانے کے لئے طلبہ کی مدد کریں وہاں ابتدائی کلاسوں میں بچوں کو امتحان کی لازمیت سے نہیں گزرنا پڑتا وہ ان مدت میں بچوں کو اخلاقیات اور نظم و ضبط کی اہمیت سے روشناس کراتے ہیں معاشرے اور خاندان میں رہنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں اور اپنی قوم کے لئے ایک تعمیری ذہنیت رکھنے والے انسان کی بنیادی سوچوں سے متعارف کرواتے ہیں۔ بےشک جس ملک کا تعلیمی نظام اس قدر اعلی اقدار کا حامل ہو اس قوم کے ترقی یافتہ ہونے میں کوئی دو رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔


ہم ملک کی سطح پہ ان اقدار کو اگرچہ عام نہیں کر سکتے لیکن ہمیں چاہئے کہ اپنی ذات اور اپنے خاندان کو ایسے اعلی اقدار سے روشناس کرنے کی کوشش ضرور کریں۔ تاکہ ہمارا معاشرہ بھی ان سے فیضیاب ہو سکے۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں اعلی تعلیمی نظام تو فروغ پاگیا لیکن تہذیب و ثقافت اور اعلی اقدار کے چراغ بجھتے جا رہے ہیں۔ ہم تحمل و برداشت اور اصول و قوانین سے بیگانہ ہوتے جا رہے ہیں ہماری ذاتی زندگی بھی نفسیاتی خلش کا شکار ہو کر بےمقصد ہوتی جا رہی ہے۔ ہم شکایتی ذہن رکھنے والے بن گئے ہیں اپنے اوپر کام کرنے کے بجائے آوروں سے تبدیلی کا تقاضہ کر رہے ہیں۔ انسان کے اندر پیدائشی طور پہ بےشمار صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں انھیں جاننے کے ساتھ تراشنے کی ضرورت ہوتی ہے ہمارے اندر وہ ساری صلاحیتیں موجود ہیں جن سے ہم چیلنجوں کو سامنا کر سکتے ہیں لیکن ہمارا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ ہم کسی چیلنج کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں جب کہ چیلنج بظاہر ایک رکاوٹ ہے مگر اپنے نتیجہ کے اعتبار سے وہ تعمیر و ترقی کا زینہ ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہم ترقی اسی وقت کر سکتے ہیں جب ہمیں بیرونی دنیا میں یہ مواقع طشتری میں رکھ کر پیش کئے جائیں گے جب کہ ہماری ترقی کا بیشتر انحصار ہماری ذہنی استعداد اور رویے پہ ہے کہ ہم کس طرح ملے ہوئے موقع کو استعمال کر کے خود کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں مشکل وقتوں میں ہماری ذہنی حسیات پوری طرح بیدار ہو جاتی ہے ایسے میں ہماری کارکردگی عام حالات سے کہیں زیادہ بہتر ہوتی ہے لیکن ہم اکثر مشکل حالات کا سامنا کرنے کے بجائے پسپائی اختیار کر لیتے ہیں ایسے میں ہماری مشکلات ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جاتی ہیں۔ زندگی کبھی مواقع سے خالی نہیں ہوتی لیکن مواقع انھیں ہی نظر آتے ہیں جو انھیں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی زندگی کو بدلنے کی جرأت رکھتے ہیں ایک موقع کو کھونے کے بعد زندگی کے اور مواقع کو ختم شدہ نہیں خیال کرنا چاہئے زندگی ہمیں سکنڈ چانس بھی دیتی ہے بشرطیکہ ہماری لگن اور جدو جہد قائم ہو۔


اگر آپ زندگی میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو پہلے اپنی ترجیحات کو طئے کرلیں اور اس پر مستقل مزاجی کے ساتھ جم جائیں اگر ہم کامیاب ہونے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن غیر ضروری مشاغل سے اپنے آپ کو بچا نہیں پا رہے تو کامیابی آپ کے لئے ایسے ہی ہوگی جیسے چاند جو آپ کو نظر تو آرہا ہے لیکن آپ کی دسترس سے کہیں دور ہے اس لئے ترجیحات کے طئے کرنے کے ساتھ ساتھ غیر ضروری اور بےمقصد مشاغل سے خود کو دور رکھنا ہوگا اگر آپ چھوڑنے والی چیزوں کو نہیں چھوڑیں گے تو آپ کے لئے کسی بھی پانے والی چیز کو پانا ناممکنات میں سے ہوگا۔
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی چیز کو کھو دینے کے غم میں اس قدر اپنے حواس مختل کر بیٹھتے ہیں کہ ہم زندگی میں آگے نہیں بڑھ پاتے ایسے میں ہم نے جو کھویا ہوتا ہے اس کے سوگ میں ڈوب کر ہم اور بہت کچھ کھو بیٹھتے ہیں کہتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم نے جاپان کا نہ صرف جانی مالی نقصان کیا تھا بلکہ اس کا رقبہ بھی گھٹا دیا تھا اور اس کی فوجی آزادی بھی چھین لی تھی اور وہ بلاشرط کے سرینڈر کرنے پہ مجبور ہو گیا تھا۔ جاپان نے کھوئی ہوئی طاقت کے غم میں نڈھال ہونے کے بجائے زندگی میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور اپنے ملک و قوم کی از سر نو تعمیر کرنے میں جٹ گیا پچھتر سال بعد آج جاپان دنیا کی بلند ترین چوٹی پہ پہنچ گیا ہے۔


جو اصول کسی ملک و قوم کے لئے ہے وہی ایک فرد اور خاندان کے حق میں بھی صادق آتی ہے ہمیں کھوئی ہوئی چیز کا ماتم کرنے کے بجائے زندگی میں آگے ملنے والے مواقع کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ کامیابی کا دارومدار کسی خاص وقت اور مخصوص شئے کے حصول پہ نہیں ہے اگر یہ کبھی بھی جا سکتی ہے تو اس کو کبھی بھی واپس حاصل بھی کیا جا سکتا ہے۔ کبھی بھی زندگی میں ہمیں کم تر پہ راضی ہونا پڑتا ہے پھر اس کے ذریعے مزید حصول کے لئے راستے ہموار کئے جا سکتے ہیں۔ جب سب کچھ انسان کو ایک ہی وقت میں حاصل ہو جاتا ہے تو اس کے اندر بےفکری کی سی کیفیت جنم لینی لگتی ہے اور وہ اپنے پوٹنشیل کو مزید استعمال کرنے کے بجائے اسی پہ رشک کناں ہو جاتا ہے اور قانع ہو کے رہ جاتا ہے نتیجتا اس کی ترقی کے راستے مسدود ہونے لگتے ہیں جب کہ اسباب کی کمی انسان کے اندر فکرمندی کا جذبہ پیدا کرتی ہے اس کی پوری صلاحیت اس بات پر مرکوز ہو جاتی ہے کہ وہ کس طرح اس مشکل وقت سے باہر آ سکتا ہے دنیا کے کامیاب ترین لوگوں کی تاریخ دیکھ لی جائے تو یہی نظر آئے گا کہ دنیا کے بیشتر کامیاب ترین لوگوں کا تعلق غریب طبقے سے تھا انھوں نے ایسے ماحول میں آنکھیں کھولیں جو مسائل سے بھری تھیں وسائل نہ ہونے کے برابر تھے پھر انھوں نے جدو جہد کی اور لوگوں کے لئے وسائل اور آسانیاں پیدا کیں اس اعتبار سے وہ شخص زیادہ خوش قسمت ہے جو مشکل حالات سے دو چار ہو رکاوٹیں آدمی کے لئے زینہ ہوتی ہیں بشرطیکہ وہ ان کو زینہ کے طور پر استعمال کر سکے۔


اس زندگی کی ایک بڑی سچائی ہے کہ یہاں درپیش ہر مسائل کا توڑ موجود ہے قدرت نے اس کائنات کو بےشمار امکانات کے ساتھ پیدا کیا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہمارے اندر عزم اور مستقل مزاجی کا عنصر پایا جاتا ہو ان امکانات اور مواقع کو تلاشنے کے لئے وہ اپنے اندر موجود پوٹینشیل کو دریافت کرے اور اسے عمل میں لائے۔ قدرت کبھی بھی بیک وقت سارے راستے مسدود نہیں کرتی لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بند دروازے پہ دستک دیتے رہتے ہیں اور ناامید ہو کر کوشش کرنا ترک کر دیتے ہیں قدرت بعض اوقات ہمارے سامنے کے راستوں کو اس لئے بند کر دیتی ہے تاکہ ہم دوسرے راستے کی تلاش کر کے اپنی کامیابی کو مزید مستحکم بنا سکیں ایک حدیث کا مفہوم ہے ایک مشکل دو آسانی پہ ہر ہرگز غالب نہیں آ سکتی یعنی اس دنیا میں ہر مشکل کے مقابلے میں آسانی موجود ہے یہ دنیا جو اتھاہ امکانات کے ساتھ تخلیق کی گئی ہے اس میں مواقع کے ختم ہونے کا کوئی عقلی جواز نہیں ملتا۔ ماضی کی کوئی بھی کوتاہی مستقبل کے مواقع کو برباد کرنے سے قاصر ہے تبدیلی باہر کی دنیا میں نہیں بلکہ ہمیں اپنے اندر لانے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے نظریات و خیالات کو سچائی کی بنیاد قائم کریں پیچھے دیکھنے اور تباہ شدہ خوشیوں کا ماتم کرنے کے بجائے آگے دیکھنے اور بڑھتے رہنے کو ترجیح دیں بعض اوقات ہمیں منزل کو بدلنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ راستے بدل کر ہمیں منزل تک پہنچنا ہوتا ہے۔


***
علیزے نجف۔ سرائے میر، اعظم گڈھ، اترپردیش
ایمیل: alizeysikander[@]gmail.com

Opportunities never end. Essay: Alizey Najaf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں