ابن صفی زندہ ہے - از یاسر پیرزادہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-07-03

ابن صفی زندہ ہے - از یاسر پیرزادہ

ibne-safi-zinda-hai-yaser-peerzada

اسی (80) کی دہائی تھی ، ابن صفی کے ناول تھے لڑکپن کے دن تھے اور بےفکری کا زمانہ تھا۔ ابن صفی کی کتابوں کی ایسی لت پڑی کہ آج بھی اگر مجھے کہیں ایڈلاوا، ہمبگ دی گریٹ، تین سنکی ، بابا سگ پرست، شعلوں کا ناچ ، کنگ چانگ، شوگر بینک، ڈاکٹر ڈریڈ یا بوغا کا سیٹ کہیں مل جائے تو میں سارے کام چھوڑ کر وہ پڑھنے بیٹھ جاتا ہوں اور تب تک نہیں رکھتا جب تک عمران، سنگ ہی اور تھریسیا کو پچھاڑ نہیں لیتا۔


اگر آپ مجھے اردو کے بہترین لکھاریوں کی فہرست بنانے کے لئے کہیں تو ابن صفی کا نام میرے نزدیک اس فہرست میں چمکتا دمکتا نظر آئے گا ، نقاد چاہے جو بھی کہیں۔ ابن صفی کی تحریر کی پانچ خصوصیات ایسی ہیں جو کم ہی کسی ادیب میں ایک ساتھ پائی جاتی ہیں۔ پہلی، کردار نگاری۔ علی عمران ، ابن صفی کا سب سے ہٹ کردار ہے، ایک ایسا شخص جو بظاہر احمق اور معصوم نظر آتا ہے مگر حقیقت میں بے حد چالاک اور ملک دشمنوں کے لئے سفاک، بلا کا ذہین اور غضب کا فائٹر، عورتیں اس کی معصومیت پر فدا ہیں مگر وہ عورت اور شراب سے دور بھاگتا ہے، سخت گیر والد جو محکمہ سراغرسانی کے سر براہ ہیں اس کی غیر سنجیدہ حرکتوں کی وجہ سے اپنے گھر میں دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ وہ اکیلا چھوٹے سے فلیٹ میں اپنے نوکر سلیمان کے ساتھ رہتا ہے اور اپنے دوست کیپٹن فیاض، جو محکمہ سراغراسانی میں عمران کے والد کا ماتحت ہے، کی اکثر کیسوں میں مدد کرتا رہتا ہے۔
ایسے ہی ایک کیس میں اس نے محکمہ خارجہ کے سیکریٹری سرسلطان کی مدد کی جس کے بعد اسے سیکرٹ سروس کا خفیہ سربراہ بنا دیا جا تا ہے۔ عمران کے چار روپ ہیں، پرنس آف ڈھمپ کے طور پر وہ ایک ان دیکھی ریاست کا نام نہاد پرنس ہے اور رانا تہور على صندوقی کے محل میں رہتا ہے جو دراصل سیکرٹ سروس کا سیف ہاؤس ہے۔ عبدالمنان کے طور پر وہ ایک بےوقوف قسم کا خاوند ہے جو بیوی کے ہاتھوں زچ ہوتا رہتا ہے۔ ایکسٹو کے طور پر وہ سیکرٹ سروس کا سربراہ ہے جسے کسی نے نہیں دیکھا اور اس کے ماتحت اس کی آواز سن کر کانپ اٹھتے ہیں اور علی عمران کے طور پر جرائم پیشہ افراد اسے ایک پولیس انفارمر کے طور پر جانتے تھے جو اکثر لوگوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر انہیں بلیک میل کرتا ہے۔ علی عمران روزانہ صبح اٹھ کر سر کے بل کھڑا ہو کر ورزش کرتا ہے اور کوئی دیکھ لے تو کہتا ہے:
"میں عبادت کر رہا ہوں!"
یہ ابن صفی کے تخلیق کردہ صرف ایک کردار کا خلاصہ ہے۔


یوں کئی لازوال کردار ابن صفی نے تخلیق کیے۔ جولیانا فٹز واٹر جو ایک سوئس عورت ہے اور سیکرٹ سروس میں ایکسٹو کے نائب کی حیثیت رکھتی ہے، عمران پر دل و جان سے فدا ہے مگر اس کی بے سر و پا حرکتوں کی وجہ سے مایوس ہے۔ جوزف، جسے عمران نے ایک مرتبہ باکسنگ کے ذریعے ناک آؤٹ کیا، اس کے بعد سے وہ عمران کا شعوری غلام ہے مگر روزانہ شراب کی چھ بوتلیں اپنے اندر انڈیلتا ہے جس کا خرچ عمران کے ذمے ہے، جوزف پرائز فائٹر ہے مگر عمران کے سامنے اس کی بھیگی بلی بنا رہتا ہے، افریقہ کے جنگلوں کا اسپیشلسٹ ہے، ان دیکھے دیوتاؤں کا پجاری اور حد سے زیادہ توہم پرست۔


اور میرا پسندیدہ قاسم جو ایک گرانڈیل شخص ہے جس کے باپ نے اس کی مرضی کے خلاف شادی ایک ایسی عورت سے کر دی ہے جو اس کے مقابلے میں نہایت دیلی پتلی اور چھوٹے قد کی ہے، اس مناسبت سے قاسم اسے گلہری بیگم کہتا ہے۔ میاں بیوی کے تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے قاسم ہر وقت دوسری عورت کی تلاش میں رہتا ہے مگر اپنی حماقت اور جثے کی وجہ سے ہمیشہ ناکام رہتا ہے۔ کیپٹن حمید اسے اکثر اس معاملے میں "پلابلیوں" (لڑکیوں کا کوڈ ورڈ ) کا جھانسا دے کے بیوقوف بناتا رہتا ہے۔ یہ ان چند کرداروں کی جھلک ہے جو ابن صفی نے تخلیق کئے، اس کے علاوہ فریدی سے لے کر تنویر تک اور علامہ دہشتناک سے لے کر ظفر الملک تک، ایک طویل فہرست ہے ابن صفی کے کرداروں کی جن پر علیحدہ سے پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔


ابن صفی کی تحریر کی دوسری خوبی منظر نگاری ہے۔ ایک چھوٹے سے گھر کے تنگ کمرے میں رکھی ایک چارپائی پر بیٹھ کر ابن صفی نے یورپ کے ساحلوں اور افریقہ کے جنگلوں کا جو نقشہ کھینچا، وہ ناقابل یقین ہے۔ ابن صفی نے کبھی متحدہ ہندوستان سے باہر سفر نہیں کیا مگر ان کی تحریر پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے انہوں نے ہر براعظم کی خاک چھانی ہو۔
ان کی تحریر کی تیسری خصوصیت اسلوب ہے۔ ابن صفی کی کتاب آپ ایک دفعہ پڑھنے کے لئے اٹھا لیں تو اسے مکمل کئے بغیر نہیں رکھ سکتے۔ بہت کم ادیب ایسے ہیں جن کی تحریر ایسی پرکشش ہوتی ہے۔ بڑے بڑے طرم خان لکھاریوں کی تحریروں میں ہی دم نہیں ہوتا کہ وہ آپ کو پڑھنے پر مجبور کر دیں، ابن صفی ایسے تمام طرم خانوں پر بھاری ہیں۔
چوتھی خصوصیت تحریر کی شکفتگی۔ ابن صفی اپنے کرداروں سے مزاح کا کام تو لیتے ہی ہیں مگر اپنی تحریر میں بھی جا بجا شگوفے چھوڑتے ہیں، ابن صفی کا پیش رس مزاح کا ایک عمدہ فن پارہ ہوا کرتا تھا، ایک ٹکڑا ملا حظہ ہو:
"کچھ حضرات نے ایک غلطی کی طرف توجہ دلائی ہے۔ 'خوفناک منصوبہ' میں فریدی کی لنکن کے تذکرے کے ساتھ، ایک جگہ اچانک کیڈی پڑھتے ہیں اور تاؤ کھاتے ہیں مجھ پر، حالانکہ قصہ دراصل یہ ہے کہ کاتب صاحب مجھ سے کئی بار کہہ چکے ہیں کہ لنکن پکوا کرفریدی کے لئے دوبارہ کیڈلاک خرید دوں۔ جب انہوں نے دیکھا کہ میرے کان پر جوں نہیں رینگتی تو جھلاہٹ میں خود ہی کیڈی کا سودا کر بیٹھے!"


اور تحریر کی پانچویں خصوصیت ابن صفی کی وسعت خیالی۔ ابن صفی کی کتابیں محض جاسوسی ناول نہیں بلکہ اپنے اندر وہ امکانات کا ایک پورا جہاں لئے ہوئے ہیں، کہیں وہ انسانی نفسیات کی گرہیں کھولتے نظر آتے ہیں اور کہیں فلسفے پر ذہانت سے بھرپور پھبتیاں کستے نظر آتے ہیں، اپنے ناولوں میں انہوں نے مستقبل کی جو پیش بینی کی وہ آج سائنسی ایجادات کی شکل میں ہمارے سامنے حقیقت بن چکی ہے۔
ان کی بیان کردہ سائنس فکشن کوئی دیوانے کی بڑ نہیں تھی بلکہ اس کا ایک پورا سائنسی خاکہ وہ یوں بیان کرتے کہ قاری مبہوت ہو کر اسے حقیقت سمجھتا۔ زیرولینڈ کے نام سے انہوں نے ایک ایسی دنیا کی تخلیق کی جو زمین کے کسی ایسے خطے پر ہے جسے تاحال دریافت نہیں کیا جا سکا۔ یہ دنیا تھریسیا کی سربراہی میں ان سائنس دانوں نے بسائی ہے جو ایک روز زمین پر اپنی حکومت بنا لیں گے۔ زیرو لینڈ کی تلاش کے حوالے سے عمران سیریز کے سات ناولوں کا ایک سیٹ ہے جس میں "باول دے سوف" نامی پینٹنگ سے قصہ شروع ہوتا ہے۔ اور تھریسیا اور سنگ ہی کی گرفتاری پر ختم ہوتا ہے۔ سیٹ ابن صفی کی ایک شاہکار تحریر ہے۔


عمران سیریز اور کرنل فریدی کی جاسوی دنیا میں سے زیادہ پذیرائی عمران سیریز کو ملی۔ جاسوسی دنیا کے کردار جیسے کیپٹن حمید، انور، رشیدہ، نیلم، فنچ اور انسپکٹر ریکھا زیادہ کامیاب نہ ہو سکے، کسی حد تک جیرالڈ شاستری کا کردار عمدہ تھا مگر ایسا نہیں کہ ذہن سے چپک کر رہ جائے۔
عوام میں عمران سیریز ہی مقبول ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ نقالی بھی عمران سیریز کی ہوئی۔ سو عوام جسے منتخب کر لیں اسے دلوں سے نکالنا ممکن نہیں ہوتا اسی لئے ابن صفی کی عمران سیریز آج بھی عوام کے ذہنوں میں تر و تازہ ہے۔ 26 جولائی 1980 کو وفات پانے والا ابن صفی 42 برس بعد بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہے۔

***
بشکریہ: روزنامہ "صحافت" ممبئی۔ شمارہ: 2/جولائی 2022ء

Ibne Safi is still alive. Essay: Yaser Peerzada

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں