ایک شریف کتے کا خط انسان کے نام - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-08-12

ایک شریف کتے کا خط انسان کے نام

aik-shareef-kutte-ka-khat

بہت ہچکچاہٹ کے ساتھ میں یہ خط لکھ رہا ہوں ، ویسے تو یہ بہت پہلے کا لکھا ہوا تھا لیکن اسے پبلک میں لانے سے ڈرتا تھا اور اب بھی سوچتا ہوں کہ آپ مذاق اڑائیں گے ، اس بات کا یقین نہیں کریں گے کہ کتا بھی لکھ سکتا ہے۔ آپ کو یہ سن کر شاید تعجب ہوگا لیکن یہ حقیقت ہے کہ کافی تعداد میں کتّے لکھنا پڑھنا سیکھ چکے ہیں، کسی مناسب موقع پر ان کو بھی پبلک کے سامنے لایا جائے گا لیکن ابھی کچھ عرصے تک یہ تحریک اندڑ گراؤنڈ ہی رہے گی ، شاید میرے اس دلیرانہ اقدام کی پیروی کرتے ہوئے چند دوسرے کتے بھی اپنی تحریریں منظر عام پر لانے کی ہمت کریں، بہر حال آج تو جو کچھ میں کہنے والا ہوں اس پر آپ چاہیں اعتبار کریں یا نہ کریں اور خواہ آپ برا ہی مانیں میں کہہ کر ہی چھوڑوں گا۔


میں اور میری برادری کے تمام کتے جانتے ہیں کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ ارسطو نے کہا تھا کہ انسان سماجی جانور ہے۔ جانوروں اور انسانوں کے درمیان تفریق کی ایک بڑی وجہ انسان کی زبان، یعنی طاقت گفتار ہے۔ آپ بول سکتے ہیں شور مچا سکتے ہیں، ایک دوسرے کو گالی گلوچ دے سکتے ہیں۔ لیکن ہم جانور خاموشی سے انسان کے کرتوتوں کو دیکھتے رہتے ہیں۔ ویسے دیکھا جائے تو بولنے کی طاقت تو جانوروں کو بھی دی گئی ہے لیکن وہ صرف ایک قسم کی آواز ہی پیدا کر سکتے ہیں مثلاً مجھے خواہ کچھ بھی کہنا ہو "بھوں بھوں" کہہ کر ہی اظہار خیال کر سکتا ہوں۔
انسان سمجھتا ہے کہ میں کوئی کام کی بات نہیں کرسکتا، اس لئے میری باتوں کو لغویت اور بکواس سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ لیکن آپ شاید یہ نہیں جانتے کہ اس "بھوں بھوں" کے رد و بدل سے میں اپنا مطلب بیان کر سکتا ہوں۔ بالکل ویسے ہی جیسے تار کی گٹ گٹ سے تار لکھے جاتے ہیں۔ وہ بات جو آپ نے سالہا سال کی کاوش سے حاصل کی ہے ، ہمیں روز ازل سے ہی ملی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ یہ بات بھی آپ نے کتوں سے سیکھی ہے۔ تار کا موجد مورس MORSE کتوں کا بہت شوقین تھا اور اس نے بہت سے کتے پال رکھے تھے۔ کئی سالوں کے لگاتار مشاہدے کے بعد اس نے کتوں کے اظہار خیال کے طریقوں کو اپنا لیا اور دنیا بھر میں ایک موجد کی حیثیت سے شہرت پائی۔ اس نے گویا یہ راز کتوں ہی سے سیکھا تھا لیکن ان کی بے زبانی سے فائدہ اٹھا کر خود موجدبن بیٹھا، یہ ہمارے ساتھ انسان کی کی گئی لا تعداد بے انصافیوں میں سے ایک مثال ہے۔


میرا یہ خط لکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ میں کتوں کی ذات سے متعلق کچھ ایسی باتوں پر روشنی ڈالوں جن کی بنیاد پر بلا وجہ ہماری خودداری پر حملے کئے جاتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم کتے بھی اس ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھائیں۔ آج آپ کو ایک بولتے ہوئے (بلکہ لکھتے ہوئے) کتے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب کتے بھی انسانوں کی طرح جلوس نکال کر ، جلسے منعقد کرکے اپنے مطالبات منوالیں گے۔ شاید بہت جلد ہی ہم آل انڈیا کتا کنونشن بلا سکیں گے اور یہ یقینی امر ہے کہ ہماری کنونشن بہت کامیاب ہوگی۔ کیوں کہ جہاں انسانوں کی زبان ہر ریاست میں جداگانہ ہے وہاں ہم کتوں کی زبان تمام دنیا میں ایک ہے اور یہ بات ہمارے اتحاد کی ضامن ہے۔


شاید اب بھی آپ کو اعتبار نہیں آتا کہ یہ سب کچھ ایک کتا کہہ رہا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ یہ کام مجھے میرے سابق مالک نے سرکس کے لئے سکھایا تھا۔ اس بے چارے کو کیا معلوم تھا کہ اس کا دیا ہوا حربہ کسی دن اسی کی صنف کے خلاف استعمال ہوگا۔ لیکن انقلاب ایسے ہی شروع ہوتے ہیں، خدا کرے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو تاکہ ہم کتوں کی تحریک نجات شروع کرسکیں۔
جناب ہم کتوں کو انسان کے خلاف بے انتہا شکایات ہیں۔ شہری، پالتو اور آوارہ کتے سب اس شکایت میں متفق ہیں ، لیکن میں یہاں صرف چند موٹی موٹی شکایتوں کا ہی ذکر کروں گا۔


اگر کوئی آدمی لالچی ہو، ذلیل ہو، کمینہ ہو اور ہر طرح سے ارزل الخلائق ہو تو اسے کتے کا خطاب مرحمت فرمایا جاتا ہے۔ میری عرض ہے کہ یہ ہماری ذات کے ساتھ کچھ زیادتی ہے۔ واقعات کی بنا پر یہ خطاب بالکل بے جا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کا رتبہ خدا کی تمام مخلوق میں سب سے اونچا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ پس ماندہ جانوروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھے۔


اب آپ دیکھئے کہ ہزاروں سال سے انسان پیار اور محبت کا سبق پڑھ رہا ہے۔ خداوند تعالیٰ نے کئی مسیحا، پیغمبر اور اوتار اس پیام کی تبلیغ کے لئے بھیجے۔ لیکن آج بھی انسان ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہے۔ یسوح مسیح ، مہاتما بدھ۔حضرت محمدﷺ اور مہاتما گاندھی ، ان سب لوگوں نے ایک ہی بات کہی لیکن اس اشرف المخلوقات کے کیا کہنے ، آپ ہم کتوں کی مثال دیتے ہیں کہ کیسے ہم پھینکے ہوئے گوشت کے ٹکڑوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کیسے ہم دودھ وغیرہ کے لئے چوری کرتے ہیں، لیکن آپ نے اپنی طرف کبھی بھی توجہ نہیں دی۔ لڑائیاں اور جنگیں، توپوں اور بموں کے ساتھ معمولی سی باتوں پر آپ ملک کے ملک تباہ کر دیتے ہیں۔ کتا کسی دوسرے کتے کا ماس نہیں کھاتا لیکن انسان تو اپنے بھائی کا خون کر دیتا ہے۔ ہم اپنے شکار کو سوائے مکھیوں اور چوہے وغیرہ کے خود جان سے نہیں ماتے ، لیکن آپ شہروں کے شہروں کا صفایا کر دیتے ہیں۔ آپ کے سر کی قسم اگر کتوں میں ایک بھی پیغمبر آیا ہوتا تو ہماری حالت کچھ کی کچھ ہوتی، ہمیں تو بغیر کسی لیڈر کے اپنا راستہ خود ہی ڈھونڈنا پڑتا ہے۔


عام طور پر آپ ایسے شخص جس کی جنسی بھوک حد سے تجاوز کر گئی ہو ، کو بھی کتا ہی بنا دیتے ہیں ، واقعہ تو یہ ہے کہ۔۔ تمام حیوانوں اور انسانوں میں سب سے زیادہ شہوت پرست گدھا ہوتا ہے۔ لیکن نہ جانے آپ کیوں اسے صرف بے وقوفی کے کنائے کے لئے ہی موزوں سمجھتے ہیں۔ ابھی پرسوں شام میم صاحب کا گدھا اور گدھی ہمارے ہاں آئے ہوئے تھے۔ باتوں باتوں میں یہ بات بھی نکل آئی۔ گدھی نے ہنستے ہوئے ہمیں بتایا کہ: "میم صاحب ، مانتے تو خود بھی اس بات کو ہیں کہ دنیا میں بیوقوفوں کا بادشاہ گدھا ہوتا ہے لیکن اپنے بچوں کو دودھ پلوانے کے لئے مجھے نہ جانے کتنی دور سے منگوایا ہے۔ اب بتائیے کون بڑا بے وقوف ہے ، انسان یا گدھا؟"


اب سنئے جنس کے بارے میں، یہ صحیح ہے کہ ہم کتوں میں کھلا میل جول ہوتا ہے۔ اور جنس کے معاملے میں کوئی مخصوص میاں بیوی نہیں ہوتے۔ لیکن اس بات کی تو آپ بھی تقلید کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جنس کے معاملے میں مشرقی آداب و سلیقے کی بجائے مغربی فیشن (جو ہمارے زیادہ قریب ہے) زور پکڑ رہا ہے اور جنسی آزادی کی تحریک بہت ہر دلعزیز ہو رہی ہے۔ آخر یہ بھی تو بندھن ہی ہیں۔ انسان اب دھیرے دھیرے ان بندھنوں سے آزاد ہو رہا ہے اور کتے نے اپنی دور اندیشی سے پہلے ہی اس بندھن کو بالائے طاق رکھ دیا تھا۔ آپ شاید بھول گئے ہیں کہ آپ کے سب سے بڑے فلسفی افلاطون نے بھی مشترکہ بیویوں کی سفارش کی تھی۔ قریب سو برس ہوئے انگلستان کے نارکسسٹ ولیم گاڈون نے بھی انسان کو اس معاملے میں کتوں کی تقلید کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اطمینان رکھئے کوئی وقت آئے گا جب آپ بھی اس کامل آزادی کا مزہ چکھ لیں گے۔


کتوں کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ کسی بھی کتے نے آج تک کسی غریب کتیا کی حرمت پر حملہ نہیں کیا۔ بر خلاف اس کے آپ انسانی تاریخ کے صرف پچھلے چند برسوں پر نگاہ ڈالئے۔ تقسیم ہندوستان کے واقعات لیجئے، عورتوں پر کیا کیا نہ گزری، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ قانون سے مجبور ہوکر عورتوں کی عزت کرتے ہیں۔ ذرا قانون کی گرفت ڈھیلی ہوئی اور آپ نے "ذلیل کتوں" کی پیروی شروع کر دی۔ آپ کے چال چلن کا کوئی بھی تو ایسا درخشاں پہلو نہیں جسے آپ ہمارے مقابلے میں پیش کر سکیں۔ گدھے کی طرح کام کرنا، بھیڑیے کی طرح خون کرنا، گیدڑ کی طرح بھپکیاں بتانا اور ڈرانا، لومڑی کی طرح چالاکی اور چاپلوسی سے اپنا کام چلانا، اونٹ کی طرح کینہ رکھنا، سانپ کی طرح موقع پاتے ہی ڈس لینا، بگلے کی طرح مچھلیوں کے انتظار میں بھگتی کرنا۔ دنیائے حیوانات کی تمام برائیاں جمع کر دو اور اس مجموعے کو نام دے دو انسان کا۔۔۔ بس یہی ہے نا؟ کہاں ہے شیر کی بہادری اور دلیری، کہاں ہے چکور کی لگن ، کہاں ہے شاہین کی بلند پروازی اور کہاں ہے کتے کی وفاداری آپ میں؟ آپ تو اشرف المخلوقات ٹھہرے نا؟


آپ ہمیں لالچی کہتے ہیں تو بجا ہے ، ہمیں ملتا ہی کیا ہے جو کبھی ہم سیری محسوس کر سکتے ؟ پھر بھی اس باب میں ایک واقعہ سنیے۔ بنگال کے قحط کے دنوں کا، ان دنوں میں بہت جوان تھا آج کل تو بڑھاپے کی نقاہت نے برا حال کر دیا ہے۔ ان دنوں تو میں زور بازو یا زور ٹانگ سے سب کچھ کر سکتا تھا ! کہتے ہیں تیس لاکھ انسان بھوک سے مرگئے۔ ایسی حالت میں ہمیں کون پوچھتا؟ ایک دن ایسا ہوا کہ جہاں میں پڑا ہوا تھا وہیں ایک آدمی بھی نڈھال پڑا ہوا تھا۔ ہم دونوں میں سے کسی میں چلنے کی ہمت نہیں تھی ، بے بسی میں ہم ایک دوسرے کو تاکتے رہے۔ اس وقت میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ انسان کی آنکھوں میں برادرانہ جھلک دیکھی تھی۔ کتنا کم فرق تھا ہم دونوں میں اس وقت، کچھ نہیں بالکل کچھ نہیں! زبان کا بھی نہیں۔ صرف شکل کا جیسے مختلف صورتوں کے دو ہم جنس بیٹھے ہوں۔ اتنے میں پاس سے گزرتے ہوئے کسی چمار نے قے کر دی۔ یقین مانیے ہم دونوں اس الٹی پر ٹوٹ پڑے اور لگے پیٹ کی آگ بجھانے۔ انسان اور کتا برادرانہ جذبے کی کتنی شان دار لیکن کتنی المناک مثال!! اشرف المخلوقات کی اس بے بسی پر میرے تین آنسو بہہ نکلے (دو آنسو دائیں آنکھ سے اور ایک آنسو بائیں آنکھ سے)


معیار زندگی کا مقابلہ کیجئے تو شاید کئی کتے انسانوں پر بازی لے جائیں۔ آپ کو راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کے کتوں سے ملاقات کا موقع تو نہیں ملا ہوگا۔ شاید دور سے انہیں دیکھا ضرور ہو۔ میرے دو کزن (COUSIN) اور ایک "آنٹی" انگریزوں کے ساتھ رہے ہیں اور ایک دوست ایک مہاراجہ کے پاس اب بھی عیش کر رہا ہے۔ وہاں انہیں وہ چیزیں مہیا ہوتی ہیں کہ عام انسان زبان چٹخارتا رہ جائے۔ وہاں ایک کتے کی خدمت کے لئے کئی انسان رکھے جاتے ہیں۔ اور مہاراجہ کے کتے نے ایک بار مجھے بتایا کہ کئی بار تو اس کی خدمت پر تعینات کئے ہوئے اردلی اس کے راشن سے چیزیں چرا لیتے ہیں انسان صرف ہمارے بے زبان ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے ورنہ۔۔۔۔


آپ میں سے کتنے انسان ہیں جنہوں نے کار میں سیر کی ہے یا اصلی گوشت کا مزہ چکھا ہے ؟ ہم میں سے جو کتے امریکہ یا ولایت میں رہتے ہیں (یا ہندوستان میں بھی پالتو ہیں ) کاروں میں گھومتے ہیں ، طرح طرح کے کھانے کھاتے ہیں اور کئی کتے تو کپڑے اور جوتے بھی خوب پہنتے ہیں۔
اصل میں صدہا سال سے انسان ہماری بے زبانی کا فائدہ اٹھا کر ہم پر ظلم کرتا رہا ہے۔ کتوں کو ذلیل، کمینہ، لالچی وغیرہ وغیرہ کہا گیا ہے۔ ہمارے محاسن پر کبھی کسی نے غور نہیں کیا۔


مثلاً وفاداری کو لیجئے۔ اس میدان میں بھی انسان کو ہم سے بہت سے سبق سیکھنے ہیں۔ تاریخ کے اوراق سیاہ دھبوں سے بھرے پڑے ہیں۔ کیونکہ انسان وفادار نہ رہ سکا۔ نت نئے مالک بدلے جاتے ہیں اور پھر ان سے غداری کی جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں کتے میں کتنی وفاداری اور بردباری ہے۔ اپنی جان پر کھیل جائے گا پر مالک کو دغا نہ دے گا۔ سچا عاشق اصل میں کتے کی وفاداری کی سی نقل کرتا ہے کتے کی یہ خوبی جو انسان حاصل کر لیتا ہے امر ہو جاتا ہے۔


عام طور پر ایک غلط فہمی انسان میں پائی جاتی ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ کتا غلیظ جانور ہے۔ اس کا جواب اب میں صرف ایک چھوٹی سی کہانی سے دوں گا۔ ابھی پچھلے ہفتے کی ہی بات ہے کہ میں ڈاکٹر صاحب کے مطب کے احاطے میں دوپہر کو سستا رہا تھا۔ اتنے میں ان کا ایک بھتیجا آیا اور کرسی جما کر وہاں پر بیٹھ گیا۔ ڈاکٹر صاحب کسی طرح اس کو منع کرنا چاہتے تھے۔ لیکن گول مول طریقے سے وہ آئے اور اس لڑکے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے قدرے درشتی سے بولے"تم نے کبھی کتا دیکھا ہے کتا" سہما ہوا لڑکا میری طرف دیکھ کر بولا: "جی ہاں دیکھ رہا ہوں۔" تو وہ بھی کہیں بیٹھتا ہے تو دم سے جگہ صاف کرکے بیٹھتا ہے۔ تم ویسے بیٹھ تو روز ہی جاتے ہو لیکن کبھی صاف بھی کیا ہے اس جگہ کو؟"
میں نے دوبارہ جان بوجھ کر زور سے دم ہلا دی اور انسان کے اس غیر شعوری اعترافِ کمتری پر مسکرادیا۔ وہ بے چارہ لڑکا میرے اشارے کو پہچان گیا اور اٹھ کر چلا گیا۔


متحد ہونا بڑے کاموں کے لئے بہت ضروری ہے پھر بھی کتوں سے زیادہ اتحاد اور برادرانہ پن کا احساس کس میں ملے گا ؟ ایک کتا بولا ( یعنی بھونکا) اور سب اس کے ساتھ شامل ہو گئے۔
ایک دن کالج سے آتے ہوئے دو لڑکے آپس میں بحث کرنے لگے۔ میں نے ابھی ابھی حلوائی کی دکان کی پلی ہوئی تازہ تازہ کچھ مکھیاں نگلی تھیں، موضوع میں اتنی دلچسپی کے سبب میں بھی ان کے پیچھے ہولیا ان میں سے ایک بولا:
"تم کہتے ہو انسان اور حیوان میں کلچر کا فرق ہے کیا خوب آج کا انسان کیا کلچر رکھتا ہے۔"
"فنون لطیفہ۔۔۔۔ یعنی فائن آرٹس۔" بات کاٹتے ہوئے دوسرا بولا۔
"ہوں" پہلے نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ "مثلاً سنگیت کو ہی لے لو۔۔۔ انسان سے کتے کا احساس موسیقی بہتر اور بلند ہوتا ہے۔ دیکھا نہیں تم نے، ہز ماسٹرس وائس کے ریکارڈوں پر کس انہماک سے سن رہا ہوتا ہے کتا؟ ارے تم تو دس جنموں تک یہ احساس پیدا نہ کر سکو گے۔"
اس بے چارے کا جو حال ہوا اسے تو بس جانے دیجئے۔ مجھے اتنی ہنسی آئی اس بات پر کہ اپنا قہقہہ بھونکنے کی صورت میں تبدیل کرنا پڑا۔


مختصر یہ کہ کتا اپنے گوناگوں اوصاف کی وجہ سے لاجواب جانور ہے اور انسان سے کسی لحاظ سے بھی کم نہیں۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اچھی طرح پہچانا نہیں گیا۔ ہماری خوبیوں کا اعتراف اس بات میں بھی ہے کہ جیسے سکھوں کے پانچ کاف ہوتے ہیں ( کنگھی ، کچھا، کیس، کڑا، کرپان) ویسے ہی افسروں اور امیر لوگوں کے بھی پانچ کاف ہوتے ہیں (کتا، کار ، کوٹھی، کلب، اور کنڈر گارٹن) اور ان کاموں میں کتے کو امتیازی حیثیت حاصل ہے اور کیوں نہ ہو۔ ایسی بے لوث محبت، وفاداری ، لگن اور ہلتی ہوئی دمداری کی مثال آپ کو اور کہاں ملے گی۔


اچھا صاحب دیکھئے اب میں اجازت چاہتا ہوں۔ باہر کچھ دوست بھونک رہے ہیں اور مجھے بھی ان کی آواز میں آواز ملانی ہے۔ اس کے علاوہ میرے مالک کے آنے کا وقت ہو گیا ہے۔ دیکھئے میری دم خود بہ خود ہل رہی ہے۔ یہ نشانی ہے اس بات کی کہ وہ بس آ رہے ہیں۔ پیشتر اس کے کہ وہ مجھے اس خط کو لکھتے ہوئے دیکھ لیں مجھے باہر نکل جانا چاہئے۔
مجھے امید ہے کہ اس خط کو پڑھنے والے انسان برا نہیں مانیں گے۔ جہاں تک ایک گھریلو کتے سے توقع کی جا سکتی ہے ادب و آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں نے اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ دنیا بہت لمبی چوڑی ہے ، اس میں طرح طرح کے جاندار پائے جاتے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو خدا کی مخلوق سے کئی طرح کے سبق سیکھ سکتے ہیں۔ شاید کوئی انسان اس ناچیز ٹکڑوں پر پلنے والے لیکن شریف کتے کی صاف گوئی سے کچھ فائدہ اٹھا سکے۔ اچھا اب بھوں بھوں۔۔۔ موقع ملا تو پھر لکھوں گا۔
فقط
"موتی کتا"


***
ماخوذ از کتاب: بند کواڑ
تصنیف : نریندر لوتھر۔ ناشر: مکتبۂ تحریک، دہلی (سن اشاعت: 1967ء)

Aik shareef kutte ka khat, Short story by: Narendra Luther.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں