ہندوستان میں انصاف کی بات - کالم از شکیل رشید - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-07-17

ہندوستان میں انصاف کی بات - کالم از شکیل رشید

insaaf-ki-baat-shakeel-rasheed

انصاف کا حصول دن بہ دن مشکل ہوتا جا رہا ہے!

اندیشہ ہے کہ کہیں مستقبل میں کسی دن ، ملک میں انصاف کی مانگ پر ' پابندی ' نہ لگا دی جائے ، کہ یہ پابندیوں کا ہی دور ہے ! دیکھ لیں کہ اب پارلیمنٹ میں 'کرپٹ' کو ' کرپٹ ' کہنا ، اور پارلیمنٹ کے احاطے میں حکومت کی بےحسی اور بدعنوانی کے خلاف مظاہرہ کرنا تک ، ممنوع قرار دے دیا گیا ہے !
خیر چھوڑیے اس ذکر کو ، واپس پلٹتے ہیں انصاف کی طرف ، کہ بات اسی سے شروع ہوئی تھی۔ آج ایک خبر دیکھی ، ایک گاندھیائی کارکن ہمانشو کمار پر 5 لاکھ روپیہ جرمانے کی خبر۔ خبر کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے ٖفیصلے میں صرف جرمانہ ہی نہیں عائد کیا ، چھتیس گڑھ حکومت کو حکم بھی دیا ہے کہ " مجرمانہ سازش " کے لیے کمار اور 12، دیگر کے خلاف کارروائی کی جائے۔


معاملہ چھتیس گڑھ ریاست کا ہے۔ 2009ء میں وہاں کےدانتے واڑہ علاقہ میں مبینہ طور پر سیکورٹی فورس کے جوانوں کے ہاتھوں دس قبائیلی ہلاک کر دیے گیے تھے۔ ہمانشو کمار ، جو عرصے سے قبائلیوں کے درمیان کام کرتے چلے آ رہے ہیں ، اور ان کے ساتھیوں نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی پیش کی تھی ، کہ ہلاکتوں کی تحقیقات کرائی جائے اور مہلوکین کے اعزاء کو 5 پانچ لاکھ روپیے بطور معاوضہ دیے جائیں۔
مرکزی حکومت نے اس معاملے کو " بائیں بازو کی انتہا پسندی " سے جوڑ کر عدالت سے کہا ، کہ یہ جو درخواست گزار ہیں یہ " تحریکی افراد " ہیں اور یہ " بائیں بازو کے انتہاپسندوں " کو " تحفظ " دینا چاہتے ہیں۔ لہٰذا حکومت کی بات مان کردرخواست ، جو 2009ء سے عدالتِ عظمیٰ کے سامنے پڑی تھی ، مسترد کر دی گئی ، اوردرخواست گزاروں کو نہ صرف " جھوٹا " قرار دے دیا گیا بلکہ 5 لاکھ روپیے جرمانہ کے ساتھ ، ریاستی حکومت کو یہ مشورہ بھی دے دیا گیا کہ وہ " مجرمانہ سازش " کے اس معاملے میں ، ان کے خلاف جو بھی مناسب قدم اٹھانا چاہے ، اٹھا سکتی ہے۔
یہ فیصلہ جسٹس اے ایم کھانولکر اور جسٹس جے بی پارڈی والا کی ڈیویژن بنچ کا ہے۔ جسٹس پارڈی والا کا نام ابھی گزشتہ دنوں اس وقت موضوع بحث بنا تھا جب انہوں نے جسٹس سوریہ کانت کے ساتھ مل کر گستاخ نوپور شرما کی ایک درخواست ، کہ ان کے خلاف ملک بھر میں درج ایف آئی آر کو ایک جگہ جمع کردیا جائے ، رد کر دی تھی۔ ان پر بڑے تیکھے تبصرے کیے گیے تھے۔


جسٹس کھانولکر کا نام بھی گزشتہ دنوں موضوع بحث تھا ، یہ وہی جسٹس ہیں جنہوں نے ذکیہ جعفری کی درخواست کو ، جو گجرات فسادات میں وزیرِ اعظم کو ' کلین چٹ ' دیے جانے کے خلاف تھی ، خارج کر دیا تھا ، اور حقوقِ انسانی کی معروف کارکن تیستا سیتلواڈ کے خلاف ، گجرات حکومت کو ، کارروائی کی ، اسی طرح ' آزادی ' دے دی تھی ، جیسے کہ چھتیس گڑھ کی حکومت کو دی ہے۔ عدالت عظمیٰ کا مشاہدہ تھا کہ ان لوگوں ( تیستا سیتلواڈ ، سنجیو بھٹ اور آر بی سری کمار ) نےگجرات فسادات کے معاملے کو اپنے " پوشیدہ منصوبے " کے لیے " ابلتاہوا " رکھا اور " ان تمام ملوث افراد کو اس عمل کے لیے کٹہرے میں کھڑا کرنے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ " اور تیستا سیتلواڈ کو سابق ڈی جی پی گجرات آر بی سری کمار کے ساتھ دوسرے ہی روز گجرات پولیس نے گرفتار کر لیا۔


ایک خبر مزید سن لیں ، سنجیو بھٹ ویسے ہی 2011ء سے معتوب ہیں ، جیل ان کا ٹھکانہ ہے ، اب ذکیہ جعفری کی درخواست کو رد کیے جانے کے بعد ان پر مزید مقدمات تھوپ دیے گیے ہیں۔ الزام ہے کہ انہوں نے ، اور آر بی سری کما ر و تیستا سیتلواڈ نے " گجرات فسادات سے متعلق شہادتیں گڑھیں ، جعلی دستاویزات بنائے تاکہ بےقصوروں کو پریشان کیا جائے۔"
یہ بے قصور کون ہیں؟ مودی اور وہ دیگر سیاست داں جن کی جانب گجرات فسادات کرانے کے لیے انگلیاں اٹھتی رہی ہیں۔ سپریم کورٹ ، ہائی کورٹ اور نچلی عدالتوں کی نظر میں ان افراد کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہی " انصاف " ہے۔ ان افراد کا واقعی قصور کیا ہے؟ آئیں اس سوال کا کچھ جواب جاننے کی کوشش کی جائے۔


تیستا سیتلواڈ ، سنجیو بھٹ اور آر بی سری کمار کا واقعی قصور صرف یہ ہے ، کہ انہوں نے گجرات فسادات کے حقائق پر سے پردہ ہٹانے کی ، اور مظلوموں کو انصاف دلانے کی اپنی بھر کوشش کی تھی۔ تیستا سیتلواڈ نے اپنی این جی او ' سی جے پی ' کے ذریعے ، ذکیہ جعفری کےساتھ ایک لیو پٹیشن داخل کی تھی جس میں یہ درخواست کی گئی تھی کہ 2002ء کے گجرات تشدد میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں نریندر مودی ( اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ اور آج ہندوستان کےوزیر اعظم ) اور 62 دیگر سیاست دانوں اور سرکاری افسران کے خلاف فوجداری مقدمہ کیا جائے۔ تیستا نے ، مجرمانہ سازش کی اپنی شکایت میں الزام لگایا تھا کہ گودھرا سانحہ کے بعد 27، فروری 2002ء کو اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ مودی نے ، سینئر پولیس افسران اور اہلکاروں کی ایک میٹنگ میں ، جو انہوں نے خود بلائی تھی ، " ہندوؤں کو اپنا غصہ نکالنے دو " کی ہدایت جاری کی تھی۔
تیستا کے مزید کچھ الزامات تھے ؛ گودھرا کے متاثرین کی لاشوں کی پریڈ کروا کر جذبات کو ہوا دینا ، پولیس کنٹرول روم کو کابینہ کے وزراء کے زیر انتظام دینا ، پولیس تحقیقات میں گڑ بڑ کرنا ، وی ایچ پی کے افراد کو سرکاری وکیل مقرر کرنا ، ایم کے ٹنڈن اور پی بی گونڈیا جیسے پولیس افسران کو ، جن پر فرائض سے غفلت کے سنگین الزامات تھے ، جس کے نتیجے میں گلبرگ سوسائٹی ، نرودا پاٹیا اور احمد آباد کے نرودا گام میں دو سو سے زیادہ مسلمان مارے گیے ، ترقی دینا ، ایماندار پولیس افسران کو سزا دینا ، انٹیلی جنس انتباہات کو نظر انداز کرنا ، اور قتل عام سے متعلق ریکارڈ کو تباہ کرنا وغیرہ۔


ذکیہ جعفری اپنے شوہر ، کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کے قاتلوں کو سزا دلانے کی لڑائی لڑ رہی تھیں۔ سب ہی جانتے ہیں کہ 27، فروری 2002ء کو احمدآباد کی گلبرگ ہاؤسنگ سوسائٹی میں جب بےقصوروں کا قتلِ عام ہو رہا تھا ، تب پولیس آنکھیں بند کیے ہوئے تھی۔ گلبرگ ہائوسنگ سوسائٹی قتل عام میں ایک اسپیشل کورٹ پہلے ہی 24 افراد کو ، جن میں بھاجپائی اور وی ایچ پی کے لیڈران اور رضاکاران شامل تھے ، سزائیں دے چکی ہے ، انہیں مجرم مان کر عدلیہ پہلے ہی گویا یہ قبول کر چکی ہے کہ 2002 کے مسلم کش فسادات میں سنگھ پریوار بھی شامل تھا ، اور بی جے پی بھی شامل تھی۔


یہ مان لینا اپنے آپ میں ، اس وقت کی گجرات کی بھاجپائی سرکار کے ، فسادیوں کے ساتھ ملوث ہونے کا پختہ ثبوت تھا۔ اور یہ ممکن صرف ذکیہ جعفری اور تیستا کی ہمت کے نتیجہ میں ہو سکا تھا۔ مگر اس کے بعد بھی ، مرحوم احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری عزم اور استقلال کے ساتھ کیس لڑتی چلی آرہی تھیں۔ یہ کیس صرف ان کےشوہر ، احسان جعفری کے قتل کا ہی نہیں ، ان بے شمار بے گناہ افراد کے قتل کا بھی کیس تھا جو 28 فروری 2002 کے روز گلبرگ ہاؤسنگ سوسائٹی میں جعفری خاندان کے مکان میں پناہ لیے ہوئے تھے ، او رجنہیں یہ یقین تھا کہ ایک کانگریسی لیڈر کے مکان میں پناہ لینے سے ان کی زندگی بچ سکتی ہے۔
بے شمار عورتیں ، بوڑھے ، بچے اور جوان جنہیں ایک ہزار سے زائد افراد کی فسادی بھیڑ نے بے رحمی کے ساتھ ذبح کر دیا۔ احسان جعفری کی تو لاش تک نہیں مل سکی تھی۔ بھیڑ نے انہیں ننگا کرکے سوسائٹی میں گھسیٹا ، پھر ان کی بوٹی بوٹی کی اور انہیں جلا دیا۔
ذکیہ جعفری اس قتلِ عام کا قصوروار مودی ہی کو سمجھتی تھیں ، اسی لیے وہ کیس لڑ رہی تھیں ، وہ مودی کو دی جانے والی " کلین چٹ " کے خلاف عدالت گئیں ، لیکن اب یہ درخواست اور اسی کے ساتھ یہ مقدمہ اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ لیکن کچھ " عناصر " ہیں جو تیستا سیتلواڈ کے " الزامات " کو فراموش نہیں کر سکے ہیں ، اور ہر حال میں تیستا کو "سزا " دلانے یا سزا دینے پر اتارو ہیں ، اسی کے نتیجے میں وہ سلاخوں کے پیچھے ہیں۔


سنجیو بھٹ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ سچ کا زبان سے ادا کرنا ان کے لیے گناہ بن گیا ہے۔ وہ کیا سچ ہے جس کی سزا سنجیوبھٹ کو پہلے برطرفی اور پھر اسیری کی شکل میں دی گئی ہے؟ اس سوال کا جواب ہے گجرات 2002ء کے فسادات میں مودی کا نام لینا۔ سنجیوبھٹ نے عدالت کے سامنے ایک ' حلف نامہ' پیش کیا تھا جس میں انہوں نے اس وقت کے گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو گجرات کے فسادات میں ملوث ہونے کا قصوروار قرار دیا تھا۔
'حلف نامہ' میں بھٹ نے تحریر کیا تھا کہ مودی نے اپنی رہائش گاہ پر سرکاری افسروں کی ، جن میں اعلیٰ پولس اہلکار بھی شامل تھے ، ایک میٹنگ طلب کی تھی جس میں انہوں نے یہ ' حکم' دیا تھا کہ ' ہندوؤں کو غصہ نکالنے دیا جائے ' یعنی انہیں تشدد اور ماردھاڑ سے نہ رو کا جائے۔ یہ ' حکم ' ایک طرح سے تمام پولس والوں کیلیے ایک طرح کا عندیہ تھا کہ وہ فسادات پر قابو پانے کے اپنے فرائض کو انجام دینے میں عجلت سے کام نہ لیں ، اقلیتی فرقے یعنی مسلمانوں کے خلاف ہندو جس طرح بھی اپنے غصے کو نکالنا چاہتے ہیں اسے نکالنے دیں۔


سنجیو بھوٹ نے اپنے ' حلف نامہ' میں تحریر کیا تھا کہ انہوں نے 27 ، فروری 2002ء کے روز مودی کی رہائش گاہ پر ہوئی میٹنگ میں خود شرکت کی تھی اور مذکورہ ' ہدایت ' خود سُنی تھی۔ آج سنجیو بھٹ سلاخوں کے پیچھے ہیں ، اور پتہ نہیں کب تک قید میں رہیں ، کیونکہ ان کی درخواست پر انصاف کا مندر کہلانے والی عدالتیں بھی شنوائی نہیں کر رہی ہیں۔
آر بی سری کمار کا قصوار بھی وہی ہے جو تیستا اور سنجیو بھٹ کا ہے۔ آر بی سری کمار نے تو انگریزی میں گجرات فسادات کے حقائق کو بے نقاب کرنے کے لیے ایک پوری کتاب ہی لکھ دی Gujrat Behind The Curtain جس کا اردوترجمہ ' پس پردہ گجرات ' کے نام سے ' فاروس میڈیا ' نئی دہلی (ترجمہ: سید منصورآغا) نے شائع کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب کے ذریعے اپنی اُس لڑائی کو ، جو فسادات کے دوران اور بعد میں وہ لڑتے رہے ہیں ، آگے بڑھایا ہے۔


کتاب کی بنیاد ایسے دوحقائق پر رکھی گئی ہے جسے سنگھی ٹولہ ابتدا ہی سے جھٹلاتے چلاآرہاہے۔ ایک تویہ کہ " فسادات منصوبہ بند تھے " اوردوم یہ کہ " فسادیوں اورمجرموں کو بچانے کے لیے سرکاری مشنری کاغیر قانونی اورغیرآئینی استعمال کیاگیا ـ" آربی سری کمار کا کہنا ہے کہ مجرموں اورفسادیوں کو بچانے کے لیے قانون سے کھلواڑ کیا گیا ، قانون کو توڑا مروڑا گیا اورجن ہاتھوں میں نظم ونسق کی ذمہ داری تھی ، سیاسی آقاؤں نے ان ہی ہاتھوں کو یہ ذمہ داری سونپ دی کہ مجرموں اورفسادیوں کو بچانے کے لیے وہ جیسے بھی چاہیں قانون کی دھجیاں اڑائیں۔ آربی سری کمارفسادات کے ایام میں گجرات میں ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کی ذمہ داری نبھا رہے تھے ، وہ محکمہ خفیہ کے سربراہ تھے۔ جب انہوں نے یہ دیکھا کہ فسادات دانستہ کرائے جا رہے ہیں ، منصوبہ بند ہیں اورساری سرکاری مشنریوں کا استعمال ایک فرقے کے خلاف کیا جا رہا ہے، اور کیا سرکاری افسران اورکیا پولیس افسران ، سب ہی حکومت کے ہاتھوں کاکھلونا بنے ہوئے ہیں ، تب انہوں نے آواز اٹھائی ، اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندرمودی کو للکارا ، فسادیوں کو بے نقاب کرنے کی مہم شروع کی۔
انہیں سرکاری عتاب جھیلنا پڑا ، انتقامی تبادلے کے عذاب سے وہ گذرے ، مقدمہ ہوا مگرانہوں نے حق اورسچ سے منہ نہیں موڑا اور آج تک وہ گجرات 2002ء کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ اب یہ لڑائی جیل سے لڑی جا رہی ہے۔ یہ سب لوگ ، جو آج سلاخوں کے پیچھے ہیں سوال کرتے اور جواب چاہتے تھے ، ان میں آلٹ نیوز کے محمد زبیر بھی شامل ہیں اور آنند تیلتمبڑے ، سدھا بھاردواج ، گوتم نولکھا بھی ، لیکن اب انہیں اور ان ہی کی طرح بے شمار دوسرے کارکنان کو ، جیل میں ٹھونس دیا گیا ہے ، تاکہ یہ بول نہ سکیں۔


سوال یہ ہے کہ پھر بولے گا کون ،کون مظلوموں کے لیے ، غریبوں کے لیے ، اقلیتوں اور بے بسوں کے لیے آواز اٹھائے گا ؟؟ اس سوال کا جواب یہ سرکار یقیناً نہیں دے گی کیونکہ یہ حکومت تو چاہتی ہی یہی ہے کہ کوئی نہ بول سکے۔ اسی لیے خدشہ ہے ، کہ کہیں انصاف کا دروازہ ہی نہ بند کردیا جائے ، انصاف مانگنے پر کہیں پابندی ہی نہ لگا دی جائے۔ اب بولنے کی آزادی صرف ارنب گوسوامی ، امن چوپڑا اور روہت رنجن جیسے جھوٹ پروسنے والوں کو ہے۔ انہیں سپریم کورٹ تک آسانی کے ساتھ راحت بلکہ آزادی دے دیتا ہے۔


Asking for justice in today's India. Analysis: Shakeel Rasheed, Mumbai.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں