انجمن حمایت اسلام لاہور - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-06-21

انجمن حمایت اسلام لاہور

anjuman-himayat-e-islam-lahore

بر صغیر پاک و ہند میں انگریزوں کے قدم جوں جوں جمتے گئے ان کی تبلیغی سر گرمیاں بھی بڑھتی گئیں ۔ لیکن 1857ء کے انقلاب کے بعد تو عیسائی مشنریوں کا ایک سیلاب تھا جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ، عیسائی مبلغ سر کاری افسروں کی سر پرستی میں عیسائیت کی تبلیغ کا فریضہ انجام دے رہے تھے ، سرکاری اہتمام میں جلسے کیے جاتے اور ان میں پادری عیسائیت کی تبلیغ کرتے اسلام کے بارے میں ناروا باتیں کہتے، مسلمانوں کے جہل اور حکومت کی سطوت سے فائدہ اٹھاتے ۔ مشنری اسکولوں کا ایک جال تھا جو پورے ہندوستا ن میں پھیلادیا گیا تھا ۔ جہاں عیسائی مذہب کی تعلیم دی جاتی ، ہسپتالوں میں غیر عیسائی مریضوں کو عیسائیت کی تلقین کی جاتی ، عیسائی عورتیں، ہندو مسلمان گھرانوں میں سلائی کڑھائی کا کام سکھانے یا تعلیم کے بہانے جاتیں اور رفتہ رفتہ مسلمان خواتین اور بچیوں کے عقیدوں کو بگاڑتیں، مسلم گھرانے اپنے جہل اور اسلامی تعلیمات سے عدم واقفیت ، توہمات ، معاشی بد حالی ، وغیرہ میں مبتلا تھے پھر حکومت کی جانب داری سے خوف زدہ بھی تھے ۔ ان کی ان کمزوریوں کا فائدہ عیسائی مشنری اٹھارہے تھے۔


اس دور ابتلا میں حکومت و اقتدار کے چھن جانے اور انگریزی حکومت کا معتوب ہونے کے باوجود علما ئے دین نے جس پامردی کے ساتھ عیسائی مبلغوں کا مقابلہ کیا اور اسلام کے خلاف ان کی یاوہ گوئیوں کا جس طرح تحریری و تقریری طور پر جواب دیا وہ مسلمانانِ ہند کی تعلیمی، ثقافتی، اور علمی تاریخ کا نہایت شان دار واقعہ ہے ۔ پنجاب میں جن لوگوں نے اس فتنے کا مقابلہ اور دفاعِ اسلام کا فریضہ انجام دیا ان میں انجمن حمایت اسلام کے مقدس بانیوں کا گروہ بھی شامل ہے ۔ اور اس لحاظ سے تو ان کے شرف میں کوئی شریک ہی نہیں کہ انہوں نے نہایت منظم طریقے پر اس تحریک کو آگے بڑھایا اور صرف تحریر و تقریر ہی کے میدان ہی میں اس فتنے کا مقابلہ نہیں کیا بلکہ امت مسلمہ کی ان کمزوریوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کی جن کی بنا پر بہت سے مسلمان اس فتنے میں مبتلا ہورہے تھے ۔


مسلمانوں میں اس فتنے کی شدت اور دفاع اسلام میں اپنی ذمہ داری کا احساس تو پہلے ہی پیدا ہوگیا تھا کہ 1883ء میں ایک سید زادی اپنے تین بچوں کو لیکر دائرہ عیسائیت میں چلی گئی ۔ مسلمانوں کی ملی حمیت اور اسلامی غیرت کے لئے یہ ایک تازیانہ عبرت تھا۔ مسلمانوں کی کوششوں سے یہ خاتون اور ان کے بچے تو پھر اسلام کے سایہ عاطفت میں آگئے ۔ لیکن مسلمان اس کے بعد خاموش نہیں ہوگئے اور انہوں نے طے کرلیا کہ اب صرف اسلام کے دفاع تک اپنی جدو جہد کو محدود نہیں رکھنا چاہئے ۔ بلکہ پنجاب سے اس فتنے کا کلی طور پر استیصال کردینا نہایت ضروری ہے ۔ ان حالات اور پس منظر میں مارچ 1884ء میں چند درد مند ان ملت لاہور میں سر جوڑ کر بیٹھے اور ایک ان جمن کے قیام کا فیصلہ کرکے اٹھے۔ یہ "انجمن حمایت اسلام" تھی جس کے مندرجہ ذیل مقاصد طے پائے تھے ۔


1۔ مخالفین مذہب مقدس اسلام کے جواب تحریری و تقریری تہذیب کے ساتھ اور اس غرض کے واسطے واعظوں کے تقرر اور رسالے کے اجرا وغیرہ وسائل کو عمل میں لانا ۔


2۔ مسلمان لڑکیوں اور لڑکوں کی مذہبی تعلیم کا انتظام کرنا تاکہ وہ غیر مذہب کی مذہبی تعلیم کے برے اثر سے محفوظ رہیں ۔ اور


3۔ اہل اسلام کو اصلاح معاشرت اور تہذیب اخلاق اور تحصیل علوم دینی ودنیوی اور باہمی اتحاد و اتفاق کا شوق دلانا۔


ان مقاصد کو بروئے کار لانے کے لئے سب سے پہلے مناظرین اور واعظین کا انتظام کیا گیا جو پنجاب کے شہروں، قصبوں اور گاؤں کے دورے کرتے ، مسلمانوں کو اسلام کی خوبیوں سے آگاہ کرتے، ان کے شکوک و شبہات کودور کرتے، اسلامی عقائد پر انہیں مستحکم کرتے اور عیسائیت کے مقابلے کے لئے ان کے ذہنوں کو تیار کرتے اور انہیں چند موٹی موٹی باتیں بتادیتے کہ جن سے وہ عیسائی مبلغوں کے قریب سے محفوظ رہ سکتے۔ اس سلسلے میں بیک وقت کئی کئی حضرات کو انجمن نے اس کام پر مقرر کیا، دین کے ان خدمت گزاروں میں مولوی سید احمد علی ، منشی شمس الدین ، مولانا عبدالمجید دہلوی ، مولانا غلام محی الدین صوفی، مولوی عبداللہ دہلوی ، مولانا محمد ابراہیم، میاں اللہ دیا ، سید محمد شاہ گیلانی، مولوی محمد مبارک وغیرہ کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ان حضرات نے پنجاب میں پھیل کر تبلیغ و اشاعت اسلا م اور عیسائیت میں قابل قدر خدمات انجام دیں ۔ بیسیوں بار عیسائی مبلغوں سے ان کا مقابلہ ہوا اور ان کے اعتراضات کا منہ توڑ جواب دیا۔ ان حضرات نے رسالوں میں مضامین اور کتابیں لکھ کر بھی تبلیغ اسلام اور رد عیسائیت کا فریضہ انجام دیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے لوگوں کے ذہنوں کو تعلیم کے حصول کے لئے بھی آمادہ کیا ، مدرسے کھولنے کی تحریک کو آگے بڑھایا اور جو مدرسے کھولے گئے انہیں ترقی دینے اور استحکام بخشنے کے لئے بھی کام کیا۔


واعظین اور مناظرین کے تقرر کے ساتھ انجمن نے اسلامی مدرسوں کے قیام کا بیڑا اٹھایا تھا اور دو سال کی کوششوں سے لاہور میں مسلمان لڑکیوں کے لئے دس مدرسے قائم کردیے ، جن میں قرآن حکیم اور دینیات کی تعلیم کے ساتھ دنیوی امور کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ انجمن کو ان کوششوں میں بڑی کامیابی ہوئی ، مسلمانوں نے ان کے ساتھ بڑا تعاون کیا، لوگ اپنی بچیوں کو عیسائی مشنری اسکولوں میں بھیجنے کے بجائے انجمن کے اسکولوں میں بھیجنے لگے ۔ متعدد مشنری اسکول بند ہوگئے ۔ ایک مشنری مدرسہ کی معلمہ جو اپنی ناداری کی بنا پر عیسائیت کی تبلیغ کا آلہ کار بنی ہوئی تھی، عیسائیت کی خدمت سے تائب ہوئی اور اپنی زندگی کو مسلمان بچوں کی اسلامی تعلیم و تربیت کے لئے وقف کردیا۔ انجمن نے تعلیم کے میدان میں اس کے بعد بھی نہایت قابل قدر خدمات انجام دیں ۔ لیکن اس وقت کی یہ خدمت تاریخ میں سونے کے لفظوں میں لکھی جانے کے قابل ہیں۔ انجمن کی رپورٹ نسوانی مدارس 1385ھ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی دو سال کی مدت میں لاہور کے مختلف علاقوں میں دس زنانہ اسکول قائم ہوچکے تھے ، ان مدارس میں زیادہ تر مسلمان خواتین تعلیم دیتی تھیں ۔ اسی وجہ سے یہ نسوانی اسکول کہلاتے تھے ۔ لیکن یہ ابتدائی درجات کے اسکول تھے اور مسلمان لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی ان میں تعلیم حاصل کرتے تھے ۔ ان مدارس نے اسلام کی جو خدمت انجام دی ان کا اندازہ امدا د صابری کے ان خیالات سے لگایاجاسکتا ہے کہ"ان مدرسوں کے قیام سے انجمن کے پیش نظر یہ مقصد تھا کہ پادریوں کا زور ٹوٹے اور محلوں میں مشن کے مدرسے بند ہوں ۔ چنانچہ مدرسے بند ہوئے اور مدرسے بن ہونے کی اطلاع 1886ء تک آچکی ہے ۔ انجمن کے مدرسوں سے مسلمانوں کو بہت فائدہ ہوا ، کیونکہ پادریوں کے روز افزوں، مدارس کی تعداد بڑھنے سے رک گئی ۔ بلاشہ اگراس وقت توجہ نہ دی جاتی اور انجمن کے مناظر و نصاری نہ کرتے اور انجمن مشنری اسکولوں کے مقابلے میں اپنے مدرسے نہ قائم کرتی تو آج لاہور کی کوئی گلی کوچہ اور کوئی گھر ایسا نہ ہوتا جس میں مشن کا اثر نہ ہوتا۔


1886ء میں مدرسۃ المسلمین کے نام سے لڑکوں کا ایک مدرسہ بھی قائم کردیا۔ اس مدرسہ نے بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کی طلبہ کی تعداد اتنی زیادہ ہوگئی کہ وہ مکان جس میں مدرسہ کھولا گیا تھا، ناکافی ثابت ہوا چنانچہ سکندر خاں کی حویلی میں اسے تبدیل کردیا گیا ۔ اس مدرسہ میں اردو، فارسی، انگریزی زبانوں کے ساتھ تاریخ ، جغرافیہ، حساب وغیرہ فنون بھی پڑھائے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ قرآن مجید ناظرہ بھی پڑھایا جاتا تھا ۔ نماز اور لباس و اسلامی وضع کی پابندی کے لئے طلبہ کو تاکید کی جاتی تھی، جمعہ کے روز جامع مسجد میں طلبہ کی حاضری لی جاتی تھی۔ انجمن کے اس نصاب تعلیم، نماز وغیرہ کی پابندی کی تاکید کی وجہ سے مسلمانوں میں بہت جلد انجمن کا اعتماد قائم ہوگیا ۔ لوگ اپنے بچوں کو انجمن کے مدرسہ میں پڑھانے کے خواہشمند ہوگئے ۔ اسی وجہ سے مدرسہ نے بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کی اواخر دسمبر 1886ء تک پرائمری کی پانچ جماعتیں قائم ہوگئیں ، جن میں طلبہ کی تعداد 19، تھی، اور ان کی تعلیم کے لئے چھ اساتذہ اور ایک مانیٹر مقرر کرنا پڑا ۔ ایک بڑی کامیابی یہ ہوئی کہ شروع دسمبر میں موچی دروازے کا مشن اسکول بند ہوکر اس میں شامل ہوگیا ۔ 1887ء کے شروع میں مدرسہ کو مڈل تک کردیا گیا ، اس طرح تقریبا ً ہر سال ایک نئی جماعت کا اضافہ کیاجاتا رہا۔ حتی کہ 1892ء میں کالج قائم کردیا گیا ۔ اور فسٹ ایر کی کلاس کھول دی گئی ۔ اس سے اگلے سال سیکنڈ ایئر کی کلاس بھی کھول دی گئی ۔ انجمن کے مدرسوں کے چرچے شہر سے نکل پر پنجاب کے دیگر شہروں اور قصبوں تک پہنچ گئے ۔ اور بیرونی طلبہ کے رجوع نے بانیان انجمن کو کالج کے ساتھ بورڈنگ کا انتظام کرنے پر بھی مجبور کردیا۔


اگرچہ مدارس اور کالجوں کی تعداد کے لحاظ سے تو اس تیز رفتاری کے ساتھ بعد میں اضافہ نہیں ہوا ۔ لیکن گنجائش سے انجمن کا کالج روز افزوں ترقی کرتا رہا۔ انجمن کے کالج کا نام"اسلامیہ کالج" تھا۔ جو آج بھی قائم ہے ۔ انجمن نے شروع ہی سے مسلمان لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کو محسوس کرلیا تھا ۔ لیکن لڑکیوں کے لئے کالج کے قیام میں بوجوہ تاخیر ہوئی ۔ بالآخر مسلمان لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے احساس نے بانیانِ انجمن کو "اسلامیہ کالج برائے خواتین" کے قیام پر مجبور کردیا۔ چنانچہ 1939ء میں لڑکیوں کے لئے بھی کالج قائم ہوگیا۔ لڑکیوں کے کالج کی بھی یہ خصوصیت تھی کہ طلبہ کی دینی تعلیم اور اسلامی تربیت پر خاص توجہ دی جاتی تھی ۔ ابتدا میں "اسلامیہ کالج" شیرانوالہ اسکول کے دو کمروں میں قائم ہوا تھا ۔ 1908ء میں اسے ریلوے روڈ پر منتقل کردیا گیا ۔ قیام پاکستان کے بعد یہ عمارت طلبہ کی ضرورت کے لئے بالکل ناکافی ہوگئی تو کالج کی ڈگری کلاسیز 1955ء میں سول لائنز میں منتقل کردی گئیں۔ گویا کالج دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔


انجمن حمایت اسلام کے کالجوں نے غریب اور اوسط درجے کے خاندانوں میں تعلیم کے پھیلانے میں نہایت شان دار خدمات انجام دی ہیں۔ پنجاب میں علمی، تعلیمی ، انتظامی ، کاروباری زندگی کے ہر گوشے میں انجمن حمایت اسلام کے کالجوں کا پڑھا ہوا کوئی نہ کوئی شخص ضرور مل جائے گا۔ انجمن کے کالجوں نے پنجاب میں ایک اعلیٰ ادبی اور ثقافتی اور تعلیمی تاریخ بنائی ہے ۔ اس کے طلبہ نے ملک کی آزادی اور تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، اور ہر طرح کی قربانیاں دیں ، اس کے اساتذہ نے اپنے علم و فضل سے پورے ملک کو متاثر کیا۔ علامہ علاؤ الدین صدیقی ، پروفیسر یوسف جمال انصاری ، علامہ عبداللہ یوسف علی، ڈاکٹر تاثیر ، پروفیسر ایم۔ ایم ۔ شریف ، خواجہ عبدالحئی فاروقی ۔پروفیسر علم الدین سالک ، خواجہ دل محمد، وغیرہم نے اس کے کالج میں اساتذہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔ ان میں سے بعض حضرات بعض علوم و فنون میں بین الاقوامی شہرت کے مالک ہوئے ۔ پروفیسر حمید احمد خاں نے پہلے استاد کی حیثیت سے پھر صدر شعبہ انگریزی کی حیثیت سے اور پھر کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے انجمن حمایت اسلام کی تعلیمی تحریک کو نہایت پروقار طریقے پر آگے بڑھایا ۔ اس کے طلبہ میں سے بھی بڑے بڑے نامور نکلے جنہوں نے زندگی کے مختلف گوشوں میں عوام کی خدمت و رہنمائی کی۔


عیسائی مشنری مسلمانوں کی جن کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے تھے ان میں مسلمانوں کے معاشرتی نظام کی ابتری بھی ہے۔ مسلمانوں میں ایک مدت سے ایسا کوئی نظام باقی نہیں رہا تھا کہ کسی خاندان کے سرپرست اور کمانے والے کے انتقال کے بعد اگر وہ اپنے پیچھے کوئی جائداد اور آمدنی کا معقول ذریعہ نہ چھوڑ گیا ہو تو اس کے بے آسرا پس ماندگان عزت اور آبرو کی زندگی بسر کرسکیں اور بچوں کی تعلیم و تربیت مناسب طریقے پر ہوتی رہے۔ مسلمانوں میں کسی ایسے نظام کے نہ ہونے کی وجہ سے جو بہت سی خرابیاں پیدا ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک خرابی یہ تھی کہ ایسے لاوارث بچوں کو عیسائی اپنی سر پرستی میں لے لیتے اور اس کے بعد ان کے دین اور عقائد اسلامی کا جو حال ہوتا وہ محتاج تشریح نہیں ۔ ارباب انجمن نے قوم پر بڑا احساس کیا کہ ایسی بے آسرا و بے وسیلہ اور معاشرے کی ٹھکرائی ہوئی خواتین کے لئے آبرو مندانہ اور دین و ایمان کے ساتھ زندگی گزارنے اور انہیں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں مدد دینے کے لئے "داراالامان" کے نام سے ایک فلاحی ادارہ قائم کردیا۔ جہاں ان کو زیور تعلیم و تربیت ہی سے آراستہ نہیں کیا جاتا تھا بلکہ انہیں سلائی، کڑھائی ، بنائی وغیرہ مختلف فن اور دستکاریاں بھی سکھائی جاتیں اور اس سے آگے بڑھ کر ان کے لئے خوش حال زندگی فراہم کرنے کے لئے مناسب رشتوں کی تلاش کی جاتی اور رشتوں کے بارے میں انجمن کے ذمہ دار اس طرح چھان بین کرتے جس طرح اپنی بیٹیوں کے سلسلے میں معاملات کی چھان بین کی جاتی ہے اور جب مناسب رشتے مل جاتے ہیں تو انہیں ایک نئی زندگی شروع کرنے کے لئے مناسب جہیز دے کر شان ووقار کے ساتھ رخصت کیا جاتا۔ تاکہ وہ یہ محسوس نہ کریں کہ وہ بے ماں باپ کی یا بے آسرا بچیاں اور خواتین ہیں ۔


اسی طرح یتیم بچوں کو عیسائیت سے بچانے کے لئے انجمن نے "دارالشفقت" کے نام سے لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے الگ الگ دو یتیم خانے بنائے اور بچوں کی اسلامی تربیت اور دینی و دنیوی تعلیم کا بندوبست اس طرح کیا کہ وہ اپنی خصوصیات کی بنا پر انجمن کی ایک قابل قدر روایت بن گیا۔ یتیم بچوں کی تعلیم ان کے اخلاق کی تہذیب، اعمال کی اصلاح ، مختلف علوم و فنون میں ان کی تربیت ، ان کے رہن سہن کا معیار، ان کے لباس و خوراک کا اہتمام بچوں کے ساتھ انجمن کے متعلقہ افراد کا برتاؤ ہر لحاظ سے انجمن نے اس بات کا خیال رکھا کہ بچوں میں اعتماد ، عزت نفس، خیالات میں بلندی، دل میں عزم و ہمت اور زندگی میں آگے بڑھنے کا ایک ولولہ اور ہمہمہ پید اہو اور وہ کسی نفسیاتی الجھن اور احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔


"دارالشفقت" کے قیام سے صرف یہی فائدہ نہیں ہوا کہ ہزارہا مسلمان یتیم بچے جو عیسائی مشنریوں کے ہتھے چڑھ جانے سے بچ گئے، اور ان کا دین و ایمان محفوظ ہوگیا ۔ بلکہ وہ اس قابل ہوگئے کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں اور معاشرے میں باعزت زندگی گزار سکیں۔ وہ معاشرے کے مفید رکن ثابت ہوں نہ کہ ان کا وجود معاشرے کے لئے ایک بوجھ بن جائے ۔ مسلمان یتیم بچوں اور بچیوں کے الگ الگ" دارالشفقت" کا قیام انجمن کا بہت بڑا کارنامہ اور دینی و ملی خدمت ہے ، جس کا اعتراف کیاجانا چاہئے ۔


انجمن حمایت اسلام کی اسی سلسلے کی خدمات میں "لی دارالاطفال" کا قیام بھی ہے۔ یہ ادارہ ان مصیبت زدہ خواتین کے لئے قائم کیا گیا تھا جن کے شوہر، والدین اور سر پرست 1947ء کے قیامت خیز فسادات میں شہید ہوگئے تھے اور وہ بالکل بے آسرا و بے یارومددگار رہ گئی تھیں۔ انجمن کی سرپرستی میں آنے کے بعد انجمن کے ارباب حل و عقد نے اپنی ان تمام ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی اور کمال دور اندیشی کے ساتھ پورا کیا جو قوم کی بیٹیوں کی ان پر عائد ہوتی تھیں۔


اس وقت انجمن کے تقریباً 26؍ادارے قائم ہیں اور ان کی مختصر تفصیل یہ ہے :


"دوڑ گری کالج، ایک انٹر میڈیٹ کالج ، ایک طبیہ کالج، سات ہائی اسکول، تین جونیر ماڈل اسکول، ایک سینئر و رنیکلر سینٹر ، دو تعلیم بالغاں کے مرکز، ایک پیشہ وارانہ تعلیم کا مرکز، دو دارالشفقت ، ایک دارالاطفال ملی ، ایک دارالامان اور تین تجارتی و ثقافتی ادارے ہیں۔" مختلف قسم کے تعلیمی اداروں میں تقریباً تیرہ ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں دونوں" دارالشفقتوں" اور "دارالاطفال ملی" میں تقریباً پانچ سو یتیم اور دیگر بچے ہیں۔ اور تقریباً گیارہ سو افراد انجمن کے ان اداروں میں مختلف خدمات پر مامور ہیں ۔


انجمن حمایت اسلام کے یہ مختلف ادارے گویا خدمت ملی کے مختلف میدان ہیں جن میں انجمن اپنے وسائل اور بہترین صلاحیتوں سے قوائے ملی کو تقویت پہنچارہی ہے۔


انجمن حمایت اسلام نے علمی میدان میں بھی بیش بہا خدمات انجام دی ہیں ۔ اس کی جانب سے تاریخ، سوانح، سیرت، تعلیم، تہذیب ، ثقافت وغیرہ موضوعات پر بہت سی بلند پایہ تصانیف شائع ہوئی ہیں۔ انجمن کا مطبوعہ قرآن حکیم نہ صرف صحت کتابت کے لحاظ سے بلکہ حسن کتابت و طباعت کے لحاظ سے بھی اپنی مثال آپ ہے۔ حال ہی میں حکومت پاکستان نے انجمن کے مطبوعہ قرآن حکیم کو کتابت و طباعت اور حسن ظاہری کے لحاظ سے ایک مثالی ایڈیشن کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ یہ انجمن کا بہت بڑا اعزاز ہے ۔ ادب و صحافت کے میدان میں بھی انجمن کی خدمات سے صرف نظر نہیں کیاجاسکتا ۔ 1885ء میں انجمن کی جانب سے ایک ماہنامہ" حمایت اسلام" کے نام سے جاری کیا گیا ، جسے 1926ء میں ہفت روزہ کردیا گیا ۔ یہ رسالہ اب تک بڑی باقاعدگی کے ساتھ نکل رہا ہے ۔


انجمن کا ایک اشاعتی ادارہ بھی ہے جس کی جانب سے کتابیں شائع ہوتی ہیں ، پریس بھی انجمن کا اپنا ہے ۔ انجمن کا کتب خانہ بھی نہایت شاندار ہے ۔ یہ کتب خانہ انجمن کی کالج لائبریریوں کی صورت میں ہے اور تقریباً پچاس ہزار کتابوں پر مشتمل ہے ۔


انجمن نے مسلمانوں کی معاشرتی اصلاح کی ضرورت اور اس کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ سیاسی میدان میں بھی قوم کی رہنمائی کی اسلامیہ کالج کے اساتذہ اور طلبہ نے ملک کی آزادی کی تحریک میں اور قیام پاکستان کی جدوجہد میں بھی حصہ لیا۔


انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے تو گویا کہ ہماری ثقافتی تاریخ ایک قابل قدر ورثہ ہیں ۔ ان اجلاسوں کی حیثیت تعلیمی کانفرنسوں کی سی ہوتی تھی ، اکابر ملت ان میں جمع ہوتے تھے اور تعلیم کے علاوہ مسلمانوں کی سیاسی، ثقافتی، علمی، زندگی ، ان کی فلاح و بہبود، ان کی ترقی کے بارے میں ان اجلاسوں میں غوروفکر کیاجاتا تھا۔ انجمن کے جلسے خطابت کی تربیت گاہ تھے ۔ پورے ملک میں خصوصاً پنجاب میں اس کے خطبا کی وجہ سے خطابت سے دلچسپی پیدا ہوئی ۔ ان سے خطیبانہ صلاحیتوں کی تربیت میں مدد ملی ۔ اس کے اجلاسوں نے قومی شاعری کے فروغ میں اور اسے ملک میں مقبول بنانے میں نہایت شاندار حصہ لیا ۔ اقبال کی شاعرانہ صلاحیتوں کے چمکانے اور ان کی ملکی سطح پر شہرت و مقبولیت میں انجمن کے ان اجلاسوں کا بھی حصہ ہے ۔ اقبال نے اپنی متعدد بلند پایہ نظمیں"نالہ یتیم، شکوہ ، جواب شکوہ ، شمع و شاعر خضر راہ ، طلوع اسلام انجمن کے سالانہ اجلاسوں میں پڑھیں اور اپنے سوز دلی سے ملت کے غم خواروں کو تڑپایا ملک کے تمام بڑے شاعروں اور خطیبوں اور رہنمایان ملت نے انجمن کے پلیٹ فارم سے ملت کو مخاطب کیا اور ان کی ذہنی و فکری رہنمائی کی ۔ اگرچہ انجمن کے دور آخر میں بعض افراد اس کے لئے اور اسکے تعلیمی اداروں کے لئے باعث رسوائی بن گئے ۔ ان افراد اور بعض باتوں کو دردمندان ملت نے اگرچہ پسند نہیں کیا۔ وہ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے رہے ہیں ان کی شکایت کچھ بے جا بھی نہیں۔ لیکن یہ شکایات انجمن کی خدمات کے اعتراف میں مانع نہیں ہوسکتیں ۔


انجمن حمایت اسلام ایک مذہبی اور تبلیغی انجمن کی حیثیت سے قائم ہوئی ، اس کی خدمات کا پہلا میدان تبلیغ اشاعت اسلام ہی تھا، اس نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے چند مکتب بھی قائم کئے ، لیکن بہت جلد اس نے ایک تعلیمی تحریک کی شکل اختیار کرلی ۔ جس کی فیض بخشیوں سے پنجاب کا ریگستان جہالت تعلیم کے میدانوں میں تبدیل ہوگیا ۔ اور آج انجمن حمایت اسلام ، اسلامی تہذیب و ثقافت اور احیائے ملت کی ایک تاریخ کا نام ہے ۔


جن بزرگوں نے انجمن کے آغاز سے لے کر اس وقت تک صدر کی حیثیت سے انجمن کی رہنمائی کی ، نامناسب نہ ہوگا کہ ان کے اسمائے گرامی سے قارئین کو متعارف کرادیاجائے ۔


قاضی خلیفہ حمید الدین( انجمن کے پہلے صدر)، خان بہادر شیخ خدا بخش، شمس العلما مفتی عبداللہ ٹونکی ، نواب سر فتح علی خاں قرباش، سر محمد شفیع، سر عبدالقادر، ڈاکٹر سر محمد اقبال ، سر عبدالقادر(دوسری بار)نوا ب مظفر خاں، ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین ، مولوی غلام محی الدین خاں قصوری، سید محسن شاہ ، اور میاں امیر الدی (انجمن کے موجودہ صدر)


بر صغیر پاک و ہند کے تمام مسلمان اکابر نے انجمن کی خدمات کا اعتراف کیا ہے ۔ لیکن سب سے زیادہ دل پر اثر کرنے والا اعتراف مولانا الطاف حسین حالی نے کیا ہے ۔ مولانا حالی 1904ء میں انجمن کے اجلاس میں آخری بار شریک ہوئے تو اس میں انہوں نے خود انجمن پر ایک معرکہ آرانظم پیش کی ۔ اس میں انجمن کی پوری تاریخ ہی نہیں آگئی بلکہ یہ انجمن کی خصوصیات اور خدمات پر ایک دل فریب تبصرہ بھی ہے ۔


***
ماخوذ از مجلہ: علم و آگہی (خصوصی شمارہ "برصغیر پاک و ہند کے علمی ادبی و تعلیمی ادارے")
گورنمنٹ نیشنل کالج کراچی میگزین (1973-74) (مرتبہ: ابوسلمان شاہجہاں پوری)

Anjuman Himayat-e-Islam Lahore. Essay: Shamoon Ali Naqvi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں