جنگ آزادی کے گمنام علماء کی قربانیاں ناقابلِ فراموش - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-08-14

جنگ آزادی کے گمنام علماء کی قربانیاں ناقابلِ فراموش

freedom-struggle-lesser-known-muslim-ulema-sacrifices

مختلف تہذیبوں کا گہوارہ ہمارا یہ ہندوستان جنت نما ہے ، جہاں ہم صدیوں سے زندگی بسر کر رہے ہیں ، جسے ہمارے اکابر ہند نے اس عروج پر پہنچا یا کہ دنیائے انسانی نے اسے سونے کی چڑیا نام زد کر دیا اس کا واحد ثبوت ملک کے آزادی ہے۔
مدارس اسلامیہ ہند نے جہالت و ناخواندگی کے قلع قمع، علوم و فنون کی تعلیم و اشاعت اور ملت اسلامیہ کی دینی وملی قیات و رہنمائی کا فریضہ ہی انجام نہیں دیا ہے؛ بلکہ ملک و ملت کے وسیع تر مفاد میں بھی ان مدرسوں کی خدمات بڑی روشن ہیں، بالخصوص برطانوی سامراج کے ظلم و استبداد اور غلامی و محکومی سے نجات دلانے اور ابنائے وطن کو عروسِ حریت سے ہم کنار کرانے میں، مدارس اسلامیہ اور ان کے قائدین کی قربانیاں آب زر سے لکھی جانے کے قابل ہیں، وہ مدارس اسلامیہ کے جان باز علماء کرام ہی تو تھے جنھوں نے ملک میں آزادی کا صور اس وقت پھونکا جب عام طور پر دیگر لوگ خواب غفلت میں مست، آزادی کی ضرورت و اہمیت سے نابلد اور احساسِ غلامی سے بھی عاری تھے۔


اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی
نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا


مگر یہ بھی بڑا قومی المیہ ہے کہ 15/ اگست کے تاریخ ساز اور یادگار قومی دن کے مبارک و مسعود موقع پر جب مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو یاد کیا جاتا ہے، ان کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے، تو ان علماء کرام اور مجاہدین حریت کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے جنھوں نے ملک کی آزادی کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، مالٹا اور کالا پانی میں ہر طرح کی اذیتیں جھیلیں اور جان نثاری و سرفروشی کی ایسی مثال قائم کیں جن کی نظیر نہیں ملتی اور ملک کا چپہ چپہ ان کی قربانیوں کا چشم دید گواہ ہے۔
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے


ملک کا ایک طبقہ اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ دینی و اسلامی مدارس، قومی دھارے سے بالکل الگ تھلگ، ملکی و قومی مفادات سے بے پروا ہوکرصرف دینی تعلیم کی اشاعت میں لگے رہتے ہیں، مدراس کے فضلا گرد و پیش کے حالات سے بے خبر اور ملکی و قومی خدمت کے شعور واحساس سے بھی عاری ہوتے ہیں۔ لیکن مدارس اسلامیہ کا شاندار ماضی، اس مفروضہ کو قطعاً غلط اور بے بنیاد قرار دیتا ہے، اور تاریخ ہند کی پیشانی پر ثبت، مدارس اسلامیہ کی ملکی و قومی خدمات اور کارناموں کے نقوش پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ مدارس اسلامیہ کے علماء کرام و فضلاء عظام نے ہمیشہ ملکی مفادات کی پاسبانی اور اپنے خون پسینہ سے چمنستان ہند کی آب یاری کی ہے اور ملک کی آزادی کی تاریخ ان قربانیوں سے لالہ زار ہے، چنانچہ ان ہزاروں علماء کرام اور مجاہدین آزادی کی ایک لمبی فہرست ہے جنھوں نے آزادی کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں پیش کیں اور قائدانہ رول ادا کیا ، جنہیں تاریخ نے فراموش کر دیا ہے ، تاریخ کے صفحات میں ترمیم کر کے ان کے نام کو نکال دیا‌گیا ، ان مجاہدین آزادی کے نام یہ ہیں حضرت مولانا شاہ ولی اللہ دہلوی، مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی، مولانا شاہ رفیع الدین دہلوی، مولانا شاہ عبدالقادر دہلوی، مولانا سید احمد شہید رائے بریلوی، مولانا سید اسماعیل شہید دہلوی، مولانا شاہ اسحاق دہلوی، مولانا عبدالحئی بڈھانوی، مولانا ولایت علی عظیم آبادی، مولانا جعفر تھانیسری، مولانا عبداللہ صادق پوری، مولانا نذیر حسین دہلوی، مفتی صدرالدین آزردہ، مفتی عنایت احمد کاکوری،مولانا فرید الدین شہید دہلوی، سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، امام حریت مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، قاضی عنایت احمد تھانوی، قاضی عبدالرحیم تھانوی، حافظ ضامن شہید، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا فیض احمد بدایونی، مولانا احمد اللہ مدراسی، مولانا فضل حق خیرآبادی، مولانا رضی اللہ بدایونی، امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد، امام انقلاب شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوری،مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی، مولانا شوکت علی رام پوری، مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا ڈاکٹر برکت اللہ بھوپالی، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا کفایت اللہ دہلوی، مولانا سیف الرحمن کابلی، مولانا وحید احمد فیض آبادی، مولانا محمد میاں انصاری، مولانا عزیر گل پشاوری، مولانا حکیم نصرت حسین فتح پوری، مولانا عبدالباری فرنگی محلی، مولانا ابوالمحاسن سجاد پٹنوی، مولانا احمد سعید دہلوی، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا محمد میاں دہلوی، مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا عبدالحلیم صدیقی، مولانا نورالدین بہاری وغیرہ آسمان حریت کے وہ تابندہ ستارے ہیں جنھوں نے محکومی کی شب دیجور کو تار تار کیا اور ملک کے چپے چپے کو انوار حریت کی ضوفشانی سے معمور کردیا۔
یہ ہند میں سرمایۂ ملت کے نگہباں
اللہ نے بروقت کیا ان کو خبردار


مذکورہ مجاہدین وعلماء کرام سب مدارس اسلامیہ ہی کے فضلا و فیض یافتہ تھے ایک دو حضرات ایسے ہیں جو باضابطہ کسی مدرسے کے فارغ نہ تھے لیکن علماء کرام کے باضابطہ صحبت یافتہ ضرور تھے، افسوس ان کی قربانیوں کو دنیا فراموش کر بیٹھی ہے ، ان میں وہ علماء کرام بھی ہیں جنھوں نے جدوجہد آزادی کا آغاز کیا اور حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب اور پھر سید احمد شہید کی زیر قیادت کام کرتے رہے اور ان کے بعد بھی جدوجہد جاری رکھی، وہ علماء کرام ہی ہیں جنھوں نے 1857/ کی جنگ آزادی میں بنفس نفیس شرکت فرمائی پھر وہ علماء کرام ہیں جو زعیم حریت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی اور امام الہند مولانا ابوالکلام کی زیر قیادت جنگ آزادی میں شریک رہے۔ ان حضرات کی قربانیوں کی ایک جھلک پیش کرنے کے لئے ہمیں سلسلہ وار واقعات پر ایک نظر ڈالنی ہوگی۔
ملک میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے پھیلتے ہوئے جال اور بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو سب سے پہلے اگر کسی نے محسوس کیا تو وہ حضرت مولانا شاہ ولی اللہ دہلوی کی عبقری شخصیت تھی آپ نے پوری دوراندیشی کے ساتھ اصلاح کے اصول بیان کئے طریقہٴ کار کی نشاندہی فرمائی اور باشندگان وطن کے بنیادی حقوق پامال کرنے والے نظام حکومت کو درہم برہم کردینے کی تلقین کی اور اس کے لیے طاقت کے استعمال پر بھی زور دیا، ان کے متعین کردہ نقشہ راہ کے مطابق ان کے فرزنداکبر حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے برطانوی استعمار کے خلاف جدوجہد کا منظم آغاز کیا، انگریزوں کے خلاف تاریخ ساز فتویٰ صادر فرمایا اور ملک کے دارالحرب ہونے کا اعلان کیا جو انگریز کے خلاف اعلان جہاد کے مترادف تھا یہ فتویٰ جنگل کی آگ کی طرح ملک کے کونے کونے میں پہنچ گیا، 1818/ میں عوام کی ذہن سازی کے لئے مولانا سید احمد شہید، مولانا اسماعیل دہلوی، اور مولانا عبدالحئی بڈھانوی کی مشاورت میں ایک جماعت تشکیل دی گئی جس نے ملک کے اطراف میں پہنچ کر دینی اور سیاسی بیداری پیدا کی، پھر انگریزوں سے جہاد کے لئے 1820/ میں مولانا سید احمد شہید رائے بریلوی کی قیادت میں مجاہدین کو روانہ کیاگیا، انھوں نے جنگی خصوصیات کی بنا پر جہاد کا مرکز صوبہ سرحد کو بنایا، مقصد انگریزوں سے جہاد تھا لیکن پنجاب کے راجہ انگریزوں کے وفادار تھے، اس جہاد کے مخالف تھے اور اس کو ناکام کرنے کی تدبیریں کررہے تھے اس لئے پہلے حضرت سید احمد شہید نے ان کو پیغام بھیجا کہ ”تم ہمارا ساتھ دو، دشمنوں (انگریزوں) کے خلاف جنگ کرکے ہم ملک تمہارے حوالے کردیں گے، ہم ملک ومال کے طالب نہیں“ لیکن راجہ نے انگریز کی وفاداری ترک نہ کی تو اس سے بھی جہاد کیاگیا 1831/ میں بالاکوٹ کے میدان میں حضرت مولانا رائے بریلوی نے جام شہادت نوش کیا، مگر ان کے متوسلین نے ہمت نہیں ہاری بلکہ ملک کے مختلف اطراف میں انگریز کے خلاف گوریلا جنگ جاری رکھی۔ 1857/ کی جنگ کے لیے سید صاحب کے متوسلین ومجاہدین نے فضا ہموار کرنے اور افراد تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔


1857/ کی جنگ آزادی میں علماء کرام نے باقاعدہ جنگ میں حصہ لیا، یہ علماء کرام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور حضرت سید احمد شہید رحمہم اللہ کی سلسلة الذہب (طلائی زنجیر) کی سنہری کڑی تھے۔ اس جنگ کے لیے علماء کرام نے عوام کو جہاد کی ترغیب دلانے کے لئے ملک کے طول و عرض میں وعظ و تقریر کا بازار گرم کردیا اور جہاد پر ابھارنے کا فریضہ انجام دیا نیز ایک متفقہ فتویٰ جاری کرکے انگریزوں سے جہاد کو فرض عین قرار دیا۔ اس فتویٰ نے جلتے پر تیل کا کام کیا اور پورے ملک میں آزادی کی آگ بھڑک اٹھی، اکابر علماء دیوبند نے شاملی کے میدان میں جہاد میں خود شرکت کی۔ حضرت مولانا قاسم نانوتوی، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اور حافظ ضامن شہید نے حضرت سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے ہاتھ پر بیعت جہاد کی، پھر تیاری شروع کردی گئی، حضرت حاجی صاحب کو امام مقرر کیاگیا مولانا منیر نانوتوی کو فوج کے دائیں بازو کا اور حافظ ضامن تھانوی کو بائیں بازو کا افسر مقرر کیاگیا مجاہدین نے پہلا حملہ شیرعلی کی سڑک پر انگریزی فوج پر کیا اور مال و اسباب لوٹ لیا، دوسرا حملہ 14/ ستمبر 1857/ کو شاملی پر کیا، اور فتح حاصل کی، جب خبر آئی کہ توب خانہ سہارنپور سے شاملی کو بھیجا گیا ہے تو حضرت حاجی صاحب نے مولانا گنگوہی کو چالیس پچاس مجاہدین کے ساتھ مقرر کیا، سڑک باغ کے کنارے سے گزرتی تھی، مجاہدین اس باغ میں چھپے تھے جب پلٹن وہاں سے گذری تو مجاہدین نے ایک ساتھ فائر کردیا پلٹن گھبراگئی اور توپ خانہ چھوڑ کر بھاگ گئی اسی معرکہ میں حافظ ضامن صاحب تھانوی شہید ہوئے سید حسن عسکری صاحب کو سہارنپور لاکر انگریزوں نے گولی ماردی مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی مظفرنگر جیل میں ڈال دئیے گئے اور مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی آئندہ کی حکمت عملی طے کرنے کے لئے انڈرگراؤنڈ چلے گئے۔


1857/ کی جنگ آزادی مختلف وجوہ و اسباب کی بنا پر ناکام رہی اور آزادی کے متوالوں پر ہول ناک مظالم کے پہاڑ توڑڈالے گئے۔ ان میں مسلمان اور بطور خاص علماء، انگریزوں کی مشق ستم کا نشانہ بنے، اس لئے کہ انھوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی اور علماء کرام نے ان کے خلاف فتویٰ دے کر جہاد کا اعلان عام کردیا تھا، چنانچہ 1857/ سے چودہ برس پہلے ہی گورنر جنرل ہند نے یہ کہہ دیا تھا کہ مسلمان بنیادی طور پر ہمارے مخالف ہیں اس جنگ میں دو لاکھ مسلمانوں کو شہید کیاگیا جن میں ساڑھے اکیاون ہزار علماء کرام تھے، انگریز علماء کے اتنے دشمن تھے کہ ڈاڑھی اور لمبے کرتے والوں کو دیکھتے ہی پھانسیاں دے دیتے تھے، ایڈورڈ ٹامسن نے شہادت دی ہے کہ صرف دہلی میں پانچ سو علماء کو پھانسی دی گئی (ریشمی رومال ص:45) پوری دہلی کو مقتل میں تبدیل کردیاگیا تھا مرزا غالب کی زبان میں۔
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر نمونہ بنا ہے زنداں کا
شہر دلی کا ذرہ ذرہ خاک
تشنۂ خوں ہے ہر مسلمان کا


تحریک ریشمی رومال :
حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی نے اپنے رفقاء کار کے ساتھ مل کر جو آزادی کی تحریک برپا کی تھی، اس پر روشنی ڈالنا مناسب ہوگا یہ تحریک ریشمی رومال کے نام سے مشہور ہوئی 1857/ کی جنگ کی ناکامی کے بعد ملک کی آزادی کے لئے یہ ہمہ گیر تحریک شروع کی گئی تھی، پہلے حضرت شیخ الہند نے فضلاء دیوبند کی ایک تنظیم ثمرة التربیہ قائم کی پھر جمعیة الانصار قائم کی اور اس کے تحت فضلاء کو مربوط کیا اور ان کو منظم اور ٹرینڈ کیا گیا، فضلاء میں کابل اور سرحد کے فضلاء بھی تھے، حضرت سید احمد شہید کی تحریک کے اثرات وہاں باقی تھے حضرت شیخ الہند نے اسی علاقہ کو اپنی تحریک کا مرکز بنایا، پروگرام یہ تھا کہ اس علاقے کو جوش جہاد سے معمور کردیا جائے اور حکومت افغانستان کو آمادہ کیا جائے کہ وہ مجاہدین آزادی ہند کا تعاون کرے اور ٹرکی حکومت سے رابطہ کرکے اسے تیار کیا جائے کہ وہ ہندوستان میں برطانوی حکومت پر حملہ کردے۔ اور اندرون ملک بغاوت و انقلاب کی آگ بھڑکادی جائے اور اندرونی اور بیرونی یورش سے مجبور ہوکر برطانیہ ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہوجائے۔ اس کے لئے حضرت شیخ الہند نے اندرون ملک دہلی، لاہور، پانی پت، دین پور، امروت، کراچی، اتمان زئی، ڈھاکہ وغیرہ کو مرکز بنایا، مشن کی کامیابی کے لئے برما، چین، فرانس اور امریکہ وفود روانہ کئے اور ان کی حمایت حاصل کی۔ مولانا عبید اللہ سندھی کو آپ نے کابل میں رہ کر خدمات انجام دینے کا حکم دیا اور خود حجاز مقدس تشریف لے گئے تاکہ وہاں خلافت عثمانیہ کے ذمہ داروں سے مل کر ذہن سازی کی جائے اور ترکی کو برطانوی حکومت کے خلاف حملہ کیلئے راغب کیا جائے چنانچہ حضرت نے گورنر غالب پاشا سے ملاقات کی اس نے مکمل تعاون کیا اور وزیر جنگ ترکی، انور پاشا سے بھی مدینہ منورہ میں حضرت شیخ الہند کی ملاقات ہوئی اور وزیر جنگ ترکی نے اپنے ہرتعاون کا یقین دلایا۔ اس تحریک میں مولانا سندھی نے ایک ریشمی رومال پر ایک خفیہ خط بنوایا تھا اس لئے اس کا نام ریشمی رومال تحریک پڑگیا۔ اس تحریک کے ارکان و معاونین میں حضرت شیخ الہند کے علاوہ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، موانا عبید اللہ سندھی، حاجی ترنگ زئی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبدالرحیم رائے پوری، مولانا خلیل احمد سہارنپوری، مولانا صادق کراچوی، خان عبدالغفار خاں سرحدی، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا حسرت موہانی، موانا محمد علی جوہر، مولانا عزیر گل، مولانا برکت اللہ بھوپالی، اور غیرمسلم ارکان تحریک میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ، ڈاکٹر متھرا سنگھ، اے پی پی اچاریہ وغیرہ شامل تھے ۔ تحریک کا راز فاش ہوجانے اور حضرت شیخ الہند کے گرفتار ہوجانے کے باعث تحریک کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہوتے رہ گئی لیکن تحریک سے ہندومسلم اتحاد کے ساتھ آزادی کی لڑائی لڑنے کی مضبوط بنیاد قائم ہوگئی۔ حضرت شیخ الہند کا دوسرا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے گاندھی جی کا خلافت کمیٹی اور جمعیة علماء ہند کے پلیٹ فارم اور فنڈ سے پورے ملک کا دورہ کرایا اور ایک ساتھ مل کر جنگ آزادی میں حصہ لینے کا فیصلہ کیاگیا۔ اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شیخ الہند ؒ کا ملک سے محبت کا یہ عالم تھا کہ انگریزی اگر آپ سے مصافحہ کرلیتا تو آپ اس وقت تک کسی چیز کو نہیں چھوتے تھے جب تک ہاتھ کو دھل کر صاف نہ کرلیں ، انہی شیخ الہند ؒ کے انتقال کے بعد جب انہیں تخت پر لٹایا گیا تو دیکھ نے والے حیرت زدہ تھے کہ شیخ الہند ؒ کی کمر پر گوشت نام کی کوئی چیز نہیں صرف ہڈیاں ہیں چنانچہ مولانا مدنی ؒ سے معلوم کیا گیا کہ یہ کیا واقعہ ہے تو مولانا مدنی آنکھوں میں آنسوں لئے فرمایا کہ مجھے شیخ الہند ؒ نے منع کیا تھا کہ اس کا کسی سے ذکر نہ کرنا پھر بھی بتا رہا ہوں کہ مالٹا کے جیل خانہ میں آزادی کے نعرہ کے جرم میں انگریز شیخ الہندؒ کی کمر کو گرم گرم سلاخوں سے داغتا تھا یہاں تک کے گوشت نام کی کوئی چیز باقی نہ رہی ۔ اتنی مشقتیں برداشت کر کے یہ سبق دے گئے کہ ہر طرح کی مصائب و آلام میں اپنی مٹی سے محبت اور وفاداری کا ثبوت دیتے رہنا جسے شاعر نے اس انداز میں کہا ہے ۔
وفاداری وطن سے ہو یہی اسلام کہتا ہے
ہم اپنے دل کہ ہر گوشے میں ہندوستان رکھتے ہیں


جمعیت علمائے ہند :
جمعیت علمائے ہند کا قیام ١٩١٩ میں عمل میں آیا، مسلمانوں کی فلاح اور ہندوستان کی آزادی ہی اس تحریک کا مقصد تھا،شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی،مولانا حسین احمد مدنی،عطاءاللہ شاہ بُخاری،مولانا ثناء اللہ امرتسری،مفتی کفایت اللہ دہلوی،مولانا محمد علی جوہر، شوکت علی گوہر،مولانا ابو المحاسن سجاد بہاری،مولانا احمد علی لاہوری،مولانا ابو الکلام آزاد،حفظ الرحمن سیہاروی،مولانا احمد سعید دہلوی اور مولانا سید محمد میاں دیوبندی جیسے حضرات اس تحریک سے وابستہ تھے_ اسی جمعیت نے انگریزی حکومت کو قبول نہ کرتے ہوئے ایک ایسا حکومتی ڈھانچہ تیار کیا تھا جس میں سراسر انگریزوں کی نافرمانی تھی،اور اس پہلی آزاد حکومت کا سربراہ راجہ مہندر پرتاپ کو بنایا گیا،ایسی ہے جمعیت کی تاریخ جسے مؤرخوں نے یکسر نظر انداز کر دیا_


خلافت تحریک :
١٩١٩ میں مولانا محمد علی جوہر نے اس تحریک کی بنیاد ڈالی،اس تحریک کا مقصد ہندوستانی مسلمان اور برادرانِ وطن کو ایک پلیٹ فارم پر لانا تھا،مولانا محمد علی جوہر،گاندھی جی اور دیگر علماء نے پورے ملک کا دورہ کیا اور اتحاد و اتفاق کا پیغام دیا،اس تحریک نے ہندو مسلم کے بیچ کھائی کو پاٹنے میں اہم رول ادا کیا،اسی تحریک کے ذریعے عوام اور علماء ایک دوسرے کے قریب ہوئے،مولانا محمود حسن دیوبندی،عبد الباری فرنگی محلی،ثنا اللہ امرتسری،مفتی کفایت اللہ دہلوی،سید محمد فاخر،مولانا سید سلیمان ندوی اور مولانا احمد سعید جیسے بزرگ اس تحریک کے علمبردار تھے_


تحریکِ عدم موالات :
١٩٢٠ عدم موالات کی تحریک شروع ہوئی،گاندھی جی اس کے رہنما تھے،انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ انگریزی حکومت سے کسی بھی قسم کا تعاون نہ کریں،ان سے لین دین بند کر دیں اور تمام طرح کی عدم رواداری کو روا رکھیں،مسلمانوں نے گاندھی جی کے اس قدم کو سراہا بلکہ ان کے شانا بشانہ ساتھ چلے، ایسے ہی انگریزوں کے خلاف ہر تخریبی کارروائی میں مسلمان ساتھ رہے،١٩٢٥ میں کاکوری میں جو حادثہ ہوا اُن میں دس لوگوں میں ایک اہم نام اشفاق اللہ خان کا بھی تھا جنہیں انگریزی حکومت نے موت کی سزا دے دی تھی، ١٩٣٠ میں ہوئے سول نافرمانی اور نمک آندولن، ١٩٣٦ میں ہندوستان چھوڑو تحریک میں غرض یہ کہ تمام تحریکات میں ہمارے بزرگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہندوستان کو آزاد کرانے میں اہم رول ادا کیا،ان تحریکوں کو جِلا بخشنے میں ہمارے اکابرین کسی سے پیچھے نہیں تھے،ان کے ذکر کے بغیر آزادی کی تاریخ ادھوری ہے، ہمارے دیگر اہم مجاہدین میں بیگم حضرت محل،نواب مظفر الدولہ،خان عبد الغفار خان، بدر الدین طیّب جی،بی امّاں،آصف علی،ارونا آصف علی،مولانا حسرت موہانی،حبیب الحمٰن لدھیانوی، ڈاکٹر سیف الدین کچلو،مولانا مظہر الحق،منظور احمد اعجازی،منظور احسن اعجازی،پیر شہید علی،وارث علی،عبد القیوم انصاری،ڈاکٹر مختار احمد انصاری،ڈاکٹر ذاکر حسین،حکیم اجمل خان،بخت میاں انصاری،شہنواز خان،رفیع احمد قدوائی،عنایت اللہ خان مشرقی،مولانا آزاد سبحانی،مولوی محمد باقر،شیخ بھکاری،محبوب احمد،شفیع داؤد،علی امام،حسن امام،محمد بخش سمرو،شاہ زبیر،عبد الماجد دریا آبادی،بیبی عزیز الفاطمہ،مولانا محفوظ الرحمٰن نعیمی،رضیہ سلطان،حامد علی فاروقی،سید فرحان مولانا محفوظ الحسن رحمانی اور ڈاکٹر سید محمود جیسے لوگ شامل ہیں ـ
آپ اپنی تاریخ کو خود یاد رکھیے،سینہ بہ سينہ، صفحات در صفحات منتقل کیجیے، ان بےشمار گُمنام بزرگوں کی روح کو تسکین ملےگی، ورنہ یاد رکھیے آپ کی تاریخ بھی اچھوت بن جائیگی،پارلیمنٹ میں مولانا آزاد کی برسی پر صرف چند ممبران پارلیمنٹ نے اُنہیں یاد کیا،یہ آنے والے وقت کا عندیہ ہے،باقی بزرگوں کا جو حشر تاریخ نویسوں نے کیا ہے وہ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے، آپ خود اپنے تاریخی ورثے کو محفوظ کیجیے، آپ اپنے ماضی کی وجہ سے زندہ ہیں اور اگر بے حسی کا یہی عالم رہا تو اپنے حال کی وجہ سے ابدی موت مارے جائینگے،مستقبل کا ذکر ہی کیا کرنا؟؟
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا


مضمون کو طول نہ دیتے ہوئے حق بات کہتے ہیں کہ علماء کرام ہی نے جہاد آزادی کے چمن کو اپنے خون جگر سے سینچا اور پروان چڑھایا ہے۔جن کی ‌قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ۔
یہ ہیں وہ سورما، وہ مجاہدیں یہ،
فیض سے جن کے یہ ملک آزاد ہے


ان کو ہم بھول جائیں یہ زیبا نہیں
یہ وطن انکے احساس سے آباد ہے


***
محمد عامل ذاکر مفتاحی (لکھنؤ، اترپردیش)
ای-میل: amilshaikh8888[@]gmail.com

The sacrifices of lesser known Muslim Ulema during freedom struggle are unforgettable. Essay by: Md. Amil Zakir

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں