بڑے لوگوں کا المیہ کیا ہے کہ انہیں جو بھی ملتا ہے وہ انہیں اپنے فائدے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں جو اپنے ذاتی مفاد کو تج کر کسی کے دل سے ہو لیتے ہیں۔ آپ یقین نہیں کریں گے کہ جب میں دلیپ صاحب کے ساتھ جڑا ہوا تھا تو مجھے دو فلموں کی آفر ملی، بحیثیت رائٹر ڈائریکٹر کے۔ میں نے دونوں آفر ٹھکرا دئیے۔ بات بھروسے کی تھی۔ وہ مجھے یہ فلمیں اس لئے آفر کررہے تھے کہ میں دلیپ صاحب کا چہیتا تھا۔ وہ دلیپ صاحب کے نام سے فیض اٹھانا چاہتے تھے۔ میں اسے سراسر بے ایمانی سمجھ رہا تھا۔ اپنی اپنی سمجھ کی بات ہے۔ میری یہ ضد تھی کہ جو بھی کروں گا اپنے بل بوتے پر کروں گا۔ کسی کے نام کا غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کروں گا۔ اس ایمانداری کا یہ صلہ ملا کہ فلم والوں نے اس کے بعد کام دینا ہی بند کر دیا۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دن آسٹریلیا سے نریش نام کے ایک آدمی کا میرے پاس فون آیا۔ وہ مجھ سے ملنا چاہتا تھا۔ میرے من میں لڈو پھوٹنے لگے۔ میں نے سوچا کہ کوئی NRI ہے جو مجھ سے فلم بنوانا چاہتا ہے۔ وہ کم بخت جب تک نہیں ملا میں نئے نئے خواب بنتا رہا۔ آخر خدا خدا کر کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوگئیں اور وہ ایک دن ایک دو تحفے لے کر میرے دفتر میں حاضر ہوا۔ اسے دیکھ کر میرا دل بہت دیر تک دھڑکتا رہا۔ سوچا پتا نہیں کہ کیا مژدہ سنانے والا ہے۔ جب کفر ٹوٹا تو میں ٹھس سے نیچے بیٹھ گیا۔ پتا چلا کہ آسٹریلیا کی ایک خاتون ہے جو دلیپ صاحب کی زبردست فین ہے اور ایک بار دلیپ صاحب کا دیدار کرنا چاہتی ہے۔
کچھ دیر تک میں آنا کانی کرتا رہا۔ جب اس نے میرا پیچھا نہ چھوڑا تو مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق مجھے ہامی بھرنی پڑی۔ وہ اگلے دن اس خاتون کے ہمراہ آنے کا وعدہ کر کے چلا گیا۔ میں شش و پنج میں پڑ گیا۔ سوچا یہ خاتون کون ہے۔ کیا سائرہ جی کے ہوتے ہوئے اس کی ملاقات دلیپ صاحب سے ممکن ہے۔ میں رات بھر اسی ادھیڑ بن میں پڑا کروٹیں بدلتا رہا۔
اگلے روز جب میں آفس میں پہنچا تو ایک عمر رسیدہ ، پر بے حد خوبصورت خاتون کو دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا۔ مجھے لگا کہ میں نے اپنی رسوائی کا سامان خود ہی پیدا کرلیا ہے۔ میں بڑا حساس اور جذباتی آدمی ہوں۔ چہرے سے آدمی کے دل کی بات پڑھ سکتا ہوں۔ ایک عورت اتنی دور سے چل کر آئی تھی۔ انسانیت کے ناتے میرا یہ فرض بنتا تھا کہ میں اس کے ساتھ پیار سے پیش آؤں۔
نریش نے جب اس خاتون سے میرا تعارف کرایا تو میں اسے ازراہ مروت آفس میں لے آیا۔ چائے ، شربت سے اس کی خاطر تواضع کی۔ بہت جلد وہ مجھ سے گھل مل گئی۔ پتا چلا کہ وہ ایک آرمینین خاتون ہے۔ ایک بار اس نے محبوب خان کی فلم "آن" دیکھی۔ یہ فلم آرمینی زبان میں ڈب ہوئی تھی۔ اس زبان میں اس کا ٹائٹل "منگلا" رکھا گیا تھا۔(فلم میں نمی کا نام منگلا تھا) کاسٹنگ میں دلیپ کمار کا نام فلپ کمار لکھا گیا تھا۔ اینا (یہ اس خاتون کا نام تھا) نے جب یہ فلم دیکھی تو دلیپ کمار پر فدا ہو گئی۔
ان دنوں وہ ایک دم جوان تھی ، خوبصورت تھی۔ وہ اپنے خوابوں کے شہزادے فلپ کمار کی تلاش میں بمبئی چلی آئی۔ لوگوں سے پوچھا۔ اسٹوڈیو کے چکر لگائے مگر اسے اپنے خوابوں کا شہزادہ فلپ کمار کہیں نہیں ملا۔ وہ اگر فلم کا اصلی نام بھی جانتی تو اس کی مشکل آسان ہو سکتی تھی مگر نام میں بھی لوچا تھا۔ یہاں نہ کوئی فلپ کمار کو جانتا تھا اور نہ ہی کسی نے "منگلا" فلم کے بارے میں سنا تھا۔ (وہ منگلا بھی صحیح ڈھنگ سے بول نہیں پا رہی تھی منگلا کو منگالا کہتی تھی) آخر ایک مہینے تک ممبئی کی خاک چھاننے کے بعد جب کچھ بھی اس کے ہاتھ نہ آیا تو وہ مایوس و نامراد اپنے وطن واپس لوٹ گئی۔
اس بیچ اس کی شادی ہوئی۔ اس نے پہلی ہی رات کو اپنے شوہر کو صاف لفظوں میں بتادیا کہ وہ فلپ کمار سے جنون کی حد تک پیار کرتی ہے۔ وہ بھلے ہی اس کی بیوی بن چکی ہے پر وہ یہی تصور کرے گی کہ وہ جسمانی اور روحانی طور پر اسی کے ساتھ ہے جسے وہ دیوانگی کی حد تک چاہتی ہے۔ اس کا شوہر بھی بڑا دل دار اور وسیع القلب تھا۔ اس نے اس کے جذبات کو سراہا اور کوئی ایسی بات نہ کی جس سے اس کے دل کو ٹھیس پہنچے۔
اسی بیچ اینا آسٹریلیا آگئی۔ ایک دن وہ ایسے ہی گھومتے گھماتے نریش کی دکان کے پاس آ کے رک گئی جہاں ہندی فلموں کے کیسٹ ملتے تھے۔ اینا نے اس سے فلم "منگالا" کا کیسٹ مانگا۔ نریش نے اپنے رجسٹر کو خوب کھنگالا مگر "منگلا" نام کی کوئی فلم اس پورے رجسٹر میں کہیں دکھائی نہ دی۔ دل برداشتہ ہوکر وہ ایک ایک کیسٹ بیٹھ کر دیکھنے لگی۔ اچانک اس کی خوشی اور حیرت کا کوئی ٹھکانا نہ رہا جب اس کے ہاتھ "آن" کا کیسٹ لگا۔ وہ دیوانہ وار اس کیسٹ کو چومنے لگی۔ خوشی کے مارے اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ اس فلم کے پیچھے اس نے کس قدر خاک چھانی تھی اس نے نریش کو اپنے دل کی کیفیت سے آشنا کر دیا اور اس نے یہ وعدہ لیا کہ وہ اسے انڈیا لے جاکر دلیپ کمار سے ایک بار ملا دے گا۔ نریش نے فلم ڈائریکٹری سے میرے آفس کا نمبر ڈھونڈ نکالا تھا اس طرح نریش نے مجھ سے رابطہ قائم کیا تھا اور مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
یہ اپنی نوعیت کی ایک انوکھی لو اسٹوری تھی اور اس لو اسٹوری کے ٹوٹے تار کو جوڑنے کا ذمہ مجھے سونپا جا رہا تھا۔ میں محبت کرنے والوں کا امین ہوں، پر یہ جو عشقیہ داستان تھی اس میں ملن کم اور جوکھم زیادہ نظر آ رہا تھا۔ میں کیا کروں مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایک طرف اینا کی تڑپ اور دوسری طرف میری مجبوریاں۔ یہ تو ایک آگ کا دریا تھا جسے پار کرنا اتنا آسان نہ تھا۔ اینا بھی اب کے طے کرکے آئی تھی کہ وہ دلیپ کمار سے مل کے ہی جائے گی چاہے دنیا اِدھر ادھر ہو جائے۔ میں نے اینا سے دو دن کی مہلت مانگی۔ وہ خوشی خوشی نریش کے ساتھ چلی گئی مگر میں اضطراب اور تذبذب کے بھنور میں ہچکولے کھانے لگا۔
میں اسی دن شام کے وقت صاحب سے ملنے سائرہ جی کے بنگلے پر چلا گیا۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں اصلی مدعے پر آگیا۔ میں نے دلیپ کمار صاحب سے کہا کہ ایک خاتون آسٹریلیا سے خاص طور پر ان سے ملنے چلی آئی ہے۔ اسے صرف پانچ منٹ چاہیں۔ وہ بس ان سے مل کر چلی جائے گی۔ دلیپ صاحب سوچ میں پڑ گئے۔ ان کی یہ پراسرار خاموشی میرے لئے سوہان روح بنتی جا رہی تھی۔ وہ بہت دیر تک خاموش رہے۔ میں نے ایک بار پھر اپنی بات دہرائی۔ وہ میری طرف مشکوک نظروں سے دیکھ کر بولے:
"کیوں مجھے آپ مشکل میں ڈالنا چاہتے ہو؟"
میں نے انہیں یقین دلاتے ہوئے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ وہ خاتون پانچ منٹ مل کر چلی جائے گی۔ کافی سوچ بچار کے بعد آخر کار انہوں نے ملنے کے لئے ہامی بھرلی۔ میں نے اس وقت نریش کو فون کرکے اطلاع دی۔
اگلے دن ہم بغل کی بلڈنگ میں شوٹنگ کر رہے تھے کہ ایک نوکر میرے پاس یہ خبر لے آیا کہ اینا نریش کے ساتھ نیچے کھڑی ہے۔ پتا نہیں اینا کے نام سے مجھ پر لرزہ کیوں طاری ہوگیا۔ میں سوچنے لگا کہ اینا پاگل پن کی حد تک دلیپ صاحب کو چاہتی ہے۔ اگر اس نے کوئی ایسی ویسی حرکت کی تو میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا۔
میں کیا کروں مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ میری حالت تو اس سانپ سے بدتر تھی جس کے منہ میں چھچھوندر ہو۔ جسے وہ نگلے تو اندھا، اگلے تو کوڑھی۔ میں عجیب مشکل سے دوچار تھا۔ نہ ہی میں سامنے آنے کی حالت میں تھا اور نہ ہی پیچھے ہٹنے کی پوزیشن میں۔آگے پیچھے کے راستے مجھے مسدود نظر آرہے تھے۔ میں نے کافی سوچ بچار کے بعد ان کے گھر کے ہی ایک آدمی کو اعتماد میں لیا اور اس کے ساتھ نریش اور اینا کو روانہ کردیا۔
جونہی دلیپ صاحب اینا سے ملنے نیچے اتر آئے تو میں اپنے دل کو تھام کر ایک کونے میں چھپ کر کھڑا رہا۔ وہ آدھے گھنٹے تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ اینا نے اپنے محبوب کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ جب تک دلیپ صاحب کے پاس بیٹھی رہی بہت ہی ڈھنگ اور قاعدے سے بیٹھی رہی۔ اس میٹنگ کے دوران سائرہ جی برابر موجود رہیں، مگر اینا نے کوئی غیر اخلاقی حرکت نہیں کی، جس کا مجھے اندیشہ تھا۔
خدا خدا کر کے یہ میٹنگ آدھے پونے گھنٹے کے بعد اختتام پذیر ہوئی۔ اینا کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی اور میری بات بھی رہ گئی۔ سب سے خوش کن بات یہ تھی کہ ہم سب کی عزت سلامت رہی۔
ماخوذ از کتاب: دلیپ صاحب (سنیما سلطنت کا اکلوتا سلطان)
مصنف: دیپک کنول۔ ناشر: پرائم ٹائم پبلی کیشنز ، لاہور (سن اشاعت: 2008ء)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں