زندگی کے کرب کا سلسلہ: مکرم نیاز کا افسانوی مجموعہ - راستے خاموش ہیں - از ریحان کوثر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-07-04

زندگی کے کرب کا سلسلہ: مکرم نیاز کا افسانوی مجموعہ - راستے خاموش ہیں - از ریحان کوثر

raaste-khamosh-hain-short-stories-review-by-rehan-kausar

کتاب: راستے خاموش ہیں
مصنف: مکرم نیاز
ناشر: فرح سعدیہ
سال اشاعت: 2022ء
طابع: تعمیر پبلی کیشنز، حیدرآباد 24
قیمت: 300 روپے
ضخامت: 192 صفحات


کسی بھی قسم کا فن مختلف مثبت یا منفی جذبات کے اظہار کا بہترین ذریعہ اور وسیلہ تسلیم کیا جاتا ہے اسی طرح برسوں کے مختلف ادبی تجربات و مشاہدات سے یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ فنِ افسانہ نگاری اس سلسلے کا ایک ممتاز اور مقبول وسیلہ اور سب سے معتبر ذریعہ ہے۔ خواہ وہ کوئی بھی افسانوی دور رہا ہو، برسوں مختلف افسانہ نگاروں نے اپنے خونِ جگر سے اس وسیلے کو سینچا ہے۔
ایک افسانہ نگار ہوتے ہوئے بھی میں بڑی ذمہ داری سے کہ سکتا ہوں کہ افسانہ نگاری دراصل "درد کی ایک دکان" ہی تو ہوتی ہے۔۔۔۔ جہاں افسانہ نگار مختلف رنگ و روپ میں درد و الم کو قاری کو فروخت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ شاید یہ بات کچھ عجیب سی لگے لیکن یہ حقیقت ہے کہ بازار میں "درد اور کرب" بڑی آسانی سے بکتا ہے۔ یہاں لفظ "آسانی اور فروخت" کا مطلب یہ ہے کہ قاری اس درد کے سلسلے سے بڑی ہی آسانی سے خود کو منسلک کر بیٹھتا ہے جو کہ فطری ہے۔ آخر زندگی مختلف قسم کے کرب کے سلسلے کا ہی تو نام ہے۔۔۔


اسی طرح کے مختلف کرب کا مجموعہ ان دنوں ہاتھ لگا۔ ایک ہفتے پہلے مکرم نیاز صاحب کا افسانوی مجموعہ "راستے خاموش ہیں" موصول ہوا۔ ذہن میں خیال آیا کہ فوری طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے موصوف کو ایک دو سطری رسید دے کر اس کرب سے چھٹکارا حاصل کر لیا جائے لیکن افسانوں سے غیر معمولی دلچسپی اور لگاؤ کے سبب سرسری طور پر اس کتاب کا مطالعہ شروع کیا تو پڑھتا ہی رہ گیا۔۔۔۔ درد کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ میں تبصرے کے لیے مجبور ہو گیا۔ موصوف کے ان 13 افسانوں میں سے صرف "سوکھی باؤلی" ہی اس سے پہلے فیس بک گروپ "ثالث ادبی فورم" کے ایک ایونٹ میں پڑھ چکا تھا۔


کرب کا یہ سلسلہ مجموعے میں شامل کل 13 افسانے
تیری تلاش میں، آگہی، خلیج، راستے خاموش ہیں، سوکھی باؤلی، شکست ناتمام، زمین، گلاب ، کانٹے اور کو نپل، اداس رات کا چاند، بے حس، کرن، درد لا دوا اور ایک وائلن محبت کنارے پر مشتمل ہے۔ ان تمام افسانوں کے بعد۔۔۔
تیری تلاش میں، راستے خاموش ہیں، سوکھی باؤلی، کرن اور خلیج ان پانچ افسانوں پر فیس بک قارئین اور قلمکاروں کے کل 54 تبصروں کو شامل کیا گیا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کتاب میں فیس بک گروپ کے کیو آر کوڈ بھی دیے گئے ہیں جسے اسکین کر کے چند سیکنڈ میں ہم اس کی لنک کے ذریعے مطلوبہ مواد تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔
اسی طرح تعمیر ٹیوب، تعمیر نیوز، بالیوڈ نغمے، اردو کارٹون دنیا، حیدرآباد اردو بلاگ اور سوشیو ریفارم سوسائٹی جیسی اہم اور ضروری ویب سائٹس جس سے مکرم نیاز وابستہ ہیں، ان تمام کے کیو آر کوڈ کو بھی قارئین کے لیے شائع کیے گئے ہیں۔
اس لحاظ سے یہ ہندوستان کی اولین اردو کتاب ہے جس میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے اسے مستند اور معیاری بنانے میں صاحبِ تصنیف نے کامیاب کوشش کی ہے۔


حرف آغاز کے طور پر مکرم نیاز کی تحریر "جو کہا نہیں وہ سنا کرو" کسی مکمل اور جامع افسانے سے کم نہیں! اس میں افسانے کے تمام تر لوازمات موجود ہیں۔ اس خوبصورت تحریر کے ذریعے موصوف نے ایک کامیاب تجربہ کیا ہے۔ آپ نے اپنی انتر آتما کی شکل میں افسانے کی "آتما" سے گفتگو کی ہے۔ اس دلچسپ تحریر میں افسانے کے مقصد ، افسانے میں واقعات کی ضرورت و اہمیت، کردار نگاری اور افسانے میں راوی کے کردار پر مدلل اور شاندار گفتگو کی گئی ہے۔ کہانی اور کہانی پن پر راوی اور افسانے، دونوں کی گفتگو لاجواب ہے۔ آپ نے اظہارِ تشکر بھی خوب کیا ہے۔ اس تحریر سے یادِ رفتگاں اور تشکر کے احساسات و جذبات ملاحظہ فرمائیں:
"۔۔۔ ہاں ایک احساس محرومی رہا ہے تو یہ کہ چند مشفق اساتذہ اور بزرگوں سے اپنے فن پر رائے حاصل کرنے کی وقت نے مہلت نہیں دی۔ مثلا رسالہ دوشیزہ' کراچی کے سر پرست اعلیٰ محترم سہام مرزا جنھوں نے میری قلمی حوصلہ افزائی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی مگر 2002ء میں وہ وداع ہوئے۔ اپنے مربی و مکرمی استاد پروفیسر بیگ احساس جو ستمبر 2021ء میں اپنے تمام شاگردان کو سوگوار چھوڑ گئے ۔ ادارہ الحسنات رامپور کے رسائل کے مدیر اور ترتیب کار مرتضیٰ ساحل تسلیمی جنہوں نے میری ادبی جد وجہد کو جہاں پروان چڑھایا وہیں اسے بے راہ روی سے بچایا بھی مگر اگست 2020ء میں یہ بھی راہی ملک عدم ہوئے۔ ان تینوں نے ایک وقت مجھے اپنے افسانوں کے مجموعہ کی اشاعت کی ترغیب بھی دلائی تھی اور کتاب کے لیے تقریظ لکھ کر دینے کا وعدہ بھی کیا تھا، مگر ۔۔۔"
بحوالہ: ["جو کہا نہیں وہ سنا کرو" از:مکرم نیاز، راستے خاموش ہیں، صفحہ 15]


اس افسانے نما حرفِ آغاز کا اختتام بھی خوب ہے۔ بڑے دنوں بعد کسی کتاب میں مصنف کی "اپنی بات" دل و دماغ پر سوار ہوئی۔ واقع یہ "بات"، "اپنی" ہے اور "من کی بات" کے اس عجیب وغریب دور میں مصنف کی بات میں دم بھی ہے۔ باتوں باتوں میں بات بن گئی ہے۔ بیشک یہ باتیں ایک مکمل افسانہ ہے جس میں موجود دونوں کردار لافانی ہونے کے ساتھ ساتھ آئندہ منفرد اور ممتاز شمار کیے جائیں گے۔ فن پر اس گفتگو کا آخری حصہ ملاحظہ فرمائیں:
" ہم فطرت انسانی کی بلند حقیقتوں ، جذبات اور احساسات کی نازک کشمکشوں ، خیالات اور تحریکات کے مختلف اضطراب اثر اور ہیجان پر ور صداقتوں کو اپنے افسانہ کا بہترین موضوع بنا سکتے ہیں۔ جب ہم نفسیات اور سائینٹفک حقیقتوں کے پابند رہنے کے بعد بھی اخلاق کی حدود میں رہ سکتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ان حدوں کو چھوڑ کر پستی کی طرف مائل ہوں؟ بے شک افسانہ میں حقیقت اور صداقت کا ہونالازمی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ خیال رکھنا بھی بے حد ضروری ہے کہ حقیقت، فن کی پابند رہے "۔


اس کے بعد افسانہ نگار کے فن اور ان کی شخصیت پر عمدہ گفتگو کی گئی ہے۔ اس کے تحت خاموش راستوں کا مسافر: مکرم نیاز (علامہ اعجاز فرخ)، مکرم نیاز کے افسانے: ایک ڈیڑھ بات (محمد حمید شاہد)، مکرم نیاز : علامتوں کے حصار میں (نعیم بیگ)، مکرم نیاز: اردو افسانہ نگاری کے خاموش راستوں کا مسافر (عشرت معین سیما) اور افسانہ "خلیج" : ایک تجزیہ (ڈاکٹر ارشد عبد الحمید) جیسے مدلل اور مفصل مضامین اور تبصرے شامل اشاعت ہیں۔


اب اگر بات مجموعے میں شامل تمام افسانوں پر کی جائے تو ایک چیز مشترکہ طور پر ابھر آئی ہے کہ یہ واقعی زندگی کے مختلف قسم کے کرب کا ایک سلسلہ ہے۔
سید مکرم نیاز صاحب کا یہ سلسلہ 1987ء سے جاری ہے جب آپ کا پہلا افسانہ "آزمائش" ماہنامہ بتول، رام پور میں شائع ہوا۔ اس کے بعد تقریباً 25 سال بعد آپ کا اولین افسانوی مجموعہ شائع ہوا۔ میرے پاس "دیر آید درست آید" کہنے کے سوا کچھ بھی نہیں! افسانہ "تیری تلاش میں" پر تبصرہ کرتے ہوئے کامران غنی صبا صاحب نے حیرت کا اظہار کیا ہے اور سوال پوچھا ہے کہ:
"مکرم نیاز صاحب نے فکشن سے کنارہ کشی کیوں اختیار کر رکھی ہے؟"


یہ 2017ء کا سوال ہے جس کا جواب مکرم نیاز صاحب نے اپنے پیش لفظ میں بخوبی اور افسانوی انداز میں پیش کیا ہے۔ اس مجموعے میں شامل افسانوں کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ان 25 برسوں میں سماج اور معاشرے میں بکھرے درد و الم اور کرب کو سمیٹنے میں مصروف رہے اور آج یہ کتاب منظر عام پر لائی گئی ہے۔
یہ کتاب کرشن چندر کے اس قول کے محور پر گردش کرتی ہوئی نظر آتی ہے:
"کرب چاہے کسی قسم کا ہو ، زندگی سے نکل جائے تو فن مر جاتا ہے!"


بیشک کتاب کے ہر افسانے میں موجود زندہ جاوید فن چیخ چیخ کر یہ دلیل پیش کر رہا ہے کہ یہ زندگی کے مختلف کرب کا مجموعہ اور نا ختم ہونے والا ایک سلسلہ ہے۔۔۔۔

ماخوذ بشکریہ از: الفاظِ ہند ویب سائٹ
***
ریحان کوثر۔ کامٹی، ضلع ناگپور۔ (مہاراشٹر)۔

Raaste khamosh hain, A collection of short stories by Mukarram Niyaz. - Reviewer: Rehan Kausar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں