اردو صحافت کے دو سو سال اور درپیش مسائل و مشکلات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-07-09

اردو صحافت کے دو سو سال اور درپیش مسائل و مشکلات

problems-of-urdu-journalism

ہندوستان میں اٹھارہویں صدی تک جاگیردارانہ نظام مستحکم و مضبوط رہا۔ جس میں ایک فرد ساری رعایا کے حالات سے باخبر رہنا چاہتا تھا۔
مغلیہ عہد میں فارسی ہندوستان کی سرکاری زبان تھی لیکن جب ایسٹ انڈیا کمپنی کو ملک میں عمل دخل حاصل ہوا تو اس نے اپنے "دوام اور استحکام" کے لیے مغلیہ دور کی سرکاری زبان فارسی کے نام و نشان مٹانے کی غرض سے اردو کو سرکاری زبان قرار دیا۔
1835ء میں جب گورنر جنرل سرچالس مٹکاف نے اخبارات کو مختلف پابندیوں سے آزاد کردیا تو کئی دیسی زبانوں میں اخبارات شائع ہونے لگے۔ ان میں اردو زبان سرفہرست تھی، کیونکہ اب یہ سرکاری زبان قرار پائی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہدے داروں کو اردو زبان سے کوئی قلبی لگاؤ نہ تھا بلکہ ان کی مجبوری تھی۔ اسی میں ان کا مفاد مضمر تھا۔ فارسی کی مخالفت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ فارسی زبان ان پیشرومسلمان حکمرانوں کی یادگار اور ان کے تمدنی ورثہ کی امین تھی۔


اردو اخبارات سے متعلق اب تک جو منتشر اور محدود مواد منظر عام پر آیا ہے اس کی روشنی میں محققین کا بیان ہے کہ اردو کا پہلا اخبار "جام جہاں نما" ہے۔ جو کلکتہ سے شائع ہوا تھا۔ یہ پہلی بار بدھ 27 مارچ 1822ء کو اور دوسری بار 1823ء کو جاری ہوا۔ یہ ہفت وار اخبار تھا جس کے صفحہ اول پر پیشانی کے دونوں جانب (Ear panal) پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی مہر لگی ہوتی تھی۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس اخبار کو حکومت کی باقاعدہ سرپرستی حاصل تھی۔ اس کے ایڈیٹر "منشی سدا سکھ دیو مرزاپوری" تھے اور چھاپنے کی ذمہ داری ولیم پیٹرسن کاپ کنس اینڈ کمپنی کے سپرد تھی۔ یہ اخبار چار صفحات پر شائع ہوتا تھا۔ اس کے ہر صفحے پر دو کالم اور ہر کالم میں عموماً بائیس سطریں ہوتی تھیں۔ پرنٹ لائن میں حسب ذیل عبارت درج ہوتی تھی۔ "کلکتہ مقام کے بیچ مشن پریس چھاپے خانے میں چھاپا گیا۔" اس اخبار کے مالک ہری ہر دت تھے، لیکن چند ہفتے کے بعد لوگوں نے محسوس کیا کہ اردو اخبار کی مانگ بہت کم ہے تو انہوں نے اسے فارسی زبان میں شائع کرنا شروع کیا۔


جون 1822ء کے اواخر تک جام جہاں نما کی زبان فارسی ہو چکی تھی۔ لیکن ایک سال بعد جام جہاں نما نے پھر اردو کی طرف رجوع کیا۔ چنانچہ فارسی اخبار کو برقرار رکھتے ہوئے جام جہاں نما کا اردو ترجمہ شائع ہونے لگا۔ اخبار کو حکومت کی باقاعدہ سرپرستی حاصل تھی۔ اس کے باوجود یکم مارچ 1826ء سے اردو اخبار میں خبروں کی اشاعت تقریباً بند ہوگی۔ البتہ چار ماہ تک اگلستان کی تاریخ اور پھر ایک سال تک محاربات نپولین کی داستان درج ہوتی رہی۔ 17 جون 1827ء سے 23 جنوری 1828ء تک تاریخ عالمگیری کا ترجمہ چھپتا رہا۔ بالآخر اسی اشاعت پر اردو جام جہاں نما بند ہو گیا۔ اردو کے پہلے ہفت روزہ اخبار کی حیات صرف چار سال آٹھ مہینے رہی۔ اس کے بعد کم و بیش بارہ سال تک کسی اردو اخبار کا پتہ نہیں ملتا ہے۔


1834ء میں ممبئی کے فارسی اخبار "آئینہ سکندر" نے اردو ضمیمہ شائع کرنا شروع کیا۔ یہ ہفتہ وار اخبار تھا۔ اس کے ایڈیٹر فضل الحق تھے۔ یہ اخبار بارہ صفحات پر ممبئی سے مسٹر رامس کے پریس سے شائع ہوتا تھا۔


شمالی ہند کا پہلا اور برصغیر کا دوسرا بڑا اخبار "دہلی اخبار" ہے۔ جو 1836ء میں شاہجہاں آباد دہلی سے شائع ہوا۔ جس کے ایڈیٹر "مولوی محمد باقر" تھے۔ یہ ہفت روزہ اخبار تھا۔ اس کی قیمت 2 روپے ماہانہ تھی۔ محمد باقر، شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد کے والد تھے۔ جن کو انگریزوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران گولی مار کر شہید کر دیا تھا۔ اس طرح مولوی محمد باقر نہ صرف اردو زبان بلکہ کسی بھی زبان کے پہلے شہید صحافی کہلائے۔ اس ہفت روزہ اخبار میں خبروں کے علاوہ ذوق، غالب، مومن اور بہادر شاہ ظفر کا کلام بھی شائع ہوتا تھا۔ 12 جولائی 1857ء کو اس کا نام دہلی اخبار سے بدل کر "اخبار الظفر" رکھا گیا تھا ۔ جو 13 ستمبر 1857ء تک شائع ہوتا رہا۔ 20 ستمبر 1857ء کو شائع ہونا تھا لیکن مولوی محمد باقر کے شہید ہونے کے باعث اس کی اشاعت ختم ہوگی۔


سر سید احمد خان کے بھائی سید محمد خان نے سنہ 1837ء میں دہلی سے "سیدالاخبار" جاری کیا۔ اس کے ایڈیٹر مولوی عبدالغفور تھے۔ یہ اخبار 1850ء تک جاری رہنے کے بعد ختم ہوگیا۔ اس کے بعد صادق الاخبار کے نام سے چار اخبار جاری ہوئے۔ جو ایک کے بعد دیگر بند ہوگئے۔ مولوی کریم الدین نے 1845ء میں کریم الاخبار شائع کیا۔ ان کے علاوہ دہلی سے کئی اخبار جاری ہوئے جن میں خلاصۃ الاخبار، خلاصتہ الاطراف، ضیاء الاخبار، اخبار دہلی، وحید الاخبار اور نور مغربی و نور مشرقی قابلِ ذکر ہیں۔ دہلی کے بعد اردو صحافت کا دوسرا مرکز پنجاب تھا۔ پنجاب کا سب سے پہلا اخبار لاہور سے "شملہ اخبار" کے نام سے شیخ عبداللہ نے جاری کیا۔ لیکن پنجاب (لاہور) کا مشہور اخبار "کوہ نور" ہے جس کو منشی سکھ رائے نے 1850ء میں جاری کیا اور یہ اخبار شمالی ہند کا کثیر الاشاعت اخبار تھا۔


سیالکوٹ کا پہلا اخبار "ریاض الاخبار" ہے۔ کوہ نور ہفت روزہ اخبار تھا۔ اس کے ایڈیٹروں میں ہندو، مسلمان اور عیسائی شامل رہے۔ یہ انگریزوں کا خوش آمد پسند اخبار تھا۔ پنجاب کے دوسرے بڑے اخباروں میں گلزار پنجاب 1850ء ، مطلع الانوار 1854ء ، خوش بہار 1857ء ، عنقائے روزگار 1856ء اخبار طباعت، معلم ہند اور ہنر اعظم قابل ذکر ہیں۔


آگرہ کالج سے 1846ء میں "صدر الاخبار" اور 1847ء میں "اسعد الاخبار" 1849ء میں قطب الاخبار اور اخبار النواح جاری ہوئے۔ جنوری 1856ء میں منشی نول کشور نے "سفیر آگرہ" جاری کیا۔


لکھنؤ سے 24 اپریل 1847 کو اردو کا پہلا اخبار "لکھنؤ اخبار" جاری ہوا۔ جس کی ادارت لال جی کرتے تھے۔ اس کے علاوہ جولائی 1856ء میں "طلسم لکھنؤ" اور نومبر 1856ء میں "سحر سامری" کا لکھنؤ سے اجرا ہوا۔
لیکن ان اخباروں کا انداز تحریر پوشیدہ لکھا ہوتا تھا۔ جو لکھنؤ میں پسند کیا جاتا تھا۔
ان کے علاوہ لکھنؤ سے "مخزن الاخبار" بھی 1857ء میں جاری ہوا۔ 1857ء کے انقلاب کے بعد مسلمانوں کی سیاسی، سماجی اور معاشرتی زندگی میں تغیر واقع ہوا۔ لیکن جنگ آزادی میں ناکامی نے مسلمانوں کو پست ہمت بنا دیا۔ اس کا اثر صحافت پر بھی پڑا۔ 1853ء میں اخبارات کی تعداد پینتیس تھی جو گھٹ کر 1858ء میں صرف بارہ رہ گئیں، جن میں چھ قدیم اور چھ جدید اخبار تھے اور ان اخباروں میں صرف ایک اخبار کی ادارت کسی مسلمان کے سپرد تھی۔


انگریز مسلمانوں کو اپنا اصل حریف سمجھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کو ہر میدان عمل میں پیچھے ڈھکیلنے کی کوشش کی۔ اس کا اثر اردو صحافت پر بھی پڑا اور ہندو اخبارات نے ترقی کر لی۔ یہ جان کر حیرت ہوگی کہ 1853ء میں اردو اخباروں کی مجموعی تعداد اشاعت صرف 2216 تھی جبکہ 1858ء میں بارہ اخباروں کی تعداد اشاعت 3230 تھی۔


اردو اخبارات کا دور اول سیاسی انتشار اور افراتفری ہے۔ یہ وہ دور ہے جس میں مغلیہ سلطنت کا 800 سالہ چراغ ٹمٹما رہا تھا اور سامراجی اقتدار کا سورج ڈھلنے لگا تھا۔ بیسویں صدی میں اردو صحافت نے غیر معمولی ترقی کی۔ مولانا حسرت موہانی کا ماہنامہ اردوئے معلٰی، مولانا ظفر علی کا زمیندار، مولانا محمد علی جوہر کا ہمدرد اور مولانا ابوالکلام آزاد کے "الہلال" نے اردو صحافت میں نئی روح پھونک دی۔


اردو صحافت کے مسائل و مشکلات:

اردو رسائل کی اشاعت میں کئی مشکلات درپیش ہیں۔ سب سے پہلا اور اہم مسئلہ باذوق قارئین کی کمی ہے۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں۔ جیسے مادری زبان سے عدم دلچسپی اور ناواقفیت، وقت کی کمی، اسمارٹ فون، ٹی وی، کمپیوٹر، انٹرنیٹ لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ، فلمی گانے اور دیگر مصروفیات وغیرہ۔ صحافت اور اشتہارات کا گہرا تعلق ہے۔ اخبار ہو یا رسالہ بغیر اشتہارات کے زندہ نہیں رہ سکتا۔ اشتہار کے لیے تعداد اشاعت کا زیادہ ہونا لازمی ہے۔ آج تک کوئی بھی اردو اخبار ایک لاکھ کی تعداد اشاعت کو نہیں پہونچ پایا اور کوئی بھی اردو رسالہ پانچ ہزار کی حد کو چھو نہیں سکا۔ اردو صحافت کے فروغ کے لیے حکومت کا رویہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کو اپنی تجارت اور مفاد سے مطلب ہوتا ہے۔ اس لئے وہ اردو اخبارات اور رسائل کی جانب توجہ نہیں دیتے۔ کمپیوٹر کمپوزنگ اور طباعت میں دشواریاں پیش آتی ہیں، جس کے باعث وہ معیار کو برقرار نہیں رکھ پاتے۔ پوسٹل سروسز میں بے قاعدگی کے سبب رسالے وقت پر نہیں پہنچتے، لائبریریوں سے خاطر خواہ حوصلہ افزائی نہیں ہوتی، بہت کم علماء و دانشور، ادیب و شعراء کرام، وکلاء صحافی وغیرہ اردو رسالہ خرید کر پڑھتے ہیں۔


اس کے علاوہ اردو رسائل کے ایڈیٹرز کا آپسی رابطہ بھی بہت کم یا بہت نہیں ہوتا۔ حالانکہ اردو کے فروغ و ارتقاء میں رسائل و جرائد کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اردو داں طبقے کی خاص تہذیب ہوتی ہے اور وہ بعض روایتوں اور اقدار کے پابند ہوتے ہیں، اس لئے جنسی، فحش و عریاں تصاویر اور مضامین سے گریز کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے بھی اردو رسائل و جرائد نوجوانوں میں مقبول نہیں ہوتے۔


بعض لوگوں کا خیال ہے کی الیکٹرانک میڈیا کی چمک دمک سے پرنٹ میڈیا دھندھا جائے گا مگر ایسا بالکل نہیں ہے۔ پرنٹ میڈیا کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ باقی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اس میں شک نہیں کہ ایک تصویر ہزار خبریں بیان کر دیتی ہے لیکن الیکٹرانک میڈیا میں کوئی بھی خبر چند منٹ سے زیادہ نہیں دکھائی جاسکتی۔ اور پھر ان خبروں کو محفوظ رکھنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ جبکہ اخبار آدمی کہیں بھی پڑھ سکتا ہے اور کہیں بھی اپنے ساتھ لے جا سکتا ہے اور کسی دوسرے واسطے جیسے الیکٹریسٹی وغیرہ کا محتاج نہیں ہوتا اور پھر قیمت بھی بہت کم ہوتی ہے۔


اردو صحافت کئی مسائل اور مشکلات سے دوچار ہے۔ قابل اور تجربہ کار عملہ کا فقدان ہے، کمپوزنگ اور پینٹنگ کے مسائل ہیں، الیکٹریسٹی، کاغذ کا مسئلہ، ٹیکنیکل عملہ، دفتری عملہ، ہاکرس کا مسئلہ اور سرکولیشن کے مسائل سے سامنا کرتے ہوئے صبح سات بجے سے پہلے ایڈیٹر کو اخبار گھر پہنچانا ہوتا ہے۔


***
عبد المقیت، اسکالر شعبہ ترسیل عامہ و صحافت، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔

Email: abdulmuqeet001999[@]gmail.com


200 years of Urdu journalism and the problems and difficulties faced - Essay: Abdul Muqeet

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں