حالی اور نیا تنقیدی شعور : ایک جائزہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-08-25

حالی اور نیا تنقیدی شعور : ایک جائزہ

analysis-maulana-hali-and-new-critical-consciousness

الطاف حسین حالی کی ہمہ گیر ادبی شخصیت میں ان کی تنقید نگاری ہر وقت اور ہر زمانے میں کسی نہ کسی زاویے سے بحث کا موضوع رہی ہے۔ اس پر آئے دنوں سیمینار ہوتے رہتے ہیں اور مقالات پڑھے جاتے ہیں۔ کوئی تنقید نگار حالی کی فکر کو یکسر نظر انداز کر دیتا ہے؛ کوئی انہیں کلاسیکی روایات کا باغی بتاتا ہے تو کوئی خیالات ماخوذ، واقفیت محدود اور ان کی نظر سطحی بتاتا ہے۔
اختر انصاری کی تصنیف کردہ کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں حالی کے تنقیدی خیالات سے بحث کی گئی ہے۔ اختر انصاری ترقی پسند فکر و شعور کے اہم شاعر اور نقاد تھے۔ غزل کی سرگزشت، افادی ادب، مطالعہ و تنقید، غزل اور غزل کی تعلیم اور حالی اور نیا تنقیدی شعور" وغیرہ ان کی مشہور تنقیدی کتابیں ہیں۔
"حالی اور نیا تنقیدی شعور" ان کے مضامین کا مجموعہ" مطالعہ و تنقید" میں شامل تھا لیکن ابھی یہ مضامین کا مجموعہ زیر طبع ہی تھا کہ" حالی اور نیا تنقیدی شعور" کو الگ کرکے کتابی شکل میں شایع کیا گیا۔
اس کتاب کی پہلی اشاعت 1962ء میں اردو اکیڈمی سندھ، کراچی اور دوسری اشاعت 1975ء میں ادارۂ شعر و ادب کے زیر اہتمام عمل میں آئی۔
اس کتاب کو لکھنے کا محرک بقول مصنف وہ اشارات تھے :
"جو کئی سال پہلے میں نے شعبۂ اردو میں ایم اے کے طلبہ کو مطالعے کے سلسلے میں لکھوائے تھے"۔


گزشتہ ایک صدی سے حالی کی شاعری، سوانح نگاری، تنقید نگاری اور ادبی کارناموں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور فی زمانہ بھی حالی کا تنقیدی سوجھ بوجھ متنازع انداز میں ہر فکر و نظر اور اہلیانِ نقد و جرح کی محفل میں مترشح ہوتا رہتا ہے؛ اس کی کیا وجہ ہے۔۔۔۔؟ حالی کا وہی تنقیدی اور ترقی پسندانہ شعور ہے جس نے اس زمانے میں شعر و شاعری کی مروجہ روایات پر زبردست چوٹ کی تھی جس کی باز گشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔
پانچ، چھ دہائیوں پہلے بھی الطاف حسین حالی پر اتنا کچھ لکھا جا چکا تھا تو مصنف کو یہ کتاب لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تو بقول مصنف :
"حالی کے تنقیدی شعور کا تجزیہ جس خاص زاویے سے میں نے کیا ہے اس سے پہلے نہیں کیا گیا۔ میں نے اگلے ہوئے نوالے نہیں چبائے۔ اپنے آزادانہ مطالعہ کی روشنی میں آزادانہ طور پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے"۔


مصنف اپنے دعوے میں غلط نظر نہیں آتے کیوں کہ اس مختصر کتاب (91 صفحات) میں انہوں نے آزادانہ طور پر اپنی بات رکھی ہے اور اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ دوسرے تنقید نگاروں مثلاً کلیم الدین احمد کی رائے کی تردید کی ہے کہ حالی کے خیالات ماخوذ ہیں اور سوچ محدود ہے۔ یہ تمام باتیں مصنف کی ژرف نگاہی اور تنقیدی عرفان پر دال ہیں۔
اس کتاب میں اس بات پر بحث کی گئی ہے کہ حالی سے پہلے تنقیدی شعور کیسا تھا، مشاعروں اور تذکروں میں تنقیدی نوعیت کیسی تھی۔ اس کے بعد حالی کے تنقیدی شعور، تخلیقی صلاحیت، ناقدانہ اہمیت، زبان و بیان، حالی کی نثر، اجتماعی شعور اور نظریۂ شاعری وغیرہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ پھر آخر میں حالی کی مشہور کتابیں "مسدس مد و جزر اسلام" اور "مقدمہ شعر و شاعری" سے اقتباسات اور اشعار نقل کرکے ان کتابوں کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔


تنقیدی شعور کے تحت حالی کی ناقدانہ نظر، سوجھ بوجھ اور فنی بصیرت کو مثالوں سے اجاگر کیا گیا ہے اور پھر حالی کے خلاقانہ ذہن پر بحث کی گئی ہے۔ مقدمہ شعر و شاعری میں حالی نے جو زبان اور انداز بیان اختیار کیا ہے اس کا موازنہ ہم عصروں سے کیا گیا ہے اور مصنف نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ "مقدمہ حالی کی نثر کا بہترین نمونہ ہے اور اردو میں اس سے بہتر تنقیدی نثر موجود نہیں"۔
"حالی اور نیا تنقیدی شعور" کی ایک اہم بحث "حالی کی ناقدانہ اہمیت کا راز" ہے۔ اس کے تحت حالی کے سماجی اور اجتماعی احساس پر جا بجا "مسدس" سے مثالیں نقل کرکے حالی کے ترقی پسندانہ شعور، نئی تعلیم، صنعت و حرفت، نئی معاشرت، پرانی اور نئی تہذیبی قدریں، مسلمانوں کی پستی و بلندی اور حالی کے انقلابی ذہن وغیرہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔


" حالی اور نیا تنقیدی شعور" کے مطالب و مباحث سے ہٹ کر جب زبان و بیان پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ مصنف نے خیالات کے اظہار کے لیے مثبت انداز بیان اختیار کیا ہے۔ غیر ضروری تکلفات اور عبارت آرائی سے کام نہیں لیا جس کی وجہ سے ان کا اسلوب سادہ اور دلکش ہوگیا ہے جو کہ اس کتاب کی اہم خوبی ہے۔
مصنف نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ حالی سے کہیں نہ کہیں غلطیاں ہوئی ہیں "مگر وہ کسی فاش غلطی یا لغزش کے مرتکب نہیں ہوئے ہیں"۔
مصنف نے اس بات کا اعتراف تو کیا ہے کہ حالی سے غلطیاں ہوئی ہیں مگر انہوں نے ان غلطیوں کی نشاندہی نہیں کی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مصنف نے "مقدمہ شعر و شاعری" اور "مسدس" سے بہت زیادہ مثالیں اور اقتباسات نقل کیے ہیں جس کی وجہ سے تھوڑی سی الجھن اور پریشانی محسوس ہوتی ہے۔


مگر ان سے قطع نظر کرتے ہوئے مجموعی طور سے کہا جا سکتا ہے کہ "حالی اور نیا تنقیدی شعور" ایک ایسی کتاب ہے جو حالی کے شعور، ذہنی ارتقا اور نظریۂ شاعری کو سمجھنے میں بہت حد تک معاون ہے۔ مصنف نے جو زبان استعمال کی ہے اس وجہ سے مطالعے میں بہت آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ اس لیے اگر کوئی فکر و نظر کے ساتھ اس کتاب کا مطالعہ کرتا ہے تو حالی کے تنقیدی شعور کی سمجھ پیدا کر لے گا۔


***
ذاکر انور (مئو ناتھ بھنجن)۔ متعلم جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی۔
ایمیل: zakiranwar161[@]gmail.com

Maulana Hali and New Critical Consciousness, Analysis. Reviewer: Zakir Anwar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں