آزادی کے 75 سال اور اردو نثر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-04-08

آزادی کے 75 سال اور اردو نثر

urdu-prose-during-75-years-of-independence

آزادی کے امرت مہا اُتسو کا آغاز 15/ اگست 2022ء سے 75/ہفتہ قبل شروع ہو کر 15/اگست 2023ء تک جاری رہے گا۔ یہ 75/سال کی آزادی کا موقع ہمارے لیے کتنا تاریخی ہے؟ یہ ہم سب کے لیے کتنا قابلِ فخر ہے، جو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں پانچ چیزوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔

(1) فریڈم اسٹرگل (Freedom struggle) (آزادی کی جدوجہد)
(2) آئیڈیاز ایٹ (Ideas@75) (آزادی کے 75/ سال بعد ہماری تجاویز)
(3) اچیومنٹس ایٹ (Achievements@75) (آزادی کے 75/ سال بعد کی ہماری حصولیابیاں)
(4) ایکشنز ایٹ (Actions@75) (آزادی کے 75/ سال بعد ہمارے اعمال)
(5) ریزالوز ایٹ (Resolve@75) (آزادی کے 75/ سال بعد ہمارے عزائم)


یہ پانچ چیزیں آزادی کی جد وجہد کے ساتھ ساتھ ایک آزاد بھارت کے خوابوں اور فرائض کو بھی سامنے رکھ کر ہمیں آگے بڑھنے کی تحریک دیتے ہیں۔ انہیں پیغامات کی بنیاد پر امرت مہا اُتسو کی ویب سائٹ کے ساتھ ساتھ چرکھا ابھیان (Charkha abhiyan) اور آتم نربھر انکوئیٹر (Atmanirbhar Incubator) بھی لانچ کیا گیا ہے۔


تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی قوم کا فخر تب تک بیدار رہتا ہے، جب تک کہ وہ اگلی نسل کو بھی عزتِ نفس اور قربانی کی روایات سکھاتی رہتی ہے اور انہیں اس کے لیے مسلسل متحرک کرتی رہتی ہے۔ کسی بھی قوم کا مستقبل اسی وقت روشن ہوتا ہے جب وہ اپنے ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ورثے سے فخر کے ساتھ وابستگی اختیار کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم ہندوستانیوں کے پاس فخر کرنے کے لیے ایسے بے شمار ذخیرے ہیں، جو ہماری تاریخ، تہذیب وتمدن اور گنگا جمنی تہذیب و ہم آہنگی میں مضمر ہیں۔ اس لیے آزادی کے 75/ سال کی تکمیل کے اس موقع پر موجودہ نسل ایک امرت کی طرح اسے حاصل کرے، جو ہمیں ہر دم اپنے ملک کے تئیں جینے، مرنے اور اس کے تحفظ و سلامتی کے لیے کچھ بھی کرنے کی تحریک دیتا رہے۔ آزادی کے 75/ سال پورے ہونے پر ہم نے یہ عزم کیا ہے:
"تحریکِ آزادی میں اور اس کے بعد ہمارے معاشرے کی جو بھی حصولیابیاں ہیں، انہیں ہم پورے فخر سے دنیا کے سامنے لائیں گے، ہمارے آرٹ، لٹریچر، ڈرامہ، فلمی دنیا اور ڈیجیٹل انٹرنیٹ منٹ سے وابستہ لوگ ہماری ماضی کی فراموش کردہ اور بکھری کہانیاں دریافت کریں۔ ہمارے نوجوان ماضی سے سیکھ لے کر مستقبل کے تعمیر کی ذمہ داریاں لیں۔ سائنس، ٹیکنالوجی، میڈیکل، سیاست، آرٹ، ثقافت جیسے قیمتی اثاثے کو ہم دنیا کے سامنے پیش کریں۔"


آج کے اس مقالے میں مذکورہ بالا عزم کے صرف ایک حصے یعنی آرٹ پر گفتگو کی جائے گی۔ جس کا عنوان ہے، "آزادی کے 75/ سال اور اردو نثر"، یاد رہے کہ "آرٹ" فنونِ لطیفہ کی ایک نمایاں قسم ہے، جس میں "فنِ تعمیر"، "رقص"، "پینٹنگ"، "مجسمہ سازی"، "موسیقی" اور "سنیما" جیسے موضوعات شامل ہیں۔


موضوع کے پہلے حصے پر مختصر گفتگو کے بعد اب "اردو نثر" پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی جاتی ہے۔ نثر کی دو قسمیں ہیں۔ (1) افسانوی نثر (2) غیر افسانوی نثر
افسانوی نثر میں داستان، ناول، ناولٹ، افسانہ، افسانچہ اور ڈرامہ جیسی اصناف شامل ہیں، تو غیر افسانوی نثر میں تنقید، تحقیق، سفر نامہ، خاکہ نگاری، انشائیہ نگاری، رپورتاژ نگاری، سوانح نگاری، مکتوب نگاری، خودنوشت، تراجم وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔


اردو میں افسانوی ادب کی شروعات سب رس (1635ء) سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد قصہ مہر افروز و دلبر، نو طرزِ مرصع، عجائب القصص، نو آئینِ ہندی، رانی کیتکی کی کہانی، جذبِ عشق، باغ و بہار، فسانہء عجائب، سروشِ سخن، طلسمِ حیرت، بوستانِ خیال، اور طلسم ہوش ربا جیسی کئی داستانیں لکھی گئیں۔ بعد کے زمانے میں جب داستانیں کہنی، سننی، بند ہوگئیں تو انہیں لکھ کر محفوظ کردیا گیا اور منشی نول کشور لکھنوی نے ان داستانوں کو شائع کرکے ہم تک اور آنے والی مزید کئی نسلوں تک منتقل کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ انہیں داستانوں کو بنیاد بنا کر کلیم الدین احمد نے "اردو زبان اور فنِ داستان گوئی" جیسی کتاب لکھی اور شمس الرحمٰن فاروقی نے بھی داستانوں کو اپنے مطالعے کا موضوع بناتے ہوئے"داستان امیر حمزہ: زبانی بیانیہ، بیان کنندہ اور سامعین"، "ساحری، شاہی، صاحب قرانی (داستان امیر حمزہ کا مطالعہ)" پانچ جلدوں میں پیش کیا۔ پروفیسر ابن کنول (ناصر محمود کمال) نے "داستانوں کی جمالیات" کے نام سے ایک کتاب لکھ کر داستانوں میں موجود جمالیاتی عناصر کی نشاندہی کی۔


افسانوی نثر کی دوسری اہم صنف ناول ہے۔ اس کی شروعات 1869ء میں "مرأۃ العروس" سے ہوئی، تب سے اب تک ناول نے زبان وبیان، تکنیک اور موضوع، ہیئت و اسلوب کے کئی مراحل طے کیے۔ حالیہ دور میں لکھے جانے والے ناولوں میں اشعر نجمی کے دو ناول "اس نے کہا تھا" اور "صفر کی توہین" بہت ہی اہم ہیں، پہلے کا موضوع LGBTQ اور دوسرے کا موضوع الحاد ہے۔ محسن خان کا ناول "اللّٰہ میاں کا کار خانہ" بچوں کو مرکز میں رکھ کر بڑوں کے لیے لکھا گیا ایک بہترین ناول ہے، خالد جاوید کا ناول "ایک خنجر پانی میں" وبائی امراض پر اور رضوان الحق کا ناول "خودکشی نامہ" خودکشی کے اسباب و علل اور خودکشی نامہ لکھنے کی وجوہات پر مبنی ہے۔ اردو میں تانیثی تحریک کو وسعت بخشنے والا شبیر احمد کا نیا ناول "ہجور آما" ہے۔ اس ناول کاکی کردار "دیب لینا" قرۃ العین حیدر کے ناول "آخرِ شب کے ہم سفر" کی "دیپالی سرکار" سے مشابہ اور شمس الرحمٰن فاروقی کے ناول" کئی چاند تھے سرِ آسماں" کی "وزیر خانم" سے زیادہ مجاہدانہ کردار کا حامل معلوم ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں "صفر کی توہین" میں موجود "ریحانہ" کے کردار کو اگر ہم اس سلسلے کی کڑی شمار کریں تو غلط نہیں ہوگا۔


افسانوی نثر کی تیسری سب سے اہم صنف افسانہ ہے۔ اردو افسانے کی شروعات 1908ء میں لکھے گئے پریم چند کے افسانہ "دنیا کے سب سے انمول رتن" سے ہوتی ہے۔ اردو افسانہ نے بھی ابتداء سے اب تک کئی طرح کے عروج و زوال کا سامنا کیا۔ علامتی اور تجریدی ٹیکنیک کے پل صراط سے گزرنے کے بعد پھر سے افسانوں میں افسانویت واپس آ چکی ہے۔ "ادھورے خواب" (شاہ عمران حسن)، "مجسموں کا شہر" (محمد حنیف خان)، "نیا حمام" (ڈاکٹر ذاکر فیضی)، "ذہن زاد" (توصیف بریلوی)، "کہانیوں سے پرے" (محمد ہاشم خان) اور "مونتاژ" (فارحہ ارشد، پاکستان) موجوہ عہد کے نمائندہ افسانوی مجموعے کہے جا سکتے ہیں۔


غیر افسانوی نثر میں تنقید و تحقیق کی اپنی اہمیت ہے، اردو میں تنقید نگاری کی ابتداء حالی کی مایہ ناز تصنیف "مقدمہ شعر و شاعری" سے ہوتی ہے اور تحقیق کا تاج مولوی عبد الحق کے سر پہ سجتا ہے۔ ناقدین اور محققین کی ایک لمبی فہرست ہے، جن میں سے کلیم الدین احمد، آل احمد سرور، احتشام حسین، محمد حسن، شمس الرحمٰن فاروقی، گوپی چند نارنگ، مالک رام، امیتاز علی عرشی، قاضی عبد الودود وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔


غیر افسانوی نثر میں سفر نامہ کی ابتداء یوسف خان کمبل پوش کے سفر نامہ "عجائباتِ فرنگ، المعروف بہ کالا پانی" سے ہوتا ہے، بعد ازاں سر سید احمد خان، ممتاز مفتی، مستنصر حسین تارڑ، مولانا وحید الدین خان، مبشر حسین، محمد علم اللہ نے "ایران میں کچھ دن"، فیضان الحق نے "کلکتہ کا جو ذکر کیا" اور ابوبکر ایوب نے "وادئ چناب" کے ذریعے اس صنف میں اہم اضافے کیے۔


اردو میں خاکہ نگاری کی ابتداء مرزا فرحت اللہ بیگ کے خاکہ "مولوی نذیر احمد کی کہانی، کچھ ان کی کچھ میری زبانی" سے ہوتا ہے، بعد میں سعادت حسن منٹو، شاہد احمد دہلوی، کرشن چندر، عصمت چغتائی، ساحر لدھیانوی، مجتبیٰ حسین، نصرت ظہیر، انجم عثمانی اور ابن کنول وغیرہ نے اسے اپنے خونِ جگر سے ثروث مند بنایا۔


غیر افسانوی نثر کی ایک اہم صنف انشائیہ نگاری بھی ہے، محمد حسین آزاد نے "نیرنگِ خیال" اور "آبِ حیات" لکھ کر اس کی ابتداء کی، اگر چہ "سب رس" میں بھی گیارہ انشائیے موجود ہیں۔ سر سید احمد خان، مجتبیٰ حسین، مشتاق احمد یوسفی، نصرت ظہیر، انجم عثمانی اور اسد رضا وغیرہ نے اس میں بہت اضافے کیے۔


غیر افسانوی نثر میں رپورتاژ نگاری کی اپنی الگ اہمیت ہے۔ سجاد ظہیر نے "یادیں" لکھ کر اس صنف کی شروعات کی۔ "سینڈھرسٹ روڈ" ممبئی کی زندگی پر مشتمل ان کا اہم رپورتاژ ہے۔ اس صنف میں بہت سارے لوگوں نے طبع آزمائی کی، جیسے "پودے" اور "لاہور سے بہرام گلہ تک"(کرشن چندر)، "شہر" (ابراہیم جلیس)، "ستمبر کا چاند" (قرۃالعین حیدر)، "چھٹا دریا" (فکر تونسوی)، "جب بندھن ٹوٹے" (تاجور سامری)، "امن کا کارواں" (رضیہ سجاد ظہیر)، "خزاں کے پھول"(عادل رشید) اور "ایک مذاکرے کے بہانے" (اشعر نجمی) وغیرہ


اردو میں سوانح نگاری کی ابتداء الطاف حسین حالی نے "یادگارِ غالب" (1897ء) لکھ کر کی، ان کے بعد علامہ شبلی نعمانی، حبیب الرحمٰن خان شیروانی، صالحہ عابد حسین، غلام رسول مہر، سہیل انجم، فاروق ارگلی اور شاہ عمران حسن وغیرہ نے بہت ساری سوانح عمریاں لکھیں۔


اردو میں مکتوب نگاری کی ابتداء 1832ء ہی میں شروع ہو چکی تھی، کیونکہ اسی سال فارسی کو سرکاری زبان سے ہٹاکر اردو کو سرکاری زبان کے طور پر قبول کر لیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس میں بہت تیزی آ گئی۔ مرزا غالب، سر سید احمد خان، ڈپٹی نذیر احمد، شبلی نعمانی، ابوالکلام آزاد، غلام رسول مہر اور رشید حسن خان وغیرہ نے بہت سارے خطوط لکھے۔


غیر افسانوی نثر کی اہم ترین صنف خودنوشت سوانح حیات ہے۔ اردو میں بہت سی خود نوشت سوانح عمریاں لکھی گئیں، لیکن "تذکرہ" (ابوالکلام آزاد)، "یادوں کی برات" (جوش ملیح آبادی)، "شہاب نامہ" (قدرت اللہ شہاب)، "اس آباد خرابے میں" (اختر الایمان)، "گھنگھرو ٹوٹ گئے" (قتیل شفائی)، "قصہ ہے سمت زندگی کا" (وہاب اشرفی)، "رقصِ شرر" (ملک زادہ منظور)، "گردشِ پا" ( زبیر رضوی) جیسی کچھ ہی خود نوشت سوانح عمریاں مشہور ہوئیں۔


آزادی کے 75 سال اور اردو نثر کے اس مختصر سے جائزے کے ذریعے ہمیں بخوبی یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ اردو آج بھی اپنی مکمل آب و تاب کے ساتھ ترقی کی طرف رواں دواں ہے، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے بعد اب سوشل میڈیا نے مسافتوں کو سمیٹ کر اردو کو دوسری زبانوں سے ہم آہنگ کر دیا ہے۔


***
محمد اشرف یاسین (دہلی)

Email: mdashrafyaseen[@]gmail.com

محمد اشرف

Urdu prose during 75 years of independence. - Essay: Mohd Ashraf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں