عدالت عالیہ کے چیف جسٹسوں کا خوف - کالم از ودود ساجد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-07-10

عدالت عالیہ کے چیف جسٹسوں کا خوف - کالم از ودود ساجد

sc-chief-justices-concern-over-social-media-trolling

جس دور میں ہم اور آپ جی رہے ہیں اس کا کوئی ایک مستقل نام رکھنا مشکل ہے۔ انہونی کے امکانات اتنے قوی تر ہوگئے ہیں کہ آپ کچھ ناممکن سوچئے اور وہ ممکن ہوجاتا ہے۔
گستاخی رسول کے واقعات پہلے بھی ہوئے ہیں۔ جذبات پہلے بھی مجروح ہوئے ہیں۔ حالات پہلے بھی خراب ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ملزموں کو پہلے بھی لعن طعن کی ہے۔ عدلیہ کے تبصروں اور فیصلوں کی نکتہ چینی پہلے بھی ہوئی ہے۔ لیکن جو کچھ آج ہورہا ہے وہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔
مجھے یاد نہیں کہ کسی خاص واقعہ کے بعد سپریم کورٹ کے کسی جج نے اپنی ذات کا اتنا واضح، سخت اور مضبوط دفاع کیا ہو۔ جسٹس جمشید برجور پاردی والا (جے بی پاردی والا) کا وہ بیان آپ نے سنا جو انہوں نے شرپسندوں کے ذریعہ 'ٹرول' کئے جانے کے بعد ایک پروگرام میں دیا؟


آئیے قند مکرر کے طور پر ان کے بیان کے کچھ اہم حصے دہراتے ہیں۔ انہوں نے فیصلوں کے خلاف ججوں پر ذاتی حملوں کو ایک خطرناک منظرنامہ کی طرف لے جانے والا قرار دیتے ہوئے کہا کہ:
"ایسی صورتحال میں ججوں کو بجائے یہ سوچنے کے کہ قانون کیا کہتا ہے یہ سوچنا پڑتا ہے کہ میڈیا کیا کہتا ہے، اس سے قانون کی حکمرانی پر ضرب پڑتی ہے، بجائے اس کے کہ سوشل اور ڈجیٹل میڈیا پر ججوں کے فیصلوں کے تعلق سے تعمیری نقد ونظر کیا جائے لوگ ججوں کی ذاتیات پرحملے اور تبصرے کرتے ہیں، اس سے عدلیہ کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اس کے وقار میں تنزلی آرہی ہے، فیصلوں کے خلاف راحت طلب کرنے کی صحیح جگہ اعلی عدلیہ ہے نہ کہ سوشل میڈیا، جج کبھی اپنی زبان سے نہیں بولتے بلکہ وہ اپنے فیصلوں کے ذریعہ بولتے ہیں۔ ہندوستان میں، جسے مکمل طور پر بالغ ڈیموکریسی کے طور پر متعارف نہیں کرایا جاسکتا، سوشل میڈیا کو خالصتاً قانونی اور آئینی اشوز پر سیاست کیلئے کثرت کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔"


جسٹس پاردی والا نے پارلیمنٹ پر زور دیا کہ وہ عدالت میں زیر سماعت حساس معاملات کو سوشل میڈیا میں زیر بحث لائے جانے کو 'ریگولیٹ' کرنے پر غور کرے۔
عام طورپر جج عوامی سطح پر اس طرح اظہار خیال نہیں کرتے۔ وہ سوشل میڈیا یا اخبارات میں شائع ہونے والی تنقید کا کوئی اثر نہیں لیتے۔ سپریم کورٹ کے جج اظہار رائے کی آزادی کے سب سے بڑے علمبردار رہے ہیں اوراس پر قدغن کے خلاف رائے ظاہر کرتے رہے ہیں۔ جسٹس پاردی والا ایک خصوصی پروگرام میں خطاب کیلئے مدعو تھے۔ انہوں نے موضوع کے علاوہ بھی اظہار خیال کیا تو اس کے کچھ معنی ہیں۔
گستاخ نپور شرما نے سپریم کورٹ کی جس بنچ کے سامنے مختلف ایف آئی آر کے سلسلہ میں راحت طلب کرنے کیلئے رٹ دائر کی تھی اس بنچ میں جسٹس سوریہ کانت کے ساتھ جسٹس پاردی والا بھی تھے۔ نپور شرما نے اپیل کی تھی کہ ان کے خلاف ملک میں کئی جگہ درج ایف آئی آر کو یکجا کرکے دہلی میں سماعت کا حکم دیا جائے۔ انہوں نے دلیل یہ دی تھی کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ انہوں نے اودے پور کے واقعہ کا بھی ذکر کیا تھا جس میں دو عاقبت نااندیش لوگوں نے کنہیا لال کا قتل کردیا تھا۔ کنہیا لال نے نپور شرما کی حمایت کی تھی۔


جسٹس سوریہ کانت کی بنچ نے اس پر نپور شرما کے وکیل سے پے درپے کئی سوالات کرڈالے۔ بنچ نے (طنز کرتے ہوئے) پوچھا کہ نپور شرما کو خطرہ ہے یا وہ خود (ملک کی) سلامتی کیلئے خطرہ بن گئی ہیں؟ بنچ نے اودے پور جیسے واقعات اور ملک بھر میں پھیلے ہوئے اضطراب کا ذمہ دار بھی نپور شرما کو ہی ٹھہرایا۔ بنچ نے صاف طور پر کہا کہ آج ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کیلئے تنہا یہ خاتون ذمہ دار ہے۔ بنچ نے یہ بھی کہا کہ نپور شرما کو ٹی وی پر جاکر پوری قوم سے معافی مانگنی چاہئے۔


ظاہر ہے کہ بنچ کا یہ تبصرہ انتہائی غیر معمولی اور انتہائی سخت تھا۔ عام طور پر جج حضرات اس طرح کا تبصرہ نہیں کرتے۔ ایسے معاملات میں تو بالکل بھی نہیں جہاں ملزم اپنے خلاف ایک سے زائد ایف آئی آر کو یکجا کرنے کی درخواست لے کر جائے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ نپور شرما کا معاملہ کوئی آسان اور سادہ معاملہ نہیں ہے۔ اس کی گستاخی کے نتیجہ میں نہ صرف ہندوستانی مسلمانوں کے دل چھلنی ہوئے بلکہ پوری مسلم دنیا میں اضطراب پھیل گیا۔ ایک درجن سے زائد ملکوں نے ہندوستان کے سفیروں کو بلاکر سخت احتجاج کیا۔ بی جے پی نے آخر کار نپور شرما کو ترجمان کے عہدہ سے ہٹادیا۔ خود حکومت کو متحرک ہونا پڑا اور وزارت خارجہ نے کہا کہ ہندوستان تمام مذاہب کا احترام کرتا ہے۔


اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی نپور شرما کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ ممبئی اور دہلی میں ایف آئی آر ہونے کے باوجود پولس ان تک نہ پہنچ سکی۔ ممبئی پولیس دہلی آئی مگر دہلی پولیس نے تعاون نہیں کیا۔ سوال یہی ہے کہ کیا نپور شرما کے خلاف قانون نے اپنا کام کیا؟ جواب نفی میں ہے۔ یہی وہ عنصر تھا جو سپریم کورٹ کی تعطیلاتی بنچ کی ناگواری کا سبب بنا۔ بنچ کو جب نپور کے وکیل نے بتایا کہ دہلی میں ایف آئی آر درج ہوئی ہے تو بنچ نے پلٹ کر سوال کیا کہ دہلی پولیس نے کارروائی کیا کی؟ پھر بنچ نے خود ہی کہا کہ نپور شرما سمجھتی ہیں کہ وہ ایک پارٹی کی ترجمان ہیں اور وہ بہت طاقتور ہیں۔ وہ کچھ بھی کہہ سکتی ہیں اور قانون انہیں ہاتھ تک نہیں لگائے گا۔ سپریم کورٹ نے تمام ایف آئی آر کو یکجا کرنے کی عرضی مسترد کردی۔


عام حالات میں سپریم کورٹ ایک ہی معاملہ میں ایک سے زائد ایف آئی آر کو یکجا کرنے کا حکم جاری کر دیتی ہے۔ جیسا ارنب گوسوامی کے معاملہ میں بھی ہوا تھا۔ لیکن یہاں معاملہ کی سنگینی، حساسیت اورہیبت ناکی کے پیش نظر سپریم کورٹ نے ایسا نہیں کیا۔ بنچ نے کھل کر کہا کہ ہم بھی (ٹی وی/اخبارات میں) دیکھتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات ہم بھی (حالات کو دیکھ کر) اپنا نظریہ قائم کرتے ہیں۔ بنچ نے ٹائمز ناؤ چینل کی اینکر ناوکا کمار پر بھی سخت تبصرہ کیا اور کہا کہ ایسے اشوز پر بحث کا اس کے سوا اور کیا مقصد ہوسکتا ہے کہ (ایک خاص) ایجنڈہ کو آگے بڑھایا جائے۔


اس تبصرہ کے بعد پورے ملک میں شرپسند گروپوں نے ججوں کے خلاف ایک طوفان برپا کردیا۔ ججوں پر ایسے ایسے ذاتی اور رکیک حملے کئے گئے کہ جن کو نقل کرنا مشکل ہے۔ ججوں کے خلاف ایسی بھدی اور غلیظ مہم پہلی بار دیکھنے میں آئی۔ نپور شرما کے حق میں اور ججوں کے خلاف کئی سابق جج، وکلاء، افسران اور فوجی تک آگئے۔ 117 لوگوں نے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا۔ اس سے پہلے چیف جسٹس کی عدالت میں ججوں کے مذکورہ تبصروں کے خلاف ایک عرضی بھی دائر کردی گئی۔۔ ججوں کے مواخذہ کی تحریک کیلئے تین پٹیشن پر دستخط لینے کی مہم شروع کردی گئی۔ ایک پٹیشن پر اب تک 50 ہزار لوگ دستخط کرچکے ہیں۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ 2/جولائی کو خود چیف جسٹس این وی رمنا امریکہ کے سان فرانسسکو میں تقریر کرتے ہوئے کہہ چکے تھے کہ ہندوستان میں لوگوں کو ابھی تک آئین کی درست طور پر واقفیت نہیں ہے اور حکمراں پارٹی، حکومت کے ہر فیصلہ پر عدالت کی تائید کو اپنا حق سمجھتی ہے۔ ہندوستان میں مختلف مبصرین اور ماہرین قانون نے ان کے اس جملہ کو مطلق قرار نہ دے کر موجودہ حکمرانوں پر ایک طنزیہ نشانہ سے تعبیر کیا۔ موجودہ حکومت نے جو رویہ اختیار کیا ہے اس کی روشنی میں چیف جسٹس کا تجزیہ غلط بھی نہیں ہے۔ ایسے میں یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ کل 11/جولائی کو جب مستقل عدالت کھل جائے گی تو جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جے بی پاردی والا کے تبصروں کے خلاف جاری مہم پر چیف جسٹس کا رویہ کیا ہوگا۔


جسٹس پاردی والا حال ہی میں سپریم کورٹ آئے ہیں۔ اس سے پہلے وہ گجرات ہائی کورٹ میں تھے۔ ان کا نام 2020 کے اولین لاک ڈاؤن کے دوران اس وقت روشنی میں آیا تھا جب انہوں نے کورونا کے مریضوں سے نپٹنے کیلئے سرکاری ہسپتالوں کے رویہ پر سخت تبصرے کئے تھے۔ ایک مقدمہ میں انہوں نے باقاعدہ فیصلہ میں لکھا تھا کہ:
"ایسا معلوم ہوتا ہے کہ احمد آباد میونسپل کارپوریشن کے ہسپتال بدبودار تہہ خانوں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔"
اس بنچ میں ان کے ساتھ گجرات ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وکرم ناتھ بھی تھے۔ اب وہ بھی سپریم کورٹ میں آگئے ہیں۔


انہی دونوں کی بنچ نے گجرات پبلک سیکیورٹی ایکٹ(پاسا) کی اس دفعہ کو بھی کالعدم قرار دیدیا تھا جس کے تحت گجرات حکومت اقلیتی طبقات اور کمزوروں کے خلاف جبر کا استعمال کر رہی تھی۔ اس فیصلہ کے خلاف حکومت گجرات نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے۔ انہی دونوں ججوں نے پاسا کے بے دریغ استعمال پر بھی قدغن لگائی تھی اور غریب وپسماندہ طبقات کو اس امر کی رخصت دیدی تھی کہ پوری ریاست میں کہیں بھی کسی پر بھی اس ایکٹ کا نفاذ ہو تو متاثرین براہ راست چیف جسٹس کی عدالت سے رجوع کرکے راحت طلب کرسکتے ہیں۔


درجنوں مقدمات کے جائزہ سے معلوم ہوا تھا کہ حکومت گجرات نے پاسا جیسے خوفناک قوانین کا غریب مسلمانوں کے خلاف بے دریغ استعمال کیا جس میں ان دونوں ججوں کی بنچ نے انہیں ضمانت دی۔ انہی دونوں ججوں نے گجرات کے "ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ" کے ناجائز استعمال پر بھی قدغن لگائی تھی۔ پاسا کے تحت گرفتار ملزمین دوسال سے پہلے ضمانت کیلئے عدالت سے رجوع نہیں کرسکتے تھے لیکن مذکورہ ججوں نے ایسے درجنوں متاثرین کو ضمانت دی تھی۔۔


یہ وہ چند عناصر ہیں جن کی وجہ سے شرپسندوں کے پاؤں تلے آگ جل رہی ہے۔ ایسے میں یہی جج سپریم کورٹ میں آگئے ہیں۔ جس وقت جسٹس پاردی والا کا نام سپریم کورٹ کالجیم نے حکومت کو بھیجا تھا میں نے اسی وقت لکھا تھا کہ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ سپریم کورٹ کیلئے جسٹس وکرم ناتھ کے بعد حکومت جسٹس پاردی والا کے نام کو قبول کرتی ہے یا نہیں۔ شرپسندوں کی مہم دراصل صرف جسٹس سوریہ کانت یا جسٹس پاردی والا کے ہی خلاف نہیں ہے بلکہ یہ اس نئے رجحان کے خلاف ہے جو سپریم کورٹ کی بنچوں میں رفتہ رفتہ ہی سہی غالب آرہا ہے۔۔


جسٹس جمشید برجور پاردی والا مئی 2028 میں چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے۔ وہ دو سال سے زائد عرصہ تک ہندوستان کے چیف جسٹس رہیں گے۔ اگلے چیف جسٹس بھی اسی طرح کے ہیں۔ جسٹس چندر چوڑ نومبر 2022 میں چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے۔ وہ بھی دوسال تک اس عہدہ پر رہیں گے۔ ان سے پہلے جسٹس یو یو للت محض تین ماہ کیلئے چیف جسٹس رہیں گے۔ جسٹس وکرم ناتھ بھی سات مہینوں کی مختصر مدت کیلئے چیف جسٹس رہیں گے۔


وزیر اعظم کا دعوی ہے کہ بی جے پی اگلے تیس چالیس برسوں تک اقتدار میں رہے گی۔ یہ مشکل ہے کہ بی جے پی شرپسندوں کو چھوٹ دینے کی اپنی کھلی پالیسی میں کوئی تبدیلی کرے۔ ایسے میں شرپسندوں کی ناک میں نکیل ڈالنے کی آخری امید کا مرکز سپریم کورٹ رہ جاتی ہے۔ اوپر سے شرپسندوں کو جسٹس سوریہ کانت، جسٹس پاردی والا، جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس چندر چوڑ جیسے ججوں سے ابھی 'نجات' ملنے والی نہیں ہے۔۔
یہ ممکن نہیں کہ اس کائنات کا خالق مظلوموں کو ظالموں کے رحم وکرم پر چھوڑ کر 'بے فکر' ہو جائے۔ لیکن مظلوموں کو بھی اپنے اعمال درست کرکے دست دعا اٹھانا پڑے گا۔ شیخ سعدی نے کیا خوب کہا ہے:
بہ ترس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن
اجابت از در حق بہر استقبال می آید


***
(بشکریہ: کالم ردعمل / روزنامہ انقلاب / 10 جولائی 2022ء)
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد

Chief Justices of the Supreme Court concern over social media trolling - Column: M. Wadood Sajid.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں