ہندوستان مذہبی، لسانی اور تہذیبی تنوع کے لیے پوری دنیا میں اپنی منفرد اور امتیازی شناخت رکھتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت کی دینی و ثقافتی تکثیریت کے نمایاں خدو خال ہمارے کھانے پینے، رہنے سہنے، شادی بیاہ کی رسم ورواج اور لباس سے جگ ظاہر ہیں۔ ہمارے اس مشترکہ اور قومی ورثہ کی روایات سال دوسال پر محیط نہیں ہیں، بلکہ ان کی صدیوں پرانی تاریخ ہے، جو ہمارے سماج میں اس قدر پیوست ہوچکی ہیں کہ اب ان کو نظر انداز کرنا ناممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے۔ بالفاظ دیگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندو مسلم ثقافت و تہذیب اور یہاں کی مشترکہ سماجی اقدار کے بغیر ایک مکمل بھارت کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کی ان تعدد پسند روایات کو پروان چڑھانے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کا برابر کا حصہ ہے۔ ایک طرف ہمیں مہاتما گاندھی نظر آتے ہیں تو دوسری طرف سرسید، مولانا ابوالکلام آزاد، حضرت امیر خسرو وغیرہ وغیرہ۔ اگر ہم ان کی تحریروں، کتابوں اور مضامین کو پڑھتے ہیں تو مذہبی تکثیریت کے عناصر صاف طور پر نظر آتے ہیں۔ آزادی کے بعد اگر ہم ان شخصیات کی تلاش کریں جنہوں نے اپنے خطبات، افکار، اور تحریروں کے توسل سے ہندوستان کی یکجہتی، مشترکہ اقدار، ثقافتی تنوع اور جمہوری و سیکولر قدروں کو جلا بخشنے کے ساتھ ساتھ ہندو مسلم اتحاد و سالمیت کو یقینی بنایا ہے تو ہم بلاشبہ نامور اسلامی اسکالر پدم شری پروفیسر اختر الواسع کا نام جلی حروف سے لکھ سکتے ہیں۔ پروفیسر اختر الواسع جہاں اسلامیات کے ماہر ہیں تو وہیں ان کی نگاہ ہندوستانی سماج اور اس میں پائی جانے والی تہذیبوں و تمدنوں پر بھی بڑی گہری ہے ۔ مذہبی تکثیریت کا تحفظ، سماجی ہم آہنگی اور رواداری کے فروغ میں آنجناب کا قلم ہر دور اور وقت رواں دواں نظر آتا ہے۔ وہ متوازن اور معتدل سوچ کے علمبردار ہیں۔ انکیتا میں ایکتا پر ان کا یقین ہے۔ اسی فکر اور روایت کی وہ ترویج واشاعت کرنے اور بھارت جیسی سرزمین پر پرامن بقائے باہمی کے مکمل حامی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ بین مذہبی افہام و تفہیم، مذاکرات اور ہندوستانی اقدار کے سچے امین و پاسبان اور شناور دیکھنا ہے تو پروفیسر اختر الواسع کو بحسن و خوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کی تحریروں میں حب الوطنی، انسان دوستی، قومی یکجہتی اور تعدد و تکثیریت کے عناصر واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ لہذا اس مضمون میں پروفیسر اختر الواسع کے مذہبی تکثیریت پر مبنی افکار پر روشنی ڈالی جائے گی۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت جس طرح سے روادارانہ سوچ اور بھارت کی مشترکہ ثقافت کو دھندلا کیا جارہاہےوہ نہایت شرمناک بھی ہے اور افسوسناک بھی۔ نیز اس کے اثرات یقیناً مایوس کن ہوتے جا رہے ہیں۔ اس لیے ملت اسی وقت محفوظ رہے گی جب کہ بھارت اپنی تمام تر روایات کے ساتھ ساتھ آگے بڑھے گا۔ پروفیسر اختر الواسع کی شخصیت اس تناظر میں بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ انہوں نے ہندوستانی مذاہب وادیان کے ساتھ ساتھ یہاں کی مشترکہ ثقافت پر متواتر عالمانہ اور دانشمندانہ گفتگو کرتے رہے ہیں۔
مذاکرات کی ضرورت
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ مذاکرات ومکالمات عہد حاضر کی ناگزیر ضرورت ہے۔ آج ہر طرف اس حوالے سے مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ کتابیں تصنیف کی جارہی ہیں۔ سیمینار کانفریسیز کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ تاہم مذاکرات سے جہاں غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں، دوریاں ختم ہوتی ہیں ، وہیں باہم احترام و توقیر کی راہ بھی ہموار ہوتی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ دوسرے ادیان یا دیگر اقوام کے متعلق بہت ساری غلط فہمیاں صرف سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر پال لی جاتی ہیں ۔ پھر یہ قوموں اور معاشروں کے سماجی رشتوں، باہمی خوشگوار تعلقات اور انسان دوستی جیسے مراسم کو نابود کرڈالتی ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ باہمی رشتوں کا احترام رکھا جائے تو پھر اس کے لیے ہمیں مذاکرات کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا اور ہمیں دیگر مذاہب کے حاملین کے ساتھ سیاسی، سماجی اور دینی مکالمات کرنے ہونگے۔ یقیناً یہ وہ راستہ ہے جو ہندوستان کی تکثیری روایات اور مذہبی تنوع کو وجود بخشے گا۔ چنانچہ پروفیسر اختر الواسع نے اپنی تحریروں میں مذاکرات ومکالمات کے متعلق جو گرانقدر سرمایہ ثبت کیا ہے اس کی افادیت سے قطعی روگردانی نہیں کی جاسکتی ہے۔ پروفیسر واسع کا نظریہ اس حوالے سے نہایت واضح ہے وہ چاہتے ہیں کہ موجودہ تناظر میں ڈائیلاگ کا نظم ہو اور یہ مکالمہ برادران وطن سے کیا جائے تاکہ ہمارے رشتے میں جو چیزیں سد راہ ہورہی ہیں ان کا قلع قمع کیا جاسکے۔ وہ اپنے ایک مطبوعہ مضمون( جو کہ روزنامہ انقلاب میں 03/04/2022 کو شائع ہوا ، مضمون کا عنوان ہے " شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات" ) میں رقم طراز ہیں۔
" مسلمانوں کے لیے یہ تجویز پیش کی کہ وہ برادران وطن سے ایک سرگرم ، مثبت اور حکمت پر مبنی مکالمہ کا آغاز کریں اور خاص طور پر جو اکثریتی طبقے کے مذہبی رہنما ہیں ان سے رابطہ کریں۔ رشتہ بنائیں اور دوریوں کو کم کرنے، غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں جوکہ آج اکثریت کو خوف کی نفسیات اور مسلمانوں کو جارحانہ مدافعت پر مجبور کررہی ہیں۔ جب ہم نے یہ بات لکھی تو اس کے پیچھے ہندوستان میں مسلمانوں کا وہ ہزار سال سے زیادہ کا تاریخی پس منظر تھا جس میں ہندوستان سے رشتے بنائے اور یہاں پر اپنے لیے جگہ بنانے کے واسطے مسلمانوں نے سب سے پہلے شعوری طور پر اس ملک کو جاننے ، سمجھنے اور یہاں کی مذہبی اور سماجی تعلیمات اور ڈھانچے کو خاص طور سے جاننے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں سب سے پہلی کوشش تو ' جچ نامہ ' ہے ۔ اس کے بعد ابوریحان البیرونی کی' کتاب الہند ' ہے۔ البیرونی نے اس ملک کے مذہب، روایات اور سماجی زندگی کا بالاستیعاب مطالعہ کیا، زبان سیکھی ، برہمنوں کے ساتھ وقت گزارا اور ان کے ذریعے ہندوستان کو سمجھ کر اپنی مایہ ناز تصنیف' کتاب الہند' کے ذریعہ دنیا کو ہندوستان سے روشناس کرایا۔ یہ ایک عجیب ستم ظریفی ہے کہ ہم ہندوستان شناسی کے لیے جرمن مستشرق میکس مولر کے سر سہرا باندھتے ہیں جب کہ در حقیقت ہندوستان کو دنیا سے متعارف کرانے والا ' البیرونی ' تھا۔ عہد اکبری میں ہندوؤں کی مقدس کتابوں راماین اور مہابھارت کے ترجمے ہوئے۔ بعد میں اسی روایت کی توسیع کرتے ہوئے محسن فانی جو شاہ جہاں کا درباری تھا، نے' دبستان مذاہب' لکھ کر اکثر مذاہب کے بارےمیں عام لوگوں کو واقف کرانے کے لیے اس کتاب کی تالیف کی۔ اس کے بعد دارا شکوہ نے ہند اسلامی مذاہب کے مطالعہ کو ایک نئی سمت اور رفتار عطا کی ، سر اکبر ہو یا مجمع البحرین، آج بھی ہندو مت اور اسلام میں مماثلتیں تلاش کرنی ہوں تو دارا شکوہ کی خوشہ چینی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ جب انگریزوں کا دور آیا تو سرسید احمد خاں نے بائبل کی تفسیر، تبیین الکلام، کے نام سے لکھی اور غیر مسلموں کے ساتھ آداب طعام پر رسالہ لکھ کر مذہبی ہم آہنگی اور سماجی رشتوں کو مضبوط بنانے کی کوشش کی۔ امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تفسیر قرآن بعنوان 'ترجمان القرآن ' پہلی جلد میں صرف سورہ فاتحہ کی وہ معرکة الآراء تفسیر لکھی جس میں وحدت الہ، وحدتِ آدم اور وحدت دین کی اسلامی روح کو اپنے قلم سے زندہ کردیا اور آج بھی وہ اسلام کی توحید پرستی اور انسان دوستی کا آفاقی بیان ہے"
( انقلاب میں شائع شدہ مضمون ، شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات ، سے ماخوذ)
اس اقتباس کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے اکابر نے مذاکرات ومکالمات کے حوالے سے جو عملی، علمی اور تاریخی کاوشیں کی ہیں ان کو تاریخ کا روشن باب کہا جاسکتا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ ہم اس سلسلہ کو آگے بڑھائیں اور مثبت خطوط پر افہام وتفہیم کی راہ ہموار کریں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پروفیسر اختر الواسع نے اپنے اس مضمون جو علمی و تحقیقی گفتگو کی ہے اس سے بھی ہمیں تقویت ملتی ہیں کہ ہم اس جانب کوئی ایسا طریقہ مرتب کریں جس کی روشنی سے ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی غلط فہمیاں زائل ہوسکیں۔ گویا مذاکرات کے جواز اور دیگر قوموں سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے کے لیے اسلامی مصادر میں بھی بڑے نمایاں اور بین ثبوت ملتے ہیں۔ پروفیسر اختر الواسع بھی اپنے اس مضمون سے یہی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ مکالمات مسلمانوں کی تاریخ اور تہذیب دونوں کا حصہ رہا ہے بالآخر اب اس معاملے میں کیوں سستی اور تساہلی برتی جارہی ہے۔
اسی طرح اس روایت کو مزید تقویت دیتے ہوئے پروفیسر واسع نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی فیکلٹی دینیات میں ہونے والی عالمی کانفرنس جو کہ 26-27 / جون 2021 میں" آسمانی کتب اور دیگر مذہبی کتابیں :تاریخ و تعارف " کے عنوان سے منعقد ہوئی تھی۔ اس ویبینار میں پروفیسر اختر الواسع نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی تھی ، اس موقع پر جو پرمغز اور قیمتی خطبہ ارشاد فرمایا تھا وہ ہندوستان کی سماجی قدروں کو ہم آہنگ کرنے اور بقائے باہم کے اصولوں کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہیں تقابل ادیان، مطالعہ ادیان اور مذاکرات و مکالمات کے حوالے سے جو گرانقدر گفتگو کی تھی وہ ہندوستان کی تکثیری روایت کی امین ہے۔ اس خطبہ کا ایک اقتباس ذیل میں پیش ہے۔
" میں ہمیشہ اس بات کا حامی رہا ہوں کہ ہم صرف کلمہ طیبہ پڑھ کر ہی مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک کہ ہم اللہ کی توحید وکبریائی اور جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری رسول کی حیثیت سے تائید وتوثیق نہ کریں، ان پر ایمان نہ لائیں اور ایسا کرتے ہی ہم فوراً ایمان مفصل پر اپنے اس ایمان ویقین کا اعلان نہ کریں جو اللہ اور اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ہونا لازمی ہے۔ قرآن کے لفظوں میں " ہم صرف ان رسولوں پر ایمان ہی نہیں لاتے بلکہ ان میں سے کسی میں فرق بھی نہیں کرتے" میری نظر میں اس ویبینار کا علی گڑھ میں ہونا غیر فطری نہیں تھا۔ اس لیے کہ عہد اکبری میں رامائن اور مہابھارت کے جو فارسی تراجم ہوئے تھے ان کو سب سے پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پبلی کیشن ڈویژن نے شائع کیا۔ اسی طرح سر سید نے قرآن کے علاوہ انجیل کی بھی تفسیر لکھی" ( علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی فیکلٹی دینیات میں عالمی ویبینار کے موقع پر پیش کیے گئے خطبہ سے ماخوذ)
پروفیسر اختر الواسع اپنے متذکرہ مضمون ( شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات ، شائع شدہ انقلاب" میں باہمی اتحاد و اتفاق اور یگانگت و ہمدردی ہندوستان کی برادریوں میں کیسے آگے بڑھے پر لکھتے ہیں۔
" صوفیاء کرام نے جس طرح اخوت و مساوات کے اسلامی پیغام کو عام کیا اور عمومی طور پر اس کو ممکن کر دکھایا ۔ اس کے نتیجہ میں اس ملک کی غالب ترین اکثریت اور مسلمانوں میں وہ باہمی خیر سگالی کا ماحول پیدا ہوا جس نے نہ صرف ایک نئی زبان اُردو کو جنم دیا اور پروان چڑھایا بلکہ اپنی خانقاہوں کے دروازے بلا تخصیص مذہب وملت سب کے لئے کھول کر جبر کے ماحول میں صبر کا راستہ دکھایا ۔ ان کے دکھ درد کو بانٹا اور ان کی بھوک اور پیاس کو مٹانے کے لیے لنگر کی روایت کو قائم کیا۔ ہندوستان کی مقامی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے مقامی لوگوں کی روایات کو فروغ دیا، ان کی خوشیوں اور غم دونوں میں ان کے ساتھ کھڑے ہوئے اور اسی طرح اپنی خاکساری ، تواضع اور ملنساری کو عام کردیا۔ آج بھی ہماری درگاہوں پر اجمیر سے دہلی، پانی پت سے گلبرگہ، بہار شریف سے کچھوچھہ ، تلنگانہ سے تمل ناڈو ، کشمیر سے ممبی غرض پورے ہندوستان میں اس ملک کی غالب ترین اکثریت کس طرح فرطِ عقیدت کے ساتھ مزارات پر حاضری دیتے ہیں۔ اس لیے ہمیں سوچنا چاہیئے کہ کہیں نہ کہیں ہم سے کوئی ایسی کمی واقع ہوئی ہے کہ جو ہمارے مردوں کی تعظیم کرتے ہیں وہ ہم سے کیوں بیزار ہیں؟"( روزنامہ انقلاب میں شائع شدہ مضمون ، شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات، سے ماخوذ )
یعنی مسلمان علماء نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے توسل سے جو رشتہ غیر مسلم عوام یعنی ہندوستان کی دیگر قوموں سے استوار کیا تھا وہ اب ہمارے عدم میل ملاپ اور افہام وتفہیم کے بغیر بہت حدتک مخدوش ہوچکا ہے۔ صوفیاء نے ہندوستان میں آکر یہاں کے لوگوں کے ساتھ جو سلوک ورویہ اپنایا تھا جس سےاسلام کے متعلق نہ صرف غلط فہمیاں اور شکوک وشبہات دور ہوئے تھے بلکہ لوگ اسلام کے قریب آنے لگے تھے۔ اس لیے پروفیسر اختر الواسع کا درد یہ ہے کہ ہمارے یہاں تمام مذاہب کے حاملین کے ساتھ مثبت اور معنی خیز افہام و تفہیم، مذاکرات ومکالمات کے ٹھوس شواہد ہیں۔ لہذا ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں جب تک ہم اپنے رویہ میں تبدیلی پیدا نہیں کریں گے اس وقت تک یقین جانیے ایک دوسرے کی بابت اسی طرح غلط فہمیاں پھیلائی جاتی رہیں گی۔
اسی کے ساتھ یہ بھی عرض کردوں کہ مورخہ 13/فروری 2019 کو المصطفی انٹر نیشنل یونیورسٹی؛ ایران (شاخ ہند) کے زیر اہتمام اور بہ اشتراک؛ سینٹر فار انٹر فیتھ انڈر اسٹیندنگ؛ علیگڑہ مسلم یونیورسٹی میں منعقد عالمی کانفرینس بعنوان" مذاہب عالم میں خاندانی نظام" کے تحت جو مثالی؛ وقیع اور جامع و مانع کلیدی خطبہ ارشاد فرمایا وہ آب ذر سے لکھنے کے لائق ہے ذیل میں اس کا ایک اقتباس افادہ عام کے لیے شامل اشاعت کررہا ہوں ” صاحبو! مجھے اس بات کی اجازت دیجئے کہ میں اس بین الاقوامی سیمینار کے موضوع کے انتخاب کے لیے منتظمین کو مبارک باد دوں کیونکہ ایک ایسی دنیا میں جہاں قراق و فصل کے تمام پرانے تصورات بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں اور نقل وحمل نیز ترسیل وابلاغ کی ترقی نے زمین کی طنابیں کھینچ لی ہیں اور اس طرح یہ دنیا بظاہر ایک طرف عالمی گاؤں میں تبدیل ہوگء ہے تو دوسری طرف یہ بھی کم المیہ نہیں کہ انسانی رشتے جس طرح اس دور میں پامال ہورہے ہیں؛ خاندانوں کو ہم پارہ پارہ ہوتے دیکھ رہے ہیں ؛ انسان لفظوں کے فشار اور میڈیا کے شور و شر میں جس طرح آج مکالمے کی لذت سے محروم ہورہے ہیں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ وہ انسان جو کبھی غم زمانہ کا نقیب تھا وہ اب درد تنہا کا بوجھ اٹھائے پھررہا ہے۔ مذاہب عالم نے سارے انسانوں کو اجتماعیت کے رشتے میں باندھا تھا۔انسانوں کو ہی نہیں بلکہ تمام مخلوقات کو ایک اللہ کوکنبہ یا وسودھا کو کٹمب قرار دیاتھا۔ انسانی تاریخ کے ارتقاء کو وہ سفر جو آدم کی تخلیق اور حوا کے ساتھ ان کی رفاقت سے شروع ہوا تھا اس میں خاندان کی بنیادی اکائی شوہر اور بیوی ہی تھے جو ایک دوسرے کے لیے قرآن کے لفظوں میں لباس کی.مانند ہیں۔ جن کا باہمی تعلق محض جنسی تلذذ کے لیے نہیں بلکہ نسل انسانی کی توسیع کے لیے تھا۔ شوہر اور بیوی کے مقدس رشتہ ازدواج میں وابستہ ہونے سے وہ خاندان وجود میں آتا ہے؛ جس میں بیٹا بیٹی؛ بھائی بہن اور بعد ازاں تایا تائی؛ چچا چچی؛ ماموں ممانی؛ دادا دادی؛ جیٹھ دیور؛ بھاوج نند؛ پھوپھاپھوپھی؛ اور خالہ خالو کے رشتے ایک منظم شکل میں انسانی سماج کو اعتبارو اعتماد اور استحکام بخشتے ہیں ۔ کسی سماج میں رشتوں کی حرمت ہی اس کے مہذب ہونے کا ثبوت ہوتی ہے"
جس طرح پروفیسر اختر الواسع مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے برادران وطن سے مکالمات کریں۔ اسی طرح وہ برادران وطن خصوصًا اصحاب اقتدار سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ وہ بھی مسلمانوں کے ساتھ ڈائیلاگ کا انعقاد کریں تاکہ ہندوستان کی سماجی تکثیریت اور یہاں کا سماجی رکھ رکھاؤ پوری شان کے ساتھ محفوظ رہ سکے۔ کسی کو کسی سے کوئی شکایت نہ ہو۔ تبھی جا کر ہندوستانی معاشرہ وشو گرو بن پائے گا۔ اسی حوالے سے انہوں نے ابھی حال ہی میں ایک خط جناب وزیر اعظم نریندر مودی کے نام لکھا ، اس خط کو روزنامہ راشٹریہ سہارا نے اپنے ادارتی صفحہ پر19/06/2022 کو شائع کیا ہے۔ یہ خطہ اردو کے ساتھ ساتھ ہندی اور انگریزی زبان میں بھی موجودہے۔ اس خط میں پروفیسر اختر الواسع نے ہندوستان میں ہونے والی اقلیات خصوصاً مسلمانوں پر ہورہے مظالم کا بھی ذکر ہے، اسی طرح آنجناب نے اپنے اس خط میں پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر حالیہ ایام میں کی جانے والی گستاخی کا نہ صرف ذکر کیا ہے بلکہ ان کو قرار واقعی سزا کا مطالبہ بھی کیا۔ اس خط میں وزیر اعظم سے درخواست کی گئی ہے کہ اس وقت ملک کے اقلیتی طبقہ میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ اسے دور ہونا چاہئے اور سماج میں یک جہتی و پرامن بقائے باہمی کی پیش رفت ہو۔ اس سے ہندوستان کی تکثیریت کو جلا ملے گی۔ اسی خط میں پروفیسر اختر الواسع نے کہا ہے کہ وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ڈائیلاگ کریں تاکہ شکوہ شکایت دور ہوسکیں ۔ اس خط کا آخری پیراگراف ملاحظہ کیجئے۔
" محترم وزیر اعظم صاحب
معاملہ صرف اتنا ہی نہیں ہے بلکہ انتقامی جذبہ کے تحت شہروں کے ناموں کی تبدیلی، تاریخ کو بدلنے کی کوشش، حجاب کے نام پر مسلمان بچیوں کو تعلیم سے محروم کرنے کی کوشش ایسے مسائل ہیں جو مسلمانوں کو ہر لمحہ مضطرب کیے ہوئے ہیں۔ آپ اس ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ سارے ہندوستان کی قیادت اور سیادت آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اپ کسی ایک مخصوص مذہب یا فرقے کے نمائندہ نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں آپ کا خاموش رہنا مناسب نہیں ہے۔ اس لیے اگر ہندوستان میں کوئی عدم استحکام یا بے چینی پیدا ہوگی تو وہ ہم سب کے لیے تکلیف کا باعث ہوگی۔ اس لیے میری آپ سے گزارش ہے کہ اپنی خاموشی کو ختم کیجیے اور تحمل، رواداری اور بردباری سے کام لیتے ہوئے پرانی باتوں کو بھول کر آپ مسلمانوں کو ایک مثبت اور سرگرم مکالمہ کے لیے بلائیں تاکہ وہ آپ کے سامنے اپنا دکھ درد بیان کرسکیں ، وہ کیا چاہتے ہیں اور وہ کیسے ممکن ہے، اس پر بات ہو۔ آپ بحیثیت وزیر اعظم کیا ہوسکتاہے اور کیا نہیں اور کیوں نہیں، اس کو انہیں بتائیں اور اس دو طرفہ مکالمے کے ذریعے پر امن بقائے باہم، داخلی استحکام اور تعمیر وترقی کی نئی بلندیوں تک پہنچا سکیں۔
اگر چہ اب بھی بہت دیر ہوچکی ہے لیکن اگر آپ اب بھی ہماری اس گزارش پر کھلے دل ودماغ سے توجہ دیں اور اسے ممکن کر دکھائیں تو بہر حال یہ اس ملک اور اس کے رہنے والوں سب کے لیے خوش آئند بات ہوگی۔ اس مکالمے کے لیے آپ پارلیمنٹ کے مسلمان ممبروں، تمام مسلم جماعتوں کے سربراہوں، مسلم دانشوروں، سول سوسائٹی کے اہم لوگوں اور مقتدر مسلم صحافیوں کو بلاسکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی پہل ہوگی جس سے بہتر مستقبل کے لیے بہتر امکانا پیدا ہوسکتے ہیں" ( روزنامہ راشٹریہ سہارا شائع شدہ مضمون، وزیر اعظم کے نام ایک کھلا خط، سے اقتباس ماخوذ)
پروفیسر اختر الواسع کی یہ وہ تاریخی اور مثالی تحریریں ہیں ،جو ہندوستانی سماج کو باہم مل جل کر رہنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ اسی طرح ہمیں پتہ چلتا ہے کہ افہام وتفہیم اور ایک دوسرے کے دین، ثقافت اور دیگر سماجی قدروں کو جانے یا سمجھے بغیر معاشرے کی تشکیل و تعمیر ان خطوط پر نہیں کی جاسکتی جن کو اختیار کرکے معاشرے اور اس میں رہنے والے افراد دنیا کی تمام ثقافتوں کے لیے مثالی کردار پیش کرتے ہیں۔ مخاصمت یا عداوت کو محض غلط فہمیوں کی بنیاد پر بڑھانا کسی بھی سماج کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ دانشمند قومیں دشمنی کو ختم کرتی ہیں اس کو ہوا نہیں دیتی ہیں۔ اس لیے ضرورت ہے کہ ہم مکالمات کی افادیت کو سمجھیں اور اس کے نفاذ میں معنی خیز کشش بھی کریں۔
ہندو مسلم اتحاد کی ضرورت
ہندوستان کی تکثیری قدروں اور یہاں کی صدیوں پرانی یکجائیت کو برقرار رکھنے کے لیے دوسرا اہم نکتہ ہندو مسلم اتحاد ہے۔ ظاہر ہے ہندو مسلم اتحاد کے حوالےسے کی جانے والی تمام کاوشیں اسی وقت برگ و بار لاسکتی ہیں جب کہ ہمارے اندر ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاپ اور بات کا جذبہ پوری طرح موجزن ہوگا۔ اتحاد و سالمیت اور اشتراک و اجتماعیت کسی بھی سماج کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ایسی قدریں ہیں کہ بغیر ان کے ایک صالح اور پر امن معاشرے کا تصور ناممکن ہے۔ آج ہندوستان میں جو باہمی نفرت یا بیزاری پنپ رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے ہم ہندو مسلم رشتے کو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کمزور کررہے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے جب ہمارا یہ اشتراک و تعاون ساتھ ساتھ تھا تو ہندوستان سے انگریزوں کو اپنا بوریا بسترا سمیٹنا پڑگیذ تھا۔ لہذا آج جو مفاد پرست عناصر یا خود ساختہ مصلحتوں کے اسیر اور محدود مفادات کے قیدی ہمارے اس اتحاد کو پارہ پارہ کرنا چاہتے ہیں تو انہی یاد رکھنا چاہیے ان کے اس عمل سے صرف دو قوموں کا اتحاد ہی پاش پاش نہیں ہوگا بلکہ اس سے ہندوستان کی وہ شفاف روایتیں بھی مضمحل ہونگی جنہیں ہندوستان کا نام آتے ہی دنیا ہندو مسلم اتحاد کا مضبوط خاکہ اپنے دماغ میں بٹھا لیتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ایسے لٹریچر کو فروغ دیں جس میں ہندو مسلم اشتراک و اجتماعیت کے عناصر پائے جاتے ہوں۔ بناء بریں پروفیسر اختر الواسع کی قیمتی اور وقیع تحریروں میں وحدت انسانیت، انسان دوستی اور باہمی محبت و مودت کے حوالے سے خاصا سرمایہ ملتا ہے۔ جو ہندوستانی معاشرے کے لیے مشعل راہ ہے۔ اب ذیل میں چند ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔ پروفیسر اختر الواسع اپنے ایک مضمون "سرسید اور مولانا آزاد کی فکر میں تکثیریت کے عناصر" میں سرسید کے حوالے سے رقم طراز ہیں۔
" جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ غیر مذہب والوں سے سچی دوستی اور دلی محبت کرنا ممنوع ہے ،یہ ان کی غلطی ہے۔ جو چیز کہ خدائے تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں بنائی ہے وہ برحق اور بالکل سچ ہے۔ ہم کو تمام دوستوں سے خواہ وہ کسی مذہب کے ہوں سچی دوستی اور دلی محبت رکھنی اور برتنی چاہیے۔ مگر وہ تمام محبت اور دوستی میں حب انسانی کے درجے میں ہو، نہ کہ حب ایمانی کے۔ کیونکہ حب ایمانی بلا اتحاد مذہب بلکہ بلا اتحاد مشرب ہونی غیر ممکن ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہدایت ہم کو ہمارے سچے مذہب اسلام نے کی ہے" (تہذیب الاخلاق، ج نمبر 5، بابت یکم ریبع الثانی 1291ھ ، ص 58) پروفیسر اختر الواسع نے اپنے متذکرہ مضمون میں مولانا ابوالکلام آزاد کی حب الوطنی اور ہندو مسلم اتحاد کے حوا سے کئی اہم اقتباسات نقل کیے ہیں۔ ذیل میں مولانا آزاد کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
" ہندوستان کے سات کروڑ مسلمان، ہندوستان کے 22 کروڑ ہندو بھائیوں کے ساتھ مل کر ایسے ہو جائیں کہ دونوں مل کر ہندوستان کی قوم اور ایک نیشن بن جائیں۔ آپ میں سے اب مسلمان بھائیوں کو سنانا چاہتا ہوں کہ خدا کی آواز کے بعد جو سب سے بڑی آواز ہو سکتی ہے وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان تھی جس نے صلح نامہ لکھا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں : ہم ان تمام قبیلوں سے جو مدینہ کے اطراف میں بستے ہیں صلح کرتے ہیں۔ اتفاق کرتے ہیں اور ہم سب مل کر ایک نیشن بننا چاہتے ہیں ایک قوم بننا چاہئے چاہیے" (پروفیسر اختر الواسع کے شائع شدہ مضمون، سرسید اور ابوالکلام آزاد کی فکر میں تکثیریت کے عناصر، سے ماخوذ۔
ہندوستان مذہبی تکثیریت کا علم بردار
ہندو مسلم اتحاد و سالمیت کی ضرورت سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ البتہ ہمارا عملی طور پر باہمی اتحاد آج بھی موجود ہے اور اس کی مثالیں ہمیں کسی تہوار، شادی بیاہ اور دیگر سماجی سرگرمیوں میں دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہوا کہ اب کچھ مفاد پرست عناصر نے ہمارے اس رشتہ کو کمزور کرنا شروع کردیا ہے۔ لہذا جن بنیادوں پر ہمارا سماجی رشتہ مستحکم تھا آج بھی انہیں روایات کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ یہ عرض کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی تکثیریت بھارت کی ایک اہم قدر اور یہاں کا اٹوٹ حصہ ہے۔ مذہبی تکثیریت کے حوالے سے پروفیسر اختر الواسع نے اپنی تحریروں کو بارہا زینت بخشی ہے۔ ہندوستان میں مذہبی تکثیریت کی ضرورت وافادیت اور اس کے اطمینان بخش نتائج کے متعلق اپنے ایک مضمون " سر سید اور مولانا آزاد کی فکر میں تکثیریت کے عناصر" میں نہایت مفید گفتگو کی ہے واضح رہے کہ پروفیسر واسع کا یہ مضمون ڈاکٹر حارث کی مرتب کردہ کتاب " دانش راہ بین" 2017 میں شائع ہوا ہے۔ اس کتاب کو براؤن پبلیکیشنز نئی دہلی نے شائع کیا ہے۔
" کہا جاتا ہے کہ ہندوستان انسانیت کی اولین آماجگاہ ہے۔ سب سے پہلے انسانی قدم اسی خطہ ارضی پر پڑے اور پھر یہیں سے دنیا کے دیگر خطوں میں انسانی آبادی کی توسیع عمل میں آئی ۔ بعد کے ادوار میں بھی اس ملک کی ہریالی ،خوش حالی اور حسن نے ہمیشہ لوگوں کو نہ صرف یہ کہ اپنی جانب متوجہ کیا ہے بلکہ اپنا اسیر بھی کیا ہے۔ فاتحین ہوں تجار ہوں یا مذہبی مبلغین یا مختلف وجوہ سے دیگر علاقوں میں بے گھر ہونے والے لوگ ،سب کے لئے اس سرزمین نے اپنا دامن کھولے رکھا اور پھر مختلف اکائیوں کو ملا کر ایک ایسی وحدت تشکیل دینے میں کامیاب ہوئی جس میں دنیا کی تمام مذہبی ،ثقافتی اور لسانی روایتوں کے لیے است و احترام ہے۔
ہندوستان کی منفرد حیثیت نےاسے دنیا کی تمام اہم مذہبی ، ثقافتی اور لسانی روایتوں کے مرکز کی حیثیت سے فروغ دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے کا باشندہ ہوہندوستان آکر وہ خود کو اجنبی محسوس نہیں کرتا بلکہ اس کی رنگارنگی میں اپنا مخصوص رنگ دیکھ خوش ہوتا ہے اور اس کی عظمت کو سلام کرتا ہے۔ ہندوستان کی یہی انفرادیت ہے جس نے ہمیشہ اسے ایک تکثیری معاشرے والے ملک کے طور پر پیش کیا ہے۔ تکثیری معاشرہ جدید ہندوستان کا مظہر نہ ہو کر اس کی قدیم روایت کا حصہ ہے ۔ ہندوستان کی تکثیریت مذہبی بھی ہے اور لسانی بھی۔ اسی طرح تقسیم سماج کے جن مسائل سے دنیا کے بیشتر ممالک اور خطے آج دوچار ہوئے ہیں اور ان انہیں حل کرنے کی اپنی سی کوشش میں مصروف ہیں ،ہندوستان میں وہمسائل نہ صرف یہ کہ ایک طویل عرصے سے موجود ہیں بلکہ مختلف تناظر میں ان مسائل کو یہاں پر حل کرنے کی کامیاب کوششیں بھی ہوتی رہی ہیں۔
اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے اگر گفتگو کی جائے تو یہاں مسلمانوں کا وجود اسلام کی ابتدائی صدی( پہلی صدی / ساتویں صدی عیسوی ) سے ہی ہے۔ اسی طرح ہندوستانی مسلمانوں کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ ہندوستان میں اپنے قیام کے طویل دورانیے میں یہاں پر ان کی مختلف حیثیتیں رہی ہیں ۔ کبھی انہوں نے محکوم کی حیثیت سے زندگی گزاری ہے تو کبھی حکمران بھی رہے ہیں۔ اور جب دور جدید میں سیکولر جمہوری نظام کا چلن عام ہوا تو انہیں ہندوستان میں برابر کا شہری رہتے ہوئے شریک اقتدار رہنے کا موقع بھی ملا۔ اس میں نہ وہ محکوم ہیں ان کی حیثیت حاکم کی ہے بلکہ ایک ایسے معاہداور اقتدار میں شریک کار کی ہے جو اس ملک میں اپنے لیے فیصلے بھی خود کرتے ہیں ۔ اور خود ہی انہیں اپنے اوپر نافذ بھی کرتے ہیں ۔ ہندوستانی مسلمانوں کی یہ انفرادیت ہی ہے جو یہاں موجود فقہی کتب میں ایسے تمام مسائل اور ان کے ممکنہ حل کے نمونے موجود ہیں جو مسلمانوں کو بحیثیت حاکم ،بحیثیت محکوم یا بحیثیت معاہد یا اقتدار میں شریک کے طور پر پیش آسکتے ہیں ۔ یہ روایت ہندوستان میں پہلے بھی جاری تھی اور موجودہ حالات اور تقاضوں کے تحت پیش آنے والے مسائل کے حوالے سے اس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور آئندہ بھی اس سلسلے میں پیش رفت کے امکانات ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں لیا جانا چاہئے کہ ہندوستان میں صدیوں کے سفر کے دوران جو تکثیری معاشرہ وجود میں آیا اور جو ملی جلی تہذیب تشکیل پائی ، اسےاس سفر کے دوران رکاوٹوں سے دوچار نہیں ہونا پڑا۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ مسائل پیدا ہوئے، رکاوٹیں درپیش آئیں، کئی بار ان الجھاووں میں پھنس کر آگے کی جانب سفر ختم ہوتا ہوا بھی محسوس ہوا ۔ کئی بار ایسا ہوا کہ ایک مذہب کے ماننے والوں نے مختلف وجوی سے دوسرے مذہب کے ماننے والوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنا چاہا ، کئی بار ایسا لگا کہ بظاہر دریا کے دو کناروں کی طرح چلنے والے ساتھ ساتھ رہنے کے باوجود ایک دوسرے کے لئے اجنبی بن گئے لیکن ہندوستان کے خمیر میں انیکتا میں ایکتا جو رنگ ہیں انہوں نے دریا کے اس پانی کو کردار ادا کیا یا جو ساتھ چلنے کے باوجود بظاہر نہ ملنے والے کناروں کو نہ صرف یہ کہ جوڑے رکھتا ہے بلکہ ان کی یکجائی کو یقینی بناتا ہے" ( حارث منصور، ( ڈاکٹر) دانش راہ بین، براؤن پبلیکیشنز نئی دہلی، 2017، ص 39-41)
پروفیسر موصوف نے اپنے اس اقتباس میں ہندوستانی معاشرے کی دینی، سماجی اور لسانی تکثیریت پر جو مدلل گفتگو کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس سے جہاں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ہندوستان ایک مذہبی تکثیریت کا عظیم الشان مرکز و محور ہے ،وہیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بالآخر ہندوستان جیسے معاشرے کے لیے تکثیریت کیوں ضروری ہے۔ اس کے فوائد و ثمرات کیا ہیں، اسی طرح ہندوستانی سماج میں یہاں کی تکثیری کرنوں کی شعائیں کہاں کہاں جاکر منور ہوئی ہیں۔ یہ جامع اقتباس جس معاشرے میں تمام مذاہب کے افراد اور قوموں کو یکجائیت ومرکزیت کے ساتھ رہنے کی دعوت دیتا ہے تو وہیں ہمیں اس بات کا بھی درس دیتا ہے کہ مذہبی تکثیریت کو اسی وقت مستحکم اور متحرک بنایا جاسکتا ہے جب ہم اپنے فکرو عقیدہ کے تحفظ و صیانت کے ساتھ ساتھ دوسروں کے نظریات، مذہبی روایات کا پوری طرح احترام ملحوظ رکھیں گے۔
اسی تناظر میں پروفیسر آختر الواسع اپنے ایک مضمون جو روزنامہ انقلاب میں 01/05/2022 میں بعنوان " یونیفارم سول کوڈ: ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا" میں رقم طراز ہیں۔
" ایک ایسے ملک میں جہاں دنیا کی تقریبا تمام مذہبی روایات یکجا ہوں، جس کو کثرت میں وحدت کے اپنے کردار پر ناز ہو، جہاں دستور کے شیڈول -8 میں 22 زبانوں کو تسلیم کیا گیا ہو، جہاں کچھ میلوں کی دوری پر بانی اور پانی دونوں بدل جاتے ہوں، جہاں نہ جانے کتنے دریا الگ الگ سوتوں سے پھوٹتے ہوں، الگ الگ راستوں سے اپنا سفر طے کرتے ہوئے بحر عرب اور خلیج بنگال میں مل جاتے ہوں اور پھر بحرعرب اور خلیج بنگال میں مل کر ایک عظیم بحرہند کو وجود میں لاتے ہوں، جس طرح ان دریاؤں کے بغیر آپ عظیم بحر ہند کا کوئی تصور نہیں کر سکتے اسی طرح مختلف مذہبی اکائیوں کے بغیر ہندوستان کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن کچھ دنوں سے اس رنگارنگی یک رنگی میں بدلنے کی بار بار آوازیں اٹھ رہی ہیں، کوششیں ہورہی ہیں اب ایک ایسی ہی آواز ایک بار پھر ہندوستان میں گونج رہی ہے اور وہ ہے یکساں سول کوڈ کی مانگ اور جو لوگ برسوں سے اکثر یکساں سول کوڈ کا مطالبہ کرتے آئے ہیں وہ خود یہ نہیں بتا سکتے کہ یکساں سول کوڈ سے ان کی کیا مراد ہے ؟ جس یکساں سول کوڈ کا مطالبہ کر رہے ہیں اس کا ڈھانچہ کیا ہوگا؟ شکل وصورت کیا ہوگی ؟ ہندو سول کوڈ ہو یادیگر مختلف مذہبی اکائیوں کے پرسنل لاء، ان سب کی جڑیں مذہبی معتقدات میں پیوست ہیں ۔ کیا آپ یہ تصور کر سکتے ہیں کہ کوئی ہندو بیاہ 'سناتن پرمپرا' کے مطابق سات پھیروں کے بغیر ہو سکتا ہے ؟ کیا سیکھ گرو گرنتھ صاحب کی ساکشی مانے بغیر ایک دوسرے کو رفیص حیات کے طور پر قبول کر سکتے ہیں؟ اسی طرح کیا کوئی عیسائی چرچ میں پادری کے ذریعے دلائے گئے حلف کے بغیر میاں بیوی ہو سکتے ہیں؟ اسی طرح کوئی مسلمان سنی ہوں یا شیعہ ، بغیر قاضی اور مجتہدین کے بغیر رشتہ ازواج میں منسلک ہو سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر یکساں سول کوڈ کی رٹ کیوں" ( اختر الواسع، ( پروفیسر) مضمون یونیفارم سول کوڈ: ایک معمہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا، شائع شدہ روزنامہ انقلاب، 01/05/2022)
یقینا ہماری روایتیں الگ الگ ہیں۔ ہر مذہب اور عقیدہ کی اپنی خصوصیات ہیں۔ یہ تعدد اور عائلی وسماجی نظام ہمارے معاشرے میں چار چاند لگا تا ہے، اسی مناسبت سے ہندوستان دنیا کی تمام تہذیبوں اور معاشروں میں امتیازی وصف کا حامل ہے۔ لہذا ان تمام سماجی و معاشرتی رسم و رواج اور عائلی قوانین کی رنگا رنگی کو برقرار رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ پروفیسر اختر الواسع اپنے متذکرہ مضمون میں ہندوستان کی رنگارنگی کو یک رنگی میں تبدیل کرنے کے سخت ترین مخالف ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے ہندوستان کی مذہبی اور مختلف دینی اکائیوں کے سماجی نظام کو پیش نظر رکھتے ہوئے ،کئی اہم سوالات بھی کیے کہ اگر ملک میں یکساں سول کوڈ جیسا کوئی نظام مرتب ہوتا ہے اور اس کا نفاذ عمل میں آتا ہے تو پھر متعدد ادیان کے عقیدت مند کیا اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی سے سبکدوش ہوسکتےہیں؟ اپنے اس اہم اور قابل قدر مضمون میں ہندوستانی تکثیریت کی مجموعی قدروں کے احترام اور اس کے تانے بانے کو جوڑنے رکھنے کا جواز ائین ہند سے بھی پیش کرتے ہیں۔
" ہندوستان کا دستور ملک کے ہر مذہبی فرقے کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دیتا ہے اور یہی اس ملک کے مذہبی تنوع کے لئے قابل عمل بھی اور مفید بھی۔ عائلی قوانین دین کو ہر مذہب نے اپنے مذہب کا حصہ سمجھا ہے اور دستوری آزادی کے تحت وہ اپنے عائلی قوانین کے تحفظ کا یقین رکھتے ہیں۔ یونیفارم سول کوڈ اس دستوری آزادی سے محروم کرنے والا قدم ہوگا اور اسے دستور ہند اور مذہبی معتقدات کو ماننے والا کوئی بھی مذہبی فرقہ نہیں کر سکے گا" ( ایضا)
اس مسئلہ کو مزید وضاحت کے ساتھ لکھتے ہیں۔
"جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو ان کا موقف بالکل صاف ہے .وہ اپنا مکمل مذہب رکھتے ہیں اور ان کے عائلی قوانین کا اصل ماخذ قرآن وحدیث اور اجماع اور قیاس ہے اور یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اجماع اور قیاس بھی وہی قابل قبول ہے جو قرآن و حدیث کے مخالف نہ ہوں یا اس سے متصادم نہ ہوں۔ ملک کے دستور کے تحت انہیں اپنے مذہب اور مذہبی قوانین پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہے۔ ہندوستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں جن کے اپنے مذہبی اور عائلی قوانین ہیں اور ہر مذہبی اکائی اپنے عائلی قوانین کو محبوب رکھتی ہے اور وہ کسی قیمت پر اپنے عائلی قوانین کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوگی"( ایضاً)
ہندوستان کی تکثیریت اور یہاں کا متنوع ثقافتی نظام ایک زندہ حقیقت ہے ۔ ہم مانیں یا نہ مانیں کیوں کہ نہ ہم تاریخ کو محو کر سکتے ہیں اور نہ ہندوستان کے ان عظیم سپوتوں اور دانشوروں کی خدمات کو جنہوں نے ہندوستان کی ملی جلی تہذیب کو تشکیل دینے اور اس کی شناخت کو محفوظ رکھنے کے لیے کامیاب کاوشیں کی ہیں۔ تاریخ کو ممکن ہے کوئی جھٹلادے مگر ان نقوش اور ثبوتوں کو کون نظر انداز کرسکتا ہے جو تکثیری سماج کے حوالے سے صفحہ قرطاس پر رقم ہوچکے ہیں۔ اس تناظر میں پروفیسر اختر الواسع کا ذیل میں اقتباس ملاحظہ کیجئے۔
" تاریخی تناظر میں یہاں کی ملی جلی تہذیب کے نہ صرف نمونے سامنے آئے ہیں بلکہ علماء اور دانشوروں کی ان کی کوششوں کو بھی اجاگر کیا گیاہے جو ہندوستان میں مسلمانوں کی حیثیت کو لے کر یہاں کے رہنے والے غیر مسلموں سے تعلقات کے حوالے سے ہوتی رہی ہیں۔ صوفیاء کرام کی صلح کل کی پالیسی ہو یا مسلم حکمرانوں کے غیر مسلم رعایا کے تئیں اقدامات کا مقصد یہی تھا کہ ہندوستان جنت نشاں میں ایک ایسی گنگا جمنی تہذیب کی تشکیل پائے اور ایک ایسا ملا جلا معاشرہ وجود میں آئے اس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے اپنی شناخت کو باقی رکھتے ہوئے نہ صرف یہ کہ ایک ساتھ رہیں بلکہ اس کی ترقی اور خوشحالی میں اضافہ بھی کریں"
( دانش راہ بین، ص 42)
گویا ہندوستانی تکثیری سماج کے حوالے سے پروفیسر اختر الواسع کی تحریروں میں جو نمایاں اور متوازن افکار ملتے ہیں وہ اس بات کے متقاضی ہیں کہ اب ہم مل کر ، بلاتفریق دین ومذہب ہندوستانی تکثیری روایات کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ان کے تحفظ و بقاء کو بھی یقینی بنائیں۔ یاد رکھیے قوموں میں جب نفرتیں بڑھتی ہیں اور جب معاشروں میں باہم مخالف نظریات کی نشو ونما ہونے لگتی ہے تو پھر اس سے نہ صرف معاشرہ ٹوٹتا ہے، بلکہ باہمی اعتماد و بھروسہ بھی چکنا چور ہوجاتا ہے۔ جو کسی بھی متنوع سماج کی روح ہے۔ یہی اسباب پھر معاشرے کو تنگ نظری اور تعصب کی جانب لے جاتے ہیں۔ پھر لامحالہ اس کے نتائج مایوس کن ہوتے ہیں۔ اس لیے بنیادی طور ہمیں ان خطوط کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے ،جن سے ہندوستان کی تکثیری روایات اور یہاں کا ملا جلا معاشرہ پوری آب و تاب اور اپنی تمام تر روایات و اقدار کے ساتھ باقی رہے۔ وہ ہندوستان چاہیے جس میں ایک ساتھ مل کر تمام ادیان کے حاملین اپنے عائلی قوانین، مذہبی امور، سماجی سرگرمیوں اور تہذیبی ولسانی امتیاز کے ساتھ رہیں۔ نہ کسی کو کسی کے مذہب سے شکایت ہو اور نہ کوئی کسی کے مذہبی معاملات یا معاشرتی زندگی میں در اندازی کرسکے۔ جب اس طرح سے ہم اپنے شب و روز کو ترتیب دیں گے تو مجھے پورا یقین ہے کہ موجودہ ہندوستان کا منظر نامہ ایک بار پھر باہمی اتحاد واشتراک اور اعتماد و اعتبار کی راہ پر گامزن ہوگا۔
آخر میں راقم یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ پروفیسر اختر الواسع کی تحریروں میں جس حق و صداقت کی ترجمذ ملتی ہے وہ ان کو ممتاز کرتی ہے ، وہ ہندوستان میں ہونے والے مظالم خواہ کسی بھی کیمونٹی کے ساتھ اس پر پوری ہمت اور بے باکی سے لکھتے ہیں تو وہیں وہ اس بات کی بھی دعوت دیتے ہیں کہ ہندوستانی معاشرے کو پوری طرح یکجہتی کے ساتھ رہنا چاہیے ، کسی بھی طرح کی غلط فہمی کی بنیاد پر ہندوستان کی تکثیریت پر کوئی آنچ نہ آئے۔ پروفیسر اختر الواسع تحریریں ہندوستان کی سماجی اور متنوع قدروں کی مکمل امین و پاسبان نظر آتی ہیں۔ ان کی تحریروں کے روشن حروف تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ جھلملاتے رہیں گے۔ جب بھی کوئی محقق، مصنف یا مؤلف ہندوستان کی مذہبی تکثیریت کو اپنی تحقیق کا موضوع بنائے گا تو وہ یقیناً پروفیسر اختر الواسع کی تحریروں سے نہ صرف استفادہ کرےگا بلکہ ان کی اس بابت مخلصانہ کاوشوں کو جلی حروف سے لکھے گا۔
( مضمون نگار ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ دینیات سنی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو ہیں)
Email: zafardarik85[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں