اہل عرب اور نوادرات - مضمون از ڈاکٹر محمد ضیاءالاسلام - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-07-15

اہل عرب اور نوادرات - مضمون از ڈاکٹر محمد ضیاءالاسلام

history-of-arabs-and-their-personalities

'عرب' کو عرب کہنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ لفظ در حقیقت 'عربہ' تھا جس کے معنی بادیہ اور ریگستان کے ہوتے ہیں ، کثرت استعمال سے بعد میں عرب ہو گیا۔ اس کے مشرق میں خلیج فارس ، اور بحر عمان، مغرب میں بحر احمر ، خلیج عقبہ، شمال میں دریائے فرات اور جنوب میں بحر ہند واقع ہے۔
اہل عرب چونکہ اپنے قیام کی جگہ تبدیل کیا کرتے تھے اور اپنے ساتھ خیمے بھی رکھتے تھے اس لئے ان کو 'اہل دبر' بھی کہتے ہیں۔


عرب کا ایک مشہور شاعر طرفتہ بن عبدالبکر آل منذر کے حکم سے بحرین میں قتل کیا گیا۔


یمامہ وہ جگہ ہے جہاں زرقا نامی معروف عورت رہا کرتی تھی۔ جس کی صفت یہ تھی کہ دشمن کی فوج کو تین روز کی مسافت سے دیکھ لیتی تھی ، یہی وہ مقام ہے جہاں مسیلمہ ابن کذاب نے آخر عہد پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم میں نبوت کا دعوی کیا تھا۔


جاہلیت کا مشہور شاعر امراؤ القیس نجد کا باشندہ تھا۔ کلیب جیسا معزز جس کا قبیلہ بکر بن وائل تھا نجد ہی کا تھا۔ یہ قبیلہ نجدی تھا۔


قوم ثمو د کے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام تھے۔ ا س دور میں ایک آدمی نے جس کا نام قدار تھا حضرت ہودؑ کی اونٹنی کو ذبح کر دیا تھا۔ اسی بنا پر اس کو "اشقیٰ ثمود" کہا جاتا ہے ، جس کے معنی ہیں قوم ثمود میں بدترین۔


دعائے شاہانہ جو اعراب اپنے رؤسا کو دیتے تھے وہ "ابیت اللعن" ہے۔


جاہلیت کے عہد کا گڈ مارننگ "اَنْعِمْ صَبَاحًا" تھا۔


جاہلیت کے عہد کا گڈ ایوننگ "اَنْعِمْ ظِلَامًا" تھا۔


یارح یا یعرب عرب کا پہلا بادشاہ تھا جسے ابیت اللعن یا اَنْعِمْ صَبَاحًا کہہ کر مخاطب کیا گیا تھا۔


سد مآرب جس کو شاہان سبا نے تعمیر کیا تھا ان کی نافرمانی کی وجہ سے ٹوٹ گیا۔ اس واقعہ کو "سیل العرم" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔


زمانہ قدیم میں جب کہ مشرق عرب اور ہندوستان میں تجارت منسلک تھی، مسالہ خوشبوئیں، ہاتھی دانت ، بندر اور طاؤس وغیرہ ہندوستانی اشیاء ساحل عمان پر اتر کر وہاں سے اہل سبا بذریعہ اونٹ بحر احمر کے کنارے خشکی کے راستہ حجاز سے گزر کر شام و مصر لے جاتے تھے۔ قرآن نے اسی راستہ کو امام مبین او اسی سفر کو "رحلۃ الشتاء والصیف" کہاہے۔


جب سیل العرم آنے والا تھا تو اہل سبا مع اپنے قوم کے شہر مآرب سے کوچ کرگئے جیسا کہ مثل ہے "ذھبوا بایدی سبا" یا تفرّقُو بِاَیدی سبا" یعنی قوم سبا کی طرح تتر بتر ہو گئے۔


ابرہہ جس نے خانہ کعبہ پر چڑھائی کی تھی عیسائی تھا۔ اس نے ایک عالیشان کنیسہ تعمیر کیا تھا جس کی مثال نہ تھی۔ اسی کنیسہ کا نام 'القلیس' تھا۔


ابرہہ کا خیال تھا کہ اہل عرب کعبہ محترم کی زیارت چھوڑ کرر اس کنیسہ کی زیارت کیا کریں گے۔ اس لئے کہ یہ بہ ظاہر بہت ہی شاندار تھا مگر ایسا نہ ہوسکا جس کے نتیجہ میں ابرہہ نے کعبۃ محترم پر چڑھائی کردی۔ جیسا کہ سورہ الم تر کیف، میں یہ واقعہ مذکور ہے۔ یہ واقعہ 570ء کا ہے۔ اسے واقعہ فیل بھی کہتے ہیں اور عام فیل کے نام سے بھی موسوم ہے۔ سرکار دو جہاں رحمت کن فکاں صلی اللہ علیہ سلم کی ولادت با سعادت واقعہ فیل کے چالیس روز بعد دنیائے عالم پر جلوہ گر ہوئی۔


اسلام سے قبل قبیلہ طے میں حاتم کی سخاوت ضرب المثل ہے۔ مثل یہ ہے کہ "اکرم من حاتم طیّ" یعنی قبیلہ طے میں حاتم سخی ترین ہے۔


حکومت حیرہ کا سب سے پہلا بادشاہ مالک ازدی تھا۔ جو اتفاقاً اپنے ہی بیٹے کے ہاتھ سے ایک تیر کھا کر مر گیا۔ مرتے وقت جو شعر اس نے پڑھا تھا وہ ضرب المثل ہے۔ شعر یہ ہے:
اُعَلِّمَہُ الرّما یَتہ کُلَّ یَوْم
فَلَمَّا اشتدَّ سَاعَدَہُ رَمالِی
(یعنی میں ہر روز اسے تیر اندازی سکھلاتا تھا، جب اس کی کلائیاں مضبوط ہوگئیں تو مجھ کو ہی تیر کا نشانہ بنالیا)


نعمان الاعور وہ بادشاہ گذرا ہے جس نے ساسانی شہزادہ بہرام گور کے لئے ایک خوبصورت محل بنوایا تھا۔ یہ محل"خورنق' کے نام سے موسوم ہے۔ اسی نے ایک نہر بھی کھدوائی تھی جس کا نام "سدیر" مشہور ہے۔


عہد جاہلیت میں منذر اور حارث الاعرج میں باہم قتال شروع ہوا۔ حارث کی بیٹی حلیمہ اپنے ہاتھ سے ہرجانباز کو عطر لگا تی تھی جس کی وجہ سے وہ خوب لڑتے تھے۔ کہاجاتا ہے کہ حارث نے کہا تھا کہ جو منذر کو قتل کردے گا اس سے اپنی بیٹی بیاہ دے گا۔ بالآخر منذر مقتول ہوا ، یہ واقعہ'یوم حلیمہ' کے نام سے مشہور ہے۔


منذر ہی وہ بادشاہ تھا جس نے اپنے دونوں ندیموں خالد بن المضلل اور عمروابن مسعود کو شراب کے نشہ میں زندہ دفن کردیا تھا۔ جب ہوش میں آیا تو ان دونوں پر دو ستون بنوا دیا۔ جس کا نام "الغریان" رکھا۔ سال میں دو دن وہاں جاتا تھا۔ ایک دن کا نام 'یوم نعیم' تھا۔ اگر اس دن وہاں کوئی آتا تو بہت انعام و اکرام پاتا اور دوسرے دن کا نام'یوم بوس' تھا، اگر اس دن وہاں کوئی اس کے پاس جاتا تو اس کو قتل کرواکر اس کا خون ستون پر لگوادیتا تھا۔


عرب کا مشہور شاعر عبد بن الابرص 'یوم بوس' میں قتل ہوا۔


حنظلہ طائی جس نے ایک سال کی مہلت یوم بوس کے سلسلہ میں شریک بن عمرو کی ضمانت پر لی تھی ، ایفائے وعدہ پر رہا کردیا گیا اور منذر نے اس کے بعد یوم بوس کو بھی ختم کردیا اور خود نصرانی ہوگیا۔


نعمان بن قابوس کے درباری شاعر عہد جاہلیت میں نابغہ ذُبیانی اور منخل تھے۔ نعمان کی بیوی متجردہ بہت خوبصورت تھی۔ بادشاہ اس بارے میں نابغہ سے بد ظن ہوگیا تھا۔ اور وہ لاپتہ تھا ، حالانکہ اصل مجرم منخلّ تھا۔ ایک روز بادشاہ نے منخلّ کو متجردہ سے بات کرتے دیکھ لیا۔ تو وہ ایسا بھاگا کہ پھر اس کا پتہ نہ چلا ، مثل مشہور ہے۔"لا اَفْعَلَہُ حَتّٰی یتُوب المُنخلّ"


نعمان سوم نے اپنی ہلاکت سے قبیلہ بنی بکر کے سردار ہانی کے پاس اپنے اسلحہ جات رکھ دئے تھے۔ جب خسرو پرویز کو یہ معلوم وہا تو اس نے ہانی سے وہ تمام اسلحے طلب کئے۔ ہانی کے انکارکرنے پر کوفہ کے قریب بمقام ذوقار ایک جنگ ۶۱۰؁ء میں ہوئی۔ اس جنگ کا نام یوم ذوقار ہے۔ اس لڑائی میں عربوں یعنی سید قبیلہ بنی بکر ہانی کو فتح کامل خسرو پرویز ایرانی پر ہوئی۔ یہ پہلی لڑائی تھی جس میں عربوں کو فتح حاصل ہوئی تھی۔ اس واقعہ کے چند ماہ قبل رسول مقبول ؐ کی ولادت با سعادت ہوچکی تھی۔


ایک مرتبہ مکہ معظمہ میں قحط عظیم پڑا۔ اس موقع پر بنو ہاشم نے روٹیاں چور چور کر کے غریبوں کو کھلائیں۔ اس لئے ان کا نام ہاشم پڑ گیا۔ جس کے معنی چورہ کرنے والے کے ہیں۔


ایک حمیری بادشاہ کا قول ضرب المثل ہے۔"مَن دَخَل ظَفَار حمر" یعنی جیسا دیس ویسا بھیس۔ ظفار دولت حمیری کا پایہ تخت تھا۔


اہل عرب چونکہ اونٹوں کی کھال سے خیمے تیار کرتے تھے۔ اس لئے ان کو"اہل دبر" کہاجاتا ہے۔ اور جو لوگ چھوٹے چھوٹے گاؤں میں رہا کرتے تھے ان کو"اہل مدر" کہاجاتا ہے۔


ابو الاسود الدئلی المتوفی ۶۶؁ھ نے نقطے لگانے کے قواعد بنائے۔ یہ علم نحو کا بھی موجد تھا۔


عبدالملک بن مروان کے عہد حکومت میں حجاج بن یوسف کے حکم سے نصر بن عاصم نے نقطے ایجاد کئے۔


ظہور اسلام کے وقت صرف دس بارہ آمی لکھنا جانتے تھے۔ غزوہ بدر کے بعد تعداد بڑھتی گئی یہاں تک کہ ختم نزول قرآن تک۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین کی تعداد چالیس تک پہونچ گئی۔


دور جاہلیت کی مشہور لڑائی بنی بکر و بنی تغلب کے مابین ہوئی۔ یہ جنگ چالیس سال تک جاری رہی اور حیرہ کے بادشاہ منذر سوم کے ذریعہ موقوف ہوئی۔ یہ جنگ بسوس کے نام سے مشہور ہے۔ بسوس اور سراب کا نام ضرب المثل ہوگیا ہے جیسا کہ کہاجاتا ہے"اشامُ مِنَ البسوس" "اَشَامُ من سراب" یعنی بسوس اور سراب بدبخت ترین۔


سموال ابن عادیا جس کے پاس امراؤ القیس نے اپنے اسلحہ جات رکھ دئیے تھے اور جسے اس نے غیر حقدار کو دینے سے بچایا ضرب المثل ہوگیا ہے۔ چنانچہ مشہور ہے "اوفیٰ من السموال"یعنی سموال سے زیادہ وفادار۔


قصی پہلا شخص تھا جس نے دارالندوہ ایجاد کیا۔ جس میں شعر خوانی و قومی قضایا اور نکاح خوانی کی رسم ادا ہوتی تھی۔


عرب کے مشہور بازار جہاں اہل عرب اور ان کے تمام شعرا جمع ہوا کرتے تھے۔ اور جہاں ان کو الشعر العرب ماناجاتا تھا۔ یہ ہیں ، پہلا بازار دومۃ الجندل پھر ہجر۔ عمان۔ حضرموت اور صنعایمن۔ ذیقعدہ میں سب سے بڑا میلہ یا بازار عکاظ میں لگتا تھا۔سبعہ معلقہ اسی سے متعلق ہے۔


علامہ بن خلدون کا قول ہے کہ ابو الفرج اصبہانی جو دولت عباسیہ میں تھے ان کی کتاب"اَلْاَغَانِیْ' عرب کا دیوان ہے۔


جانے والے کا پتہ اگر نقش قدم سے لگایاجائے تو اسے عیافہ کہتے ہیں اور اگر اعضاء کی ساخت سے قبیلہ کا پتہ لگایاجائے تو اسے قیافۃ البشر کہتے ہیں۔


تعبیر رؤیا میں سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پوری دسترس حاصل تھی۔


حکماء جاہلیت کا مقولہ ہے"اخر الدواء الکے" یعنی آخری علاج داغنا ہے۔


کلام مجید میں "الشّعرُ لَحِکْمَۃٌ فَاِذا لیس عَلَیکم شَیئٌ من القراٰن فَالتَمسُوْہ فی الشّعر" (شعر البتہ حکمت ہے ، پس اگر تم کچھ کلام مجید میں نہ پاسکو تب شعر میں تلاش کرو)


لوگوں کا قول یہ ہے اِنّ الاشعار دیوان الجاھلیۃ بیشک اشعار دور جاہلیت کا دیوان ہیں۔


عربوں کا حافظہ مشہور ہے۔ جس چیز کو ایک بار دیکھ لیا یا سن لیا وہ ہمیشہ کے لئے یاد ہوگیا۔ مثال کے طور پر ابو تمام مولف حماسہ کو چودہ ہزار نظمیں زبانی یاد تھیں۔ حماد کو ہر ایک حرف تہجی کے ایک ایک ہزار قصیدے یعنی کل ستائیس ہزار قصائد یاد تھے۔ اصمعی سولہ ہزار نظموں کا حافظ تھا۔ ابو ضمضم نے ایک بار ایسے سو شعرا کے اشعار نقل کئے جن میں سے ہر ایک کا نام عمرو تھا۔


جاہلیت کا باکمال شاعر نابغہ ذہیانی کا یہ مصرعہ فَقَدْ نَبغَتْ لنا مِنھُم شُوقٌنے اس کو نابغہ کا لقب دے دیا۔


سردات تین پہاڑی سلسلوں کا نام ہے۔ اسی وجہ سے اہل نجد کو شعرو شاعری میں بقہ سر زمین عرب کے رہنے والوں پر فوقیت حاصل ہے۔


کہاجاتا ہے کہ چالیس فیصدی شعرائے جاہلیت نجد میں دس فیصد ی حجاز میں اور اسی قدر یمن میں اور بقیہ عراق و بحرین میں ہوئے۔


کہاجاتا ہے کہ اہل نجد بلاغت میں اور اہل حجاز فصاحت اور رقت کلام میں ممتاز ہوئے۔


مروان بن محمد کے عہد حکومت میں عبدالحمید بن یحیی ایک کاتب واحد العصر ہوا ہے جسکا ثانی کوئی نہیں تھا۔ اس کے متعلق ضرب المثل ہے۔


"فُتحت الرّسلَ بعبد الحمید وخُتِمَت بابن الحمید"


یعنی رسل و رسائل عبدالحمید ہی سے شروع ہوئے او ر پر ختم ہوگئے۔


حطیہ شاعر مخضرمین میں سے تھا(یعنی دور جاہلیت و دور اسلام دونوں پایا) اس نے سب سے پہلے مسلمانوں کی ہجو کی بعد میں خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق ؓ کی تنبیہ سے کچھ راہ راست پر آیا بنو امیہ میں یہ شکایت عام ہوگئی۔


عربی شاعری میں پہلا مدح خواں نابغہ ذبیانی تھا۔ پھر اعمی، بنو امیہ میں مدح خوانی عام ہوگئی۔


مشہور و معروف راوی حما د کہاکرتا تھا کہ اخطل کے شعر کی وجہ سے مجھے نصرانیت سے شغف ہوگیا ہے۔ ایک ممتاز ادیب کا قول ہے کہ اگر اخطل دور جاہلیت کا ایک دن بھی دیکھ لیتا تو میں اسے تمام شعرائے جاہلیت پر ترجیح دیدیتا۔ یہ ہجو گوئی کا سودا تھا۔ مرثیہ یرقادر نہ تھا۔


کہاجاتا ہے کہ اگر فرزدق نہ ہوتا تو زبان عربی کا ایک تہائی حصہ ضائع ہوجاتا۔ اس نے مدہوشی میں اپنی محبوبہ جس کا نام نوار تھا طلاق دیدی اور ہوش آنے پر نادم ہوا۔ چنانچہ مثل ہوگئی۔"غَشَیتَنِی ندامت الفرزدق حِینَ اَبانَ النّوار والکسَعی حین سبّان الندا"یعنی فرزدق نوا کی جدائی جو عالم مدہوشی میں ہوئی اس پر شرمندہ ہوا اور کسعی جب کہ دن ظاہر ہوا۔


بقول ایک ممتاز نقاد سخن، عربی شاعری امراؤ القیس سے شروع ہوکر ذوالرمۃ پر ختم ہوتی ہے۔ یعنی یہ آخری شاعر ہے جس میں شعرا نے جاہلیت کی خصوصیات ملتی ہیں۔ ذوالرمۃ شاعر ناخواندہ تھا۔


قواعد کی غلطی کو لحن کہتے ہیں۔ ایک مرتبہ امام اعظمؒ سے بھی لحن سرزاد ہوا مگر اس سے آپ کے فضل و کمال پر حرف نہیں آتا۔


علم نحو کی باقاعدہ تہذیب و تکمیل خلیل بن احمد نے خلیفہ ہارون الرشید کے عہد میں کیا۔


تاریخ دانی کی سب سے پہلی کتاب عبید بن شریہ نے حضرت معاویہؓ کے زمانہ میں لکھی۔


جغرافیہ کی سب سے پہلی کتاب ابو زیاد کلابی نے دوسری صدی ہجری کے آخر میں عباسی دور میں مرتب کیا۔ اس کتاب کا نام کتاب النوادر ہے۔


ابن آثال نے سب سے پہلے حضرت معاویہ ؓ کے لئے یونانی زبان سے علم طب کی کئی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا۔ یہ پہلا ترجمہ تھا جو اسلامی عہد میں کیا گیا۔


حضرت عبداللہ بن عمرؓ جس بیاض میں حدیثیں لکھ لیا کرتے تھے اس کا نام صادقہ تھا۔


ابراہیم نخعی نے فقہ کو بہت وسیع کیا۔ یہاں تک کہ انہیں فقیہہ العراق کا لقب مل گیا۔ اور حدیث میں ضمیر فی الحدیث کہے جانے لگے۔


فن مغازی کی سب سے پہلی کتاب عروہ بن زبیر المتوفی ۹۴ ھ نے لکھی۔


عرقوب ایک شدید کاذب عرب کا تھا۔ جس نے کبھی اپنا وعدہ وفا نہیں کیا۔ اور ہمیشہ جھوٹ بولتا رہا۔ اعراب اسے بڑا کاذب خیال کرتے تھے۔ یہاں تک کہ مثل مشہور "وعدہ کوَعد عُرقوب"


ابراہیم نخعی کے شاگرد حماد نہایت ممتاز تھے اور حماد کے شاگرد حضرت امام ابو حنیفہؒ تھے۔


***
ماخوذ از کتاب: روشن مینار
مصنف و ناشر: ڈاکٹر محمد ضیاءالاسلام، گورکھپور (سن اشاعت: 1988ء)

The history of Arabs and their personalities. Essay: Dr. Mohd Zia ul Islam

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں