ٹکراؤ ایک ملاقات پر - فکاہیہ از ذیشان انصاری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-08-10

ٹکراؤ ایک ملاقات پر - فکاہیہ از ذیشان انصاری

takrao-shair-mulaqaat

ایک روز غروبِ آفتاب کے وقت جب ہلکی سی بارش ہو کر تھم گئی تب ہمیں بھیگے ہوئے گلاب دیکھنے کی خواہش ہوئی اور ہم سَیر کے لئے نکل پڑے۔ چلتے چلتے ایک بازار سے گزر ہوا تو ہماری نظر ایک آدمی پر پڑی جو ٹھیلا لگائے پکوڑے تل رہا تھا اور لوگ قطار لگائے ہوئے اپنی باری کے انتظار میں تھے۔ غیر ارادی طور پر ہم بھی قطار میں لگ گئے اور کچھ دیر بعد اُس سے پکوڑے لے کر پاس پڑی میلی کچیلی میز پر جا بیٹھے، جو ٹھیلے والے نے ٹھیلے کے بغل میں لگوائی تھی۔ ابھی بسم اللہ پڑھ کر پہلا لقمہ اٹھائے ہی تھے کہ ہمارے ساتھ ایک حادثہ پیش آگیا۔ مطلب یہ کہ پیچھے سے ہماری پیٹ پر ایک زور دار دھپا اِس آواز کے ساتھ لگا۔۔
"اور بھائی پہچانا"
ہم زیرِلب کچھ بڑبڑاتے ہوئے پیچھے پلٹے تو دیکھا کہ وہ ہمارے بچپن کا دوست تنویر تھا جیسے ہم اب 11 سال بعد دیکھ رہے تھے، ہمارا غصہ وہیں پر ٹھنڈا ہوگیا ہم نے سلام کیا اور ایک دوسرے سے بغل گیر ہو گئے۔
ہم اکثر پرانے دوستوں سے مل کر غم زدہ ہو جاتے ہیں اس لیے نہیں کہ ان سے ملاقات اس طرح اچانک ہوتی ہے بلکہ اس لیے کہ گزرے وقتوں کا دوست گزرے وقتوں کا ہی دوست ہوتا ہے وہ ہمیں موجودہ حال میں نہیں مل سکتا، اگر آپ کو اُس سے ملنا ہو تو وہ آپ کو اپنی یادداشت میں ہی ملے گا۔


خیر پھر ہم ساتھ بیٹھ گئے۔ تنویر کے ساتھ ایک اور صاحب بھی تھے۔۔ تعارف کے بعد ہم نے ایک دوسرے کے حال احوال مصروفیت وغیرہ پر باتیں کی جب باتوں باتوں میں ادب پر بات چل نکلی تو ہم نے پطرس بخاری کا ذکر کیا۔۔۔ تنویر نے کہا، "اچھا مفکر تھا"۔۔
ہم نے کہا پطرس مفکر نہیں مزاح نگار تھا تو کہنے لگا ہمیں تو دونوں ایک ہی سے لگتے ہیں مفکر کی فکر جب غلط ثابت ہوجائے تو وہ مزاح نگار ہی بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ سننا تھا کہ ہم پر غشی کی کیفیت طاری ہونے لگی جب ذرا سا سنبھلے تو تنویر نے ایک اور گولی داغ دی کہا: "اس کا وہ کتوں والا مضمون ہی دیکھ لو۔۔"
ہم نے بات بدل دی اور ہم کر بھی کیا سکتے تھے۔۔
بات بدلنے کی خاطر ہم نے تنویر کے ساتھ آئے صاحب کے بارے میں مزید جاننا چاہا، حالانکہ "تنویر کے ساتھی ہونے کی وجہ سے" اب دل بالکل نہیں چاہ رہا تھا۔
"ان صاحب کی تعریف؟"۔۔ ہم نے موضوع بدلتے ہوئے پوچھا۔۔
کون یہ؟۔۔ تنویر بولا:
یہ ہمارے عزیز دوست 'ببلو بے ڈھنگ' ہیں۔
ہمیں اچنبھا ہوا تو ہم نے پوچھا کہ ببلو تو ٹھیک ہے مگر یہ بے ڈھنگ کیا؟؟ جناب کی عرفیت ہے؟؟
تنویر نے کہا: "جی نہیں میری اِن سے واقفیت ہے۔"
کچھ دیر کے لیے تو جیسے ہماری جان ہی نکل گئی اور وہ دونوں ہمیں دیکھ کر ہنسنے لگے تفنن بر طرف ہم نے کہا یہ ببلو بھائی کرتے کیا ہیں؟
"جی میں شاعر ہوں"۔ ببلو بولا۔
ماشاء اللہ ماشاء اللہ۔۔۔ ہم نے کہا۔
پھر کچھ سنائیے، ہمیں بھی شاعری سے تھوڑا بہت شغف ہے۔۔
ہمیں لگا کے ان کے جاننے والے انہیں بے ڈھنگ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں تو یقیناً اِن میں کچھ بات تو ہوگی۔ یہ ہمارا دیکھا بھالا تجربہ ہے کہ جب ایک شاعر اپنی شاعری میں پختگی کو پالیتا ہے تب اس کی شاعری تو کمال ہوتی ہے البتہ چال چلن میں کچھ بے ڈھنگا پن سا آ جاتا ہے۔۔
بہرحال انہوں نے اپنے مفصل تعارف کو ایک شعر میں سمیٹنے کی کوشش کی اور یوں گویا ہوئے:
ببلو تو عالم ارواح میں سلیقہ شعار بہت تھا
دنیا میں یار دوستوں نے اسے بے ڈھنگ بنا دیا


وہ تو شعر سناتے ہی جھومنے لگا اور تنویر سے ادب میں جھک جھک کر داد وصولی، اور ہم حواس باختہ ہوکر دونوں کو تکنے لگے۔۔
لاکھ کوششوں کے باوجود جب ان مصرعوں کی تقطیع ہم سے نہ ہوسکی تب ہمارے چہرے کا رنگ بدل گیا۔۔ ہم نے غصہ سے پوچھا:
" اس کی بحر کیا تھی؟ ہاں۔۔! "
واہیاتُن انتہائی واہیات


اس پر ایک زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے ببلو بولا اُسے بحر نہیں نہر کہتے ہیں۔ اور پھر وہ یکایک شاعر سے علامہ بن گیا۔۔ کہنے لگا یہ نہر طوفانِ نوح تھم جانے کے بعد کوہ قاف سے جاری ہوئی اور چشمہ آب حیات۔۔۔
وہ آب حیات تک پہنچا ہی تھا کہ ہمیں اپنی موت سامنے نظر آنے لگی۔۔ اس کی بات درمیان سے کاٹتے ہوئے ہم نے دونوں سے اجازت چاہی اور گھر کی طرف چل دیے۔۔ ہمیں اس بات کا افسوس الگ سے تھا کہ ہم ریاضی میں بڑے کمزور ہیں، ورنہ یہ حساب تو لگا دیتے کہ آج ہماری سیر کتنے قبل از مسیح تک ہو گئی۔


***
ذیشان انصاری (ناندیڑ ، مہاراشٹر)

Email: zeeshanhind[@]gmail.com


Takrao aik mulaqaat par, Humorous Light Essay by: Zeeshan Ansari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں