انصاف کی مدد - کالم از ودود ساجد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-08-07

انصاف کی مدد - کالم از ودود ساجد

personal-attacks-on-sc-judges-and-their-remarks

پچھلے چند ایام میں سپریم کورٹ کے ایک سے زائد ججوں نے عوامی طور پر کچھ غیر معمولی غصہ کا اظہار کرتے ہوئے تقریریں کی ہیں۔ اپنے ضبط اور شخصی آزادی کے علمبردار کے طور پر مشہور جسٹس چند ر چوڑ کے علاوہ جسٹس ایس کے کول، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس سوریہ کانت جیسے ججوں نے تو بنچ کی سٹنگ کے دوران ہی مختلف مواقع پر ناگواری کا اظہار کیا ہے۔
چیف جسٹس این وی رمنا نے ایک سے زائد مواقع پر ایسے تلخ تبصرے کئے ہیں کہ جو کم سے کم صاحبان اقتدار کو تو پسند نہیں آئے ہوں گے۔ جسٹس جے بی پاردی والا نے گستاخ نپور کے خلاف سپریم کورٹ کی بنچ کے تاریخی تبصرہ کے بعد ہونے والے ذاتی حملوں کا ترکی بہ ترکی اور سخت جواب دیا ہے۔ یہی نہیں بعض ہائی کورٹ کے ججوں نے بھی بنچ کی سٹنگ کے دوران مختلف معاملات میں فقید المثال تبصرے کئے ہیں۔


جو لوگ عدلیہ کی راہداریوں پر نظر رکھتے ہیں ان کیلئے یہ صورتحال غیر معمولی نہ سہی، لیکن معمولی بھی نہیں ہے۔
عموماً جج حضرات اس وقت کچھ "ناگفتنی" کرتے ہیں جب وہ سبکدوش ہو جاتے ہیں یا سبکدوشی کے دہانے پر ہوتے ہیں۔ایسے کئی مواقع پر لوگوں کو کہتے سناجاتا ہے کہ 'اب جبکہ وہ اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو رہے ہیں تو ان کے منہ سے ایسی باتیں نکل رہی ہیں، آخر اب کیا فائدہ؟ پہلے کہتے تو کچھ بات ہوتی' وغیرہ وغیرہ۔


مجھے یاد آتا ہے کہ 6 مئی 2020 کو جب سپریم کورٹ کے رخصت پذیر جج، جسٹس دیپک گپتا نے سخت تبصرے اور انکشافات کئے تھے تو ایک طرف جہاں لوگوں کو حیرت ہوئی تھی وہیں یہ بھی کہا گیا تھا کہ آخر اب ان انکشافات اور تبصروں کا کیا فائدہ۔ ایسے مواقع پر معاشرہ کے مظلوم، مجبور اور کمزور طبقات فطری طور پر اپنی بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب تک یہ لوگ عہدوں پر تھے تو انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا، آج جب وہ سبکدوش ہورہے ہیں تو ایسی باتیں کہہ رہے ہیں۔


یہاں یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ اس ملک کی روایت، آئینی عہدوں پر متمکن افراد کو عوامی طور پر اپنے محسوسات کو ظاہر کرنے سے روکتی ہے۔خاص طور پر صدر جمہوریہ، چیف جسٹس اور دوسرے جج حضرات کو ایسے تبصروں کے اظہار سے روایتی بندشوں نے روک دیا ہے۔ زیادہ تر صاف ستھرے جج اپنے فیصلوں میں اس 'روایتی بندش' کی تلافی کردیتے ہیں۔مثال کے طور پر جسٹس وائی ایس مرلی دھر کا نام لیا جاسکتا ہے۔اس وقت وہ اوڈیشہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہیں۔اس سے پہلے وہ پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔لیکن اس سے بھی پہلے وہ دہلی ہائی کورٹ میں تھے اور رینک کے اعتبار سے تیسرے سب سے سینئر جج تھے۔


جسٹس مرلی دھر اپنے جرات مندانہ فیصلوں اور شخصی آزادی کے علم بردار کے طور پر مشہور ہیں۔دہلی ہائی کورٹ کے جج کے طور پر انہوں نے ہی 2018 میں وہ تاریخ ساز اور جرات مندانہ فیصلہ دیا تھا جس کی رو سے ہاشم پورہ کے 40 سے زیادہ بے قصور مسلم نوجوانوں کے قاتل 19 پی اے سی والوں کو سزا ملی تھی۔80 کی دہائی میں رونما ہونے والے میرٹھ مسلم کش فسادات میں ان بے قصور مسلم نوجوانوں کو پی اے سی کے ٹرکوں میں بھر کر لے جایا گیا اور پھر انہیں گولی مارکر گنگ نہر میں بہادیا گیا تھا۔اس سلسلہ میں آئی پی ایس وی این رائے نے ایک کتاب بھی لکھی تھی۔وہ پی اے سی کے کمانڈنٹ بھی رہ چکے تھے۔


جسٹس مرلی دھر نے 26 فروری 2020 کو مشرقی دہلی کے فسادات سے متعلق ایک غیر معمولی سماعت کے دوران دہلی پولیس کو جو سخت احکامات دئے تھے وہ تاریخ میں جلی حروف میں درج رہیں گے۔ سی اے اے کے خلاف ملک گیر احتجاجی مہم کے سلسلہ میں شاہین باغ کی طرح مشرقی دہلی میں بھی ایک احتجاج منعقد کیا گیا تھا۔اس احتجاج کو ختم کرانے کیلئے بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا نے جو زہر افشانی کی تھی اس کے نتیجہ میں مشرقی دہلی میں بھیانک فساد برپا ہوگیا تھا۔ اس میں دو درجن لوگوں کی جانیں گئی تھیں اور لاکھوں، کروڑوں کی املاک تباہ ہوگئی تھیں۔
فساد میں شدید طور پر زخمی ہونے والے بعض متاثرین کا علاج ایک مقامی ہسپتال میں چل رہا تھا لیکن انہیں بہتر سہولتوں والے ہسپتال لے جانے کی ضرورت تھی۔ہسپتال کے ذمہ داروں کا الزام تھا کہ شرپسند ان زخمیوں کو دوسرے ہسپتال تک منتقل کرنے نہیں دے رہے ہیں۔ جسٹس مرلی دھر نے دہلی پولیس کو حکم دیا کہ اسی وقت زخمیوں اور ہسپتال کے عملہ کوتحفظ فراہم کرکے انہیں دوسرے ہسپتالوں کو منتقل کیا جائے۔ان کے اس حکم کے بعد دہلی پولیس کے تحفظ میں ان زخمیوں کو منتقل کیا گیا۔


سماجی خدمتگار ہرش مندر اور فرح نقوی نے بھی ایک رٹ دائر کرکے 'ہنگامی' سماعت کرنے کی درخواست کی تھی۔اس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ بی جے پی کے جن لیڈروں کی اشتعال انگیز تقریروں کے سبب یہ فساد رونما ہوا ان کے خلاف پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا جائے۔ ہنگامی سماعت چیف جسٹس ہی کرسکتا ہے یا جس جج کو وہ مقرر کرے، وہ کرسکتا ہے۔لیکن اس روز دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس (ڈی این پٹیل) چھٹی پر تھے۔ان کے قائم مقام جج بھی دہلی میں نہیں تھے۔لہذا تیسرے سینئر جج ہونے کی حیثیت سے یہ ہنگامی رٹ جسٹس مرلی دھر کو آدھی رات کے بعد اپنے گھر پر سننی پڑی۔


جسٹس مرلی دھر کی عدالت نے اس روز دہلی فساد کے سلسلہ میں تین مختلف سماعتیں کی تھیں۔نصف شب کو انہوں نے دہلی پولیس کے ایک افسر سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے یا تمہارے پولیس کمشنر نے وہ ویڈیو دیکھی ہے جس میں بی جے پی کے یہ لیڈر اشتعال انگیز اور دھمکی بھری تقریر کر رہے ہیں؟ افسر نے جب نفی میں جوا ب دیا تو جسٹس مرلی دھر نے عدالت میں یہ ویڈیو چلاکر دکھائی تھی۔انہوں نے حکم دیا تھا کہ دہلی کے پولیس کمشنر کل صبح دس بجے تک عدالت کو بتائیں کہ دہلی پولیس ان اشتعال انگیز تقریروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا ارادہ رکھتی ہے یا نہیں۔لیکن جسٹس مرلی دھر کی وہ اگلی صبح کبھی نہیں آئی کیونکہ آدھی رات کو ہی ان کا تبادلہ پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ میں کردیا گیا اور تبادلہ کے خط کی زبان ایسی تھی کہ اس کی رو سے وہ اگلی صبح دہلی ہائی کورٹ کے جج نہیں رہے تھے۔
ان ہنگامی سماعتوں کے دوران جسٹس مرلی دھر کے جراتمندانہ تبصروں کو تاریخ کبھی بھلا نہیں سکے گی۔ ان کی وداعی تقریب میں ججوں اور وکیلوں،یہاں تک کہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی اتنی بڑی تعداد دہلی ہائی کورٹ کے احاطہ نے کبھی پہلے نہ دیکھی تھی۔ ہر آنکھ نم تھی۔ متعدد سابق ججوں نے ان کے تبادلہ پر سخت ناگواری کا اظہار کیا تھا۔بہت سے دانشوروں، سماجی خدمتگاروں اور وکیلوں کی تنظیموں نے چیف جسٹس کو خط لکھ کراس طرح راتوں رات ان کے تبادلہ پر اعتراض کیا تھا۔


یہاں یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ جسٹس مرلی دھر کے تبادلہ کی فائل حکومت کے پاس ایک عرصہ سے پڑی ہوئی تھی اور حکومت اس لئے ان کے تبادلہ پر فیصلہ نہیں کر رہی تھی کہ دہلی ہائی کورٹ میں تو وہ تیسرے سینئر جج ہیں، لیکن پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ میں جاتے ہی وہ سب سے سینئر جج ہو جائیں گے اور جلد ہی وہاں کے چیف جسٹس بن جائیں گے۔ لیکن جب انہوں نے دہلی پولیس کو بی جے پی کے ان لیڈروں کی زہریلی تقریروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تو حکومت نے راتوں رات ان کی فائل نکال کر تبادلہ کو منظوری دیدی۔ یہاں اس نکتہ کو ذہن میں رکھئے گا کہ ان کے تبادلہ پر پورے ملک میں بے چینی کا اظہار کیا گیا تھا۔


چیف جسٹس این وی رمنا کے مختلف تازہ مشاہدات بھی تاریخی ہیں۔ اس سے پہلے شاید ہی کسی چیف جسٹس نے عوامی مواقع پر اتنے واضح مشاہدات پیش کئے ہوں۔امریکہ کے سان فرانسسکو میں ایک تقریب کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ حکومت وقت یہ سمجھتی ہے کہ اس کا ہر فیصلہ پیشگی طورپر عدالتی تائید کا مستحق ہے جبکہ دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں چاہتی ہیں کہ ان کی لڑائی عدالت لڑے۔ایک دوسرے موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ کچھ ہی لوگ عدالتوں (تک پہنچنے) کے متحمل ہوسکتے ہیں، اکثریت تو خاموش رہ کر درد سہنے پر مجبور ہے۔اسی طرح انہوں نے کہا کہ اختلاف کے اظہار کی گنجائش ختم ہورہی ہے اور بلا سوچے سمجھے قوانین پاس کئے جارہے ہیں۔انہوں نے میڈیا کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ میڈیا کنگارو عدالتیں چلارہا ہے۔ان کے یہ تمام تبصرے موجودہ حکومت کے طرز عمل پر ایک سخت نشانہ کے طور پر لئے جاسکتے ہیں۔جسٹس ایس کے کول نے ملزموں کو ضمانت کے معاملات میں حکومتوں کے رویہ پر عدالتوں کو تلقین کی کہ وہ ضمانت کے معاملہ میں انسانی رویہ اختیار کریں۔انہوں نے کہا کہ قانونی عمل ہی سزا نہیں بن جانا چاہئے۔


جسٹس چندر چوڑ نے آلٹ نیوز کے معاون بانی محمد زبیر کو ضمانت دیتے ہوئے لکھا کہ قانونی عمل کا استعمال محمد زبیر کو ہراساں کرنے کیلئے کیا گیا اور یہ اس سے ظاہر ہے کہ اس کے خلاف ایک کے بعد ایک معاملہ دائر کیا گیا۔جب یوپی حکومت کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ وہ ضمانت کی شرط کے طور پر کم سے کم اس پر ٹویٹ کرنے پر تو پابندی عاید کردے تو جسٹس چندر چوڑ نے سختی کے ساتھ کہا کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی وکیل سے کہا جائے کہ اسے بحث نہیں کرنی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ کسی صحافی کو لکھنے سے نہیں روکا جاسکتا۔اس کے علاوہ مختلف عوامی پروگرامو ں میں وہ بالواسطہ طور پر حکومتوں اور پولیس کے طرز عمل پر سخت نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔محمد اعظم خان کو بھی ضمانت دیتے ہوئے چیف جسٹس نے اسی طرح کے تبصرے کئے تھے۔


نپور شرما کے سلسلہ میں تو سپریم کورٹ کا تاریخی تبصرہ عدالت کا ایک ایسا ریکارڈ بن گیا ہے کہ جس کو عرصہ تک نقل کیا جاتا رہے گا۔اس تبصرہ کے بعد ایک طرف جہاں جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جے بی پاردی والا کے خلاف شرپسندوں نے 'ٹرولنگ' کی جھڑی لگادی وہیں چیف جسٹس کو 117سابق ججوں اور فوجی افسروں نے ایک سخت مکتوب لکھ کر ان ججوں کے خلاف احتجاج کیا تھا۔گوکہ جسٹس پاردی والا نے اس شرانگیزی کا جواب دیا تھا اور بہت سے سابق جج اور دانشور بھی جسٹس سوریہ کانت کی حمایت میں میدان میں آگئے تھے۔


اس سلسلہ میں مجھے مسلم قائدین، علماء کی تنظیموں اور مسلم دانشوروں سے ایک بات عرض کرنی ہے۔ملک کے سیاسی منظر نامہ میں ابھی کسی بڑی تبدیلی کے امکانات نہیں ہیں۔مظلوموں اور دبے کچلے طبقات کی واحد دنیاوی امید عدلیہ ہے۔شرپسندوں کے حوصلے اتنے بلند ہوگئے ہیں کہ اب انہیں کھلے طور پر انصاف پسند اور جراتمند ججوں کے خلاف محاذ کھولنے میں بھی کوئی شرم نہیں آتی۔کیا مسلم جماعتیں، ان کے قائدین اور مسلم دانشور بھی اسی طرح کھل کر ایسے ججوں کی حمایت وتائید میں چیف جسٹس کو ایک مکتوب نہیں لکھ سکتے جس طرح شرپسندوں کی جماعتیں ان کے خلاف لکھتی ہیں؟


نپور شرما کا قضیہ تو براہ راست مسلمانوں کے جذبات سے وابستہ تھا۔ کیا ایسا کوئی خط مسلمانوں کی تنظیموں نے جسٹس سوریہ کانت کے تبصروں کی حمایت میں چیف جسٹس کو لکھا؟ مسلمانوں کی بعض جماعتیں عتاب زدہ مسلمانوں اور ان کے اہل خانہ کا خیال رکھ رہی ہیں۔وہ ان کی قانونی مدد بڑھ چڑھ کر کر رہی ہیں۔اگر ان تنظیموں کے وکلاء کی ٹیم انصاف پسند اور جری ججوں کی حمایت میں اسی طرح کھل کر میدان میں آجائے جس طرح شرپسند کھل کر ان کے خلاف میدان میں آجاتے ہیں تو ان ججوں کو اخلاقی قوت حاصل ہوگی۔
امید ہے کہ مسلم جماعتیں اور ان کے قائدین اس نکتہ پر غور کریں گے۔


***
(بشکریہ: کالم ردعمل / روزنامہ انقلاب / 7 اگست 2022ء)
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد

Personal Attacks On SC Judges and their remarks - Column: M. Wadood Sajid.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں